قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے۔ وَالۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَالۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران:۱۳۵) وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ (الشورٰی: ۴۱) یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں۔بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقع پر بخشے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو، کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو یعنی عین عفو کے محل پر ہو نہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خواہ نخواہ اور ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے اور شریروں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ وہ محل اور موقع گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کا ہے۔پس مجرم کے حق میں اور نیز عامہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الواقع بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے۔بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے توبہ کرتا ہے اور بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے اور بھی دلیر ہو جاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھوں کی طرح صرف گناہ بخشنے کی عادت مت ڈالو بلکہ غور سے دیکھ لیا کرو کہ حقیقی نیکی کس بات میں ہے آیا بخشنے میں یا سزا دینے میں۔ پس جو امر محل اور موقع کے مناسب ہو وہی کرو۔ افراد انسانی کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ جیسے بعض لوگ کینہ کشی پر بہت حریص ہوتے ہیں یہاں تک کہ دادوں پردادوں کے کینوں کو یا در رکھتے ہیں۔ ایسا ہی بعض لوگ عفو اور درگذر کی عادت کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں اور بسا اوقات اس عادت کے افراط سے دیوثی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ایسے قابل شرم حلم اور عفو اور درگذران سے صادر ہوتے ہیں جو سراسر حمیت اور غیرت اور عفت کے برخلاف ہوتے ہیں بلکہ نیک چلنی پر داغ لگاتے ہیں اور ایسے عفو اور درگذر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب لوگ تو بہ توبہ کر اٹھتے ہیں۔انہیں خرابیوں کے لحاظ سے قرآن شریف میں ہر ایک خلق کے لئے محل اور موقع کی شرط لگا دی ہے اور ایسے خلق کو منظور نہیں رکھا جو بے محل صادر ہو۔ یا در ہے کہ مجرد عفو کوخلق نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ ایک طبعی قوت ہے جو بچوں میں بھی پائی جاتی ہے۔بچہ کو جس کے ہاتھ سے چوٹ لگ جائے خواہ شرارت سے ہی لگے تھوڑی دیر کے بعد وہ اس قصہ کو بھلا دیتا ہے اور پھر اس کے پاس محبت سے جاتا ہے اور اگر ایسے شخص نے اس کے قتل کا بھی ارادہ کیا ہوتب بھی صرف میٹھی بات پر خوش ہو جاتا ہے۔پس ایسا عفو کسی طرح خلق میں داخل نہیں ہوگا۔خلق میں اسی صورت میں داخل ہوگا جب ہم اس کو محل اور موقع پر استعمال کریں گے ورنہ صرف ایک طبعی قوت ہوگی۔دنیا میں بہت تھوڑے ایسے لوگ ہیں جو طبعی قوت اور خلق میں فرق کر سکتے ہیں۔ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ حقیقی خلق اور طبعی حالتوں میں یہ فرق ہے کہ خلق ہمیشہ محل اور موقع کی پابندی اپنے ساتھ رکھتا ہے اور طبعی قوت بےمحل ظاہر ہو جاتی ہے۔یوں تو چارپایوں میں گائے بھی بے شر ہے اور بکری بھی دل کی غریب ہے مگر ہم ان کو اسی سبب سے ان خلقوں سے متصف نہیں کہہ سکتے کہ ان کو محل اور موقع کی عقل نہیں دی گئی۔خدا کی حکیم اور خدا کی سچی اور کامل کتاب نے ہر ایک خلق کے ساتھ محل اور موقع کی شرط لگا دی ہے۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۲،۳۵۱) مزید پڑھیں: خاتم النبیین کا مفہوم