https://youtu.be/Nw-2lj3eHT4 حضرت صاحبؑ نے فرمایا کہ بھیرہ کو قادیان سے ایسی مناسبت ہے جیسے کہ مدینہ کو مکہ سے۔کیونکہ بھیرہ سے ہم کو نصرت پہنچی ہے۔(ذکر حبیب صفحہ ۱۶۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت احمدیہ کے مخالف و حاسد مولویوں کی مفتریانہ مخبریوں سے آگاہی کے لیے حکومتِ وقت کو بذریعہ اشتہار مورخہ ۲۴؍فروری ۱۸۹۸ء مطلع فرمایا کہ ’’چونکہ مسلمانوں کا ایک نیا فرقہ جس کا پیشوا اور امام اور پیر یہ راقم ہے پنجاب اور ہندوستان کے اکثر شہروں میں زور سے پھیلتا جاتا ہے اور بڑے بڑے تعلیم یافتہ مہذب اور معزز عہدہ دار اور نیک نام رئیس اور تاجر پنجاب اور ہندوستان کے اس فرقہ میں داخل ہوتے جاتے ہیں …اس کے اصول ایسے پاک اور صاف اور امن بخش اور صلح کاری کے ہیں کہ تمام اسلام کے موجودہ فرقوں میں اس کی نظیر گورنمنٹ کو نہیں ملے گی۔ جو ہدایتیں اس فرقہ کے لیے میں نے مرتب کی ہیں جن کو میں نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر اور چھاپ کر ہرایک مرید کو دیا ہے کہ ان کو اپنا دستورالعمل رکھے۔‘‘ (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۳۳۷، ۳۴۶۔۳۴۷) دربار ہال لندن پر کی گئی نقش نگاری طبع اشتہار تک خد ا تعالیٰ کے فضل سے بعض تعلیم یافتہ مہذب و معزز عہدہ دار اور نیک نام رئوسا و تاجران مریدین جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آگئے تھے۔ ان خوش نصیبوں کے اسماء گرامی حضورؑنے اپنے قلمِ مبارک سے درج فرمائے ہیں۔ ان تربیت یافتہ مبارک اشخاص میں گیارہ کا تعلق حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مولدومسکن بھیرہ ضلع شاہ پور (موجودہ ضلع سرگودھا) سے ہے۔ ان معزز اراکین بھیرہ میں حضرت مستری جماں (دراصل حضرت میاں محمد جمعہ خان صاحب مراد ہیں ) مالک کارخانۂ روئی و رئیس بھیرہ کا ذکر اشتہار متذکرہ بالا میں سیریل نمبر ۲۹۸پر درج ہے۔ تحقیقی مقالہ ۲۰۱۵ء برائے شاہد ڈگری جامعہ احمدیہ بعنوان ’’بھیرہ کے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ‘‘ میں مکرم احمد رفیق صاحب نے لکھا ہے ’’حضرت حکیم مولوی نورالدینؓ جیسا مبارک وجود اس بستی (بھیرہ) میں پیدا ہوا۔ جن کی وجہ سے یہ بستی ہمیشہ کے لیے تابندہ ہو کر رہ گئی۔ حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ کے علاوہ دیگر رفقائے مسیح موعودؑ مثلاََ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ، حضرت مولوی دلپذیر صاحبؓ، حضرت جمعہ خان صاحبؓ اور حضرت قریشی نجم الدین صاحبؓ جیسے جیّد اور بابرکت وجود بھی اسی بستی سے تعلق رکھتے تھے۔‘‘(الفضل لندن ۲۴؍نومبر ۲۰۲۲ء) حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے اپنا ایک خواب حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا تو حضرت صاحبؑ نے فرمایا کہ بھیرہ کو قادیان سے ایسی مناسبت ہے جیسے کہ مدینہ کو مکہ سے۔کیونکہ بھیرہ سے ہم کو نصرت پہنچی ہے۔‘‘(ذکرحبیب صفحہ۱۶۴) مایہ صد ناز ہے ثاقب یہ بھیرہ کی زمیں جس میں نور الدین سا پیدا ہوا نورنگیں خاکسار کے اس مضمون میں ایک مخلص و باوفا صحابی حضرت جمعہ خان صاحبؓ کا ذکر خیر کیا جانا مقصود ہے۔ حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ اندازاََ ۱۸۵۲ء میں بھیرہ میں پیدا ہوئے۔ اس وقت پنجاب میں راجہ شیر سنگھ کا عہدِحکومت تھا اور دلی کے تخت پر بہادر شاہ ظفر متمکن تھے۔ دونوں کا اقتدار جلد غروب ہو گیا اور انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کرلیا۔ ابتدا میں بھیرہ کی مرکزی اہمیت کے پیش نظر انگریزوں نے اسے علاقائی انتظامیہ کا ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔ (تذکرہ علماء و مشائخ بگویہ صفحہ۷) حضرت جمعہ خان صاحبؓ خاکسار کے پڑداداحضرت میاں غلام محی الدین بھیرویؓ (صحابی حضرت مسیح موعودؑ)کے چھوٹے بھائی تھے۔ان کے والد صاحب کا نام میاں الہٰ دین تھا۔ جو زاہد، عابد اور درویش صفت بزرگ تھے۔ ہمارے آباء و اجداد کے مکانات و زمین کے عکس شجروں اور جمعبندی ریکارڈ بمطابق محکمہ مال بھیرہ ضلع شاہ پور قوم گوندل اور مذہب مسلمان درج ہے۔ حضرت جمعہ خا ن صاحبؓ اور ان کے بڑے بھائی نے ابتدائی تعلیم بھیرہ کے پرانے مدرسہ دارالعلوم عزیزیہ بگویہ میں حاصل کی۔ اسی مدرسہ(قائم شدہ ۱۸۴۰ء)میں حضرت خلیفہ اولؓ، حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیرویؓ وغیرہ نے بھی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں مولوی احمد الدین صاحب بگوی(ولادت ۱۸۰۲ء۔وفات ۱۸۷۰ء)مولوی سلطان احمد صاحب برادر اکبر حضرت خلیفہ اولؓ شامل تھے۔ اس کے بعد ان کے والد صاحب (مکرم میاں الہٰ دین صاحب)نے اپنے دونوں بیٹوں کو دینی مدرسہ سے واجبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈسٹرکٹ مڈل سکول بھیرہ میں داخل کروا دیا جہاں انگریزی، جغرافیہ، حساب اور ڈرائنگ کے مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ اور سکول میں وہ تیراکی، گھڑ سواری اور کبڈی کے مقابلوں میں شوق سے حصہ لیتے تھے۔ دربار ہال کی تعارفی تختی کا عکس آپؓ اور آپ کے عزیز و اقارب بھیرہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی ہمسائیگی میں رہتے تھے۔ حضرت خلیفہ اولؓ حضرت حکیم فضل الدین صاحبؓ، حضرت میاں اسلام احمد صاحبؓ وغیرہ ہم عصر تھے۔ محلہ دار بھی تھے۔ صرف حضرت حکیم فضل الدین صاحبؓ کا گھر تھوڑا دور محلہ خواجگان میں تھا۔ بچپن میں یہ سب اکٹھے کھیلتے تھے۔ ان بزرگوں کے گھروں میں خالص دینی ماحول تھا۔ ہماری بزرگ خواتین بحث کرنے والے بچوں کو کہا کرتی تھیں۔ ’’سیگھے پٹ بیٹھا اے‘‘ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس محاورہ سے مراد ضدی مولویوں کا بحث ومباحثہ میںصرفی و نحوی صیغوں کا استعمال ہے۔ یہ بزرگ غصہ میں بھی دعا ہی دیتے تھے مثلاََ ’نامحروماں‘ کہہ دیا کہ تم کسی شئ سے محروم نہ رہو۔ یہ گھر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ صوم و صلوٰۃاور تلاوت قرآن مجید سے پُر رونق ہوتے تھے۔ حضرت جمعہ خا ن صاحبؓ کا ذریعہ معاش تعمیراتی کام کرنے والوں کو مکانوں کی ڈرائنگ و ڈیزائن بنا کر دینے کے علاوہ لکڑی کے تختوں، دروازوں پر صنّاعی(Carving)تھا۔ لندن (England)سے واپس آنے پر کارخانہ روئی (واقع جیتے والا میدان بھیرہ )میں قائم کیا۔ دربار ہال لندن۔ اس میں نظر آنے والی نقش نگاری حضرت جمعہ خان صاحبؓ نے کی ہے۔ حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ اوائل میں حنفی مسلک کے سلسلہ چشتیہ سے تعلق رکھتے تھے (بگویوں کا یہی مسلک تھا)۔ انہوں نے اور بڑے بھائی اور بھیرہ کے کئی اور سعادت مندوں نے دینی امور میں حضرت خلیفہ اولؓ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حضرت خلیفہ اولؓ ۱۸۷۱ء میں ممالک ہند و عرب سے طبی اور دینی علوم کی تکمیل کے بعد واپس اپنے وطن مالو ف بھیرہ تشریف لائے۔ جب حضرت خلیفہ اولؓ نے حنفی علماء کے بعض عقائد (جواز تقلید وغیرہ )کوغلط قرار دیا تو بگوی مولویوں نے آپ کو وہابی قرار دے کر آپ کے خلاف اشتعال پھیلایا۔ اس امر کا ذکر مولوی ظہور احمد صاحب بگوی نے اپنی کتاب برق آسمانی کے صفحہ نمبر ۶۱پر کیا ہے۔ مخالف لوگوں نے آپؓ کو اور آپ کے مریدوں کو آپ کی آبائی مسجد حنفیہ میں نمازیں پڑھنے سے روک دیا۔ حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ نے اپنے مریدوں کو اہل حدیثوں کی مسجد (یعنی حکیماں والی مسجد بھیرہ)میں نماز یں ادا کرنے کا ارشاد فرمایا۔ انہی ایام میں حضرت خلیفہ نورالدین صاحب جمونی بھی حضورؓ کی ملاقات کے لیے بھیرہ آئے ہوئے تھے۔( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ۸۰)مخالفوں نے ان دنوں حضورؓ کے مکان سے متصل نانبائی پر بھی دبائو ڈالا کہ حضرت مولوی صاحبؓ اور ان کے مریدوں کو روٹی پکا کر نہ دی جائے۔ مگر اللہ کے اس بندہ (غلام محمد صاحب کے والد) نے مولویوں کی ایک نہ مانی۔(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۱۰۸)بہرحال منجر الی الشرک باتوں کے خلاف حضرت جمعہ خان صاحبؓ، ان کے بڑے بھائی اور دیگر مریدین و معتقدین حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ (خلیفہ اول) نے مشن جاری رکھا۔ حضرت جمعہ خان صاحبؓ فن صنّاعی کے ماہر تھے۔ ان کا صنّاعی کا ایک نمونہ (دروازہ) عجائب گھر لاہور میں حکومت متحدہ پنجاب (برٹش انڈیا) نے رکھوایا (اس پر آپ کا نام و مسکن اور سنہ کندہ ہے)۔ (بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحہ۱۱۲)اسی قسم کا ایک دروازہ مسجد نور بھیرہ میںاس کمرہ کی زینت بنا ہوا ہے۔ جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش ہوئی تھی۔ ’’یہ خوبصورت موٹے طاقچوں والا دروازہ ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کے ایک صحابی حضرت جمعہ خان صاحبؓ کی کاریگری کا مرقع ہے۔‘‘ (الفضل ربوہ ۱۵؍مئی ۲۰۰۰ء) ۱۸۸۵ء میں جناب ملک عمر حیات خان ٹوانہ (والد محترم سر خضر حیات خان ٹوانہ سابق وزیر اعظم متحدہ پنجاب (برٹش انڈیا) حضرت جمعہ خان صاحبؓ کو ان کی صنّاعی کی نمائش کے لیے لندن (England)لے گئے تھے۔ وہاں آپ کو بڑا انعام وا کرام دیا گیا تھا۔ (بھیرہ کی تاریخ احمدیت مؤلفہ مکرم فضل الرحمٰن بسمل صاحب غفاری مرحوم سابق امیر جماعت احمدیہ بھیرہ صفحہ ۱۱۳)یہ سفر بھیرہ سے لاہور بذریعہ لاری، لاہور سے بمبئی براستہ دلی، آگرہ بذریعہ ٹرین اور بمبئی پورٹ سے Dover England بذریعہ Ship ہوا۔ اس ضمن میں یہ بیان کرنا ضروری ہےکہ حضرت میاں محمد بخش صاحب بھیروی مرحوم (محترم ناصر احمد خان صاحب Tooting جماعت کے دادا) حضرت جمعہ خان صاحبؓ کے رفیق کار تھے۔ وہ بھی ان کے ہمراہ لندن گئے۔ (بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحہ۱۱۴) دونوں بزرگوں نے لندن پہنچنے کے بعد زیرنگرانی Caspar Purdon Clarke ( جو کہ انڈین اسلامک آرٹ پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے)South Kensington Museum میں دربار ہال کے لیے صنّاعی کا کام (Crafting؍wood carving)شروع کر دیا۔ اس جاب کی اہم خصوصیات میں سے ایک ہندو ستانی شاہی محل کی مکمل کاپی کرنا اور مقصد جاگیردارانہ ہندوستانی شاہی رہائش گاہ کی عکاسی کرنا تھا۔ اس شاندار دستکاری اور نقش و نگار والے ہال کو مکمل کرنے میں ۱۸۸۵ء۱۳۰۲؍ھ اور ۱۸۸۶ء ۱۳۰۳؍ھ کے دوران نو ماہ لگے۔ اس فن پارہ صنّاعی کام کو ۱۸۸۶ء میں South Kensington Londonمیں نمائش (The Colonial and Indian Exhibition) کے لیے رکھا گیا۔ دوران نما ئش دربارحال کو ہندی جھنڈیوں سے سجایاگیا اور اسے پرنس آف ویلز (Albert Edward) ایلبرٹ ایڈورڈز(۱۸۴۱ء-ا۱۹۰ء)نے سرکاری استقبالیہ کے لیے استعمال کیا۔اس بریسے دربار ہال (The Brassey Durbar Hall)کو نئی حالت میں مکمل صنّاعی کے کام (Crafting؍wood Carving)کے ساتھ ۱۹۳۲ء میں Hastings Museum & Art Gallery, John’s Place, Bohemia؍Cambridge Road Hastingsمیں نصب کردیا گیا۔ خاکسار اپنے بیٹے عزیزم انجینئر طاہر احمد مظفر (M. Engg Germany)کے ساتھ مورخہ ۳۱؍دسمبر۲۰۲۴ء کو اس میوزیم کو دیکھنے گیا۔ اس دربار ہال کی ڈیزائننگ، دست کاری اور نقش و نگار کی دلکش اور جاذب نظر نمونہ فن صنّاعی کے بہترین شاہکار کو دیکھ کر بے اختیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس غلام کے بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ۱۴۰؍سال قبل بھیرہ کے دُوردراز گائوں سے گوروں کی سرزمین لندن (انگلستان)میں پہنچایا۔ اس شہر لندن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا: میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں۔بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق اُن کا جسم ہو گا۔ سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگر چہ میں نہیںمگر میری تحریریں اُن لوگوں میں پھیلیں گی۔ اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کے شکار ہو جائیں گے ۔ (ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۳۷۷) ذکر خیر میں اس امر کا بیان بھی ضروری ہے کہ حضرت جمعہ خان صاحبؓ کے شاندار فن کی قدر دانی کرتے ہوئے ایک انگلش کمپنی نے ۱۸۹۴-۹۵ء میں دوبارہ ایک اورExhibitionکے لیے انہیں بلایا۔ ۱۳؍اگست۱۸۹۵ء کو Empire of India Exhibition 1895 Earl’s Court Londonنے ایک شاندار الوداعی تقریب میں حضرت جمعہ خان صاحبؓ کو سند امتیاز و دیگر انعامات سے نوازا اور نہایت اعزاز و اکرام سے الوداع کیا۔ حکومت ہند نے بڑے بڑے شہروں مثلاً بمبئی، کلکتہ، مدراس اور لاہور میں Schools of Artقائم کیے تاکہ ہر قسم کی صنعت کو فروغ مل سکے۔ Wood Carving Industryکے لیے حکومت نے S.J. Tellery & Co کے ذریعہ میو سکول آف آرٹس لاہور (جواب آرکیٹیکچرڈگری کورس کے لیے upgrade ہوچکا ہے حضرت جمعہ خان صاحبؓ کو بلوا کر اپنے فن کی تدریس کا اہتمام کیا۔( روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۱۸؍جنوری ۲۰۰۶ء میں صفحہ۴مضمون مکرم انجینئر محمود مجیب اصغر صاحب سابق امیر جماعت ضلع مظفر گڑھ و اٹک ) حضرت جمعہ خان صاحبؓ کوان کی خدمات کے پیش نظر ریاست پنجاب نے ۱۸۹۵ء میں خان صاحب کا خطاب دیا اور اس طرح آپ میاں جمعہ الہ دین سے میاں محمد جمعہ خانؓ مشہور ہوئے۔ (الفضل ربوہ مورخہ ۶؍جنوری ۲۰۱۶ء صفحہ۳) حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کی فراست اور بصیرت نے خدا تعالیٰ کے برگزیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوائل میں ہی پہچان لیا۔ حضرت مولانا صاحبؓ نے ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء کو اوّل المبائعین ہونے کا شرف حاصل کیا۔ حضرت مولوی صاحبؓ دوبارہ ۱۸۹۱ء میں بھیرہ تشریف لائے اور ایک اعلیٰ شفاخانہ اور وسیع مکان کی تعمیر زیر نگرانی حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ شروع کروادی۔ قریباََ ایک سال بھیرہ قیام رہا۔ اس عرصہ میں بے شمار لوگ آپ سے علاج کرواکرصحت یاب ہوئے۔ مزید یہ کہ اس عرصہ میں حضرت مولانا صاحبؓ نے تبلیغ کا سلسلہ بڑی شان کے ساتھ بےخوف وخطر جاری رکھا۔ انہی دنوں حضرت مولانا صاحبؓ نے ہمارے پڑدادا صاحب اور ان کے بھائی حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ کو احمدیت کی بھر پور دعوت دی۔ اُدھر پیشگوئیوں کے مطابق کسوف و خسوف کا آفاقی عظیم الشان نشان آسمان پر مارچ اور اپریل ۱۸۹۴ء میں ظاہر ہوا۔ اس کے بعد تو امام الزمان ؑکی بیعت میں کوئی تامل نہ رہا اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے ان دونوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت کا شرف آخر ۱۸۹۵ء یا شروع ۱۸۹۶ء میں نصیب ہوا۔ بیعت کے بعد ان بزرگوں نے پُر جوش تبلیغ کی۔اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں میں کافی لوگوں کو احمدیت کے نور سے متعارف کرایا اور بیعتیں کروائیں۔ یوں حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کے زیر اثر لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل و توفیق سے احمدی ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و کرم کا ذکر مخالفین احمدیت نے تعصب سے بھرے الفاظ میں یوں کیا۔ افسوس یہی شہر (بھیرہ) حکیم نورالدین کی بدولت دنیا بھر میں بدنام ہو ا اور نورالدین کے اثر جو لوگ غیر مقلد ہو چکے تھے وہ مرزائی بن گئے ۔ (شمس الاسلام بھیرہ بابت مارچ اپریل ۱۹۷۵ء ختم نبوت نمبر صفحہ نمبر ۲۲) حضرت جمعہ خان صاحبؓ کے خاندان کے کچھ افراد کے پاس پرانے جوابی خطوط بزبان انگریزی موجود تھے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ اپنے بعض انگریز، جرمن، سکاٹش اور آئرش دوستوں کو قادیان کے بزرگ علماء اور ووکنگ مشن کے ذریعہ تبلیغی خطوط مع لٹریچر بھجوایا کرتے تھے۔ مولوی کرم دین صاحب آف بھیں کی طرف سے استغاثہ دائر ہونے پرمجسٹریٹ درجہ اول جہلم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے صحابہؓ کے نام وارنٹ جاری کیے اور عدالت میں پیشی کی تاریخ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء مقرر کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بذریعہ ریل گاڑی بٹالہ سے امرتسر اور امرتسر سے لاہور اور لاہور سے جہلم مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء کو تشریف لائے۔ ہر سٹیشن پر حضور اقدسؑ کی زیارت وا ستقبال کے لیے بہت زیادہ افراد جماعت اور غیر احمدی صاحبان موجود تھے۔ جہلم شہر میں تو مخلوق کی بھیڑ تھی (ان میں بھیرہ کے مرد و زن بھی شامل تھے)جوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیدار سے مشرف ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مقدمہ کے سلسلہ میں تحریر فرمایا: ’’تخمیناََدس ہزار سے زیادہ آدمی ہو گا کہ وہ میری ملاقات کے لیے آیا اور تمام سڑک پر آدمی تھے اور ایسے انکسار کی حالت میں تھے کہ گویا سجدے کرتے تھے اور پھر ضلع کچہری کے ارد گرد اس قدر لوگوں کا ہجوم تھا کہ حکا م حیرت میں پڑ گئے۔ گیارہ سوآدمیوں نے بیعت کی اور قریباََ دو سو عورت بیعت کر کے اس سلسلہ میں داخل ہوئی اور کرم دین کا مقدمہ جو میرے پردرج تھا خارج کیا گیا۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۲۶۴) حضرت جمعہ خان صاحبؓ اور ان کے بڑے بھائی حضرت میاں غلام محی الدین صاحبؓ بھی حضو رؑ کی زیارت اور شرف ملاقات کے لیے بھیرہ سے جہلم گئے تھے۔(الفضل ربوہ ۶؍جنوری ۲۰۱۶ء ) سرگودھا شہر کے افتتاح کے موقع پر حکومت نے علاقہ کے کئی رئوسا و امراء کو مدعو کیا۔ اُن میں حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ بھی شامل تھے۔ ۱۹۱۱-۱۲ء میں حضرت خلیفہ اولؓ نے بھیرہ میں حالات کے مدنظر اپنے مکان جو غیر احمدیوں کی مسجد سے ملحق تھا کو احمدیہ مسجد نور تعمیر کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور اس مسجد کی تعمیر حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ کی نگرانی میں ہوئی۔ (بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحہ۱۱۳) حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ۲۶؍نومبر ۱۹۵۰ء کو ربوہ سے حضرت خلیفہ اولؓ کے وطن مالوف بھیرہ براستہ سرگودھا، بھلوال، نون تشریف لے گئے۔ بھیرہ میں حضورؓ نے حضرت خلیفہ اولؓ کا مطب دیکھنے کے لیے جاتے ہوئے حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ کے گھر واقع جیتے والا میدان میں بھی ان کے ایک غیر احمدی بیٹے محمد رمضان صاحب کی التجا پر اپنے مبارک قدم رکھے اور حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ کا کمرہ بھی دیکھا۔ (تفصیل انصارالدین برطانیہ ستمبر و اکتوبر ۲۰۱۷ء صفحہ ۶) جماعت احمدیہ بھیرہ کے ایک سابقہ صدر مکرم ملک محمد افضل صاحب مرحوم(ربوہ)نے خاکسار کو بتایا تھا کہ حضرت جمعہ خان صاحبؓ کے پلنگ پر حضرت خلیفہ ثانیؓ چند لمحے بیٹھے اور اس موقع کا فوٹو انہوں نے بنایا تھا۔ حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ پنجگانہ نمازیں التزام کے ساتھ اور تہجد باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ روزانہ تلاوتِ قرآن کریم کرنا، کوئی نہ کوئی حدیث حضرت رسول مقبول ﷺ بذریعہ الحکم، ریویو آف ریلیجنز پڑھنا اور مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرنا اپنی حیات کا مقصود سمجھتے تھے۔ انہی امور کی نصیحت اپنے عزیز و اقارب کو کرتے تھے۔ ضرورت مندوں کی مالی اور اشیائے ضرورت کی خرید میں رازداری کے ساتھ مدد کرتے تھے۔ اپنی دونوں بیٹیوں کو ایک ایک گھر ھبہ کیا۔آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، خلافت احمدیہ اور بزرگان سلسلہ سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔ جماعتی چندوں کی تحاریک میں حصہ لیتے۔ ہمارے بزرگوں کی روایت ہے کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب کی اشاعت کے لیے بھی جماعتی اعلان کے مطابق چندوں میں حصہ لیا۔ یہ ۱۹۵۰؍۶۰ء کی دہائیوں کی بات ہے کہ بھیرہ اور راولپنڈی سے بعض ہمارے رشتہ دار صحابی مثلاً حضرت میاں خدا بخش صاحبؓ (بھیرہ ) حضرت میاں محمد حیات صاحبؓ (مکرم کیپٹن ریٹائرڈ محمد اسحاق صاحب مرحوم (راولپنڈی) کے والد ) ہمارے گھر آکر ہماری دادی صاحبہ مرحومہ کو کہا کرتے تھے کہ وہ اس گھر میں اُن کے والد حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ کے ذکر خیر کے لیے آتے ہیں بھیرہ کے لوگ اُن کا نام ادب و احترام سے لیا کرتے تھے۔(روایت مکرم کرم الٰہی چوہان صاحب مرحوم (راولپنڈی ))ایک غیر احمدی بزرگ جناب خدا بخش صاحب (خاشہ صاحب ) بھیرہ کہتے تھے کہ جمعہ خان صاحب ایک فرشتہ سیرت انسان تھے۔ حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ کی اولاد میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ ان میں سے بعض کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔ مکرم ماسٹر عبدالکریم صاحب مرحوم (ولادت ۱۸۹۰ء وفات ۱۹۷۳ء) حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ کے بڑے بیٹے تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول کوٹ ادو میںڈرائنگ ماسٹر رہے۔ احمدیت کے شیدائی تھے۔ تبلیغ عمدہ پیرایہ میں کرتے تھے۔ بڑے دعا گو بزرگ تھے۔ دوسرے بیٹے مکرم میاں عبدالرشید صاحب جو لاہور کے کسی تھانہ میں SHOتھے۔ ان کی زندگی مختصر تھی۔ ۱۹۳۲ء میںبعمر ۲۹؍سال وفات پائی۔سب سے چھوٹے بیٹے بشارت احمد صاحب تھے (ولادت ۱۹۱۴ء وفات ۱۹۶۹ء ) بڑے مخلص، خدمت دین اور تبلیغ کا جذبہ رکھتے تھے۔ محکمہ تعلیم میں ملازمت کی (بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحہ۱۱۳) خاکسار کوخوب یاد ہے کہ ایجوکیشنل ڈائریکٹوریٹ راولپنڈی ڈویژن مری روڈ راولپنڈی میں ان کا دفتر تھا۔ دفتر کے باہر نام کی تختی پر لکھا تھا’’شیخ بشارت احمد احمدی ہیڈ کلرک‘‘۔ حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ کی بڑی بیٹی مکرمہ بیگم بی بی مرحومہ خاکسار کی دادی نیک سیرت خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں کے درجات بلند فرمائے۔ آمین آخر میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ خاکسار ان احباب کا منون ہے کہ جنہوں نے اس مضمون کی تیاری میں بعض قیمتی دستاویزات کی کاپیاں مہیا کیں اور ضروری مشورے بھی دیے۔ اللہ تعالیٰ سب کواس کا اجر دے اور مقبول خدمات سلسلہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (محمد رفاقت احمد۔ یوکے) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: سید محمود احمد شاہ صاحب کی یاد میں