(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۶؍نومبر۱۹۳۷ء) ۱۹۳۷ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرنے والےصفاتِ الٰہیہ کے مظہر کیسے بن سکتے ہیں کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) جب یہ خیال کسی کے دل میں پیدا ہوجاتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی عبث نہیں بلکہ یہ ایک اور عظیم الشان زندگی کا پیش خیمہ ہے اور اصل زندگی وہ ہے جو میری موت کے بعد شروع ہوگی۔ تب وہ اپنے دل میں حقیقی اطمینان اور حقیقی امن محسوس کرتاہے اور اُس وقت وہ صرف اپنی پیدائش پر ہی خوش نہیں ہوتا بلکہ اپنی موت پر بھی خوش ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ موت اس لئے نہیں کہ مجھے تباہ کرے بلکہ اس لئے ہے کہ وہ مجھے چھوٹی جگہ سے اٹھا کر ایک بلندمقام پر پہنچادے پھر صفت ربّ العٰلمین کا مادہ بھی خداتعالیٰ نے انسان میں پیدا کیا اور اسے اتنا وسیع کیا، اتنا وسیع کیا کہ ہر ماں اور ہر باپ اپنے بچہ کی ربوبیت کررہا ہے۔ پھر محمد ﷺ کو دیکھو تو تمہیں نظر آئے گا کہ آپ اس صفت کے کامل مظہر تھے اور دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے احسان سے باہر رہ گئی ہو۔ مخلوق میں سے اہم جنس حیوان ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف انسانوں پر رحم کیا بلکہ آپ کے دائرہ شفقت میں دوسرے حیوانات بھی آگئے اور آپ نے ان کی بہتری کیلئے اپنی اُمت کو کئی احکام دیئے ہیں۔ مثلاً آپ نے فرمایا کہ آزاد جانور کو باندھ کر مت رکھو اور اگر باندھ کر رکھتے ہو تو ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرو۔ اس حکم کے ماتحت ہر شخص جو کسی جانور کو اپنے گھر میں باندھ کر رکھتا ہے وہ اس بات پر مجبور ہے کہ اسے کھانے پینے کیلئے دے اور اگر نہیں دے گا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ دوزخ میں جائے گا۔پھر جانوروں پر آپ نے اس قدر رحم کیا کہ فرمایا کسی جانور کو کسی دوسرے جانور کے سامنے ذبح مت کرو تا اسے تکلیف نہ ہو۔ کسی جانور کو کند چھری سے ذبح نہ کرو۔(مسلم کتاب العید والذبائح باب الامر باختان الذبح … (الخ)) اسی طرح جانور کو باندھ کر نشانہ بنانے سے منع کیا۔(مسلم کتاب العید والذبائح باب النھي عن صبر البھائم) جانور پر طاقت سے زیادہ بوجھ لادنے سے روکا۔اسی طرح منہ پر داغ دینے کی ممانعت کی اور فرمایا اگر داغ لگانا ہی ہو تو پیٹھ پر لگائو۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب النھی عن الوسم فی الوجہ… (الخ)) غرض جو فرائض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانوروں کیلئے مقرر ہیں ان کے سوا باقی ہرقسم کی تکلیف سے آپ نے انہیں محفوظ کردیا اور پھر جو زیادہ سے زیادہ رحم جانوروں پر کیا جاسکتا تھا وہ بھی آپ نے کیا اور فرمایا جو جانور پالتو نہیں دانے وغیرہ چگتے رہتے ہیں اُن کو دانے وغیرہ ڈال دینا بھی ثواب کا موجب ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ایک شخص تھا جو جانوروں کو دانے ڈالا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ نیکی ایسی پسند آئی کہ اس نے اسی نیکی کے عوض اسے اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ غرض آپ کے احسانات سے حیوانات بھی باہر نہیں اور انسان باہر نہیں۔ انسانوں میں سے مرد اور عورت کو لے لو۔ پہلی قوموں نے مردوں کے متعلق بے شک قوانین تجویز کئے تھے مگر عورتوں کے حقوق کا انہوں نے کہیں ذکر نہیں کیا تھا۔ رسول کریم ﷺ وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے یہ تعلیم دی کہ جیسے مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمہ ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ہیں۔ وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(البقرہ:۲۲۹)جس طرح عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں، اسی طرح عورتوں کے بھی بہت سے حقوق ہیں جو مردوں کو ادا کرنے چاہئیں۔ پھر ہر شعبہ زندگی میں عورت کی ترقی کے راستے آپ نے کھولے۔ اسے جائداد کا مالک قرا ردیا، اس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھا، اس کی تعلیم کی نگہداشت کی، اس کی تربیت کا حکم دیا اور پھر فیصلہ کردیا کہ جس طرح جنت میں مرد کیلئے ترقیات کے غیرمتناہی مراتب ہیں اسی طرح جنت میں عورتوں کیلئے بھی غیرمتناہی ترقیات کے دروازے کھلے ہیں۔ پھر مردوں کی مختلف شاخیں ہیں۔ کبھی مرد بحیثیت باپ ہوتا ہے، کبھی مرد بحیثیت بھائی ہوتا ہے، کبھی مرد بحیثیت بیٹا ہوتا ہے اور کبھی مرد بحیثیت خاوند ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت کبھی بحیثیت ماں ہوتی ہے، کبھی بحیثیت بیٹی ہوتی ہے، کبھی بحیثیت بہن کے اور کبھی بحیثیت بیوی کے۔ پھر مرد کبھی معلم ہوتا ہے کبھی متعلم۔ عورت بھی کبھی معلمہ ہوتی ہے اور کبھی متعلّمہ۔ پھر عورت کبھی دودھ پلانے والی ہوتی ہے اور کبھی دودھ پینے والی۔ کبھی مرد دود ھ پِلوانے والا ہوتا ہے اور کبھی خود دودھ پینے والا یعنی چھوٹا بچہ ہوتا ہے۔ پھر مرد عورت خریدار بھی ہوتے ہیں اور بیچنے والے بھی ہوتے ہیں۔ وہ محنت کرنے والے بھی ہوتے ہیں اور مزدوری دینے والے بھی ہوتے ہیں۔ معاہدہ کرنے والے بھی ہوتے ہیں اور معاہدہ لینے والے بھی ہوتے ہیں۔ حاکم بھی ہوتے ہیں اور محکوم بھی ہوتے ہیں۔ غرض ہر قسم کی زندگی مردوں سے بھی تعلق رکھتی ہے اور عورتوں سے بھی۔ ان تمام شعبوں میں خداتعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے ذریعہ مردوں کو بھی احکام دیئے اور عورتوں کو بھی۔ پھر انسانوں میں قوموں، مذہبوں اور حکومتوں کے تفاوت کے لحاظ سے اختلاف ہوتا ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے لڑائیاں ہوتی ہیں۔ مگر جہاں گھمسان کی لڑائی ہورہی ہوتی ہے، جہاں کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا وہاں محمد ﷺ کے ذریعہ یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ بے شک میرے ماننے والے مسلمان ہیں اور نہ ماننے والے کافر مگر دیکھو میں رب العٰلمین کا مظہر ہوں۔ دیکھنا ان کفار میں سے کسی عورت کو نہ مارنا، دیکھنا ان میں سے کسی بچے کو نہ مارنا، دیکھنا ان کے کسی پنڈت، پادری یا راہب کو قتل نہیں کرنا، دیکھنا باغات نہ جلانا، معبد نہ گرانا، پھل دار درخت نہ کاٹنا۔ دیکھنا جھوٹ اور فریب سے کام نہ لینا، دیکھنا کسی ایسے شخص کو قتل نہیں کرنا جس نے تمہارے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیئے ہوں۔ دیکھنا زخمی کو نہ مارنا، دیکھنا کسی کو آگ سے عذاب نہ دینا، دیکھنا کفار کا مثلہ نہ کرنا اور ان کے ہاتھ پائوں نہ کاٹنا۔ یہ سب احکام جو رسول کریم ﷺ نے دیئے یہ مسلمانوں کیلئے تو نہیں تھے، یہ کفار کیلئے تھے۔ آخر مسلمانوں نے مسلمانوں کے ناک، کان اور ہاتھ نہیں کاٹنے تھے انہوں نے مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر آگ میں نہیں جلانا تھا۔ وہ اگر مثلہ کرسکتے تھے یا آگ سے عذاب دے سکتے تھے تو کافروں کو۔ پس یہ احکام مسلمانوں کی خیرخواہی کیلئے نہیں تھے بلکہ کفار کی خیرخواہی کیلئے تھے اور ان کے آرام اور بچائو کیلئے یہ سب سامان تھے۔ گویا تمثیلی زبان میں اگر ہم ان واقعات کو بیان کریں تو اس کا نقشہ یوں کھینچا جاسکتا ہے کہ مسلمان ایک لمبے عرصہ تک کفار کے مظالم برداشت کرنے کے بعد جب تلواریں سونت کر کفار پر حملہ آور ہوئے تو وہی محمد ﷺ جو مسلمانوں کو کفار سے لڑارہے تھے، کیا دکھائی دیتا ہے کہ دشمنوں کے آگے بھی کھڑے ہیں اور مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ ان پر یہ سختی نہ کرو، وہ سختی نہ کرو۔گویا محمد ﷺ صرف مسلمانوں کے لشکر کی ہی کمان نہیں کررہے تھے بلکہ آپ کفار کے لشکر کی بھی کمان کررہے تھے اور اُسے بھی مسلمانوں کے حملہ سے بچارہے تھے۔ پس لڑائیوں میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صفت ربّ العٰلمین کا مظہر ہونے کا ثبوت نظر آرہا ہے۔ پھر غلاموں پر بھی آپ نے احسان کیا اور فرمایا جو شخص کسی غلام کو مارتا ہے وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کا فدیہ یہ ہے کہ وہ اسے آزاد کردے۔ آپ نے فرمایا اپنے غلام سے وہ کام نہ لو جو وہ کر نہیں سکتا اور اگر زیادہ کام ہو تو خود ساتھ لگ کر کام کرائو۔ اور اگر تم اس کیلئے تیار نہیں تو تمہارا حق نہیں کہ اس سے کام لو۔ اسی طرح اگر غلام کیلئے تمہارے منہ سے کوئی گالی نکل جاتی ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اسے فوراً آزاد کردو۔ غرض مزدور اور آقا کے لحاظ سے بھی آپ نے صفت رب العٰلمین کا مظہر بن کر دنیا کو دکھادیا۔ آپ نے ایک طرف مزدور کو کہا کہ اے مزدور تُو حلال کما اور محنت سے کام کر۔ اور دوسری طرف آقا سے کہا کہ اے محنت لینے والے! تُو حد سے زیادہ اس سے کام نہ لے اور اس کا پسینہ سُوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری اسے دے۔ اسی طرح تجارتوں کے متعلق اور لین دین کے معاملات کے متعلق بھی رسول کریم ﷺ نے احکام دیئے ہیں اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس پر رسول کریم ﷺ کا کوئی احسان نہ ہو۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ موجودہ لوگوں پر تو رسول کریم ﷺ نے یہ احسانات کئے، آپ کے پہلوں پر کیا احسان ہیں؟ سو ایسے لوگوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے احسانات نہ صرف موجودہ نسل اور آئندہ آنے والی نسلوں پر ہیں بلکہ ان لوگوں پر بھی ہیں جو آپ سے پہلے گزر چکے۔ آپ جس زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں تمام انبیاء پر مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے تھے۔ تم مجھے ایک ہی نبی ایسا بتادو جس پر کوئی الزام نہ لگایا گیا ہو۔ ہر نبی پر الزام لگا اور انہی قوموں نے ان پر الزام لگایا جو ان انبیاء کو ماننے والی تھیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی الزام لگا، حضرت دائود علیہ السلام پر بھی الزام لگا، حضرت سلیمان علیہ السلام پر بھی الزام لگا اور عیسائیوں نے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ سب نبی چور اوربٹ مار تھے۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نیکی بھی ان کی نگاہ میں کیا تھی۔ انہوں نے منہ سے تو کہہ دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بے گناہ تھے مگر تفصیلات میں وہ ان پر الزام لگانے سے بھی باز نہیں آئے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی کا گدھا بے پوچھے لے گئے اور اس پر سواری کرتے پھرے۔ لوگوں کو گالیاں دیتے تھے اور انہیں حرام کار اور بدکار کہتے تھے۔ وہ لوگوں کے گناہ اُٹھا کر صلیب پر لٹک گئے اور اس طرح نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ لعنتی بنے اور تین دن دوزخ میں رہے۔ وہ لوگوں کے سوروں کے گلے بغیر ان کے مالکوں کو کوئی قیمت دینے کے تباہ کردیا کرتے تھے۔ یہ سب باتیں مسیحی کتب میں لکھی ہیں۔ پھر ہندوئوں کو لے لو۔ وہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندر کو اپنا اوتار مانتے ہیں۔ مگر رام چندر جی کا سیتا سے جو سلوک بیان کرتے ہیں وہ اگر ایک طرف رکھ لیا جائے اور دوسری طرف ان کی بزرگی اور نیکی دیکھی جائے تویہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے اتنا بڑا ظلم کیا ہو۔ مگر وہ حضرت رام چندر کی طرف بے دریغ یہ ظلم منسوب کرتے جاتے ہیں۔ پھر حضرت کرشنؑ کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مکھن چرا چرا کر لے جایا کرتے تھے حالانکہ وہ خداتعالیٰ کے نبی تھے۔ غرض تمام انبیاء پر بیسیوں الزامات لگائے جاتے تھے۔ یہ صرف محمد ﷺ کی ہی ذات ہے جس نے تمام انبیاء سے ان اعتراضات کو دُور کیا اور بتلایا کہ یہ لوگ نیک، پاک اور راستباز تھے۔ ان پر الزام نہیں لگانا چاہئے۔ پس رسول کریم ﷺ نے نہ صرف موجودہ اور آئندہ نسلوں پر احسان کیا بلکہ پہلے لوگوں پر بھی احسان کیا جو وفات پاچکے تھے اور ان کی قوموں پر بھی احسان کیا۔ جب ایک یہودی کو بتادیا جائے کہ تمہارے بزرگ تمام نقائص سے پاک تھے تو اس کی گزشتہ تاریخ کتنی صاف ہوجاتی ہے اور وہ کیسی خوشی کے ساتھ ان بزرگوں کے نمونہ پر چلنے کی کوشش کرے گا۔ یہی حال عیسائیوں کا ہے اور یہی حال دوسری قوموں کا ہے۔ پس رسول کریم ﷺ نے نہ صرف اپنی قوم کی ترقی کے راستے کھولے بلکہ دوسری قوموں کی روایات کو بھی صاف کیا اور ان کے سامنے بھی ان کے بزرگوں کے اعلیٰ نمونے پیش کئے جن کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے وہ عظیم الشان ترقی کرسکتے ہیں۔ پھر آپؐ نے ملائکہ پر بھی احسان کیا۔ طرح طرح کے الزام تھے جو ان پر لگائے جاتے تھے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ(التحریم:۷) کہ ملائکہ گنہگار نہیں ان کے اندر خداتعالیٰ نے انکار کا مادہ ہی نہیں رکھا۔ انہیں جو بھی حکم ہے اس کی وہ اطاعت کرتے ہیں۔ پس ان پر کسی قسم کا الزام لگانا اور یہ کہنا کہ انہوں نے بھی فلاں گناہ کیا سخت ظلم ہے۔ پھر رسول کریم ﷺ نے دنیا کے ہر گنہگار پر احسان کیا اور اس کے دل کو خوشی سے لبریز کردیا۔ رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے ساری دنیا یہ کہا کرتی تھی کہ گنہگار ہمیشہ کے دوزخ میں گرائے جائیں گے اور جو شخص ایک دفعہ جہنم میں چلا گیا پھر وہ وہاں سے نہیں نکل سکے گا۔ گویا دنیا گنہگاروں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کرتی تھی اور توبہ کا دروازہ اس پر بند بتلاتی تھی۔ مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا انسان کتنا ہی گنہگار ہوجائے، اللہ تعالیٰ اسے معاف کرنے کیلئے تیار ہے۔ بیشک گنہگاروں کے گناہ بہت بڑے ہیں مگر خداتعالیٰ کا رحم اس سے بھی بڑا ہے۔ پس تم اس بات سے مت گھبرائو کہ تم گناہوں میں ملوث ہو، تم توبہ کرو کہ خدا آج بھی تمہیں معاف کرنے کیلئے تیار ہے۔ کتنی امیدہے جو گنہگاروں کے دلوں میں رسول کریم ﷺ نے پیدا کردی۔ کتنی اُمنگ ہے جو آپ نے ان کے قلوب میں پید کردی۔غرض رب العٰلمین کی صفت اعلیٰ درجہ کے کمال کے ساتھ محمد ﷺ میں ظاہر ہوئی اور ان سے اُتر کر اُمت محمدیہ کے اور بہت سے اولیاء و صلحاء میں ظاہر ہوئی اور ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ غرض یہ چاروں صفات جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں انہی کے ماتحت دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ اگر قانون نہ ہو اور پھر اس قانون کا نفاذ نہ ہو تو ہرگز امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر صحیح رنگ میں تربیت نہ ہو اور اہلی اور عائلی زندگی درست نہ ہو تب بھی امن مفقود ہوتا ہے اور کبھی سچی راحت انسان کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ دنیا میں محض حکومت کے قوانین کی پابندی سے امن قائم نہیں ہوتا بلکہ امن اُس وقت ہوتا ہے جب انسان کی اہلی او رعائلی زندگی ہر قسم کے جھگڑوں اور مناقشات سے پاک ہو۔ تم چوری نہیں کرتے، تم ڈاکہ نہیں ڈالتے، تم قتل اور خونریزی کے مرتکب نہیں ہوتے اور یہی چیز ہے جو حکومت تم سے چاہتی ہے۔ اسی طرح اگر تم لوگوں کا مال نہیں لُوٹتے تو حکومت کے قانون کی نظر میں تم پُرامن ہو لیکن اگر گھر میں تمہاری روزانہ لڑائی رہتی ہے تو حکومت کا کوئی قانون ایسا نہیں جو تمہیں اس لڑائی سے روکے۔ لیکن کیا اس لڑائی کو دور کئے بغیر امن ہوسکتا ہے؟ اگر میاں بیوی کے تعلقات اچھے نہیں اور اگر ان تعلقات کو اچھے رکھنے کے ذرائع موجود نہیں تو دنیا کی پُر امن سے پُر امن حکومت بھی افراد کیلئے پُر امن نہیں ہوسکتی۔ حکومت اپنے نظام سے یہ کردے گی کہ بازاروں میں قتل و خونریزی کو روک دے، وہ سرحدوں پر امن قائم کرسکتی ہے مگر وہ گھروں میں امن قائم نہیں کرسکتی۔ اگر دنیا میں مائیں اپنے بچوں کی اچھی تربیت نہ کریں اور بچے اپنی مائوں سے حسن سلوک نہ کریں۔ بھائی اپنی بہنوں سے محبت نہ کریں اور بہنیں اپنے بھائیوں سے عمدہ سلوک نہ کریں تو کیا کوئی حکومت ہے جو اس میں دخل دے سکے؟ کبھی کوئی حکومت اس میں دخل نہیں دے گی۔ مگر کیا کبھی اس کے بغیر امن قائم ہوسکتا ہے۔ تم بہتر سے بہتر قانون بنادو اور تعزیراتِ ہند تو کیا چیز ہے اس سے بھی اعلیٰ تعزیرات مقرر کردو، بہتر سے بہتر افسروں کا انتخاب کرو، اعلیٰ سے اعلیٰ فوجیں تیار کرو جو دشمنوں کو سرحدو ں پر ہی روک دیں اور اسے آگے بڑھنے نہ دیں۔ تم دیانتدار سے دیانتدار پولیس کے آدمی مقرر کرو لیکن اگر گھر میں بھائی بہن ناراض ہیں یا باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے ناراض ہے، خاوند بیوی سے اور بیوی خاوند سے خفا ہے تو کوئی قانون اس ناراضگی کو دور نہیں کراسکتا۔ اور جب تک یہ ناراضگی دور نہ ہو کوئی قانون گھروں میں امن اور دلوں میں اطمینان پیدا نہیں کرسکتا۔ نہ محبت قائم ہوسکتی ہے نہ صلح اور آشتی ہوسکتی ہے۔ نہ راحت میسر آسکتی ہے نہ آرام حاصل ہوسکتا ہے۔ اعلیٰ درجہ کے وزراء و امراء اور افسروں کی موجودگی کے باوجود عائلی اور اہلی زندگی کی خرابی اطمینان اور امن کو مٹادیتی ہے۔ ہاں جب تربیت صحیح ہو اور اہلی اور عائلی زندگی درست ہو تو پھر یہ دونوں چیزیں مل کر ایک حد تک امن قائم کرسکتی ہیں لیکن پھر بھی پورا امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک انسان کے اندر یہ اطمینان پیدا نہ ہو کہ میری زندگی عبث اور فضول نہیں۔ بے شک تم دنیا کا نظام اعلیٰ سے اعلیٰ بنادو، بے شک تم اپنی فوجوں کو مضبوط بنادو، بےشک اپنی طاقت کو اِس قدر بڑھالو کہ کوئی دشمن تم پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کرسکے، بے شک تمہاری پولیس نہایت ہوشیار اور فرض شناس ہو۔ پھر بے شک تمہاری اہلی زندگی بھی ہرقسم کی خلش سے پاک ہو۔ بیوی خاوند کی عاشق ہو تو خاوند بیوی کا، بےشک ہمسایہ ہمسایہ کی خبرگیری کرنے والا ہو، بے شک اُستاد شاگر دسے محبت رکھتاہو اور شاگر استاد کی عظمت پہچانتا ہو، بیشک تاجر دیانتداری سے سَودا دیتے ہوں اور بیشک ہرقسم کے آرام اور ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہوں لیکن اگر انسان کے دل میں یہ خلش موجود ہو کہ وہ کیوں پیدا کیاگیا اور اس کا کیا انجام ہے تو پھر بھی دنیا میں کبھی حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اس خلش کو دور کرنے کیلئے جب تک محمد ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم انسان کے سامنے پیش نہ کی جائے، جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نظارے اس کے سامنے نہ رکھ دیئے جائیں، جب تک ہم اُسے یہ بتا نہ دیں کہ یہی زندگی اس کا اصل مقصود نہیں۔ بلکہ اصل زندگی وہ ہے جب وہ مرنے کے بعد اپنے رب کے سامنے پیش کیا جائے گا اور خدا اُسے کہے گا کہ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ۔ وَادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ۔(الفجر: ۳۰-۳۱)کہ اے میرے بندے! میں نے تجھے بے انتہاء انعامات دینے ہیں۔ میں نے تیری روح ہمیشہ قائم رکھنی ہے۔ بے شک تیری دُنیوی زندگی ہزاروں مایوسیوں، ہزاروں ناکامیوں اور ہزاروں بیماریوں کی آماجگاہ تھی لیکن یاد رکھ کہ وہی تیری زندگی نہیں تھی بلکہ اصل زندگی وہ ہے جو اَب تجھے میں دیتا ہوں اور جو ہر قسم کی تکلیفوں اور ہر قسم کی ذلتوں اور ہر قسم کے تنزّل سے محفوظ ہے۔ آ اور اب میری جنت میں داخل ہوجا اُس وقت تک اس کا دل اطمینان حاصل نہیں کرسکتا۔ ہاں !جب یہ خیال کسی کے دل میں پیدا ہوجاتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی عبث نہیں بلکہ یہ ایک اور عظیم الشان زندگی کا پیش خیمہ ہے اور اصل زندگی وہ ہے جو میری موت کے بعد شروع ہوگی۔ تب وہ اپنے دل میں حقیقی اطمینان اور حقیقی امن محسوس کرتاہے اور اُس وقت وہ صرف اپنی پیدائش پر ہی خوش نہیں ہوتا بلکہ اپنی موت پر بھی خوش ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ موت اس لئے نہیں کہ مجھے تباہ کرے بلکہ اس لئے ہے کہ وہ مجھے چھوٹی جگہ سے اٹھا کر ایک بلندمقام پر پہنچادے۔ کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کوئی شخص تحصیلدار سے ای اے سی ہوگیا ہو یا ڈپٹی کمشنر سے کمشنر ہوگیا ہو یا کمشنر سے فنانشل کمشنر ہوگیا ہو یا فنانشل کمشنر نے گورنر ہوگیا ہو اور وہ بجائے خوش ہونے کے رونے لگ گیا ہو۔ اسی طرح مومن اپنی موت پر روتا نہیں بلکہ خوش ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھے انعامات ملنے کا وقت آگیا۔ لیکن جو شخص روتا ہے وہ اس لئے روتا ہے کہ اس نے زندگی محض دُنیوی حیات کو سمجھ رکھا تھا اور اس نے دیکھا کہ اس زندگی کا بیشتر حصہ ناکامی اور بدمزگی میں گزرگیا اور اسے کچھ بھی لُطف نہ آیا۔ مگر جو شخص جانتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی ایک امتحان کا کمرہ ہے۔ وہ اس کمرہ سے نکلتے وقت خوشی محسوس کرتا ہے۔ جس طرح وہ لڑکاجو اچھے پرچے کرکے آتا ہے خوش ہوتا ہے، اسی طرح مومن جب دنیا کے امتحان کے کمرہ سے اچھے پرچے کرکے نکلتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے ایک رحیم ہستی میرے سامنے ہے جس نے مجھ سے بے انتہا انعامات کا اقرار کیا ہوا ہے۔ اب میں اس کے پاس جائوں گا اور اس سے انعام لوں گا۔ جیسے یونیورسٹی کی ڈگریاںلینے کیلئے جب طالب علم جاتے ہیں تو وہ بھڑکیلے لباس اور گائون وغیرہ پہن کر جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ مومن جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اُس کے عظیم الشان فضلوں پر ایمان رکھتا ہے جب مرنے لگتا ہے تو اُس کا دل بلیوں اُچھل رہا ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں اپنے ربّ کے پاس ڈگری لینے چلا ہوں، میں اپنے رب سے انعام لینے چلا ہوں۔جب تک یہ امید انسان کے دل میں پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک دنیا میں کبھی بھی حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ غرض انسان میں اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان قابلیتیں رکھی ہیں اور اس کا یہ فرض مقرر کیا ہے کہ وہ ان چار صفات کا مظہر بنے۔ مگر یہ کام ہو نہیں سکتا جب تک ایک نظام نہ ہو۔ اسی نظام کو قائم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو بھیجتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان کے ذریعہ ایسی حکومت قائم کرے جن کے افراد انہی صفات کے مالک ہوں جو اُس نے بیان کی ہیں۔ پس جب تک کوئی شخص ان تمام ذمہ واریوں کو سمجھ کر مذہب قبول نہیں کرتا اُس وقت تک اس کا مذہب میں شامل ہونا یا نہ ہونا برابر ہوتاہے۔ اور اسے بعض دفعہ ایسی ٹھوکر لگتی ہے کہ اس کی زندگی محض ایک لطیفہ بن کر رہ جاتی ہے۔ (جاری ہے) مزید پڑھیں: تحریک جدید کے تمام مطالبات پر عمل کرنے والےصفاتِ الٰہیہ کے مظہر بن سکتے ہیں(قسط دوم)