(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۸؍مئی۲۰۲۱ء) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عملِ صالح بھی رکھا ہے۔ عملِ صالح اسے کہتے ہیں کہ جب ایک ذرّہ بھی فسادنہ ہو۔ یاد رکھو انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں۔ وہ کیا ہیں؟’’ وہ کون سے چور ہیں؟ وہ یہ ہیں۔ ‘‘ریاکاری (یعنی جب انسان دکھاوے کے لیے ایک عمل کرتا ہے)، عُجب، (ایک عمل کر کے کوئی نیکی کر لی تو پھر دل میں بڑا خوش ہوتا ہے کہ میں نے بڑی نیکی کرلی۔) اور قسم قسم کی بدکاریاں (جن کو بعض دفعہ انسان محسوس بھی نہیں کرتا) اور گناہ (ہیں ) جو اس سے صادر ہوتے ہیں۔ اس سے اعمال باطل ہو جاتے ہیں۔ عمل صالح وہ ہے جس میں ظلم، عُجب، ریاء، تکبر حقوق انسان کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو۔‘‘ (وہ عمل صالح ہے۔ یہ نہیں کہ عمل نہیں کیا بلکہ فرمایا ان کا خیال بھی تمہارے دل میں نہ آئے تب وہ حقیقی مومن بنو گے اور عمل صالح کرنے والے کہلاؤ گے۔) فرمایا ’’جیسے آخرت میں عمل صالح سے بچتا ہے ویسے ہی دنیا میں بھی بچتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عمل صالح والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے۔ سمجھ لو کہ جب تک کہ تم میں عمل صالح نہ ہو صرف ماننا فائدہ نہیں کرتا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 274-275) پس ایمان کے ساتھ عمل صالح انتہائی ضروری شرط ہے۔ پھر فرمایا کہ عمل صالح ہماری اپنی تجویز اور قرارداد سے نہیں ہوسکتا۔ یہ نہیں کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ عمل صالح ہے۔ اصل میں اعمال صالحہ وہ ہیں جس میں کسی نوع کا کوئی فسادنہ ہو کیونکہ صالح فساد کی ضد ہے۔ جیسے غذا طیب اس وقت ہوتی ہے کہ وہ نہ کچی ہو نہ سڑی ہوئی ہو اور نہ کسی ادنیٰ درجہ کی جنس کی ہو بلکہ ایسی ہو جو فوراً جزوِ بدن ہو جانے والی ہو جو جسم کا حصہ بن جائے۔ وہ غذا طیب ہے جس میں کسی قسم کی کمی نہ ہو۔ اسی طرح پر ضروری ہے کہ عمل صالح میں بھی کسی قسم کا فسادنہ ہو یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو۔ جو اللہ نے حکم فرمایا ہے اس کے مطابق عمل ہو اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور کر کے دکھایا اور فرمایا اس کے مطابق ہو اور پھر نہ اس میں کسی قسم کا کسل ہو۔ کوئی سستی نہیں ہونی چاہیے۔ اس عمل کو بجا لانے میں نہ عُجب ہو نہ ریا ہو نہ وہ اپنی تجویز سے ہو جب ایسا عمل ہو تو وہ عمل صالح کہلاتا ہے۔ خود اپنی تجویزیں نہ بناتے رہو۔ عمل صالح کے لیے خود تشریحیں نہ کرتے رہو۔ خود یہ نہ کہتے رہو کہ اس سے یہ منشا ہے اور یہ منشا ہے بلکہ حرفاً حرفاً اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرو تو عمل صالح ہو گا اور فرمایا کہ یہ کبریتِ احمر ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 425-426) یہ بہت بڑی اور اہم چیز ہے۔ اگر اس حالت کو حاصل کر لیا تو سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سے فیض اٹھانے والے بن گئے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کے عہد کو بھی پورا کرنے والے ہیں نہ کہ وہ جو جب اپنے مفاد سامنے آئیں تو عمل صالح کی خود تشریح کرنے لگ جائیں۔ معروف فیصلہ کی خود تفسیر کرنے لگ جائیں۔ ان کی اَنا انہیں اپنے قبضہ میں لے لے۔ ایسے لوگ جو ہیں انہیں ان کا خلافت سے جڑنے کا اعلان کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ بےشک وہ کہتے رہیں ہم خلافت سے جڑے ہوئے ہیں۔ جو خالص ہو کر خلافت کے مطیع اور فرمانبردار ہوں گے یہی لوگ حقیقی رنگ میں خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے والے ہیں۔ خلافت کی حفاظت کرنے والے ہیں اور خلافت ان کی حفاظت کرنے والی ہے۔ خلیفہ وقت کی دعائیں ان کے ساتھ ہوں گی۔ ان کی تکلیفیں خلیفہ وقت کو ان کے لیے دعائیں کرنے کی طرف متوجہ کرنے والی ہوں گی۔ یہ اعمال صالحہ بجا لانے والے ہی ہیں جن کا خلافت سے رشتہ اور خلافت کا ان سے رشتہ خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہے۔ پس یہ وہ حقیقی خلافت ہے جس میں جماعت اور خلیفۂ وقت کا تعلق خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ہے اور یہی وہ خلافت ہے جو تمکنت اور امن کا باعث ہے۔ یہی وہ افراد اور خلیفۂ وقت کا تعلق ہے جو دونوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا بناتا ہے۔ دوسرے مسلمان خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن دنیاوی حیلوں سے، دنیاوی تدبیروں سے۔ اور یہ حیلے اور تدبیریں انہیں کبھی فائدہ نہیں دے سکتیں اور نہ اس طرح خلافت قائم ہو سکتی ہے جتنا چاہے یہ کوشش کر لیں۔ اب خلافت اسی طرح جاری رہنی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا ہے۔ پس جہاں اس بات سے ہمارے اندر شکرگزاری کے جذبات پیدا ہونے چاہئیں اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والا ہونا چاہیے کہ اس نے ہمیں خلافت کی نعمت سے نوازا ہے وہاں ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اپنے اعمال پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق ہیں؟ کیا ہمارے حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کی ادائیگی کے معیار اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق ہیں؟ پس ہر احمدی کا ہر لمحہ جہاں اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری میں گزرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں خلافت کی نعمت سے نوازا ہے وہاں اپنے جائزے لیتے ہوئے بھی گزرنا چاہیے کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کر رہے ہیں؟ اور جب اس سوچ کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور پھر اپنے عملوں کو بھی اس کے مطابق کریں گے اور خلافت کے قائم رہنے کے لیے دعائیں بھی کر رہے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث بھی بنتے چلے جائیں گے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو تسلی بھی دی کہ خلافت کا نظام جاری رہے گا اور اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو جو خوشخبریاں دی ہیں وہ ضرور پوری ہوں گی اگر ہم ان شرائط کو پورا کرنے والے ہیں۔ چنانچہ رسالہ الوصیت میں آپؑ نے خلافت کے نظام کے بارے میں بڑی تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اِس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ: 22) (خدا نے لکھ رکھا ہے کہ وہ اور اس کے نبی غالب رہیں گے۔ منہ) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اِسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304۔ 305) …سو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق اور اللہ تعالیٰ نے جو آپؑ سے وعدہ کیا تھا اس کے مطابق گذشتہ 113سال سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حرف بہ حرف پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: دورہ سنگاپور ۲۰۰۶ء کا کچھ ذکر