تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام(قسط ۷۳) قرآن مجید کی بعض سورتوں کی ابتدا میں موجود حروف مقطعات (جیسے الم، الر، یس وغیرہ) ہمیشہ سے علماء اور مفسرین کے لیے ایک علمی چیلنج رہے ہیں۔ ان منفرد حروف کے بارے میں مختلف مکاتبِ فکر نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں، لیکن جماعت احمدیہ مسلمہ کا اِن حروف کے متعلق ایک غیرمعمولی اور عقلی موقف ہے جو روایتی تفسیروں سے ہٹ کر ایک جدید اور حکیمانہ پہلو پیش کرتا ہے۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے ۱۹۴۴ء میں ’’مقطعات قرآنی‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر مگر جامع کتاب تحریر کی، بلاشبہ قرآن حقائق و معارف کو جیسے لطیف اور دل نشین پیرایہ میں بیان کرنے کا عجیب ملکہ خداتعالیٰ نے حضرت میر صاحبؓ کو ودیعت کیا ہوا تھا۔ حضرت میر صاحبؓ کا قرآ ن کریم پر گہرا غور اور تدبرکرنے اور پھرخاص آسمانی مدد ملنے کا ذکرشیخ محمد اسماعیل پانی پتی (ناشر کتاب)نے ۶؍مئی ۱۹۴۴ء کو لکھے گئے اپنے دیباچہ میں یوں کیا ہے کہ ’’حضرت میر صاحب ایک لمبے عرصہ سے مقطعات قرآنی پر غور فرمارہے تھے اور اس فکر میں تھے کہ کوئی اطمینان بخش توجیہ مقطعات کی سمجھ میں آئے۔ اسی سوچ میں ایک دن اچانک بجلی کی مانند اُن کے دل پر القاء ہوا کہ یہ مقطعات دراصل سورہ فاتحہ ہی کے ٹکڑے ہیں، اور الحمد ہی قرآن میں دوسری دفعہ مقطعات کی صورت میں نازل ہوئی ہے ۔ اور جس سورہ پر جو ٹکڑا فاتحہ کا رکھا ہوا ہے وہ سورۃ اسی حصہ فاتحہ کی تفسیر ہے۔ پھر جب حضرت میر صاحبؓ نے مختلف سورتوں کے مقطعات کو اس اصل پر منطبق کرکے دیکھا تو نتیجہ حیر ت انگیز طور پر درست نکلا۔ اس اطمینان کے بعد آپ نے قریبا ڈیڑھ دن میں یہ سارا مضمون لکھ ڈالا جو اِس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ یوں مقطعات قرآنیہ کے متعلق حضرت میر صاحبؓ کے ایک جدید اور اچھوتے نظریہ پرمشتمل ان مضامین کو ۱۹۴۴ء یعنی ۱۳۶۳ہجری اور ۱۳۲۳ہجری شمسی کو شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی نے احمدیہ دارالاشاعت کی طرف سے جمال پریس دہلی سے طبع کروایا،اور بار اول میں اس کتاب کی قیمت آٹھ آنہ مقرر ہوئی تھی ۔ دراصل حضرت میر صاحبؓ کے یہ مضامین روزنامہ الفضل میں گیارہ قسطوں میں ۱۷؍ستمبر ۱۹۴۳ء سے ۳؍اکتوبر ۱۹۴۳ءتک شائع ہوچکے تھے ، اور چونکہ یہ مضامین اپنی جدت اور نُدرت کے لحاظ نہایت عجیب تھے، اس لیے نہ صرف انہیں بے حد دلچسپی سے پڑھا گیا اور افادیت کے پیش نظر کتابی شکل دینے کا بھی مطالبہ سامنے آگیاتھا۔ اس خوبصورت اور دلچسپ کتاب کی ترتیب یوں ہے کہ مصنف نے دیباچہ میں پس منظر وغیرہ بتانے کے بعد مقطعات اور حروف مقطعات کا ذکر کرکے مقطعات کی تعداد اور جماعت بندی کی ہے۔ اور بتایا کہ یہ حروف قرآن کریم کی ترتیب کے مطابق ہیں۔