مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پروا نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم تو جہ کرتے ہیں۔ اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں۔ یہ عدل کے خلاف ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے۔پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یاد رکھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہئے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہئے۔ کیونکہ یہ امر ِالٰہی کے خلاف ہے۔ (ملفوظات جلد۴صفحہ۶۰۷،ایڈیشن۱۹۸۸ء) جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کا کوئی سبب پردہ ٔغیب سے بنا دیتا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس راز کو نہیں سمجھتے کہ متقی کے لیے خداتعالیٰ کبھی ایسا موقع نہیں بناتا کہ وہ سُودی قرضہ لینے پر مجبور ہو۔ یاد رکھو جیسے اور گناہ ہیں مثلاً زنا، چوری ایسے ہی یہ سُوددینا اور لینا ہے۔ کس قدر نقصان دِہ یہ بات ہے کہ مال بھی گیا، حیثیت بھی گئی اور ایمان بھی گیا۔ معمولی زندگی میں ایسا کوئی امر ہی نہیں کہ جس پر اتنا خرچ ہو جو انسان سودی قرضہ لینے پر مجبور ہو۔ … انسان کو چاہیے کہ اپنے معاش کے طریق میں پہلے ہی کفایت شعاری مدنظر رکھے تاکہ سُودی قرضہ اٹھانے کی نوبت نہ آئے جس سے سُود اصل سے بڑھ جاتا ہے۔ … پھر مصیبت یہ ہے کہ عدالتیں بھی ڈگری دے دیتی ہیں۔ مگر اس میں عدالتوں کا کیا گناہ جب اس کا اقرار موجود ہے تو گویا اس کے یہ معنے ہیں کہ سود دینے پر راضی ہے۔ (ملفوظات جلد ۵صفحہ۴۳۴-۴۳۵، ایڈیشن۱۹۸۸ء) مزید پڑھیں: خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو