https://youtu.be/PdqdXL-HA7o ٭… ہر قسم کے ظاہری اسباب کر نے کے بعد دعا کی طرف متوجہ ہوئے، اور تیاری کے آغاز سے لے کر تبوک کی طرف روانگی تک یہ دعا کرتے رہے :اَللّٰهُمَّ اِنْ تُهْلَكْ هٰذِهِ الْعِصَابَةُ فَلَنْ تُعْبَدَ فِیْ الْاَرْضِ کہ اے خدایا! اگر یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک ہو گئی تو پھر اِس روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا ٭…عجیب اتفاق ہے کہ آنحضرتؐ کے سب سے پہلے غزوہ یعنی غزوۂ بدر کے موقع پر بھی اِس دعا کا ذکر ملتا ہے اور آپؐ کے اِس آخری غزوے کے موقع پر بھی اِسی دعا کا ذکر ملتا ہے ٭… مکرم غلام محیّ الدین سلیمان صاحب مربی سلسلہ انڈونیشیا، مکرم ڈاکٹر محمد شفیق سہگل صاحب نائب وکیل التصنیف تحریک جدید ربوہ اور مکرمہ بشریٰ پرویز منہاس صاحبہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۴؍اکتوبر۲۰۲۵ء بمطابق ۲۴؍اخاء۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۴؍اکتوبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينے کي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: آج بھی مَیں غزوۂ تبوک کےواقعات کی مزید تفصیل بیان کروں گا۔ ایک شخص جَدّ بن قیس کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ یہ بھی منافقین میں سے ایک شخص تھا، جو عبدالله بن اُبی کے بعد منافقین کا ایک دوسرا بڑا لیڈر تھا۔ یہ وہی تھا جس نے صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی بیعت نہیں کی تھی۔اِس نے بھی رسول اللهؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر جنگ پر نہ جانے کا عُذر پیش کیا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللهؐ نے جَدّ بن قیس سے، جو بنو سلمہ کا رئیس تھا، فرمایاکہ اَے جَدّ! کیا تُو اِس سال بنو اَصْفَر یعنی رومیوں کے جہاد میں چلے گا؟ اُس نے کہا کہ یارسول اللهؐ! مجھے رخصت دیں اور فتنے میں نہ ڈالیں۔ خدا کی قسم! میری قوم میرے بارے میں خوب جانتی ہے کہ مجھ سے زیادہ کوئی شخص عورتوں کا چاہنے والا نہیں ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اگر مَیں نے بنو اَصْفَر یعنی رومیوں کی عورتوں کو دیکھ لیا تو صبر نہیں کر پاؤں گا۔اِس پر رسول اللهؐ نے یہ بے ہودہ جواب سُن کر اُس سے اِعراض کیا اور فرمایا کہ ٹھیک ہے، جاؤ تمہیں اجازت ہے۔ اِس کے بیٹے حضرت عبدالله بن جَدّ رضی الله عنہ، جو کہ بدری صحابی تھے اور بہت مخلص تھے، اِس کے پاس آئے اور رسول الله ؐکی دعوت ردّ کرنے کی وجہ دریافت کی، تو اُس نے دیگر عُذر پیش کرتے ہوئے گویا یہ کہا کہ سُپر پاورروم سے جنگ کرنا کوئی دانائی کی بات نہیں ہے۔ یہ ساری بات سُن کر اُس کا مخلص بیٹا ناراض ہو گیا اور کہنے لگا کہ نہیں، الله کی قسم! یہ نفاق ہے جس کی وجہ سے تم جنگ پر نہیں جا رہے ہو۔ اور الله کی قسم! تمہارے بارے میں رسول اللهؐ پر ضرور قرآن نازل ہو گا۔ ایک روایت میں ہے کہ جَدّ بن قیس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اور اِن میں سے وہ بھی ہے جو کہتا ہے مجھے رخصت دے اور مجھے فتنے میں نہ ڈال۔کہا جاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں اِس نے توبہ کر لی تھی اور اچھی توبہ کی تھی اور بعد میں حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں وفات پائی۔ مدینے میں منافقین اور یہود جھوٹی افواہیں پھیلا کر مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی کوشش اور مسلمانوں کو جنگ پر جانے سے روکنے کی بھرپور کوشش کرتےاور اِس کے لیے وہ طرح طرح کے حربے استعمال کرتے تھے۔ اُنہوں نے اپنا ایک مرکز بنایا ہوا تھا، آنحضرتؐ نے اِس مرکز کو ختم کرنے کا حکم دیا۔ گو کہ آنحضرتؐ اپنی رحمت اور شفقت کی وجہ سے اِن لوگوں سے درگُذر فرماتے تھے، لیکن جب نظام کے خلاف کوئی خطرناک سازش ہوتی، تو اِس کو بڑی حکمت لیکن سختی کے ساتھ ختم کرنے کے لیے کارروائی بھی کی جاتی تھی۔ یہ بنیادی اصول یاد رکھنا چاہیے کہ نظام کے خلاف اگر کوئی بات ہو، تو پھر سختی بھی کی جاتی ہے، پھر وہاں نرمی کا سوال نہیں۔ چنانچہ اِسی طرح کی ایک کارروائی اِس موقع پر بھی کی گئی، مگرآنحضرتؐ کی رحمت اور آپؐ کا عفو پھر بھی ایسا غالب آیا کہ آپؐ نے اِن میں سے کسی کو بھی نہ گرفتا رکرنے کاارشاد فرمایا اور نہ ہی کوئی مزید سزا دی، البتہ سازشوں کے اِس اَڈّے یعنی ہیڈکوارٹر کو ختم کر دیا گیا۔ تبوک کے سفر کے لیے ہر کوئی تیاری میں مصروف تھا، مالی قربانی کا سلسلہ بھی جاری تھاتاکہ اخراجاتِ سفر کا انتظام ہو سکے۔غریب و نادار صحابہؓ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے تو تیاری کے لیے اُن کی مدد کی جاتی۔ اسی طرح صاحبِ حیثیت لوگ اُن صحابہؓ کو بھی سواریاں مہیا کر رہے تھے جن کے پاس سواری نہ تھی۔ کیونکہ سواری کے بغیر یہ سفر ممکن بھی نہ تھا اور آنحضرتؐ کا بھی یہ ارشاد تھا کہ ہمارے ساتھ وہی شخص جائے، جو قوّی ہو اور سفر کی مشقّت برداشت کر سکے، اور اُسے سواری اور زادِ راہ میسر ہو۔ اِس موقع پر کچھ صحابہؓ روتے ہوئے آنحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اُنہوں نے آپؐ سے سواری کی درخواست کی اور وہ ضرورت مند تھے۔ رسول اللهؐ نے فرمایا کہ میرے پاس تو اب کچھ بھی نہیںجس پر تمہیں سوار کر سکوں۔ اِس پر وہ روتے ہوئے واپس لَوٹ گئے۔ اُن صحابہؓ کے اخلاص و وفا اور بے بسی کی اِس کیفیت کا بیان الله تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اِس طرح کیا ہے کہ اور نہ اِن لوگوں پر کوئی الزام ہے، جو تیرے پاس اُس وقت آئے، جب جنگ کا اعلان کیا گیا تھا۔ اِس لیے کہ تُو اُن کو کچھ سواری مہیا کر دے۔ تو تُو نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں، جس پر مَیں تمہیں سوار کراؤں، اور یہ جواب سُن کر وہ چلے گئے اور اِس غمّ سے اُن کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے کہ افسوس! اِن کے پاس کچھ نہیں، جسے خدا کی راہ میں خرچ کریں۔ یہ سورۂ توبہ کی آیت ہے۔ بعد میں ان صحابہ کو زاد راہ مہیا ہوگیا اور وہ آنحضرتﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ حضرت ابو موسیٰ الاشعری ؓکے قبیلے کے لوگوں نے بھی حضورؐ کی خدمت میں سواری کے لیے درخواست کی۔ یہ چھ لوگ تھے۔اُنہوں نے آپؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر حضورؐ کی خدمت میں بھیجا۔ اُنہیں بھی آنحضرتؐ نے یہ فرمایا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں جو مَیں تم لوگوں کو دے سکوں۔ اِس پر وہ لوگ روتے ہوئے وہاں سے واپس ہوئے۔ لیکن اِسی دوران آپؐ نے حضرت سَعْد بن عُبَادہؓ سے اونٹ خریدے اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو بُلا بھیجا اور فرمایا کہ یہ اونٹ لے جاؤ اور خود اور اپنے ساتھیوں کو دے دو۔ اِس غزوہ پر جاتے ہوئے مدینے میں قائمقام بنانے کے بارے میں مختلف اقوال ملتے ہیں، ایک قول کے مطابق نبیٔ کریمؐ نے حضرت محمد بن مَسْلَمَہؓ کو مدینے میں اپنا امیر بنایا۔ اِس کے علاوہ حضرت سِباع بن عُرفطہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبدالله بن اُمِّ مکتومؓ کے نام بھی آتے ہیں۔ اِس کی تطبیق یہ ہے کہ یہ چاروں افراد ہی نائب مقرر کیے گئے تھے، لیکن اِن کی ذمہ داریوں میں فرق تھا۔ چونکہ یہ ایک لمبا سفر تھا، اِس لیے آنحضرتؐ نے اپنے اہلِ خانہ کی خبر گیری اور گھریلو ضروریات کی تکمیل کے لیے حضرت علیؓ کو مدینے میں ہی رہنے کا ارشاد فرمایا تھا۔ منافقین، جن کا کام ہی طعن و تشنیع تھا، اِس پر باتیں بنانے لگے کہ یہ نبی کریمؐ کے لیے بوجھ تھے، اِس لیے آپؐ اُنہیں ساتھ لے کر نہیں گئے۔ اِن طعنوں کو سُن کر یا اردگرد منافقین کو دیکھ کر، خود ہی گھبرا کر حضرت علیؓ نےاسلحہ لیا اور آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ آپؐ ابھی مدینے سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر جرف مقام پر ہی مقیم تھے۔ آپؓ نے اپنی فکر اور گھبراہٹ کا ذکر کیا تو آنحضرتؐ نے آپؓ کی دلداری فرماتے ہوئے ایسا فقرہ فرمایا، جو آپؓ کی عظمت اور شان کو چار چاند لگا گیا۔ آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ اے علی! کیا تم خوش نہیں کہ تم میرے لیے ویسے ہی ہو، جیسے ہارونؑ موسیٰ ؑکے لیے سوائے اِس کے کہ تم میرے بعد نبی نہیں۔ تبوک کے لیے مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں لکھا ہے کہ رسول اللهؐ جنگ کی تیاری کے لیے ہر قسم کے ظاہری اسباب کر نے کے بعد دعا کی طرف متوجہ ہوئے اور تیاری کے آغاز سے لے کر تبوک کی طرف روانگی تک یہ دعا کرتے رہے :اَللّٰهُمَّ اِنْ تُهْلَكْ هٰذِهِ الْعِصَابَةُ فَلَنْ تُعْبَدَ فِیْ الْاَرْضِکہ اے خدایا! اگر یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک ہو گئی تو پھر اِس روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ عجیب اتفاق ہے کہ آنحضرتؐ کے سب سے پہلے غزوہ یعنی غزوۂ بدر کے موقع پر بھی اِس دعا کا ذکر ملتا ہے اور آپؐ کے اِس آخری غزوے کے موقع پر بھی اِسی دعا کا ذکر ملتا ہے۔ بہرحال شدید گرمی کے موسم میں، لمبے سفر اور دیگر بہت سےمسائل اور منافقوں کے پراپیگنڈے کے باوجود تیس ہزار کی تعداد میں ایک بہت بڑا لشکر تیار ہو گیا۔ اِس میں دس ہزار گُھڑ سوار تھے۔ یہ آنحضرتؐ کی زندگی میں کسی بھی غزوے کے لیے سب سے بڑا لشکر تھا۔ آپؐ نے غزوۂ تبوک میں سب سے بڑا جھنڈا حضرت ابوبکرؓ کو عطا فرمایا۔ اِس کے علاوہ حضرت زُبَیْر ؓ، حضرت اُسَیْد بن حُضَیْرؓ، حضرت ابو دُجانہؓ یا بعض روایات کے مطابق حضرت حُبَاب بن مُنْذِرؓ کو بھی جھنڈے عطا کیے گئے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللهؐ نے رہبر کے طور پر عَلْقَمَہ بن فغواء خُزَاعِیاور اِس کے والد کو منتخب فرمایا، جو رستوں سے اچھی طرح واقف تھے اور جلد تر صحیح رستے سے لے جاسکتے تھے۔ حضرت کَعْب بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ تبوک کے لیے نبی کریمؐ جمعرات کے دن نکلےاور آپؐ جمعرات کے دن سفر کرنا پسند کرتے تھے۔ خطبہ ثانیہ سے قبل حضورِ انور نے فرمایا کہ اب مَیں کچھ مرحومین کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اِن کا جنازہ بعد میں پڑھاؤں گا۔ پہلا ذکر ہے مکرم غلام محیّ الدین سلیمان صاحب مربی سلسلہ انڈونیشیا کا۔ یہ گذشتہ دنوں ۶۷؍سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔ اِن کے دادا نے ۱۹۳۲ء میں مولانا رحمت علی صاحب مرحوم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مرحوم مزید تعلیم کے حصول کے لیے ربوہ چلے گئے۔ اور وہاں اِن کو جامعہ میں فصلِ خاص میں داخلہ مل گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیحِ الرّابع رحمہ الله کے زمانے میں، جولائی ۱۹۸۵ء میں، یہ جامعہ پاس کر کے واپس انڈونیشیا آگئے۔ آپؒ نے اِن کا تقرر انڈونیشیا میں جکارتہ اور وہاں کے مختلف شہروں میں کیا اور علاقائی مبلغ کے طور پر یہ کام کرتے رہے۔ اِسی طرح مرکزی کمیٹیوں کے بھی یہ ممبر رہے، اِن کا عرصۂ خدمت کم و بیش چالیس سال ہے۔ اِن کے پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔، اِن کے ایک بیٹے مصلح الدین صاحب مربی سلسلہ ہیں اور وہ بھی وہیں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ دوسرا ذکر ہے مکرم ڈاکٹر محمد شفیق سہگل صاحب کا، یہ امیر ضلع ملتان بھی رہے ہیں اور پھر اِس کے بعد نائب وکیل التصنیف تحریکِ جدید ربوہ بھی رہے۔ یہ بھی گذشتہ دنوں وفات پا گئے، انا لله و انا الیہ راجعون۔ مرحوم الله تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ پسماندگان میں تین بیٹے شامل ہیں۔ اِن کے خاندان میں احمدیت اِن کے والد مکرم میاں محمد عمر سہگل صاحب مرحوم کے ذریعے آئی تھی جنہوں نے خلافتِ ثانیہ کے دَور میں احمدیت قبول کی تھی۔ یہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے۔ میٹرک کے بعد وقف کر دیا اور اپنے آپ کو حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں پیش کیا اور آپؓ نے فرمایا کہ تعلیم حاصل کرو۔ اُس وقت فضلِ عمر ریسرچ سینٹر بنانے کا پروگرام تھا۔ بہرحال تعلیم حاصل کرنے کے لیے سائنس میں دلچسپی تھی، تو اِنہوں نے پہلے وہاں سے ایم ایس سی کیمسٹری کی اور پھر یہاں یو کے سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی۔ اور آپ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ آپ کے ایک اُستاد نوبیل پرائز وِنر بھی تھے۔ فوری طور پر ریسرچ انسٹیٹیوٹ تو نہیں بن سکا تھا، اِس لیے حضرت مصلح موعودؓ نے اِن کو وہاں نہیں لگایا اور والد کی درخواست پربا اجازت حضرت مصلح موعودؓ اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو گئے۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی مختلف حیثیتوں میں جماعتی خدمت کی بھی اِن کو توفیق ملی، تقریباً چودہ، پندرہ سال امیر ضلع ملتان خدمت کی توفیق پائی۔ اِسی طرح فرقان فورس میں بھی شامل ہوئے۔ الله تعالیٰ اِن سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ تیسرا ذکر ہے مکرمہ بشریٰ پرویز منہاس صاحبہ کا، پرویز منہاس صاحب یو ایس اے کی اہلیہ تھیں، یہ بھی گذشتہ دنوں وفات پا گئیں۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔ یہ چودھری فضل احمد صاحب سابق مینیجر کریم نگر نصرت آباد جماعتی فارمز کی بیٹی تھیں۔ شادی سے قبل بھی یہ حیدر آبادسندھ میں لجنہ میں کافی خدمات انجام دیتی رہیں، پھر راولپنڈی رہیں، یہاں بھی اِن کو خدمت کرنے کا موقع ملا اور یہ صدر لجنہ تھیں۔ پھر خاوند کے ساتھ امریکہ چلی گئیں تو وہاں بھی اپنی مجلس میں نائب صدر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند، تہجد گزار،متوکّل الیٰ الله، خلافت کی شیدائی، مہمان نواز، ملنسار، نافع النّاس، غریب پرور، بڑی نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ اِن کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن دوسروں کے بچوں سے بڑی شفقت کا سلوک کرتی تھیں۔ الله تعالیٰ اِن سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ٭…٭…٭