https://youtu.be/CPojHTtkKEY ایک خوبصورت پینٹنگ اور ایک خوبصورت مجسمہ اپنے مصوّر کے کمال پر دلالت کرتے ہیں۔ تو کیوں نہ یہ رنگ برنگ دنیا اور اس میں پائی جانے والی مخلوق اپنے خالق اور مصوّر خدا کا پتا نہ دیں۔ آئیے اس عظٰم خلاق خدا کی ایک اور شاہکار تخلیق کے متعلق جانتے ہیں۔ دنیا کے سب سے حیرت انگیز کیڑوں میں سے ایک گلابی آرکِڈ مینٹس (Hymenopus coronatus) ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے مرطوب برساتی جنگلات میں پایا جانے والا یہ جاندار اپنی نازک پنکھڑی نما ٹانگوں، دلکش رنگت اور پھول جیسی ساخت کی وجہ سے سائنس دانوں اور فطرت کے شوقین افراد کو یکساں طور پر مسحور اور ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ گلابی آرکِڈ مینٹس نہ صرف قدرتی خوبصورتی کی علامت ہے بلکہ یہ بقا اور ارتقائی مطابقت (adaptation) کی ایک شاندار مثال بھی ہے۔ گلابی آرکِڈ مینٹس اپنی حیرت انگیز ہم رنگی اور آرکِڈ (orchid) پھول سے مشابہت کے لیے مشہور ہے۔ اس کے جسم پر گلابی، سفید اور کبھی کبھار پیلے رنگ کے نرم شیڈز ہوتے ہیں، جبکہ اس کی ٹانگوں پر پنکھڑیوں جیسی ابھری ہوئی ساخت اسے بالکل پھول کا حصہ دکھاتی ہے۔ یہ مشابہت محض اتفاق نہیں بلکہ لاکھوں سال کے ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے، جس نے اس کیڑے کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنے اردگرد کے پھولوں میں مکمل طور پر گھل مل جائے۔ مادہ مینٹس نر کے مقابلے میں بڑی اور زیادہ رنگین ہوتی ہے، جس کی لمبائی تقریباً ۶ سے ۷؍سینٹی میٹر تک پہنچ سکتی ہے۔ نرچھوٹا اور ہلکے رنگ کا ہوتا ہے، جو اسے آسانی سے حرکت کرنے اور شکاریوں سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔ جب یہ کسی پھول پر آرام کر رہی ہوتی ہے تو دیکھنے والا اسے کسی عام پھول سے الگ نہیں پہچان سکتا۔ یہی دھوکا دہی اس کی بقا کا راز ہے—یہ نہ صرف شکاریوں سے بچاتی ہے بلکہ شکار کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ مکھیوں، تتلیوں اور شہد کی مکھیوں جیسے شکار جب پھول سمجھ کر اس کے قریب آتے ہیں تو ایک لمحے میں اس کی تیز حرکت ان کی موت کا سبب بن جاتی ہے۔ گلابی آرکِڈ مینٹس ایک گھات لگا کر شکار کرنے والا جاندار ہے۔ یہ حرکت کی بجائے خاموشی اور صبر پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ جب شکار قریب آتا ہے تو یہ بجلی کی سی تیزی سے حملہ کرتا ہے اور اپنے اگلے پنجوں سے شکار کو مضبوطی سے جکڑ لیتا ہے۔ ان پنجوں پر تیز کانٹے دار ابھار ہوتے ہیں جو شکار کو آزاد ہونے نہیں دیتے۔ یہ مینٹس عام طور پر ایک علاقے کو اپنا گھر بنا لیتی ہے اور دنوں یا ہفتوں تک وہیں رہتی ہے۔ چونکہ یہ اپنے ماحول میں مکمل طور پر گھل مل جاتی ہے، اس لیے شکاریوں سے محفوظ رہتی ہے اور اسے خوراک بھی بآسانی مل جاتی ہے۔ اس کے شکار کا انداز جارحانہ ہم رنگی (aggressive mimicry) کی بہترین مثال ہے۔ یہ اپنے آپ کو ایک پرکشش پھول کی شکل میں پیش کرتی ہے تاکہ شکار خود اس کے قریب آجائے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کئی مرتبہ شہد کی مکھیاں اور تتلیاں اصلی پھولوں کی بجائے گلابی آرکِڈمینٹس کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں۔ دیگر مینٹس اقسام کی طرح Hymenopus coronatus بھی نامکمل تبدیلی (incomplete metamorphosis) سے گزرتی ہے، یعنی اس کی زندگی کے تین مراحل ہوتے ہیں: انڈا، ننھا مینٹس (nymph)، اور بالغ مینٹس۔ مادہ ایک جھاگ نما حفاظتی غلاف بناتی ہے جسے اوتھیکا (ootheca) کہا جاتا ہے، اس میں انڈے محفوظ رہتے ہیں۔ جب ننھے مینٹس نکلتے ہیں تو وہ چھوٹے بالغوں جیسے نظر آتے ہیں لیکن ان کے پر نہیں ہوتے اور ان کا رنگ عام طور پر سیاہی مائل نارنجی ہوتا ہے، جو چیونٹیوں سے مشابہت رکھتا ہے۔یہ قدرتی کیموفلاج اس طرح ابتدائی عمر میں انہیں شکاریوں سے بچاتا ہے۔ نشوونما کے دوران وہ کئی بار اپنی جلد کا رنگ بدلتے (molting) ہیں ، اور ہر بار ان کا رنگ مزید گلابی اور سفید ہو جاتا ہے۔ نر عام طور پر جلدی بالغ ہوتا ہے مگر اس کی عمر مادہ کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ ملاپ کے دوران مادہ کبھی کبھار جنسی آدم خوری (sexual cannibalism) کرتی ہے، یعنی نر کو کھا جاتی ہے۔ یہ عمل بظاہر ظالمانہ لگتا ہے مگر اس سے مادہ کو انڈے بنانے کے لیے ضروری غذائیت ملتی ہے۔ گلابی آرکِڈ مینٹس بنیادی طور پر ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، اور سماٹرا کے برساتی جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ یہ مرطوب، گرم اور گھنے جنگلاتی ماحول کو پسند کرتا ہے، جہاں پھولوں کی بہتات ہو۔ ان مقامات پر یہ آسانی سے پھولوں میں چھپ کر رہ سکتا ہے اور پرندوں یا چھپکلیوں جیسے شکاریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ تاہم، ان جنگلات کی کٹائی اور غیر قانونی پالتوجانوروں کی تجارت اس کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ چونکہ یہ خوبصورتی کے باعث بہت مقبول ہے، کئی لوگ اسے پکڑ کر بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس کو قید میں پالنا مشکل ہے کیونکہ اسے خاص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ گلابی آرکِڈ مینٹس بیشیائی ہم رنگی (Batesian mimicry) کی ایک شاندار مثال ہے، ایک ایسا عمل جس میں کوئی غیر خطرناک یا شکاری جاندار کسی اور بے ضرر چیز کی مشابہت اختیار کرتا ہے تاکہ دوسروں کو دھوکا دے سکے۔ اس کی رنگت اور ساخت پر ہونے والی سائنسی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ قدرتی انتخاب (natural selection) کس طرح جانداروں کو ناقابلِ یقین شکلوں میں ڈھال سکتا ہے۔ یہ مینٹس صرف سائنسی تحقیق میں ہی نہیں بلکہ بائیو مِمِکری (biomimicry) کے جدید میدان میں بھی دلچسپی کا باعث ہے، جہاں سائنس دان قدرتی ڈیزائن سے متاثر ہو کر نئی ٹیکنالوجی تخلیق کرتے ہیں۔ اس کی رنگت بدلنے اور چھپنے کی صلاحیت مستقبل کی سمارٹ کیموفلاج ٹیکنالوجی کے لیے راہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔ اگر ہم اس کے قدرتی مسکن کو محفوظ رکھیں تو آنے والی نسلیں بھی اس دلکش اور پراسرار “زندہ پھول” کو دیکھنے کا لطف اٹھا سکیں گی۔ گلابی آرکِڈ مینٹس قدرت کے فن کا زندہ شاہکار ہے۔ یہ ہمیں اپنے خالق الکل مصوّر خدا کی طرف راہنمائی کرتا ہے جس نے ہر ایک مخلوق کو اس کے ماحول اور ضروریات کے مطابق پیدا فرمایا ہے۔ مزید پڑھیں: ہیلووین مغربی تہذیب کا آئینہ اور اسلام احمدیت کی روحانی راہنمائی