شہادت کا درجہ پانے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’جس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔ اس نے پہلے ازل سے ہی ایسے آدمی رکھے ہیں جو بکلّی صحابہؓ کے رنگ میں رنگین اور انہیں کے نمونہ پر چلنے والے ہوں گے اور خدا کی راہ میں ہر طرح کے مصائب کو برداشت کرنے والے ہوں گے اور جو اس راہ میں مرجائیں گے وہ شہادت کا درجہ پائیں گے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۹ صفحہ ۲۸۶، ایدیشن ۲۰۲۲ء) عبادت میں لذّت حاصل کرنے کا طریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام عبادت میں لذت حاصل کرنے کے طریق کے متعلق فرماتے ہیں: ’’یاد رکھو کہ جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے اپنی محبوب چیزوں کو جو خدا کی نظر میں مکروہ اور اس کے منشا کے مخالف ہوتی ہیں چھوڑ کر اپنے آپ کو تکالیف میں ڈالتا ہے تو ایسی تکالیف اٹھانے والے جسم کا اثر روح پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی اس سے متاثر ہو کر ساتھ ہی ساتھ اپنی تبدیلی میں لگتی ہے یہاں تک کہ کامل نیاز مندی کے ساتھ آستانہ الوہیت پر بے اختیار ہو کر گر پڑتی ہے یہ طریق ہے عبادت میں لذّت حاصل کرنے کا۔‘‘ (ملفوظات جلد ۴ صفحہ۸۱۔ ایڈیشن ۲۰۲۲ء) زیارتِ قبور کا صحیح طریق حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے زیارت قبور کے متعلق فرمایا: ’’قبرستان میں ایک روحانیت ہوتی ہے اور صبح کا وقت زیارتِ قبور کے لیے ایک سنت ہے۔ یہ ثواب کا کام ہے اور اس سے انسان کو اپنا مقام یاد آجاتا ہے۔ انسان اس دنیا میں مسافر ہے۔ آج زمین پر ہے تو کل زمین کے نیچے ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان قبر پر جاوے تو کہے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ۔‘‘ (ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۱۳، ایڈیشن۲۰۲۲ء) اہل اللہ کا شدید احساس ذمہ داری ایک دفعہ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے بخاری کتاب الایمان کا درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ایک دفعہ حضرت (مرزا صاحب) کے قریب کے مکان میں کسی شادی کی تقریب پر ایک رقاصہ منگوائی گئی جو رات بھر ناچتی رہی۔ حضرت کو خبر ہوئی۔ آپ نے دریافت کیا کہ اس کو رات بھر کا کیا ملا ہے۔ معلوم ہوا صرف پانچ روپے ۔ صبح فرمایا کہ میں تو رات بھر شرمندہ ہی رہا کہ یہ پانچ روپے کے واسطے کتنی محنت کر رہی ہے۔ ہم اپنے اللہ تعالیٰ، محسن، مربی سے ہزار در ہزار لا تعد اد و لاانتہا تحفے اور انعام پا کر اتنی محنت نہیں کرتے۔ اس طرح جب رات کو چوکیدار کی آواز سنتا ہوں تو شرمندہ ہو جاتا ہوں کہ چار پانچ روپے ماہانہ پا کر یہ رات بھر پہرہ دیتا ہے۔ چھوٹی راتوں میں آرام نہیں کرتا۔ سردی بارش کی پروا نہیں کرتا۔ ہم اس کے بالمقابل کس قدر غافل سوتے ہیں۔انسان خود ہی اپنے دل میں انصاف کرے۔‘‘(ضمیمہ اخبار بدر ۱۴ اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۱۲) اسلام اور سائنس حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اسلام جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے سائنس سے جو خداتعالیٰ کے فعل کی تشریح ہے کسی صورت میں ٹکرا نہیں سکتا۔ کیونکہ سائنس کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ وہ خواصِ اشیاء معلوم کرے اور خواصِ اشیاء کے معلوم ہونے پر اسلام کی صداقت ثابت ہو گی۔ ‘‘ (تفسیر کبیر جلد۱ صفحہ۳۹۱۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء) قرآن شریف پڑھنے کا طریق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قرآن شریف پڑھنے کے طریق کے متعلق فرماتے ہیں: ’’بعض مسلمان بزرگ با وجود اس کے کہ ان کو قرآن شریف حفظ ہوتا تھا وہ قرآن شریف کو کھول کر اسے آنکھوں سے دیکھتے تھے، زبان سے پڑھتے تھے اور ساتھ ساتھ انگلی چلاتے جاتے تھے ۔ کسی ایسے ہی بزرگ سے جب کسی نے پوچھا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ جب آپ کو قرآن شریف حفظ ہے تو پھر قرآن شریف دیکھ کر کیوں پڑھتے ہیں اور اگر قرآن شریف دیکھ کر پڑھتے ہی ہیں تو ساتھ ساتھ منہ سے کیوں دُہراتے جاتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ انگلی ہلاتے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے جواباً کہا کہ میاں! خداتعالیٰ کے سامنے ہر چیز کا جائزہ ہوگا۔ اگر میں نے حافظہ کے ذریعہ پڑھا تو صرف دماغ عبادت گزار ہو گا، جب خدا تعالیٰ نے مجھے آنکھیں دی ہیں تو یہ عبادت گزار کیوں نہ ہوں اور زبان دی ہے تو وہ عبادت گزار کیوں نہ ہو اس لئے قرآن شریف دیکھ کر پڑھتا ہوں اور زبان سے دہراتا جاتا ہوں اور ساتھ ساتھ انگلی بھی رکھتا چلا جاتا ہوں تا کہ انگلی بھی عبادت گزار ہو جائے۔ تو جتنی حِسیں زیادہ کام کرتی چلی جاتی ہیں ثو اب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔”(انوار العلوم جلد ۱۸ صفحہ۱۴۰۔۱۴۱) زندہ خدا کا زندہ نشان محترم شیخ محمد حسن صاحب مرحوم آف لندن (وفات ۵ فروری ۲۰۰۳ء) کی بیان کردہ ایک ایمان افروز روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں: ’’احمدیت کی برکت سے مجھے خداتعالیٰ نے کئی اعجازی نشان دکھائے۔ یعقوب نامی ایک شخص دہریہ خیالات رکھتا تھا۔ ایک دن اُس نے طنزاً کہا کہ کتنی شدید گرمی ہے، تم اپنے خدا سے کہو کہ بارش برسا دے۔ پھر وہ پیچھے ہی پڑ گیا۔ خاکسار نے اُسے سمجھایا کہ خدا تعالیٰ ہماری خواہشوں کا پابند نہیں ہے۔ لیکن وہ شوخی اور ضد میں اتنا بڑھا کہ میری طبیعت دعا کی طرف مائل ہو گئی۔ اس رات بادل آئے، گرج چمک ہوئی لیکن بارش نہ ہوئی۔ میرا خدشہ درست ثابت ہوا کہ صبح جب میں کام پر پہنچا تو اُس نے طعنہ دیا کہ رات تمہارا خدا گرجا تو بہت لیکن برسا نہیں۔ پھر مسلسل طنز کرکے اُس نے میرا بیٹھنا محال کردیا تو مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ شدید گرمی میں باہر نکل کر میں نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کو اُس کی غیرت کا واسطہ دے کر دعا کی۔ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ نہ جانے کہاں سے بادل آئے اور میرے چہرے پر قطرے گرنے لگے۔خاکسار نے زوردار بارش کی التجا کی تو اتنی زور سے بارش ہوئی کہ وہ بھی بےاختیار بول اُٹھا کہ میں مان گیا ہوں کہ تمہارا خدا زندہ ہے۔ یہ بھی کہا کہ ایسا سلوک صرف مرزا صاحب کے ما ننے والوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔‘‘(الفضل ڈائجسٹ، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل لندن ۴؍نومبر۲۰۲۴ء) ٭…٭…٭