ایک بہت بڑی بیماری جو دنیا میں عموماً ہے اور جس کی و جہ سے بہت سارے فساد پیدا ہوتے ہیں وہ ہے کاروبار کے لئے یا کسی اور مَصرف کے لئے قرض لینااور پھر ادا کرتے وقت ٹال مٹول سے کام لینا۔ بعض کی تو نیت شروع سے ہی خراب ہوتی ہے کہ قرض لے لیا پھردیکھیں گے کہ کب ادا کرنا ہے۔ اور ایسے لوگ باتوں میں بھی بڑے ماہر ہوتے ہیں جن سے قرض لینا ہو ان کو ایسا باتوں میں چراتے ہیں کہ وہ بیوقوف بن کے پھر رقم ادا کر دیتے ہیں یا کاروباری شراکت کر لیتے ہیں۔ بہرحال ایسے ہر دو قسم کے قرض لینے والوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے لوگوں سے واپس کرنے کی نیت سے مال قرض پر لیا اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادائیگی کے سامان کر دے گا۔ اور جوشخص مال ہڑپ کرنے کی نیت سے قرض لے گا اللہ تعالیٰ اسے تلف کر دے گا‘‘۔ (بخاری، کتاب فی الاستقراض، باب من اخذ اموال الناس …) اکثر مشاہدہ میں آتا ہے ایسے لوگ جو بدنیتی سے قرض لیتے ہیں ان کے کاموں میں بڑی بے برکتی رہتی ہے۔ مالی لحاظ سے وہ لوگ ڈوبتے ہی چلے جاتے ہیں اور خود تو پھر ایسے لوگ برباد ہوتے ہی ہیں ساتھ ہی اس بے چارے کو بھی اس رقم سے محروم کر دیتے ہیں جس سے انہوں نے باتوں میں چرا کر رقم لی ہوئی ہوتی ہے۔ جو بعض دفعہ اس لالچ میں آ کر قرض دے رہا ہوتا ہے، پیسے کاروبار میں لگا رہا ہوتا ہے کہ مجھے غیر معمولی منافع ملے گا۔ وہاں عقل اور سوچ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بس وہ منافع کے چکر میں آ کر اپنے پیسے ضائع کر دیتے ہیں اور بظاہر اچھے بھلے، عقلمند لوگوں کی اس معاملے میں عقل ماری جاتی ہے اور ایسے دھوکے بازوں کو رقم دے دیتے ہیں۔ تو قرض جب بھی لینا ہو نیک نیتی سے لینا چاہئے۔ …ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم دنیا کے سامنے اسلام کی صحیح تعلیم کے نمونے قائم کرتے ہیں۔ اگر ہمارے عمل اس کے خلاف ہوں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ نہ تو ہم امانت کا حق ادا کر رہے ہیں، نہ ہی ہم اپنے عہد پورے کر رہے ہیں بلکہ کاروبار میں دوسروں کو دھوکہ دے کر قرضوں میں ٹال مٹول سے کام لے کر گناہگار بن رہے ہیں اور اُس زمرے میں آ رہے ہیں جو فساد پیدا کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پرواہ نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں سے بھی ایسے لو گ ہیں جو بہت کم تو جہ کرتے ہیں۔ …اس لئے ہماری ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ ہر ملک میں، ہر شہر میں، ہر احمدی اپنے آپ کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالے جس کا وہ دعویٰ کرتا ہے۔ اپنی کمزوریوں کو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے چھپانے کی کوشش کرے، دور کرنے کی کوشش کرے۔ اور حتّی الوسع یہ کوشش کرے کہ ایسی کمزوریاں اور عمل سرزدنہ ہوں جو جماعت کی بدنامی کا موجب بنیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو بڑے واضح الفاظ میں فرما دیا ہے کہ ایسے لوگوں کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میری طرف منسوب ہو کے اور پھر مجھے بدنام کرتے ہو تو پھر میرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ۱۸؍ نومبر ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۹؍دسمبر۲۰۰۵ء) مزید پڑھیں: اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا اجر