دین تو دین دنیا کے متعلق بھی انسان کا علم بڑھتا رہتا ہے اور کوئی علم بھی تو ایسا نہیں جس میں مزید ترقی کی گنجائش نہ ہو پس دُنیا کے کاموں میں بھی انسان محتاج ہے کہ ہمیشہ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی دُعا کر تا رہے کہ اس کے ذریعہ سے علم کی ترقی ہو(المصلح الموعود رضی اللہ عنہ) سورۃ الفاتحہ کی آیات۵ تا ۷ میں اللہ تعالیٰ فرما تا ہے؛ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ۔ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ۔ترجمہ: (اے خدا) ہم تیری ہی عباد ت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔اُن لوگوں کے راستے پر جن پر تُو نے انعام کیا ہے، جن پر نہ تو (بعد میں تیرا) غضب نازل ہوا (ہے) اور نہ وہ (بعدمیں) گمرا ہ (ہو گئے) ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ ان آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے تفسیر صغیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ۔ جب خدا تعالیٰ کی قدرت خاص کے مظاہر دنیا میں ظاہر ہونے شروع ہو جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ انسان کے قریب ہوجاتا ہے اور سعید طبع لوگوں کو خدا تعالیٰ نظر آنے لگ جاتا ہے اور ایک نیا ایمان اُن میں پیدا ہو جاتا ہے۔ پس غائب خدا اُن کو حاضر نظر آنے لگتا ہے۔ اور وہ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ کہہ اُٹھتے ہیں اور رؤیت درحقیقت انبیا ء کے زمانہ میں اور انبیاء کے قریب کے زمانہ میں حاصل ہو تی ہے یعنی جبکہ کثرت سے لوگ اس قسم کی معجزانہ رؤیت کا مقام حاصل کر تے ہیں اور اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ انبیاء سے بعید زمانہ میں بھی جا کر کچھ کچھ لوگ اِس قسم کے رہتے ہیں سوائے اس قلیل عرصہ کے جو کسی آنے والے موعود سے پہلے کا ہوتا ہے جبکہ دنیا سعیدوں سے قریباً خالی ہو جاتی ہے مگریہ لوگ جو زمانہ نبوت سے بُعد پر پیدا ہوتے ہیں اس مقام کے حاصل کرنے والے لوگ اُن میں اتنے تھوڑے ہوتے ہیں کہ خدا سے ان کا تعلق انفرادی تعلق کہلا سکتا ہے اجتماعی تعلق نہیں کہلا سکتا۔ اوراِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ میںنَعۡبُدُ کا نُون اور نَسۡتَعِیۡنُ کا نُون بتاتا ہے کہ یہاں اُس جماعت کا ذکر ہے جو کہ اجتماعی حیثیت رکھتی ہے جن میں کثرت سے خداتعالیٰ کے قرب کو پانے والے اور اُس کے نشانات کو دیکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ پر اسی مضمون کی طرف یُوں اشارہ فرما یا گیا ہے کہ ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاَوَّلِیۡنَ۔ وَقَلِیۡلٌ مِّنَ الۡاٰخِرِیۡنَ۔ (سورۃالواقعہ:۱۴-۱۵) مفسرین نے غلطی سے اس کے یہ معنے کر لئے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زیادہ اور بعد میں کم۔ حالانکہ یہ قاعدہ کلّیہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی کے زمانہ اور اس کے قریب کے زمانہ میں یہ مقامِ شُہود حاصل کرنے والے کثرت سے ہوتے ہیں اور جب زمانہ نبی سے دُور ہو جاتا ہے تو یہ لوگ تھوڑے رہ جاتے ہیں اور ان کی حیثیت انفرادی رہ جاتی ہے جماعتی نہیں رہتی۔ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ میں بتایا گیا ہے کہ رؤیت کے بعد انسان کے اندر وصال کی شدید خواہش پیدا ہوتی ہے۔ رؤیت کشفِ حجاب کی متقاضی ہوتی ہے اور وصال قُرب مقامی کا متقاضی ہے۔ پس اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُکے ساتھ ہی لازماً انسان کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے قریب چلا جاؤں۔ پس اس آیت میں اس طرف توجّہ دلائی گئی ہے کہ جب مومن اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُکے مقام پر پہنچتا ہے تو بے اختیار ہو کر کہتا ہے کہ مجھے اپنے پاس آنے کا قریب ترین راستہ بتا۔ الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔ یعنی سیدھا راستہ چھوٹے سے چھوٹا راستہ ہوتا ہے۔ چونکہ چھوٹا رستہ خدا کی طرف جانے کا بھی ہوسکتا ہے اور جہنّم اور آگ اور شیطان کی طرف جانے کا بھی ہوسکتاہے اس لئے اس کی تشریح اگلی آیت میں کی ہے کہ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ۔ منعم علیہ گروہ کا راستہ مجھے دکھا یعنی رستہ چھوٹا بھی ہو اور تجھ تک پہنچنے کا رستہ ہو اور تجھ سے دُور لے جانے والا راستہ نہ ہو۔ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ۔اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡکا بدل ہے۔ پس اس کے معنے یہ ہوئے کہ اُن منعم علیہم لوگوں کا رستہ بتا جو مغضوب نہیں ہوگئے اور جو ضَالّ نہیں بن گئے، منعم علیہم تو مغضوب اور ضَالّ ہوا ہی نہیں کرتے پھر اس دعا کے معنے کیا ہوئے؟ پس یاد رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ پچھلی آیات کے ترجمہ سے ظاہر ہے یہ دعا اجتماعی اور قومی دُعا ہے اور ہر قوم ایک زمانہ تک منعم علیہ ہونے کے بعد مغضوب علیہم یا ضالّ یا دونوں بن جاتی ہے۔ پس اس دعا کا یہی مطلب ہے کہ ہماری ابتداء بھی منعم علیہ کی ہو اور ہماری انتہا بھی منعم علیہ کی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری قوم آہستہ آہستہ منعم علیہم سے بدل کر مغصوب ہو جائے یا ضالّ ہو جائے۔ یہ مطلب نہیں کہ فرد مغضوب اور ضالّ نہ بنے بلکہ یہ مراد ہے کہ قوم مغضوب اور ضالّ نہ بنے۔ جس کی طرف اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُمیں جمع کا صیغہ استعمال کرکے اشارہ کیا گیا ہے۔ پس غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ کی آیت بتاتی ہے کہ یہ آئندہ زمانہ کے متعلق دُعا ہے نہ کہ صحابہؓ کے زمانہ کے متعلّق اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے یہی معنے کئے ہیں کیونکہ جب آپؐ سے صحابہؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ !مَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ اور ضَآلِّیۡنَ کون ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا یہود اور نصاریٰ۔ اسی طرح آپﷺ نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! جس طرح جوتی جوتی سے ملتی ہے اسی طرح میری قوم کے لوگ ایک دن ان پہلی قوموں کے نقشِ قدم پر چلیں گے (ترمذی) پس رسول کریمﷺ نے بتا دیا کہ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَرسول کریمﷺ کے زمانہ کے لوگوں کے متعلق نہیں بلکہ اس میں آئندہ زمانہ کے مسلمانوں کے انحطاط کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن جہاں اس پیشگوئی نے خطرہ کا ایک پہلو پیش کیا ہے وہاں ایک اُمید کی کِرن بھی اس نے پھینکی ہے۔ کیونکہ دُعا ایسے ہی امر کے متعلق کی جاتی ہے جو ممکن ہو، غیر ممکن کے لئے دعا نہیں کی جاتی۔ خصوصاً قرآنی دعا تو غیر ممکن کے لئے ہوتی ہی نہیں۔ پس اس دُعا نے ایک اُمید کا پہلو ہمارے لئے قائم رکھا ہے کہ اگر کسی زمانہ کے مسلمان ایسی حالت میں جبکہ وہ منعم علیہم ہوں، یہ کوشش کریں کہ وہ مَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ اور ضَآلِّیۡنَنہ بن جائیں تو ان کی کوششوں کے کامیاب ہونے کا امکان ضرور موجود ہے اور کسی چیز کے دروازہ کھُلا رہنے سے بھی بہت بڑی اُمّید پیدا ہوتی ہے اور حوصلہ بڑھتا ہے۔ (تفسیر صغیر صفحہ نمبر ۳ تا ۴) اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ میں اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہی دُعا کرنی چاہیے اور اُسی پر ہی توکّل کرنا چاہیے، بندوں پر یا اپنی تدبیروں پر نہیں۔ بندوں سے مدد ضرور لینی چاہیے اور تدبیر بھی کرنی چاہیے لیکن توکّل صرف اللہ تعالیٰ پر کرنا چاہیے۔ غرض کہ ہر معاملے میں چاہے تعلق باللہ میں ترقی حاصل کرنی ہو یا قرآن کریم کے مطالب سمجھنے ہوں یا پھرنماز تہجّد اور پنجوقتہ نماز با جماعت باقاعدگی سے ادا کرنی ہو یا پھر تسبیح و تحمید اور درود شریف غور کرکے پڑھناہو، یا پھر روحانی خزائن کا مطالعہ کرنا ہو یا پھر کوئی دنیاوی ضرورت درپیش ہو۔ ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنی چاہیے اور اُسی پر توکّل کرنا چاہیے۔ جب کوئی بندہ کسی اندھیرے میں کھڑا ہو اور کچھ دکھائی نہ دیتا ہو کہ کہاں جانا ہے تو اُس وقت اگر اُس کو کہیں سے کوئی روشنی دکھائی دے گی تو وہ اُس روشنی کی طرف چلنا شروع کردے گا۔ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَکی دُعا بھی ایسے موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے سکھائی ہے کہ جب انسان کو کچھ معلوم نہ ہو اور مستقبل کی غیر یقینی کی صورتحال ہو اور کچھ معلوم نہ ہوتا ہو کہ اب کیا ہونے والا ہے تو اس موقع پر ایک مومن کو چاہیے کہ نماز تہجد اور نوافل میں اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَکی دُعا متعدد مرتبہ کرے اور پنجوقتہ نماز باجماعت کی باقاعدگی سے ادائیگی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق قائم کرنے کی کوشش کرے۔ بعض اوقات پنجوقتہ نماز وں میں پوری طرح توجّہ قائم نہیں رہتی اس لیے چاہیے کہ نوافل کے ذریعہ نماز میں اپنی توجّہ قائم کرنے کی کوشش کرے۔ پنجوقتہ نماز اصل امتحان ہے جبکہ نوافل mock exam ہیں۔ جب mock exam میں آپ کی پریکٹس اچھی ہو گی تبھی آپ اصل امتحان میں کامیاب ہو سکیں گے۔ اس لیے آپ کا جو بھی نیک مقصد ہے آپ اُس کے حصول کے لیے جب پوری توجّہ سے متواتر اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی دُعا کریں گے تو لازماً اپنے نیک مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔ چاہے وہ پنجوقتہ نماز با جماعت کی بروقت ادائیگی ہو یا پھر اپنے لازمی چندہ جات اور اُن کے بقایا جات کی ادائیگی ہو یا پھر اپنے کسی مالی قرض کی ادائیگی ہو۔ آپ جب خلوص نیّت سے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگتے ہوئے اس بارہ میں کوشش کریں گے تو ضرور کامیاب ہو ں گے۔ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَکی تفسیر بیان فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ تفسیر کبیر میں تحریر فرماتے ہیں: اس آیت میں ایسی اعلیٰ اور مکمّل دُعا سکھلائی گئی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ دُعا کسی خاص امر کے لئے نہیں بلکہ ہر چھوٹی بڑی ضرورت کے متعلق ہے اور دینی اور دنیوی ہر کام کے متعلق اس دُعا سے فائدہ اُٹھا یا جا سکتا ہے۔ ہر کام خواہ دینی ہو یا دُنیاوی اس کے پُورا کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی طریق ہوتا ہے اگر اس طریق کو اختیار کیا جائے تو کامیابی ہو گی ورنہ نہ ہوگی۔ پھر بعض دفعہ کئی طریق ایک کام کو کرنے کے نظر آتے ہیں جن میں سے بعض ناجائز ہو تے ہیں اور بعض جائز۔ جو جائز راستے ہوتے ہیں اور اُن میں سے بعض تو مراد تک جلدی پہنچا دیتے ہیں اور بعض دیر سے پہنچاتے ہیں اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَکی دُعا میں ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگتے رہیں۔ کہ وہ ہماری اس طریق کی طرف راہنمائی کرے جو اچھا اور نیک ہو اور جس پر چل کر ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں اور جلد سے جلد کامیاب ہوں کیسی سادہ اورکیسی مکمّل یہ دُعا ہے اور پھر کیسی وسیع ہے کہ زندگی کا وہ کون سا مقصد ہے جس کے متعلق ہم اس دُعا کو استعمال نہیں کرسکتے اور جو شخص یہ دُعا مانگنے کا عادی ہو وہ کِس کِس رنگ میں اپنی محنت کو زیادہ سے زیادہ بار آور کرنے کی کوشش نہ کرے گا۔ کیونکہ جس شخص کو ہر وقت یہ یاد کرایا جائے گا کہ ہر مقصد کے حصول کے لئے اچھے طریق بھی ہیں اور بُرے طریق بھی ہیں اور یہ کہ اسے ہمیشہ اچھے طریق تلاش کرنے اور اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور پھر اچھے طریقوں میں سے بھی اس طریق کو اختیار کرنا چاہئے جو سب سے قریب ہو اس کا دماغ کس طرح اس تعلیم کو اپنے اندر جذب کر لے گا۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دُعا کرے گا کہ اسے صراط مستقیم دکھایا جائے اس کا دماغ خود بھی اس خیال سے متاثر ہو گا اور اس کی اپنی کوشش بھی اپنے سب کاموں میں ایسے ہی راستہ کی تلاش میں خرچ ہو گی۔ اور جو شخص اپنے کاموں میں ان اصول کو مدّ نظر رکھے گا کہ (۱) میرے سب کام جائز ذرائع سے ہوں۔(۲) میں کسی ایک مقام پر پہنچ کر تسلی نہ پا جاؤں بلکہ غیر محدود ترقی کی خواہش میرے دل میں رہے۔(۳)اور میرا وقت ضائع نہ ہو بلکہ ایسے طریق سے کام کروں کہ تھوڑے سے تھوڑے وقت میں ہر کام کو پُورا کر لوں۔اس کے مقاصد کی بلندی اور اس کے اعمال کی درستی اور اس کی محنت کی باقاعدگی میں کیا شک کیا جا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان اس دُعا کو اخلاص سے مانگتے رہیں اور اس کے مطالب کو ذہن نشین کریں تو دُعا کے رنگ میں تو جو فائدہ ہو گا وہ تو ہوگا ہی اس کا جو اثر طبعی طور پر مسلمانوں کے دماغ پر ہوگا وہ بھی کچھ کم قابل قدر نہیں ہے۔ (تفسیر کبیر جلد ۱ صفحہ نمبر ۴۸، ۴۹۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء) اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَکی دُعا میں دینی اور دنیاوی ترقی حاصل کرنے کے لیے بھی دُعا سکھلائی گئی ہے۔ کیونکہ ایک انسان کو ہمیشہ دین اور دنیا میں ترقی حاصل کرنے کے لیے دُعا کرتے رہنا چاہیے۔ اگر آپ دن میں ایک نماز باجماعت ادا کرتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ آپ دو نمازیں باجماعت پڑھنے کی کوشش کریں، اگر آپ دو نمازیں باجماعت پڑھتے ہیں تو کوشش کریں کہ تین نمازیں با جماعت پڑھیں اسی طرح اپنی باجماعت نمازوں کی تعداد کو پورا کرنے کی کوشش کریں یہاں تک کہ آپ ہر روز پنجوقتہ نماز باجماعت ادا کرنے لگ جائیں اور پھر وقت پر نماز تہجد بھی ادا کریں۔ اسی طرح جب آپ کو مالی سال کے اختتام پر دفتر وصیت کی طرف سے دوران سال ادا کیے جانے والے لازمی چندہ جات کی تفصیل موصول ہو تو اس کا جائزہ لیں اور کوشش کریں کہ ایک سال میں جتنا چندہ آپ نے دیا ہو اگلے سال اُس سے دُگنا اد ا کریں۔