مثلا کتاب کے صفحہ ۱۲؍ پر مصنف موضوع سے تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’قرآن کریم کی اٹھائیس سورتوں پر مضمونِ سورۃ شروع ہونے سے پہلے آپ نےکچھ بظاہر بے معنی حروف دیکھے ہوں گے، ان کو مقطعات اور حروف مقطعات کہتے ہیں، مثلا سورۃ بقرہ کے سر پر الم ایک مقطعہ ہے، اور اس میں تین حروف ہیں : الف لام اورمیم۔ ۔۔ ان تمام مقطعات کے حروف ہمیشہ الگ الگ پڑھے جاتے ہیں ملا کر نہیں پڑھے جاتے، نمایاں اور لمبا کرکے پڑھنےکےلئے اُن پر عموما مد اور کھڑا زبر بھی دے دیتے ہیں۔ پس مقطعات اور حروف مقطعات میں ابھی آپ فرق سمجھ لیں الم۔ الر ۔ کھیعص وغیرہ مقطعات کہلاتے ہیں اور الف ۔ لام ۔ میم۔ یا الف ۔لام۔ را۔ یا کاف ۔ ھا۔ یا ۔ عین۔ صاد یہ حروف مقطعات ہیں۔‘‘ اگلے صفحہ پر مقطعات کے ذیل عنوان کے تحت لکھا ہے کہ’’کل مقطعات قرآنی بمع مکررات اٹھائیس ہیں۔ عام طور پر سورہ نون کا نون بھی اس میں شامل کرکے انتیس مقطعات کہے جاتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک ن مقطعات میں نہیں ہے۔ ‘‘ صفحہ ۱۵ پر حروف مقطعات کو حروف تہجی کی ترتیب سے لکھ کر قارئین کو متعارف کروایا ہے اور کھولا ہے کہ ہر ایک حرف کتنی دفعہ مقطعات میں موجود ہے۔ کتا ب کے صفحہ ۱۸؍ سے ۳۵؍ پر مقطعات کی اصلیت پر روشنی ڈالی ہے اور مختلف ضروری بحثوں کے بعد آگے چل کر لکھا ہے کہ کیوں ن حرف مقطعہ نہیں ہے۔ صفحہ ۴۴؍ پر وہی مذکورہ بالا مرکزی نکتہ آیا ہے کہ مقطعات سورہ فاتحہ کے الفاظ ہیں۔ اور مقطعات کی تعیین کا قاعدہ کلیہ کیا ہے، اور اس کی تطبیق کا نمونہ صفحہ ۵۱؍ پر لائے ہیں۔ صفحہ ۵۸؍پر مقطعات کا علمی فائدہ درج کیا ہے اور اِس کے بعد بعض اعتراضات اور ان کے جوابات کو جگہ دی ہے ۔ مصنف نے کتاب کے آخری چند صفحات میں بطور ضمیمہ ن کے مقطعہ اور انگریزی میں مقطعات کے پہلے حروف کے اصول کی روشنی میں پیر صلاح الدین صاحب کادلچسپ نکتہ نظر پیش کیا ہے ، جو تب میانوالی میں متعین تھے اور انہوں نے الفضل کے مضامین پڑھ کر میر صاحب کو ارسال کیا تھا اوراسی طرح کتاب کے صفحہ ۷۳؍پر ن کے متعلق مولوی جلال الدین شمس صاحب کے لندن سے موصولہ خط کا متن درج ہے ۔ اسی طرح فاضل ناشر نے بھی کتاب کے آخر پر قارئین کی سہولت کے لیے مقطعات کے متعلق میسرلٹریچر کا بھی تذکرہ کیا ہے تا قارئین اور محققین استفادہ کرسکیں نیز بعد مطالعہ یہ لوگ حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ کے اس مضمون کی وقعت، عمدگی اور لطافت کا صحیح اندازہ لگا سکیں۔ الغرض حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی یہ کتاب اپنے محدود حجم (۹۹ صفحات) کے باوجود ایک گہرا علمی اور تحقیقی کام ہے، جو احمدی لٹریچر میں مقطعات کے موضوع پر ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف قرآن کریم کو سمجھنے والوں کے لیے مفید ہے، بلکہ غیراحمدی قارئین کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت کی بے مثل اور غیر معمولی قرآن فہمی سے متعارف کراتی ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: کرمِ خاکی- سوانح حیات منظور احمد شاد صاحب