https://youtu.be/d9cX7GTQNjI ذکرِ خیر سید میر محمود احمد ناصر صاحب حیدرآباد کینٹ میں واقع فیڈرل گورنمنٹ کالج شہر کے دوسرے تعلیمی اداروں سے بہت مختلف تھا۔ یہاں کے طورطریقے، آداب واطوار اور قواعد و ضوابط مثالی تھے۔ نظم و ضبط نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا اور ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ ہم ایک مثالی ادارے کا حصہ ہیں۔ ہمارے ساتھ پڑھنے والے اکثر لڑکے اور لڑکیاں فوجی گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے جبکہ کالج کے پرنسپل بھی قوانین کے انتہائی پابند اور قواعد پر عمل درآمد کروانے میں مہارت رکھتے تھے۔ وقت کی پابندی لازمی تھی، جوتوں کا چمکدار اور پینٹ شرٹ کا شکنوں سے پاک ہونا ضروری ہوا کرتا تھا۔ کلاس چھوڑنا اور برآمدوں یا کینٹین میں وقت ضائع کرنا سنگین غلطی تصور ہوتی تھی اور ہمیں یہ لگتا تھا کہ ڈسپلن اور نظم و ضبط اسی کو کہتے ہیں۔ ہمارا یہ خیال کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا کیونکہ عمومی طور پر دنیا میں جب نظم و ضبط کی بات کی جاتی ہے تو اسی قسم کی اخلاقی اقدار ذہن میں آتی ہیں لیکن جب ۱۹۸۸ء میں مجھے جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخل ہونے اور ہمارے پیارے پرنسپل محترم میر محمود احمد ناصر صاحب کے زیر سایہ وقت گزارنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ یہ تمام تر خوبیاں اخلاقی بنیادوں میں تو شامل ہیں لیکن اس کے بعد انسان اپنی روحانی ترقی اور نظم و ضبط کے حوالے سے ایک لمبا سفر طے کرنے کے بعد ہی حقیقی معنوں میں اپنے تخلیقی کمال تک پہنچتا ہے۔ہمیں معلوم ہوا کہ جوتوں کو چمکانے کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو کو چمکانا اور صاف کرنا بھی ضروری ہے۔ لباس کو شکنوں اور سلوٹوں سے بچانے کی طرح اپنے دماغ کو بھی مادیت کی شکنوں سے بچانا لازم ہے۔ بدن اور ماحول کی ظاہری صفائی کے بعد روح کی صفائی کا عمل شروع ہوتا ہے اور جب یہ تمام مراحل مکمل ہوجاتے ہیں تو انسان اپنے مقصد حیات کو پا لیتا ہے۔گویاخیالات کے دھارے میں ایک بنیادی تبدیلی تھی جو جامعہ میں پہنچنے کے بعد ہم نے اپنے اندر محسوس کی اور اس تمام تبدیلی کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے محترم میرصاحب کو بنایا جو ہمارے انتہائی شفیق اور مہربان پرنسپل تھے۔ آپ نے ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کو سمجھنے میں مدد دی کہ جسم کو مل مل کے دھونا یہ تو کچھ مشکل نہیں دل کو جو دھووے وہی ہے پاک نزد کردگار میری اور میری طرح کے سینکڑوں دوسرے افراد کی زندگی میں محترم میر محمود احمد ناصر صاحب ایک ایسے خوشبودار پھول کی طرح تھے جن کی صحبت کے اثر نے ہمیں بھی معطر کردیا تھا اور آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیسے آپ نے نہایت سادہ اور عاجزانہ طور طریقوں سے بہت سے خاک آلودہ وجودوں کو تراش خراش کر نیا رنگ دے دیا۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ مکرم میر محمود احمد ناصر صاحب کے اوصاف حمیدہ کے متعلق اپنے خطبہ جمعہ میں تفصیلی حالات بیان فرما چکے ہیں۔ اسی طرح آپ کے بہت سے شاگردوں نے بھی اپنے اپنے تجربات اور مشاہدات کے مطابق آپ کی شخصیت کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے اس لیے زیر نظر مضمون میں خاکسار بھی صرف ان واقعات کا ہی تذکرہ کرے گا جن کا براہ راست محترم میر صاحب اور خاکسار کے ساتھ تعلق ہے کیونکہ آپ جیسی ہمہ گیر شخصیت کا مکمل احاطہ کرنا تو ایک لمبے وقت اور طویل مضمون بلکہ کتاب کا متقاضی ہے۔ آپ کے دن کی کیفیت محترم میر صاحب ہمارے استاد بھی تھے اور پرنسپل بھی۔ بزرگ بھی تھے اور دوست بھی اور گو ہمارا تعارف آپ کے ساتھ جامعہ آنے کے بعد شروع ہوا لیکن چند ہی سال میں یوں محسوس ہونے لگا کہ آپ ہمارے مزاج کا، خاندان کا، بلکہ ہماری ہستی کا ہی ایک حصہ بن گئے ہیں اور آپ کے بغیر ہم سب ادھورے اور نامکمل ہیں۔ بحیثیت طالب علم بہت مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ اگر کسی انتہائی مجبوری کی وجہ سےمیر صاحب جامعہ نہ آسکے تو ہمیں جامعہ بالکل خالی خالی معلوم ہوتا تھا۔پرنسپل کی غیر موجودگی کی وجہ سے ملنے والی آزادی کےابتدائی چند لمحے تو بہت دلچسپ معلوم ہوتے تھےلیکن اس کے فوراً بعد ہی یہ احساس اداسی میں بدل جایا کرتا تھا اور یہ صرف کسی ایک دل کا قصہ نہیں تھا بلکہ آپ کے تمام شاگرد ہی ایسا محسوس کیا کرتے تھے۔ یہ ہماری انتہائی خوش نصیبی تھی کہ جب ہم جامعہ میں داخل ہوئے تو کم و بیش انہی سالوں میں آپ جامعہ کے پرنسپل مقرر ہوئے تھے اور یوں ہمیں ابتدا سے ہی میر صاحب کی بے انتہا شفقت میسر آگئی اور آپ کی رفاقت میں ہماری زندگی کا وہ دور شروع ہوا جسے آج بھی ہم اپنی زندگی کا سنہرا ترین دور قرار دے سکتے ہیں۔ آپ کا عام طور پر یہ معمول تھا کہ نئی کلاس آنے پر تعلیمی سال کے پہلے دن تمام نئے طلبہ کو ہال میں اکٹھا کر لیتے تھے اور انہیں بعض نصائح فرمایا کرتے تھے اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہوا کرتی تھیں جو جامعہ کے قواعد یا معمولات میں ہوتی تھیں اور ایک واقف زندگی کی ذات میں نظر آنی چاہئیں۔ اس لائحہ عمل میں نمازوں کی پابندی، اپنے وقت کا صحیح استعمال، قرآن کریم کی تلاوت اور خلافت سے سچی وفا اور محبت کی نصائح سر فہرست ہوا کرتی تھیں۔ اسی طرح روزانہ اسمبلی کے وقت بھی تلاوت کے بعد آپ کوئی ایک مختصر سی نصیحت کیا کرتے تھے جو طلبہ کو دن بھر یاد بھی رہتی تھی اور اُن کی طبیعتوں میں غیر محسوس طریق پر ایک تبدیلی پیدا کرنے کا باعث بھی بنتی جاتی تھی۔ آپ جامعہ کا وقت شروع ہونے سے کچھ پہلے آ جایا کرتے تھے اور ظہر کی نماز جامعہ میں ادا کرنے کے بعد گھر واپس تشریف لے جاتے تھے لیکن ابتدائی دنوں میں آپ کھیلوں کی نگرانی کے لیے عصر کے بعد دوبارہ جامعہ واپس آتے پھر گھر تشریف لے جاتے اور رات کو سٹڈی ٹائم کی نگرانی کے لیے ایک مرتبہ پھر جامعہ تشریف لایا کرتے تھے اور دار الصدر سے جامعہ تک کا یہ تمام فاصلہ اپنی سائیکل پر ہی تین مرتبہ طے کیا کرتے تھے اور بسااوقات تو رات دیر ہونے پر گھر واپس جایا کرتے تھے۔ جامعہ میں موجودگی کے دوران تمام وقت یا تو آپ تعلیم و تدریس میں مصروف نظر آتے یا جامعہ کے برآمدے میں ٹہلتے ہوئے ہر کلاس کا جائزہ لیتے ہوئے دکھائی دیتے۔ فارغ وقت میں قرآن کریم کی تلاوت اور مختلف علمی مضامین تحریر کرتے رہتے تھے۔ نہایت شفیق پرنسپل ۱۹۸۸ء کے اُن ایام میں ابھی ربوہ میں انٹرنیشنل فون کی سہولت موجود نہیں تھی اور میرے والدین اور تمام بہن بھائی جرمنی میں مقیم تھے۔ اس زمانے میں بیرون ملک سے آنے والی کالز کو سننے کے لیے بھی ربوہ میں کوئی انٹرنیشنل فون موجود نہیں تھا۔ صرف صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر میں ایک فون لائن اِس مقصد کے لیے مہیا کی گئی تھی جس پر بیرون ملک سے آنے والی کالز سنی جا سکتی تھیں اور احباب جماعت کی سہولت کے لیے وہاں باقاعدہ ایک دفتر بنا کر ایک کارکن مقرر کیا گیا تھا۔ ربوہ بھر کے وہ لوگ جن کے عزیز و اقارب اس دور میں بیرون ملک جا چکے تھے، اپنی کال سننے کے لیے وہاں آجایا کرتے تھے۔ میر صاحب کے علم میں تھا کہ میری والدہ ہر ہفتے مجھ سے بات کرتی ہیں اس لیے مجھے مستقل طور پر انہوں نے اجازت دے رکھی تھی کہ ہفتے میں ایک مرتبہ وہاں جا کر کال سن لیا کروں بعد ازاں دو ایک سال کے اندر اندر ہی ربوہ کے تمام فون انٹرنیشنل کال سسٹم کے ساتھ منسلک ہو گئے تو پھر یہ سہولت حاصل ہو گئی کہ جامعہ احمدیہ کے فون نمبر پر بھی کال آ سکتی تھی لیکن ظاہر سی بات ہے دفتری فون پر دفتری اوقات میں لمبی کال نہیں سنی جا سکتی تھی اس لیے میں اپنی یہ درخواست لے کر محترم میر صاحب کے پاس پہنچا کہ اگر عصر کے بعد جامعہ کے دفتر میں مجھے فون سننے کی سہولت مہیا کر دی جائے تو میں اپنی والدہ سے بات کر سکتا ہوں۔ میر صاحب نے بخوشی اس کی اجازت مرحمت فرما دی اور جامعہ میں موجود ہمارے کلرک کو بلا کر کہا کہ ایک دن مقرر کرکے شام کو دفتر کھول دیا کریں تاکہ میں فون سن لوں اور اس کے بعد دفتر بند کر دیا کریں۔ وہ کارکن دو تین ہفتے تو بروقت تشریف لاتے رہے لیکن اس کے بعد ایک ہفتہ ایسا بھی آیا کہ وہ کسی مجبوری کی وجہ سے جامعہ نہیں آ سکے اور میں برآمدے میں کھڑا دفتر میں بجنے والی فون کی گھنٹی کی آواز سنتا رہا اور دل ہی دل میں یہ سوچتا رہا کہ میری والدہ پریشان ہو رہی ہوں گی۔ اگلے دن محترم میر صاحب سے اس امر کا ذکرہوا کہ کل کارکن جامعہ آنا بھول گئے تھے تو بہت پریشان ہو کر کہنے لگے کہ آپ کی والدہ کو تکلیف ہوئی ہوگی۔ فوراً اپنے دفتر کے مددگار سلیم صاحب کو بلایا اور انہیں کہا کہ دفتر پرنسپل کی ایک چابی کی نقل انہیں دے دو۔ میرے لیے یہ امر حیران کن تھا کہ دفتر پرنسپل جس میں داخل ہوتے ہوئے بھی ہم لوگ بہت احتیاط کیا کرتے تھے محترم میر صاحب نے بیک جنبش لب اس کی چابی مجھے مہیا کرنے کا ارشاد فرما دیا اور یوں میرے لیے یہ سہولت ہو گئی کہ مقررہ دن کے مقررہ وقت پر دفتر پرنسپل میں بیٹھ کر میں اپنا فون سن لیا کرتا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ محترم میر صاحب کو اس بات کا کس قدر خیال تھا کہ والدین کے حقوق خصوصاً ماں کی محبت کیا چیز ہوا کرتی ہے۔ اکثر طلبہ کا انٹرویو لیتے ہوئے ہم نے نوٹ کیا کہ میر صاحب امیدوار سے یہ ضرور پوچھتے ہیں کہ بہن بھائیوں میں تمہارا نمبر کیا ہے؟ اگر وہ سب سے بڑا بیٹا ہوتا تو اسے نصیحت کیا کرتے تھے کہ تم گھر میں سب سے بڑے ہو اس لیے تمہیں چاہیے کہ اپنے ماں باپ کا دست و بازو بنو جب کہ دین کی خدمت کے لیے اپنے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی کو بھجواؤ۔ محبت بھرا رشتہ سن ۱۹۹۱ء میں مجھے پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ انگلستان میں شمولیت کا موقع ملا اور وہاں سے اپنی والدہ سے ملاقات کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر جرمنی بھی چلا گیا۔اس سفر پر روانہ ہونے سے کچھ دن پہلے میر صاحب فرمانے لگے کہ تمہیں پتا ہے کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بچے تھے تو انہیں ایک چاکلیٹ ڈرنک بہت پسند تھا اور وہ اسے Valvaltine کہا کرتے تھے۔ میری خواہش ہے کہ اس چاکلیٹ پاؤڈر کے ڈبہ پر کسی طرح ولولٹین لکھوا کر حضور کی خدمت میں بھجوایا جا سکے۔ خاکسار اس وقت تک ربوہ اور لاہور کے بعض پرنٹنگ پریس اور اس شعبے سے منسلک بعض احمدی احباب سے شناسا ہو چکا تھا۔ اس لیے جب میں نے ان سے اس بات کا تذکرہ کیا توانہوں نے یہ کام کرنے کی حامی بھرلی۔ ہم نے انہیں اصل ڈبہ مہیا کر دیا جس کے نمونے کے مطابق انہوں نے دو ایک روز میں ہی ایک ڈبہ تیار کرکے ہمیں بھجوا دیاجس پربہت خوبصورتی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ مکمل الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ جب وہ ڈبہ لے کر میں محترم میر صاحب کے پاس پہنچا اور آپ نے دیکھا کہ وہ ڈبہ تو باقاعدہ پریس سے تیار ہوا ہے تو بہت ہی خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ اب یہ میری طرف سےحضرت صاحب کی خدمت میں بھی تم ہی پیش کرو گے۔ چنانچہ جب خاکسار حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملاقات کے لیے گیا اور دیگر باتوں کے بعد جب میں نے محترم میر صاحب کا دیا ہوا وہ تحفہ پیش کیا تو پیکٹ میں ہونے کے سبب پہلے تو حضورؒ نے اسے ایک طرف رکھ دیا لیکن بعد ازاں میری درخواست پر کہ حضورؒ اسے کھول کر دیکھ لیں حضورؒ نےاسے کھول کر ملاحظہ فرمایا اور کھلکھلا کر ہنس دیے۔ آپ دیر تک ہنستے رہے اور پھر فرمانے لگے کہ میرصاحب کو آج بھی یہ بات یاد ہے۔ چنانچہ اسی بہانے حضورؒ نے مجھے ملاقات کے لیے بہت سا وقت زائد عنایت فرمادیا اور ربوہ ،جامعہ اور میر صاحب کے حوالے سے بہت سی باتیں دریافت فرمائیں اور یوں یہ ملاقات ایک یادگار ملاقات بن گئی۔ اسی سفر کے دوران جرمنی میں خاکسار کو ایک ایسی گھڑی دیکھنے کا اتفاق ہوا جو اُن دنوں ترکی سے آیا کرتی تھی۔ یہ ٹائم پیس یورپ میں رہنے والے مسلمانوں میں بہت زیادہ مقبول تھی کیونکہ اس میں نمازوں کے پانچ وقتوں کا الارم اذان کی صورت میں بجا کرتا تھا۔ بعد میں تو یہ گھڑی پاکستان میں بھی بہت عام ہوگئی اور آج کے دور میں تو یہ چیزیں ہر فون میں ہی مہیا ہیں لیکن اس وقت یہ ایک نادر چیز تھی جو بہت کم لوگوں نے دیکھی تھی چنانچہ مجھے خیال آیا کہ میر صاحب کے لیے تحفے میں یہ ٹائم پیس لے کر چلا جاتا ہوں۔ چنانچہ میں نے وہ گھڑی خرید کر ربوہ پہنچنے پر میر صاحب کو پیش کر دی۔ آپ نے بڑے پیار سے وہ تحفہ قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ میں طلبہ سے تحفے نہیں لیا کرتا لیکن تم میرے خاص شاگرد ہو اس لیے یاد رکھنا کہ میں تمہارے تحفے کو قبول کر رہا ہوں لیکن شاید اگلے ہی دن اچانک کلاس میں ایک کارکن پہنچے اور انہوں نے میرا نام لے کر مجھے بلایا اور کہا کہ پرنسپل صاحب یاد کر رہے ہیں۔ میں میر صاحب کے دفتر میں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں حافظ محمد ابراہیم صاحب جو نابینا تھے اپنے کسی ساتھی کے ساتھ میر صاحب سے ملنے کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے۔ میرصاحب نے مجھے بھی بیٹھنے کا ارشاد فرمایا اور کہا کہ جو تحفہ تم میرے لیے لے کر آئے ہو مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت حافظ محمد ابراہیم صاحب کو ہے اس لیے اگر تمہیں برا نہ لگے تو کیا میں یہ تحفہ حافظ صاحب کو دے سکتا ہوں؟ میں نے عرض کیا کہ میں تو اسی بات پر بہت خوش ہوں کہ آپ نے تحفہ قبول کر لیا ہے اب آپ اس کے ساتھ جو بھی معاملہ کرنا چاہیں وہ آپ کا اختیار ہے۔ میرا یہ جواب سن کر آپ بہت خوش ہوئے اور میرے سامنے وہ گھڑی مکرم حافظ صاحب کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کے بہت کام آئے گی اور مجھے بھی دعائیں دیتے ہوئے رخصت کر دیا۔ ایک دوا جو دعا بن گئی شاید کچھ قریبی احباب کو معلوم ہو کہ محترم میر صاحب کو ایک لمبے عرصے سے معدے میں تیزابیت کی شکایت تھی جس کی وجہ سے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق آپ کو وقتاً فوقتاًکچھ نہ کچھ کھانا پڑتا تھا تاکہ تیزابیت کم رہے۔ ۱۹۹۲ء کی گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران جب میں جرمنی گیا تو میں نے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا کہ انہیں بھی یہی تکلیف تھی جس کے لیے ان کے ڈاکٹر نے ایک بہت مہنگی اور ایک بالکل نئی دوا Losec تجویز کی تھی جوایک لمبی تحقیق کے بعد یورپ میں دو ایک سال پہلے ہی مارکیٹ میں متعارف کروائی گئی تھی۔ یہ دوا بہت مؤثر تھی اور دو چار ہفتے استعمال کرنے سے عام طور پر تیزابیت کی شکایت دور ہو جاتی تھی۔ آج کل تو یہ دوائی Omeprazole کے نام سے بڑی کثرت کے ساتھ ہر ملک میں دستیاب ہے لیکن اس وقت یہ بالکل نئی دوائی تھی جو اس مقصد کے لیے جادو کا سا اثر رکھتی تھی۔ میں نے اپنے بھائی سے کہہ کر اس دوا کی دو ڈبیاں محترم میر صاحب کے لیے بھی منگوا لیں اور ربوہ پہنچ کر تمام تفصیل بتانے کے بعد وہ دوا محترم میر صاحب کو پیش کر دی۔ میر صاحب نے وہ دوائی لے لی اور کہا کہ میں استعمال کر کے دیکھوں گا۔ مارچ میں جب رمضان شروع ہوا تو میر صاحب نے مجھے بلایا اور فرمانے لگے کہ تیزابیت کی وجہ سے میں ایک لمبے عرصے سے روزے نہیں رکھ پا رہا تھا جس کا مجھے شدید افسوس رہا کرتا تھا لیکن یہ دوائی جو تم لے کر آئے تھے واقعی انتہائی مؤثر دوا ہے کیونکہ اس کے کھانے کے بعد اب میں روزے رکھنے کے قابل ہو گیا ہوں اور تمام روزے رکھ رہا ہوں اور اس رمضان میں میں خاص طور پر تمہارے لیے بھی دعا کر رہا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا ذریعہ بنایا ہے۔ خلافت سے وفا کا تعلق ۱۹۹۱ء میں ہفتہ وار ٹرانسمیشن کے بعد ۱۹۹۴ء میں ایم ٹی اے کا باقاعدہ آغاز ہوا تو مجھے میر صاحب نے اس کا نگران مقرر کردیا لیکن یہ نگرانی محض تکنیکی امور تک ہی محدود تھی ورنہ میر صاحب ابتدا سے ہی حضور کے ہر پروگرام کے لیے گھر سے جامعہ تشریف لایا کرتے تھے اور طلبہ کے ساتھ بیٹھ کر پروگرام دیکھا کرتے تھے خواہ وہ پروگرام خطبہ جمعہ کی شکل میں ہو یا کسی خطاب کی صورت میں۔ حضرت خلیفۃ المسیح کے ہر ایک پروگرام میں آپ کی موجودگی جامعہ کے معمولات کا ایک لازمی حصہ تھی اور اس خطاب کے دوران اگر کہیں ہلکی سی بھی آواز سنائی دے جاتی یا کوئی طالب علم کسی ضرورت کے لیے بات کرتا ہوا نظر آ جاتا تو وہ میر صاحب کی ناراضگی کا مورد بنتا۔ آپ بار بار فرمایا کرتے تھے کہ کیا تم نےصحابہ کے نمونے نہیں پڑھے؟ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت احمدیہ کا ادب و احترام اور ایم ٹی اے ہماری زندگیوں کا ایک لازمی حصہ بن گیا جو آج تک اسی طرح سے قائم ہے۔ خلافت احمدیہ سے آپ کی محبت اور جاںنثاری تو ہر جاننے والے پر روز روشن کی طرح عیاں ہے لیکن اس محبت کے ساتھ ساتھ خلافت کا ادب اور احترام بھی ہم نے اپنے انتہائی کمال میں آپ کی ذات میں دیکھا۔ کسی معاملے کے حوالے سے دعا کے لیے کہنے پر سب سے پہلا سوال یہی کیا کرتے تھے کہ حضور کو خط لکھا ہے؟ پہلے حضور کو دعا کے لیے خط لکھو اس کے بعد مجھے دعا کے لیے کہنا۔نیز خلافت کے معمولی سے اشارے پر بھی اپنی وسعت اور بساط کے مطابق فوری عمل درآمد شروع کر دیتے تھے۔ خلافت کی طرف سے اگر دوران خطبہ کوئی تحریک ہوتی تو پیشتر اس کے کہ اس کے لیے کوئی باضابطہ اعلان ہو آپ اس کا حصہ بننے کے لیے سرگرم ہو جایا کرتے تھے۔ جامعہ میں تقرری ۱۹۹۴ء میں جب ہمارا جامعہ کا آخری سال جاری تھا تو ایک دن محترم میر صاحب نے مجھے دفتر بلایا اور فرمانے لگے کہ میں تمہاری بطور استاد جامعہ میں منظوری کا خط حضور کی خدمت میں بھجوانے لگا ہوں اس لیے تم بھی دعا کرو۔ چنانچہ محترم میر صاحب نے اپنے ہاتھ سے ایک خط تحریر فرمایا جس میں جامعہ میں اساتذہ کی کمی کا ذکر کرتے ہوئے خاکسار کا نام بطور استاد منظوری کے لیے براہ راست حضور انور کی خدمت میں ارسال کر دیا۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد میر صاحب نے مجھے بلایا اور بہت خوشی سے فرمایا کہ حضور کی طرف سے درخواست کی منظوری آگئی ہے اس لیے اب تیاری کرو کیونکہ فارغ التحصیل ہونے کے فوراً بعد تمہیں جامعہ میں بطور استاد خدمات سر انجام دینی ہیں۔ میرے لیے یہ امر ایک بہت بڑا اعزاز بھی تھا اور حیران کن بھی کیونکہ جامعہ میں بطور استاد تقرری کے لیے کسی مضمون میں Specialisation یا تخصص کرنا پڑتا تھا جس کے لیے کافی وقت درکار ہوا کرتا تھا۔ اب تو تخصّص کا عرصہ تین سال مقرر ہو چکا ہے لیکن اس وقت اس تخصص کے لیے چار پانچ سال یا بسا اوقات اس سے بھی زیادہ عرصہ شعبہ تخصص میں گزر جاتا تھا۔ لیکن محترم میر صاحب کی غیر معمولی شفقت اور اعتماد کی بدولت حضرت امیر المومنین کی اجازت اور منظوری سے خاکسار کو براہ راست جامعہ میں استاد کے طور پر مقرر کر دیا گیا اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد اگلے ہی دن میں جامعہ میں بطور استاد خدمات سر انجام دینے لگا۔ فالحمدللہ ایک مرتبہ جامعہ کی بعض تصاویر حضور کی خدمت میں بھجوائی گئیں جن کے ساتھ کچھ زیادہ ہی مختصر رپورٹ تھی۔ اس پر حضور کی طرف سے خط موصول ہوا کہ آپ نے تصاویر تو بھجوا دی ہیں لیکن تصاویر کے ساتھ تفصیل نہیں لکھی کہ کون سی تصویر کس موقع کی ہے؟ اس لیے آئندہ جب تصاویر بھجوایا کریں تو ساتھ مکمل رپورٹ بھی ارسال کیا کریں۔ اس پر آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ فوری طور پر جامعہ کی ہر تقریب کی تصاویر اور رپورٹ حضور کی خدمت میں بھجوانا شروع کرو۔ اس زمانے میں تصاویر بھجوانا ایک مشکل کام تھا اس لیے بعض اساتذہ نے یہ مشورہ دیا کہ صرف اہم پروگراموں کی رپورٹ اور تصاویر بھجوانا مناسب رہے گا۔ اس پر محترم میر صاحب فرمانے لگے ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ خلافت کے احکامات سننے کے بعد ان کی توجیہات اور تشریحات سوچتے رہیں۔ ہمیں تو یہ حکم ملا ہے کہ تصویریں اور پوری رپورٹ بھیجا کریں اس لیے جامعہ کے تمام پروگراموں کی تصویریں اور رپورٹ حضور کی خدمت میں ارسال کی جائیں گی۔چنانچہ پھر لمبا عرصہ یہی سلسلہ جاری رہا۔ جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل میں خاکسار کی تقرری کے بعد سے لے کر آج تک ۱۳؍سال میں یہاں بھی یہ سلسلہ اسی طرح سے جاری ہے کہ حضور کی خدمت میں جانے والی ہر ایک رپورٹ کے ساتھ اس مہینے کی تمام تصاویر شامل ہوتی ہیں۔ مجھے ایک مرتبہ کسی دوست نے اس بارے میں توجہ دلائی کہ آپ کی رپورٹ بہت طویل ہوجاتی ہے۔ میں نے اس پر انہیں کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح کا ایک ارشاد سنا تھا اور میں اس کی تعمیل کرنے کی کوشش کرتا ہوں پھر خواہ وہ رپورٹ کچھ لمبی ہی کیوں نہ ہو جائے۔ مجھے جامعہ میں تقرری کے بعد یہ سعادت بھی جلد ہی حاصل ہو گئی کہ میں جامعہ کونسل کا سیکرٹری مقرر ہو گیا اور یوں روزانہ محترم میر صاحب کے ساتھ بیٹھنے، آپ کی نصائح سننے اور آپ کی صحبت میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملنے لگا۔ آپ کے خطوط کی اکثر ڈرافٹنگ کرنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ مجھے خط لکھنا بھی آگیا اور میں میر صاحب کے تمام خطوط لکھنے لگا ایک مرتبہ مجھے فرمانے لگے کہ تمہاری ڈرافٹنگ بہت اچھی ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی تم کوئی چیز ڈرافٹ کر کے لاتے ہو تو بہت کم اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت پڑتی ہے۔ انہی ایام میں ایک دن عصر کے بعد مجھے میر صاحب کا فون آیا کہ فوری طور پر میرے گھر پہنچو ایک ضروری کام ہے۔ چنانچہ میں فوری طور پر میر صاحب کے گھر پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ آپ بہت بے چینی کے ساتھ صحن میں ہی ٹہل رہے ہیں اور زیرلب دعاؤں میں مصروف ہیں۔ مجھے اندر بلایا اور اپنے ساتھ اپنے سٹڈی روم میں لے گئے اور فرمانے لگے کہ حضور کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے جسے پڑھ کر نہ جانے کیوں مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ حضور خوش نہیں ہیں ، اس لیے میں تو مسلسل استغفار کر رہا ہوں لیکن میں نے فوری طور پر حضور کی خدمت میں معذرت کا خط بھی ارسال کرنا ہے۔ اس صورتحال میں مجھ میں تو لکھنے کی ہمت نہیں ہے اس لیے تم بیٹھو میں لکھواتا ہوں اور ابھی یہ خط بصیغہ راز دفتر سے حضور کو فیکس بھی کرنا ہے۔ اس دوران جب میں نے میر صاحب کی طرف دیکھا تو واقعی جذبات کی شدت کی وجہ سے آپ کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور خط لکھواتے ہوئے آپ کی آنکھوں میں گہرا درد تھا۔ میں نے وہ خط لکھا اور بغیر کسی کو دکھائے ایوان محمود سے اسے فیکس کردیا اور واپس لا کر اصل کاپی محترم میر صاحب کو دے دی ایک دو دن کے بعد جب آپ جامعہ آئے تو آپ بہت ہشاش بشاش تھے فرمانے لگے کہ خط ملنے کے بعد مجھے پیغام مل گیا ہے کہ حضور مجھ سے ناراض نہیں ہیں۔ بعد میں اس خط کے جواب میں حضور کی طرف سے آنے والا خط بھی مجھے دکھایا جس میں حضور کی طرف سے بہت زیادہ خوشنودی اور پیار کا اظہار تھا۔ سادگی اورتواضع کا عملی نمونہ ۱۹۹۵ء میں میری شادی ہو گئی تو تھوڑے ہی عرصے کے بعد مجھے جامعہ میں ایک کوارٹر الاٹ کر دیا گیا جو یوں تو کافی خستہ حال تھا لیکن اس میں سہولت یہ تھی کہ جامعہ کے اندر موجود ہونے کی وجہ سے بروقت تمام پروگراموں میں شرکت کرنا آسان ہوا کرتا تھا۔ مجلس علمی کے پروگراموں کی نگرانی کا کام بھی خاکسار کے سپرد تھا جس میں محترم میر صاحب بعد نماز عصر اکثر شامل ہوا کرتے تھے۔ ایک دن تقریری مقابلوں کے دوران تیز بارش شروع ہوگئی اور پروگرام ختم ہونے پر نماز مغرب اور عشاء بیت حسن اقبال میں جمع کر کے ادا کی گئیں۔ بارش کی شدت کی وجہ سے مجھے یہ خیال آیا کہ میر صاحب چونکہ سائیکل پر تشریف لائے ہیں اور تیز ہوا اور بارش کی وجہ سے چھتری بھی لینا ممکن نہیں ہوگا اس لیے میں فرض نماز کی ادائیگی کے بعد فوراً گھر کی طرف گیا اور اس خیال سے گاڑی لے کر آ گیا کہ میر صاحب کو گھر تک چھوڑ دوں گا۔ ایک طالب علم کو کہہ کر میں نے میر صاحب کا سائیکل بھی برآمدے میں رکھوا دیا تاکہ صبح واپس بھجوایا جا سکے۔ میر صاحب نماز کی مکمل ادائیگی کے بعد باہر نکلے تو بارش کسی حد تک کم ہو چکی تھی۔ آپ نے اپنی برساتی نکالی اور کپڑوں کے اوپر پہن لی اور کہنے لگے کہ میرا سائیکل کہاں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ سائیکل اندر رکھوا دیا ہے اور اس وقت تمام شہر کی بجلی بارش کی وجہ سے بند ہے سڑکوں پر پانی اور اندھیرا ہے جو خطرناک ہو سکتا ہے اس لیے میں گاڑی لے کر آگیا ہوں تاکہ آپ کو گھر تک ڈراپ کر دوں۔ فرمانے لگے کہ ارادہ تو بہت اچھا ہے لیکن اگر آج اس معمولی سی بارش سے گھبرا کر میں کار میں بیٹھ جاؤں گا تو ان طلبہ کو کس طرح سے نصیحت کروں گا کہ انہوں نے دین کی خدمت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی کے لیے تیار ہونا ہے اس لیے میرا سائیکل منگواؤ میں سائیکل پر ہی گھر جاؤں گا۔ ساتھ موجود دیگر اساتذہ نے بھی کافی کوشش کی لیکن میر صاحب اپنی بات پر قائم رہے اور بالآخر ہمیں سائیکل واپس منگوانا ہی پڑی جس پر بیٹھ کر میر صاحب گھر کے لیے روانہ ہو گئے۔ میں نے بھی اپنی کوشش جاری رکھی اور حفاظت کے خیال سے میر صاحب کی سائیکل کے پیچھے مناسب فاصلے پر اپنی گاڑی لگا دی تاکہ آپ کو مناسب روشنی بھی ملتی رہے اور کسی مشکل صورتحال میں ساتھ بھی موجود رہوں۔ چنانچہ آپ اسی سائیکل پر گھر تک اس حالت میں تشریف لے کر گئے کہ آپ کے پیچھے گاڑی کی ہیڈ لائٹ جلائے ہوئے خاکسار آہستہ آہستہ ساتھ جا رہا تھا یہاں تک کہ جب میر صاحب نے گھر پہنچ کر اپنا گیٹ کھولا اور گھر کے اندر چلے گئے تو پہلے تو بے نیازی سے اندر تشریف لے گئے لیکن پھر مسکراتے ہوئے مڑ کر پیچھے دیکھا واپس آئے اور ہاتھ ہلا کر مجھے الوداع کہہ دیا۔ میں واپس آگیا لیکن اگلے دن میر صاحب نے مسکراتے ہوئے تمام اساتذہ کو یہ بتانا شروع کیا کہ کل رات میں سائیکل پر جا رہا تھا اور کوئی شخص میرا پیچھا کرتا رہا ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ محترم میر صاحب کا اس دن کار استعمال نہ کرنے کا فیصلہ محض طلبہ کی تربیت کے حوالے سے ایک نمونہ قائم کرنے کے لیے تھا ورنہ عام حالات میں اس عاجز کو بہت مرتبہ محترم میر صاحب کے ہمراہ سرگودھا، فیصل آباد اور لاہور کے سفر کرنے کی توفیق ملتی رہی ہے جن میں آپ اور بی بی خاکسار کے ہمراہ جانے میں بالکل بھی تردّد محسوس نہیں کیا کرتے تھے اور بالکل اپنے گھر کا فرد سمجھ کر حکم دے کر بھی بلوا لیا کرتے تھے۔محترم میر صاحب کے ساتھ ایک یادگار سفر گوجرانوالہ کا بھی تھا جہاں سے جامعہ کے لیے کرسیاں خریدنی مقصود تھیں۔ وہاں ایک فیکٹری تھی جس کے بارے میں یہ پتا چلا کہ وہاں بہت عمدہ معیار کی سٹیل اور پلاسٹک کی کرسیاں مناسب قیمت پر مل جاتی ہیں۔ میر صاحب نے مجھے فرمایا کہ گاڑی کا انتظام کر لو تو میں بھی ساتھ چلنا چاہوں گا تاکہ وہیں پر فیصلہ کرلیا جائے چنانچہ جانے کا دن مقرر کر لیا گیا اور خاکسار نے گھر سے کچھ کھانا اور چیزیں بھی تیار کروا لیں تا کہ سفر میں مشکل پیش نہ آئے۔ میرے علم میں تھا کہ میر صاحب باہر کا کھانا نہیں کھاتے اس لیے گھر سے مناسب مرچ مصالحے کے ساتھ کھانا اور کچھ ریفریشمنٹ تیار کروالی اور گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے ہم نے چائے کے لیے ایک جگہ پر گاڑی کو بریک لگائی تو چائے کے ساتھ گھر سے تیار شدہ بعض چیزیں بھی گاڑی سے نکال لیں اس پر میر صاحب بہت خوش ہوئے اور انہیں بلا تکلف ایک نہر کے کنارے پر بیٹھ کر نوش فرما لیا۔اسی طرح کھانے کے لیے بھی جو انتظام کیا گیا تھا وہ واپسی پر ایک نہر کے کنارے موجود ہوٹل پر گاڑی روک کر کھا لیا۔ فیکٹری میں محترم میر صاحب نے تمام قسم کی کرسیوں کا خود جائزہ لیا ان کی قیمتیں دریافت کیں اور ہر ایک انداز کی کرسی پر خود بیٹھ کر جائزہ لیا کہ وہ طلبہ کے لیے مناسب ہے یا نہیں اور یہ کہ اس کی قیمت کیا ہے۔ چنانچہ جب آپ مطمئن ہو گئے تو آپ نے کرسیوں کا ایک آرڈر لکھوا دیا جو اس فیکٹری کی طرف سے بعد میں بھجوا دی گئیں۔ خدا تعالیٰ سے رازونیاز آپ درحقیقت ایک ولی اللہ تھے اور اللہ تعالیٰ سے محبت کا گہرا تعلق تھا۔ ایک مرتبہ میں کسی ضروری کام سے آپ کے دفتر میں گیا اور آپ کو وہاں نہ پا کر مجھے خیال آیا کہ شاید دفتر سے ملحقہ کمرے میں تصنیف کا کوئی کام کر رہے ہوں گے۔ چنانچہ میں نے جھانک کر اس طرف دیکھا تو اس کمرے میں موجود تخت پوش پر آپ انتہائی گریہ و زاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مصروف تھے۔ میں الٹے قدموں واپس پلٹ آیا لیکن الحاح اور درد کی جو کیفیت آپ کی نماز میں نظر آئی وہ آج بھی فراموش نہیں کی جا سکتی۔ آپ کی نمازیں مسجد میں بھی اسی طرح کی ہوا کرتی تھیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا سے بے نیاز ہو کر ایک مجبور اور لاچار سوالی اپنے مالک کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ نماز کی حالت میں آپ کے درد اور گریہ کو دیکھ کر ساتھ موجود افراد بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے اور یہ خیال آتا تھا کہ کاش! ہمیں بھی نماز میں یہ ذوق و شوق اور لذت عطا ہو جائے۔ لیکن ان سب امور کے ساتھ ساتھ عاجزی اس قدر تھی کہ کبھی بھی اپنی کسی نیکی کا تذکرہ کرنا پسند نہیں کیا کرتے تھے اور اگر کبھی اپنی کسی سچی خواب یا رؤیا کا ذکر بھی کرتے تو اس انداز میں کرتے تھے کہ جماعت کے ایک فرد نے یہ خواب یا رؤیا دیکھا ہے کبھی بھی اپنا نام سامنے نہیں لاتے تھے۔ ایک مرتبہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں غالباً ۲۵ویں یا ۲۷ویں رات کے بعد جامعہ آتے ہوئے میر صاحب سے ملاقات ہو گئی جو عام طور پر جامعہ کے دروازے کے پاس ہی کرسی میز لگا کر اپنا دفتر چلایا کرتے تھے۔ مجھے دیکھ کر روک لیا اور سوالیہ انداز میں پوچھا کہ کیا کل لیلۃ القدر تھی؟ میں نے حیرت سے آپ کی طرف دیکھا تو دوسرے ہی لمحے خاموش ہو گئے جس سے مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ آپ کے لیے کل کی رات واقعی لیلۃالقدر تھی لیکن آپ یہ بتانا نہیں چاہتے تھے کہ میری کل کی رات لیلۃ القدر تھی بلکہ ایک سوالیہ انداز میں مجھ سے تصدیق کرنا چاہ رہے تھے لیکن میری آنکھوں میں حیرت دیکھ کر بالکل خاموش ہوگئے اور کوئی دوسری بات شروع کر دی۔ ایک مرتبہ میں نے جسارت کر کے یہ سوال کیا کہ کیا خدا تعالیٰ اب بھی انسانوں سے کلام کرتا ہے تو فرمانے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلام کامل کی اطاعت کے سبب اللہ تعالیٰ آج بھی اپنے بندوں سے بولتا ہے اور صرف ربوہ میں ہی دو اڑھائی سو لوگ ایسے ہوں گے جن سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے اور انہیں سچی خوابوں کے ذریعے سے پیشگی معاملات کی اطلاع دے دیتا ہے۔ نماز باجماعت کی پابندی اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کی فکر اس قدر زیادہ تھی کہ ایک مرتبہ مئی کے مہینے میں فرمانے لگے کہ وقت کی تبدیلی کی وجہ سے آج میری ایک باجماعت نماز ادا ہونے سےرہ گئی ہے جو مجھے الگ ادا کرنی پڑی ہے اور یہ میری اس سال کی پہلی نماز ہے جو قضا ہوئی ہے۔ سرسبز ربوہ ایک اعجاز پودوں اور درختوں سے آپ کو خاص محبت تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ تیز آندھی کی وجہ سے جامعہ میں ایک درخت گر گیا تو آپ نے بہت محنت کے ساتھ اس درخت کو واپس کھڑا کروایا اور اس تمام کام کی خود نگرانی کی اور جب وہ درخت واپس ہرا بھرا ہو گیا تو آپ کی خوشی قابل دید تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو پودوں سے اس قدر محبت کیوں ہے؟ تو فرمانے لگے کہ ہم نے وہ ربوہ بھی دیکھا ہے جب ربوہ کے بس سٹاپ کے پاس صرف کیکر کا ایک درخت ہوا کرتا تھا یا علاقے میں پھیلی ہوئی بہت سی جھاڑیاں اس لیے آج جب ہم یہ پھولدار اور پھل دار پودے اور درخت دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ ایک معجزہ معلوم ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ شعبہ باغبانی کے انچارج نے یہ اطلاع دی کہ بعض طلبہ نے پودوں سے پھول توڑے ہیں۔ اس پر آپ نے فوراً جامعہ میں تدریس روک دی اور تمام طلبہ کو ہال میں اکٹھا کیا اور یہ واقعہ سنایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں سیر کے دوران بعض لوگوں نے مسواک کی غرض سے بعض ٹہنیاں توڑی تھیں جس پر حضور نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا اس لیے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ نگران کی اجازت کے بغیر جامعہ میں ایک پتا بھی نہ ٹوٹے۔ جرمنی کا ایک سفر غالباً ۱۹۹۷ء کے جلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت کی غرض سے آپ پاکستان سے جس جہاز میں فرینکفرٹ تشریف لے گئے اتفاق سے اسی جہاز میں میرے بڑے بھائی بھی سفر کررہے تھے جو میرے پاس جامعہ آنے جانے کی وجہ سے میر صاحب سے اچھی طرح شناسا تھے۔ انہوں نے دوران پرواز میر صاحب کا خیال بھی رکھا اور جرمنی میں اترنے کے بعد مقامی باشندہ ہونے کے باعث تیزی کے ساتھ ایک مختصر راستے سے انہیں باہر لے آئے۔ باہر استقبال کے لیے موجود کسی شخص نے اس پر کوئی جملہ کہا تو بھائی کی دلداری کے خیال سے فرمانے لگے کہ نہیں انہوں نے کوئی قانون نہیں توڑا بلکہ بڑی حکمت کے ساتھ مجھے باہر لے آئے ہیں۔ اس دور میں موبائل فون کارواج عام ہو گیا تھا اور خاص طور پر جرمنی میں تو اکثر لوگوں کے پاس موبائل فون آچکے تھے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر جب میری محترم میر صاحب سے ملاقات ہوئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ انہوں نے کافی دن سے گھر بات نہیں کی۔ میں نے اپنے بھائی کا فون لے کر اس پر میر صاحب کے گھر کا نمبر ملا دیا اور محترمہ بی بی امۃ المتین صاحبہ سے عرض کیا کہ اگر آپ فارغ ہیں تو چند منٹ کے لیے میر صاحب سے آپ کی بات کروا دیتا ہوں۔ وہ فرمانے لگیں کہ میں تو کافی پریشان تھی کیونکہ کافی دن سے میری میر صاحب سے بات نہیں ہو سکی اس لیے اگر ہو سکے تو ضرور میری بات کروا دینا۔ چنانچہ میں نے فون ملایا اور موبائل فون لے کر محترم میر صاحب کے پاس چلا گیا اور ان سے کہا کہ پاکستان سے کوئی آپ سے بات کرنا چاہتا ہے۔ آپ نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور فون پکڑ لیا اور جب دوسری طرف سے بی بی کی آواز سنی تو بےانتہا خوش ہوئے۔ میں تو فون پکڑا کر ایک جانب ہو گیا اور آپ نے اپنے تمام حالات کے بارے میں بی بی کو آگاہ کیا اور بعد میں فون میرے حوالے کرتے ہوئے خود بھی بےانتہا شکریہ ادا کیا اور بی بی کو بھی دو تین مرتبہ کہا کہ اس کے لیے دعا کرنا کہ اس نے ہماری بات کروا دی ہے۔ اور یہ شکرگزاری بھی وقتی نہیں تھی بلکہ آپ نے ہمیشہ اس واقعے کو یاد رکھا اور بہت مرتبہ اس کا تذکرہ بھی فرمایا۔ ہرتعلق صرف خدا کے لیے مئی ۱۹۹۸ء میں جامعہ کے ایک استاد مکرم حافظ برہان محمد صاحب گردے کی پتھری کی وجہ سے بیمار ہوکر ہسپتال میں داخل ہوئے تو آپ چند اساتذہ اور خاکسار کے ہمراہ خود اُن کی تیمارداری کے لیے ہسپتال گئے۔ اُن کی عیادت کی اور خبر گیری کی غرض سے بعض کارکنان کو مقرر کیا تاکہ وہ ان کا بھرپور خیال رکھ سکیں۔ لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ایک دوسرے استاد جو ایک لمبے عرصے سے بلا ضرورت لمبی چھٹی پر تھے اور جامعہ سے غیر حاضر تھے ان کی بیماری کے بارے میں آپ کو بتایا گیا کہ وہ بھی بیمار ہیں اور ہمیں عیادت کے لیے جانا چاہیے۔ اس پر فرمایا کہ ہمارا تعلق تو کسی بھی شخص سے اللہ تعالیٰ اور خدمت سلسلہ کی وجہ سے ہے۔جو شخص سلسلے کی خدمت سے منہ موڑتا ہے اس سے ہمارا کیسا تعلق؟ تاہم طبعی شفقت کے اظہار کے طور پر بعض اساتذہ کو ان کی خبر گیری کے لیے روانہ کردیا تاہم آپ خود تشریف نہیں لے کرگئے۔ نظم و ضبط اور انتظامی امور میں بسا اوقات سختی بھی کرنی پڑتی ہے جو آپ بھی کیا کرتے تھے لیکن ایک مرتبہ بتانے لگے کہ درحقیقت اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے میں خود پر غصہ طاری کرتا ہوں ورنہ مجھے غصہ نہیں آتا۔ واقفین زندگی طلبہ اور اساتذہ کے متعلق تو خاص طور پر ہمیں سمجھایا کرتے تھے کہ قرآن کریم نے تو قربانی اور نذر کے جانوروں کی بھی حرمت اور عزت قائم کی ہے اس لیے میں کسی واقف زندگی طالب علم یا استاد کے ساتھ بدسلوکی کا سوچ بھی نہیں سکتا یہ صرف انتظامی معاملات ہیں جن کی وجہ سے بسا اوقات سختی کرنی پڑتی ہے۔ کئی عشروں کی اس رفاقت کے دوران آپ ہمیشہ مجھے نام لے کر یا ’’تم‘‘ کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ بہت سال گزرنے کے بعد ایک مرتبہ مجھے بلایا اور کہا کہ کیا تم نے کبھی نوٹ کیا ہے کہ میں ’’آپ‘‘ کے بجائے ’’تم‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہوں؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے نوٹ تو نہیں کیا لیکن آپ جس طرح سے ’’تم‘‘ کہتے ہیں اس میں ایک اپنائیت محسوس ہوتی ہے جو ’’آپ‘‘ کا لفظ استعمال کرنے میں محسوس نہیں ہو سکتی۔مسکراتے ہوئے فرمانے لگے کہ بالکل یہی بات ہے اور میں تمہیں بتانا چاہتا تھا کہ اساتذہ میں سے تم وہ واحد استاد ہو جس کو میں ’’تم‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہوں اور یہ کسی بےادبی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس محبت کی وجہ سے ہے جو مجھے تم سے ہے۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن جامعہ میں ہماری اسمبلی جاری تھی کہ ایک استاد جنہوں نے حال ہی میں گاڑی خریدی تھی بہت تیزی کے ساتھ ملحقہ سڑک پر سے گزرے جس سے کچھ گرد بھی فضا میں بلند ہوئی۔ آپ کو یہ انداز بالکل بھی پسند نہیں آیا اور اسمبلی میں ہی ہمیں سمجھایا کہ حضرت امام بخاریؒ نے ایک شخص کی بیان کردہ تمام روایات محض اس لیے صحیح بخاری سے خارج کردی تھیں کہ وہ شخص شہر میں بے احتیاطی کے ساتھ اپنی سواری دوڑا رہا تھا اس لیے کوئی بھی سواری ہو اسے چلاتے ہوئے ہمیشہ احتیاط اور میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا عجیب انداز تھا۔ یوں تو آپ کا پسندیدہ شعبہ بھی حدیث ہی تھا تاہم ہر ایک معاملے میں کوشش کرتے تھے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر سکیں اور جہاں تک ممکن ہوتا تھا اس محبت کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کوئی دوست مکہ سے آپ کے لیے تحفے کے طور پر کھجوریں لے کر آئے تو آپ نے بعض اساتذہ کو بلا کر وہ کھجوریں پیش کیں لیکن ساتھ ہی نصیحت کی کہ کھانے کے بعد یہ تمام گٹھلیاں ڈسٹ بن میں نہ پھینکیں بلکہ ادب کے ساتھ ٹشو میں لپیٹ کر آپ کے حوالے کر دیں یہ ادب اس ذات کی وجہ سے تھا جس سے آپ کو غیر معمولی محبت تھی اور آپ مکہ سے آئی ہوئی کھجور کی گٹھلیاں بھی زمین پر پھینکنا گوارہ نہیں کر پا رہے تھے۔ ایک مثالی والد آپ ایک شفیق والد بھی تھے چنانچہ جب آپ کی اکلوتی صاحبزادی کی شادی تھی تو اس موقع پر ہمیں خدمت کے بہت سے کام سنبھالنے کا موقع ملا۔خاص طور پر گھر کے اندرونی کاموں میں مدد کے لیے خاکسار کو کافی خدمت کی توفیق ملی۔ یہ کام سپرد کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ تم نے بالکل اس طرح سے شادی کے انتظامات کرنے ہیں جس طرح ایک بھائی اپنی بہن کی شادی کے انتظامات کرتا ہے۔ چنانچہ اس موقع پر ہمیں آپ کے بہت سے اخلاق کا انتہائی قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ شادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں لیکن ان تمام تقریبات کے دوران نماز کا وقت ہوتے ہی آپ نماز کے لیے تشریف لے جاتے تھے اور واپس گھر آنے کے بعد بھی مسلسل زیر لب دعاؤں میں مصروف رہتے تھے اور ان دعاؤں میں ایک ایسا درد تھا کہ صاف نظر آتا تھا کہ اپنی اکلوتی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے آپ اسے خدا تعالیٰ کی امان میں سونپ رہے ہیں۔ کام کرنے والوں کے لیے بھی قدر دانی کا غیر معمولی جذبہ نظر آ رہا تھا اور آپ گاہے بگاہے جب بھی گھر کے اندر تشریف لے جاتے تو واپس آتے ہوئے ہمارے لیے کوئی نہ کوئی چیز لے آتے جس سے آپ کی مہمان نوازی اور شاگردوں کی دلداری کرنے کی جھلک صاف نظر آتی تھی۔ یار کے پاس اس کا یار گیا حضرت خلیفۃ المسیح کے ارشاد پر جامعہ میں ادبی مجالس کا انعقاد شروع ہوا تو قریباً ہر سال محترم عبید اللہ علیم صاحب جامعہ مدعو کیے جانے لگے یہ مجالس بہت ہی دلچسپ ہوا کرتی تھیں جن میں محترم میر صاحب اور عبید اللہ علیم صاحب کے درمیان محبت بھرے جملوں کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا تھا اور مجلس میں ایک خوشگوار فضا بھی قائم رہتی تھی۔ کئی سال تک محترم علیم صاحب کے جامعہ میں آنے کی وجہ سے یہ سلسلہ تقریباً مستقل شکل اختیار کرگیا تھا کہ اچانک علیم صاحب کا انتقال ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ میر صاحب کی طبیعت پر اس خبر کا گہرا اثر تھا اور اس دن آپ نے صبح سویرے اسمبلی کے بعد تمام طلبہ کو ہال میں اکٹھا کیا اور علیم صاحب کی بعض چنیدہ نظمیں ہم سب کو سنوائیں اور بعدازاں بورڈ پر یہ شعر تحریر کیا کہ پر تجھے کیا محل شکوہ ہے یار کے پاس اس کا یار گیا یوں نہایت خوبصورت انداز میں علیم صاحب کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار بھی کر دیا اور ہمیں یہ نصیحت بھی کر دی کہ ہم سب کو ایک نہ ایک دن اس دنیائے فانی سے کوچ کرنا ہے اس لیے ایسے مواقع پر جزع فزع کرنا پسندیدہ نہیں ہے۔ سپین کا ایک دلچسپ واقعہ بعض مرتبہ دوران گفتگو آپ مسجد بشارت سپین کی تعمیر کے بعض واقعات بھی بہت دلچسپ انداز میں سنایا کرتے تھے ایک مرتبہ بتانے لگے کہ ہمیں مسجد میں بچھانے کے لیے قالین درکار تھے لیکن سپینش زبان نہیں آتی تھی کہ کسی سے پوچھ سکیں۔ بالآخر ایک شخص کو پاؤں کے اشارے سے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے اثبات میں سر ہلایا اور بڑی تسلی کے ساتھ دور کی ایک جگہ کا پتا بتایا۔ آپ کہتے ہیں کہ میں اور بی بی کافی دُور چل کر جب وہاں پہنچے تو پتا چلا کہ وہاں جوتے پالش کرنے والے بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ بتاتے تھے کہ اس دور افتادہ علاقے میں آپ نے بغیر گاڑی کے لمبا عرصہ گزارا جہاں دن میں صرف ایک بس قریبی شہر کو جایا کرتی تھی اور واپس آیا کرتی تھی۔ لیکن آپ نے بڑی بشاشت کے ساتھ اس تمام کام کو مکمل کیا اور تمام انتظامات بہترین انداز میں پایۂ تکمیل کو پہنچے اور آپ کو اس تاریخی مسجد کی تعمیر کی خدمت میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ گھانا تقرری اور آخری ملاقات جب ۲۰۱۲ء میں خاکسار کی تقرری بطور پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا ہوئی تو میں یہ خبر بتانے کے لیے محترم میر صاحب کے پاس پہنچا۔ یہ خبر آپ کے لیے بہت حیران کن تھی آپ نے مجھے بٹھا لیا اور تمام تر تفصیلات پوری جزئیات کے ساتھ دریافت کیں۔ میں نے عرض کیا کہ اس پراجیکٹ کی زیادہ تفصیلات تو میرے علم میں بھی نہیں ہیں صرف حضرت امیرالمومنین کی ہدایت پر مارچ میں گھانا پہنچنے کا ارشاد موصول ہوا ہے۔ میں نے دیکھا کہ آپ نے سوالات کا سلسلہ فوراً بند کردیا اور بڑی محبت سے میرے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا کہ اچھا پھر جاؤ خدا تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو۔ بعد میں بی بی اور آپ کے ساتھ فون پر تو رابطہ قائم رہا اور گاہے بگاہے جب بھی آپ کو مصروفیات میں سے وقت ملتا بات چیت ہوتی رہی لیکن بی بی کی وفات کے بعد یہ سلسلہ اَور بھی کم ہو گیا کیونکہ آپ عام طور پر فون پہ لمبی بات نہیں کیا کرتے تھے۔ ۲۰۱۶ء میں مجھے ربوہ جانے کا موقع ملا تو آپ سے ملاقات کے لیے جامعہ پہنچا۔ گو اُس وقت آپ ریسرچ سیل کے انچارج کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے لیکن آپ کا دفتر جامعہ کے ہی ایک حصے میں واقع تھا۔دفتر کا وہی سادہ انداز تھا، وہی بےتکلفی، وہی علمی مصروفیات اور وہی خوشگوار مسکراہٹ اور شیریں لب و لہجہ قائم تھا۔ غرضیکہ سب کچھ ویسا ہی تھا صرف وقت کے دریاؤں سے کافی سارا حصہ پانی بہ چکا تھا۔ ظہر کی نماز کی ادائیگی تک میں آپ کے ساتھ بیٹھا باتیں کرتا رہا اور آپ نے مجھے بہت طویل وقت عنایت کیا جس کے دوران کام بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ نماز ظہر کا وقت نزدیک آیا تو ہمیشہ کی طرح فوراً تمام کام بند ہو گیا اور نماز کی تیاری شروع ہو گئی۔ اسی دفتر کے ایک حصے میں صفیں موجود تھیں جس پر تمام عملہ نماز ادا کیا کرتا تھا۔ مجھے بھی میر صاحب کے ساتھ کھڑے ہو کر یہ نماز ادا کرنے کی توفیق ملی۔ اور آپ نماز کی ادائیگی کے بعد گھر واپس جانے کے لیے دفتر سے باہر آگئے۔ اس مرتبہ آپ سائیکل پر نہیں تھے بلکہ آپ کے لیے دفتر کی طرف سے ایک گاڑی مہیا کی گئی تھی جو آپ کا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے گاڑی تک ساتھ جاکر دروازہ کھولا اور آپ کو الوداع کہا اور آپ بھی دعائیں دیتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئے۔ خاکسار اس کے بعد ربوہ تو نہیں گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ابھی ہماری ایک ملاقات اَور بھی مقرر فرما رکھی تھی جو لندن میں اس وقت ہوئی جب ۲۰۱۷ء میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر خاکسار جلسہ سالانہ انگلستان کے موقع پر تقریر کے لیے لندن گیا۔ تقریر کے بعد جب اجلاس ختم ہوا تو حسب عادت میں کچھ تاخیر سے نیچے اترا تاکہ باہر نکلنے والے دروازوں پر موجود بھیڑ کچھ کم ہو جائے۔ لیکن میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ نیچے موجود بزرگان کی دیگر تمام کرسیاں تو تقریباً خالی ہو چکی تھیں لیکن محترم میر صاحب اپنی کرسی پر بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے۔ مَیں نے جونہی آپ کو دیکھا تو آگے بڑھ کر سلام کیا۔ آپ اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے۔ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی کا سہارا لے کر مجھے باقاعدہ گلے لگا لیا اور بھرپور خوشی اور مسکراہٹ کے ساتھ میرے کانوں میں فرمایا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ تقریر بہت اچھی تھی۔ میں نے جسارت کی اور عرض کیا کہ ہمارے پرنسپل صاحب کا کیا خیال ہے؟ تو پھر قہقہہ مار کر ہنسے اور فرمایا کہ لوگ کہہ رہے تھے۔ آپ کی یہ بات سن کر میں بھی مسکرا دیا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ آپ عام طور پر اسی طرح تعریف کیا کرتے ہیں۔ بہت خاص وجود خاکسار کو آپ کی قربت میں کئی عشرے رہنے کا موقع ملا۔ آپ کی محبت کو دل میں بسائے ہوئے اور آپ کی نصائح کو اپنا لائحہ عمل بنائے ہوئے عمر کا ایک بہت بڑا حصہ گزر گیا اور آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کی زندگی میں بعض وجود ’’بہت خاص‘‘ ہوا کرتے ہیں جو اگر جدا ہو بھی جائیں تو اپنی مہک لمبے عرصے تک اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ آج یہ سطور لکھتے ہوئے بھی میرے کمرے میں وہی مہک پھیلی ہوئی ہے۔ وہی مسکراتا ہوا چہرہ ذہن کے پردے پر چھایا ہوا ہے اور واقعات کی ایک طویل فہرست ہے جنہیں مکمل طور پر احاطہ تحریر میں لانا قریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ کیونکہ اگر کوشش بھی کروں تو آپ کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا کم از کم مجھ جیسے کمزور انسان کے لیے تو ناممکنات میں سے ہے۔ لیکن میں پورے یقین کے ساتھ یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے اپنے دیگر فرائض منصبی اور کارہائے نمایاں کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ تعلیم و تدریس اور اپنے طلبہ کو بہترین انسان بنانے میں صرف کر دیا اور نہایت سادہ اور عاجزانہ طور طریقوں سے بہت سے خاک آلودہ وجودوں کو تراش خراش کر نیا رنگ دے دیا جس کی بہترین جزا اللہ تعالیٰ ہی آپ کو عطا فرماسکتا ہے۔ مزید پڑھیں: انسانی بقا کا ضامن سرمایہ۔ بیجوں کے ذخائر(Seed Vault)