اس کے لیے اپنی ماہانہ آمدنی میں اضافے کے لیے اور اپنے ذرائع آمدن میں اضافے کے لیے کوشش کرتے چلے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے دُعا بھی کریں کہ اےمیرے پیارے اللہ اے میرے پاک پروردگار میں تیری رضا حاصل کرنے کے لیے مالی قربانی میں حصّہ لے رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اپنے گذشتہ سال کے چندہ جات کو دُگنا کرکے امسال ادائیگی کروں لیکن میں تیرے فضل و رحم اور تیری تائید و نصرت کے بغیر ایسا نہیں کر سکتا، پس تُو میری مدد، نصرت اور راہنمائی فرما اور اپنے خاص فضل اور ارادے سے خاکسار کی آمدنی میں اور ذرائع آمد ن میں اضافہ فرما تاکہ میں پہلے سے بڑھ کر مالی قربانی کر سکوں۔ اگر آپ پوری توجّہ اور ایمان سے اپنی زبان میں اور اپنے حالات کے مطابق دُعاکریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو ایسے مواقع فراہم کر دے گا کہ آپ اپنی آمدنی میں اور ذرائع آمدن میں اضافہ کر سکیں گے اور اللہ تعالیٰ آپ کی آمدنی میں بے پناہ برکت بھی فرمائے گا۔ اگر آپ کے گذشتہ ایک سال کا یا ایک سے زائد سال کا لازمی چندہ جات کا بقایا ہے تو دُعا کے ساتھ ساتھ نیّت بھی کریں اور اپنا mindset بھی بنائیں کہ میں نے نہ صرف یہ بقایا ادا کرنا ہے بلکہ آئندہ اپنی تمام اصل آمد پر جہاں کہیں سے بھی حاصل ہو حصّہ آمد ادا کر نا ہے۔ میرے ذاتی مشاہدہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر نماز باجماعت اورحصّہ آمد اوّل وقت میں ادا کردیاجائے تو بہت سہولت رہتی ہے ورنہ جتنا دیر کردی جائے ان کی ادائیگی اُتنی مُشکل ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے دُعا بھی کریں اور کوشش بھی کریں کہ یک مُشت نہ سہی لیکن تھوڑا تھوڑا کر کے ادائیگی کرنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح اگر آپ نے کسی کا قرض ادا کر نا ہے یا پھر گھر کی تعمیر مکمل کرنی ہے تو اُس کے لیے بھی دُعا کے ساتھ ساتھ نیّت بھی کریں۔ اور اللہ تعالیٰ پر ایمان اور یقین رکھیں کہ وہ ضرور مدد اور نصرت فرمائے گا۔ان شاء اللہ۔ اپنی دعاؤں میں نہ صرف اپنے لیے دُعا کریں بلکہ اپنے سے بڑھ کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لیے دُعا کریں۔اپنے والدین کو، بہن بھائیوں کو، اہلیہ کو اپنے بچوں کو، عزیز و اقارب کو، بیماروں کو، اسیران راہ مولیٰ کو، شہداء کی فیملیز اور تمام افرا د جماعت احمدیہ کو اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیں۔ آج کل ترقی حاصل کرنے کے مضمون پر متعدد کُتب موجود ہیں جس کو دوسرے الفاظ میں personal development بھی کہتے ہیں۔ اسی مضمون کے بارے میں آیت اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَکی تفسیر بیان فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ تفسیر کبیر میں تحریر فرماتے ہیں: پس مختلف قسم کے دُعا کرنے والوں کے لئے اس کے مختلف معنے ہونگے وہ جنہیں ہدایت کا علم بھی ابھی حاصل نہیں ہوا ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے یہ معنے ہونگے کہ ہمیں بتا کہ ہدایت کیا ہے اور کس مذہب یا کس طریق میں ہے ؟اور جن لوگوں کو ہدایت کا علم تو ہو چکا ہے لیکن اس کے قبول کرنے میں ان کے لئے مشکلات ہیں نفس میں کمزوری ہے یا دوست احباب ایسے مخالف ہیں کہ صداقت قبول کرنے سے باز رکھ رہے ہیں یا رہبرکامل دور ہے اور اس تک پہنچنا مُشکل ہے یا اس علاقہ میں صحبت صالح میسّر نہیں اس شخص کے لحاظ سے اس دُعا کے یہ معنے ہونگے کہ مجھے ہدایت تک پہنچا دے یعنی علمی رنگ میں تو مَیں ہدایت کو سمجھ گیا ہوں مگر عملی طور پر اس کے اختیار کرنے میں جو دقتیں ہیں انہیں بھی دُور کر دے۔ لیکن اگر کوئی ایسا شخص ہے جسے علمی طور پر بھی ہدایت میسّر آگئی ہے اور عملی مشکلات بھی دُور ہو گئی ہیں اور وہ ہدایت کے راستوں پر گامزن ہے تو اس کے لئے اس دُعا کے یہ معنے ہو نگے کہ اے خدا!