حدیث میں آیا ہے کہ جب تم دجال کو دیکھو تو سورۂ کہف کی پہلی آیتیں پڑھو اور وہ یہ ہیں: اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَلَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا۔ قَیِّمًا لِّیُنۡذِرَ بَاۡسًا شَدِیۡدًا مِّنۡ لَّدُنۡہُ…وَّیُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ وَّلَا لِاٰبَآئِہِمۡ کَبُرَتۡ کَلِمَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا کَذِبًا۔(الکہف ۲ تا ۶) ان آیتوں سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال سے کس گروہ کو مرا درکھا ہے (کنزالعمال مطبوعہ حیدر آباد دکن ۱۳۱۴ھ۔ (ناشر)) اور عِوَج کے لفظ سے اس جگہ مخلوق کو شریک الباری ٹھہرانے سے مراد ہے جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ٹھہرایا ہے۔ اور اسی لفظ سے فیج اعوج مشتق ہے۔ اور فیج اعوج سے وہ درمیانی زمانہ مراد ہے جس میں مسلمانوں نے عیسائیوں کی طرح حضرت مسیح کو بعض صفات میں شریک الباری ٹھہرا دیا۔ اس جگہ ہر ایک انسان سمجھ سکتا ہے کہ اگر دجال کا بھی کوئی علیحدہ وجود ہوتا تو سورۃ فاتحہ میں اُس کے فتنہ کا بھی ذکر ضرور ہوتا اور اس کے فتنہ سے بچنے کے لئے بھی کوئی علیحدہ دعا ہوتی مگر ظاہر ہے کہ اس جگہ یعنی سورۃ فاتحہ میں صرف مسیح موعود کو ایذا دینے سے بچنے کے لئے اور نصاریٰ کے فتنے سے محفوظ رہنے کے لئے دعا کی گئی ہے۔ حالانکہ بموجب خیالات حال کے مسلمانوں کا دجال ایک اور شخص ہے اور اس کا فتنہ تمام فتنوں سے بڑھ کر ہے تو گویا نعوذ باللہ خدا بھول گیا کہ ایک بڑے فتنہ کا ذکر بھی نہ کیا اور صرف دوفتنوں کا ذکر کیا ایک اندرونی یعنی مسیح موعود کو یہودیوں کی طرح ایذا دینا دوسرے عیسائی مذہب اختیار کرنا۔یا درکھو اور خوب یاد رکھو کہ سورۃ فاتحہ میں صرف دوفتنوں سے بچنے کے لئے دعا سکھلائی گئی ہے (۱) اوّل یہ فتنہ کہ اسلام کے مسیح موعود کو کا فرقرار دینا۔ اس کی توہین کرنا ۔ اس کی ذاتیات میں نقص نکالنے کی کوشش کرنا۔ اس کے قتل کا فتویٰ دینا جیسا کہ آیت غَيْرِالْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں انہی باتوں کی طرف اشارہ ہے(۲) دوسرے نصاریٰ کے فتنے سے بچنے کے لئے دعا سکھلائی گئی اور سورۃ کو اسی کے ذکر پر ختم کر کے اشارہ کیا گیا ہے کہ فتنۂ نصاریٰ ایک سیلِ عظیم کی طرح ہوگا اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں۔ (تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۱۰تا۲۱۲) مزید پڑھیں: قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہئے