اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط۱۶۔گذشتہ سے پیوستہ) الفضل کے قدیم ترین کارکن روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں دفتر الفضل کے قدیم ترین کارکن محترم چودھری غلام رسول صاحب کا تعارف (مرتبہ:محمد رئیس طاہر صاحب) شامل اشاعت ہے۔ آپ گذشتہ ۵۸سال سے دفتر الفضل سے منسلک ہیں اور اب بھی جبکہ آپ کی عمر۷۴سال ہے، روزانہ اپنے گھر واقع احمدنگر سے سائیکل پر دفتر آتے ہیں۔ آپ پیدائشی احمدی ہیں۔ ۱۹۳۹ء میں رام غوث گڑھ ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام مکرم شیر محمد صاحب اور والدہ کا نام مکرمہ زینت بی بی صاحبہ تھا۔ شیرمحمد صاحب کے کزنز نے احمدیت قبول کی اور ان کو بھی جلسہ سالانہ پر قادیان لے گئے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی۔ مکرم غلام رسول صاحب نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعداحمد نگر میں رہائش اختیار کی اور ۱۹۵۴ء میں جامعہ احمدیہ میں بطور مددگار کارکن خدمت کا آغاز کیا۔ قریباً ایک سال بعد یکم نومبر۱۹۵۵ء سے روزنامہ الفضل میں تعینات ہوئے۔ ۱۹۶۶ء سے لے کر۱۹۸۲ء تک آپ ہر روز حضر ت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی صحت کے متعلق اطلاع لے کر آنے کی ڈیوٹی دیتے رہے۔ آپ اطلاع لے کر آتے تب الفضل کے ٹائٹل پیج کی کاپی تیار ہوتی جسے آپ خود ہی کاپی پریس میں چھوڑ کر آتے۔ حضورؒ کے علاوہ حضرت صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اور حضرت صاحبزادی امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کی صحت کی اطلاع بھی آپ حاصل کرتے۔ یہ اطلاعات محترم ڈاکٹرمرزا منور احمد صاحب تحریر فرمایا کرتے تھے۔ ………٭………٭………٭……… الفضل سے وابستہ خوبصورت یادیں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم محمد اشرف کاہلوں صاحب رقمطراز ہیں کہ خاکسار علیٰ وجہ البصیرت کہہ سکتا ہے کہ الفضل اپنے مقاصد کی نہایت اعلیٰ رنگ میں زمانے کی ضرورتوں کے عین مطابق تکمیل کر رہا ہے۔ خاکسار کا اس اخبار سے مئی ۱۹۷۳ء سے تعلق چلا آرہا ہے جب مجھے احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس وقت مَیں B.A کا طالبعلم تھا ۔ میرے گائوں دھیروکے ضلع ٹوبہ میں بذریعہ ڈاک یہ اخبار آتا تھا۔ ہمارے استاد مکرم مولوی محمد نعیم صاحب انصاری کے بیٹے نصراللہ صاحب باقاعدگی سے پرچہ ڈاک خانہ سے لاتے اور احباب اس سے استفادہ کرتے۔ خاکسار بھی اپنی روحانی تشنگی دُور کرتا۔ بلکہ اخبار الفضل سے ایک قلبی لگائو ہوگیا تھا اس لیے شدت سے اس کی آمد کا انتظار رہتا۔ دیگر ادبی و علمی اور دینی موضوعات کے علاوہ جماعتی تحریکات، ترقیات اور سرگرمیوں کا علم ہوتا رہتا تھا۔ خلفائے احمدیت کے خطبات جمعہ اور دیگر خطابات پڑھنے کا موقع میسر آتا۔ پھر ایک وقت آیا کہ الفضل کے ساتھ قلمی رشتہ قائم ہوگیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ الفضل کے جو فوائد مجھے ملے اُن میں نثر نگاری میں تربیت اور اسلوبِ بیان میں راہنمائی کے علاوہ مطالعہ کا ذوق بھی ہے۔ نیز یہ اخبار تبلیغ کا ذریعہ ہے۔ دورانِ ملازمت اپنے رفقائےکار کو اُن کے پسندیدہ مضامین شائع ہونے پر پرچہ اُن کو پڑھنے کے لیے دیتا تو وہ خوشنودی کا اظہار کرتے۔ اس کے ٹھوس معلوماتی مضامین معرفت و عرفان کا خزینہ اور حقائق و دقائق سے پُر ہوتے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے طرز استدلال سے آگہی حاصل ہوئی اور پھر مطالعہ کتب سلسلہ نے اسے مزید روشنی عطا کی۔ جماعت احمدیہ کا علم کلام جو حضرت مسیح موعودؑ کا تخلیق کردہ ہے۔ اس کی جھلک کا عکاس الفضل ہی ہے۔ یہی وہ طرز استدلال ہے جس نے صلیب کو پاش پاش کیا ہے اور دجالیت کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ اسلام کا حسین و خوبصورت، خوشنما اور دلرُبا چہرہ دنیا کو دکھلا دیا ہے۔ الفضل کے ذریعے مجھے قلمی جہاد میں شرکت کا موقع ملتا رہا ہے۔ یہ بچوں کی تربیت اوراُن میں شوقِ مطالعہ پیدا کرنے میں بہت مدد کرتا ہے۔ اس میں شائع ہونے والے ذاتی اعلانات باہمی اخوّت پیدا کرتے ہیں۔ المختصر یہ کہ الفضل نے میری زندگی پر ہر لحاظ سے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم ڈاکٹر مطیع اللہ درد صاحب (لندن) رقمطراز ہیں کہ ۱۰؍ستمبر۱۹۳۴ء کو برکت اللہ صاحب کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کی پیدائش کی خبر ایک ہفتے بعد الفضل میں شائع ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نام مطیع اللہ عطا فرمایا تھا۔ بہت بچپن سے ہی مَیں نے الفضل کو پڑھنا شروع کردیا تھا یعنی مَیں ۷۵؍سال سے الفضل کا قاری ہوں۔ گو دیگر ذرائع ابلاغ بھی ترقیاتِ زمانہ کے ساتھ معرض وجود میں آتے رہے ہیں لیکن جو مقام اور عظمت الفضل نے میرے دل و دماغ میںبٹھائی ہے وہ کسی اَور کی نہیں ہوسکی۔ اب بھی جب تک الفضل پڑھ نہ لوں ایک بےچینی سی رہتی ہے۔ مختلف ممالک مثلاً فجی، نیوزی لینڈ، برطانیہ وغیرہ میں رہائش کے دوران تبلیغ اور تربیت کے کاموں میں یہ ہمیشہ میرا ممدّ رہا ہے۔ تاریخ احمدیت محفوظ کرنے میں الفضل کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ دنیابھر کے احمدیوں کو ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رکھتا ہے گویا ہم سب ایک ہاتھ پر اکٹھے ہیں۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرمہ سیّدہ بشریٰ خالد صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ ناروے بیان کرتی ہیں کہ اپنی ناسمجھی کی عمر میں ماں باپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے اورکھانا کھاتے ہوئے اُن کے ہاتھ میں چند کاغذ دیکھتی جنہیں پڑھ کر وہ کوئی نہ کوئی دینی یا تربیتی بات کرتے۔ شعور کی عمر ہوئی تو یہ باتیں علم کی صورت دماغ میں محفوظ ہونے لگیں۔ ناصرات کی کلاس میں کوئی سوال ہوتا تو جواب فوراً ذہن میں آجاتا۔ پھر خود بھی الفضل پڑھنے کی طرف توجہ ہونے لگی۔ آخری صفحہ پر کچھ باریک سا لکھا ہوتا جو اکثر سمجھ نہ پاتی۔ابا جان نے پوچھنے پر بتایا کہ یہ وصیت کے حوالے سے منظوری کا ذکر اور دعا کے طور پر لکھا جا تا ہے۔ پھر انہوں نے وصیت کے بارے میں بتایا۔یہ بیج دل میں بو یا گیا اور جیسے ہی سو لہ سال کی ہوئی تو نظامِ وصیت میں شامل ہوگئی۔ ایک دفعہ سکول سے دیر سے گھر آئی تو بہت بھوک لگی تھی۔ کھا نا کھانے بیٹھ گئی تو عصر کی نماز لیٹ ہوگئی۔ پھر الفضل پڑھنے بیٹھی تو اُس میں نماز کے حوالے سے مضمون میں درج حضرت مسیح موعودؑ کے اِن الفاظ نے جادو کا کام کیا کہ کام کے واسطے نماز نہ چھوڑو بلکہ نماز کے لیے کام چھوڑدو۔ خداتعالیٰ نے ایسے سنبھالا کہ وہ دن اور یہ دن پھر سُستی نہیں ہوئی۔ ناروے آئی تو الفضل کی کمی کا شدّت سے احساس ہوا چنانچہ یہاں بھی الفضل لگوالیا۔ لجنہ کے کاموں میں، تقاریر تیار کرنے میں بہت ممد رہا۔ آج میرے چار بچے ہیں۔ ہم کھانا کھانے بیٹھیں یا باجماعت نمازکے بعد بیٹھیں تو اس مبارک اخبار کے حوالے سے کوئی ضرور ذکر ہو تا ہے۔ چاہے سیرت کے واقعات ہوں، تحریکات ہوں یا دعائیہ اعلان ہوں۔ ڈھیروں رحمتیں ہوں اس وجود پر جس نے اس مبارک اخبار کا اجرا کیا اور اُن تمام مبارک خواتین پر جو اپنے زیورات بیچ کر اِس میں معاون و مدد گار ہوئیںاور ہمارے ان بزرگوں پر جنہوں نے اِس کی طرف ہمارا رجحان بڑھایا۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم صوفی محمد اکرم صاحب بیان کرتے ہیں کہ عموماً لوگوں کو پرانے الفضل سنبھالنے کا مسئلہ ہوتا ہے۔ مگر مجھے حضرت مرزا عبدالحق صاحب مرحوم کی لائبریری دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں الفضل کی تمام جلدیں ترتیب سے رکھی تھیں (خواہ وہ بو جہ مجبوری کسی دوسرے نام سے بھی شائع ہوا ہو۔) ۴؍اکتوبر۱۹۷۴ء کو جب ان کے مکان کو آگ لگائی گئی اور بہت سارا سامان جل گیا مگر یہ خزانہ محفوظ رہا۔ قادیان سے ہجرت کے بعد ہم سیالکوٹ آگئے تھے۔ گھر کے سامنے ایک شریف النفس غیراز جماعت دوست شیخ عبدالغنی صاحب کا لکڑیوں کا ٹال تھا۔ ہاکر ہمارا الفضل وہاں دے جاتا تھا۔ سارا دن وہاں آنے والے اُسے پڑھتے اور شام کو ہمارے پاس پہنچتا۔ ۱۹۵۷ء میں ہم ربوہ آگئے تو کچھ عرصے بعد والد صوفی محمد عبداللہ مرحوم بیمار ہوگئے تو اکثر مَیں بلند آواز سے ان کو الفضل سناتا۔ اس مشق نے آئندہ زندگی میں بہت کام دیا۔ زبان و بیان کا ملکہ حاصل ہوا اور کسی بھی سٹیج سے تقریر کرنا مشکل نہ رہا۔ لاہور میں تعیناتی کے دوران دفتر میں الفضل اخبار بھی دیگر اخبارات کے ساتھ آتا تھا۔ سب اخبارات دفتر کے ہیڈ محترم ایس اے نقوی صاحب (MBE)کے پاس جاتے جنہیں پڑھ کر وہ ان پر دستخط کرتے۔ پھر یہ اخبار تمام دفتر میں گھومتے پھرتے۔ الفضل میری ٹیبل پر اگلی صبح تک رہتا۔ کبھی کسی کو الفضل کے متعلق غلط بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ کیونکہ میں کہتا تھا ہر کوئی اپنی مرضی کا اخبار منگواتا ہے، اس لیے یا تو باقی اخبارات بھی بند کرو یا پھر جب تک باقی اخبارات دفتر میں آتے ہیں الفضل بھی آئے گا۔ اکثر الفضل ایک تعارف کا موجب ہوتا اور لوگ احمدیت کے متعلق گفتگو کرلیتے۔ وہ زمانہ بھی آیا جب الفضل چھپنے سے قبل سنسر والوں کو دکھایا جاتا تو وہ اس پر لائنیں لگا کر کانٹ چھانٹ کرتے۔ الفضل پھر اسی شکل میں شائع ہوجاتا اور جب ہمارے پاس پہنچتا تو عجیب لطیفہ ہوتاکہ آدھے سے زیادہ اخبار پر لائنیںتو لگی ہوتیں مگر نیچے سے پڑھا بھی جاتا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ۱۹۸۳ء کے ایک خطاب میں حسد کے حوالے سے فرمایا تھا کہ دشمن کا حسد کسی اَور چیز پر نہ چل سکے تو ہماری ڈاک پر ہی چل جاتا ہے۔ چنانچہ ہمارا الفضل بھی اسی حسد کا شکار ہوگیا۔ محکمہ ڈاک کے کارکنان نے الفضل کی روحانی نہر کو بند کرنے کے لیے ربوہ سے ہی اس کے بنڈل اِدھر اُدھر کرنا شروع کردیے۔ جب الفضل کے پرچے ملنا بند ہوگئے تو دفتر الفضل سے رابطہ کرنے پر حقیقت معلوم ہوئی۔ بہرحال روحانی آبپاشی کے لیے جو نہر حضرت مصلح موعودؓ نے جاری فرمائی تھی سفلی پھونکوں سے اسے روکنا ممکن نہیں چنانچہ ہم نے چھ اخباروں کا بنڈل بذریعہ کوریئر منگوانا شروع کردیا۔ پھر الحمدللہ کہ انٹرنیٹ نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم فرید احمد صاحب رقمطراز ہیں کہ مَیں پکوائی کا کام کرتا ہوں اور گرمیوں میں ہمارا کام کم ہوتا ہے۔ اگست۱۹۹۵ء کی بات ہے کہ میرے پاس صرف پانچ صد روپے تھے جو کہ کئی دن سے مَیں بچاکر رکھ رہا تھا ۔ایک دن الفضل کا نمائندہ گھر آیا اور بتایا کہ میرا پانچ سو روپے چندہ بقایا ہے۔ مَیں نے سوچا کہ میرے پاس ۵۰۰؍روپے ہی ہیں اگر مَیں نے یہ بھی دے دیے تو مَیں کیا کروں گا اور پیسے آنے کی کوئی امید بھی فی الحال نہیںہے۔پھر میںنے سوچا کہ اللہ مالک ہے۔ چنانچہ چندہ الفضل ادا کردیا۔ ابھی مَیں رسید پکڑ کر گھر کے باہر ہی تھا کہ ایک آدمی آیا جس کا مَیں نے تین سال قبل کام کیا تھا اور وہ پیسے نہیں دے رہا تھا اور میںنے چکر لگا لگا کر ناامید ہو کر اُس کی طرف جانا چھوڑ دیا تھا۔ اُس نے پہلے معذرت کی اور پھر ڈیڑھ ہزار روپے پکڑائے جو اُس کی طرف بقایا تھے۔ وہ چلا گیا تو میرے ایک ہاتھ میں الفضل کی رسید اور دوسرے ہاتھ میں ڈیڑھ ہزار روپے تھے اور میری نظروں کے سامنے الفضل کا وہ نمائندہ بھی گلی میں جارہا تھا اور یہ رقم دینے والا بھی۔ مَیں نے خداتعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اُس کے بعد سے آج تک کبھی الفضل کا بقایا نہیں ہونے دیابلکہ کئی دوستوں کو الفضل اخبار لگوا کردی اور اس کے پڑھنے کی طرف بھی دوستوں کو توجہ دلاتا رہتا ہوں۔ ………٭………٭………٭……… مزید پڑھیں: لہو رستی کلائیاں