تیری ہدایت وسیع ہے اور عرفا ن کی راہیں غیرمحدود ہیں مجھے اپنے فضل سے ہدایت کے راستہ پر آگے بڑھا تا لئے چل۔ میرا قدم کسی جگہ نہ ٹھہرے اور میں صداقت کے اسرار سے زیادہ سے زیادہ واقف ہوتا جاؤں۔ اور آگے سے زیادہ مجھے اس پر عمل کرنے کی توفیق ملتی جائے۔ ان تینوں معنوں کو مدّ نظر رکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ کوئی انسان بھی ایسا ہو سکتا ہے جسے کسی وقت بھی اسی دُعا سے استغنا حاصل ہو جائے مسلمانوں کے رسولﷺ بیشک بہت کامل تھے لیکن اسلام کا خدا غیر محدود طاقتوں والا ہے۔ کوئی کتنی بھی ترقی کر جائے پھر بھی ترقی کی گنجائش اس کے لئے باقی رہتی ہے اور پھر بھی اس کے لئے ضرورت باقی رہتی ہے کہ وہ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَکی دُعا کرتا رہے۔ دین تو دین دنیا کے متعلق بھی انسان کا علم بڑھتا رہتا ہے اور کوئی علم بھی تو ایسا نہیں جس میں مزید ترقی کی گنجائش نہ ہو پس دُنیا کے کاموں میں بھی انسان محتاج ہے کہ ہمیشہ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَکی دُعا کر تا رہے کہ اس کے ذریعہ سے علم کی ترقی ہو۔ (تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ ۴۹، ۵۰۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء) ایک ملاقات میں نیو یارک ریجن امریکہ کے ایک خادم نے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے یہ سوال کیا کہ میں روحانی شکوک یا کمزوری کو کس طرح حل کروں؟ جس پر حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت جواب ارشاد فرمایا کہ پہلی بات ہے کہ آپ پنجوقتہ نمازوں کو ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے سب شکوک دُور کرے،جو بھی آپ کے ذہن میں آتے ہیں۔ آپ سجدہ یا رکوع میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں اور اللہ سے مغفرت مانگیں اور اس سے دعا کریں کہ وہ آپ کو صحیح راستے کی طرف ہدایت دے۔ جب بھی آپ سورۂ فاتحہ کی تلاوت کریں آپ کو بار بار اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ دُہرانا چاہیے کہ اے اللہ تعالیٰ! مجھے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے۔ حضورِانور نے دینی علمی معیارکو بڑھانے کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے نصائح فرمائیں کہ آپ کوشش کریں کہ اپنا دینی علم بڑھائیں۔ قرآنِ کریم کو پڑھیں اور قرآنِ کریم کا مطلب سمجھنے کی کوشش کریں اور اگر ممکن ہو تو قرآنِ کریم کی تفسیر پڑھیں۔ پھر آپ کو پتا چلے گا کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں اور آپ اللہ تعالیٰ کا قرب کیسے پا سکتے ہیں۔پھر اس کے علاوہ آپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ کچھ دینی کتابیں پڑھیں، خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تا کہ یہ علم حاصل ہو کہ کس طرح اچھے اور دیندار انسان بن سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ مَیں نے ایک کتاب کشتی نوح لکھی ہے، اس کو پڑھو، یہ بھی تمہیں ہدایت دے گی۔آخر میں حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ یہ سب کچھ آپ کی کوشش پر ہی منحصر ہے۔(الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍اپریل ۲۰۲۵ء) اللہ تعالیٰ ہمیں اس دُعا کو بہترین طریق پر بار بار کرنے کی اور اس کی برکات و فیوض سے وافر حصّہ پانے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔آمین۔ (‘ابن سعید’) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت خُبیبؓ کا مکمل قصیدہ