سرینام کا مطلب ہے پھولوں کی سر زمین۔جنوبی امریکہ کے مشرقی سا حل پر یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے۔جس کے شمال میں بحر اوقیانوس (Atlantic Ocean)، مغرب میں گیانا،مشرق میں فرنچ گیانااور جنوب میں برازیل واقع ہے۔ آغاز میں یہ ایک ہی ملک تھا جو جنوبی امریکہ کے باقی ممالک کی طرح سپینش سیاحوں نے 1496 ء میں دریافت کیا۔ مگر یورپین اقوام کی باہمی کشمکش کے نتیجہ میں یہ علاقہ تین حصوں میں تقسیم ہوگیا۔انگریزوں کا علاقہ برٹش گیانا،ہالینڈ کا علاقہ ڈچ گیانا اور فرانس کا علاقہ فرنچ گیانا کہلایا۔ سرینام جو 1650 ء میں برطانیہ کی نوآبادی بنا، ابتدا میں برٹش گیانا کہلایا۔ پھر 1667 ء میں انگریزوں نے ایک معاہدے کے تحت اسے ہالینڈ کی کالونی ڈچ گیانا سے تبدیل کر لیا۔بعد ازاں یہ علاقہ ڈچ گیا نا اور ہمسایہ ملک برٹش گیانا کہلایا۔اول الذکر آزادی کے بعد سرینام اور مؤخر الذکر گیانا کے نام سے معروف ہوا۔ سرینام میں مسلمانوں کی آمد ستر ہویں صدی کے آغاز میں غانا اور اس کے قریب کے افریقی ملکوں سے سینکڑوں کی تعداد میں غلام (ڈچ گیانا) موجودہ سرینام میں لائے گئے۔ ان میں متعدد مسلمان بھی تھے مگر جبر کے ذریعہ انہیں عبادت سے روکا گیا اور حرام چیزوں کے استعمال پر مجبور کیا گیا۔ جون 1873 ء میں انڈیا سے’’لالہ رخ‘‘نامی جو پہلا بحری جہاز سرینام پہنچا اس میں قریبا ً اسّی مسلمان تھے جن میں سے اکثریت کی عمر بیس بائیس سال تھی۔ان مسلمانوں کو مختلف اضلاع میں ملازمت ملی مگر انہوں نے باہمی رابطہ اور اپنا مذہبی تشخص قائم رکھا۔ اور انجمن حمایت اسلام کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ 1900ء میں سرینام میں مساجد کی تعمیر کا آغاز ہوا جو دینی سر گر میو ں کا مرکز بنیں اور مسلمانوں کاباہمی رابطہ مضبوط ہوا۔جون 2014ء کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مسلم آبادی کا تنا سب% 19.6ہے۔ مسلم آبادی کے تناسب کے اعتبار سے سرینام جنوبی امریکہ کے تمام ممالک میں سر فہرست ہے۔ سرینام میں جماعت احمدیہ کانفوذ جماعت احمدیہ کے مبلغین کی آمد سے قبل اہل پیغام یا غیر مبائعین کامشن اور لٹریچر سرینام میں پہنچ چکا تھا۔ مسلمانوں کی اکثریت کو وفات مسیح اور ایک مجدد کے آنے کاعلم ہو چکاتھا۔لیکن یہ سب ایک اتفاقی رابطے کے نتیجہ میں ہوا،کسی مبلغ کی آمد یا اہل لاہور کی تبلیغی کوشش سے نہیں۔ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کا ’’سرینامی اسلامی تنظیم ‘‘(SIV)سے اتفاقی رابطہ ہوا اور اس رابطے کی بدولت اہل پیغام کا نام اس ملک میں پہنچا۔اسی لئے اہلِ پیغام کے سرکردہ افراد کی کتب میں سرینام میں کسی قسم کی تبلیغی سرگرمیوں کا ذکر موجود نہیں۔ مولوی محمد علی صاحب کی کتاب ’’تحریک احمدیت‘‘ حصہ اول، ایڈیشن دسمبر 1931ء کے صفحہ 226پر ٹرینیڈاڈ میں مشن کے قیام اور ایک مقامی نوجو ان کے سفر لاہور اور مشنری کورس مکمل کرنے کا ذکر موجود ہے۔انہی صفحات میں ہالینڈ میں مشن کے قیام اور ڈچ زبا ن میں لٹریچر کی اشاعت کا ذ کر بھی موجود ہے۔اسی طرح کتاب ’’مجدد اعظم‘‘جلد سوم مصنفہ ڈاکٹر بشارت احمد صا حب ایڈیشن اوّل، مارچ 1944ء کے آخر پر ’’جماعت احمدیہ لاہور کے کام‘‘کے عنوان سے مختلف ممالک میں تبلیغی سرگرمیوں کا ذکر ہے اور صفحہ336 پر ٹرینیڈاڈ سے حصول تعلیم کے لئے لاہور آنے والے نوجوان امیر علی کانام بھی در ج ہے۔مگر سرینام کا ذکر ہر دو کتب میں موجودنہیں۔ اس رابطے کی تفصیل یوں ہے کہ1927ء میں چند سرکردہ مسلمانوں نے اپنی ایک انجمن بنانے کی تجویز پیش کی۔ان افراد میں مولوی شیخ احمد علی، مولوی عبد الحفیظ خان، اصغر کرامت، سردار کرامت علی وغیرہ شامل تھے۔جبتک کسی باقاعدہ تنظیم کا قیام نہیں ہوا تھا مسلمان سردار کرامت علی کو ہی اپنا لیڈر مانتے تھے۔ دو سال تک یہ تجویز زیر بحث رہی اور 17نومبر 1929ء بروز اتوار ملک کے مختلف اضلاع سے قریباً چھ صد مسلمان تھالیہ تھیٹر (Theater Thalia) میں جمع ہوئے اور باہمی مشورہ سے (Surinaamse Islamitische Vereniging) کی بنیاد رکھی۔ فروری 1930ء میں ڈچ گورنمنٹ نے اس تنظیم کو قبول کیا اور مسلمانوں کو قانوناً اسلام کی اشاعت کی اجاز ت مل گئی۔ کچھ عرصہ بعد اس تنظیم نے (Keizerstraat 88)پر ایک مسجد تعمیر کی جس کا افتتاح اگست 1932ء میں ہوا۔ دینی تعلیم کے حصول اور تبلیغی کام میں مدد کے لئے اس تنظیم نے ’’انجمن حمایت اسلام لاہور ‘‘سے رابطہ کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس ایسا کوئی مبلغ نہیں جو غیرممالک میں جا کر اشاعت اسلام کا کام کرے،اس لئے آپ کا خط ’’احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور ‘‘ کو بھجوا دیا گیا ہے۔ چنانچہ احمدیہ انجمن لاہور نے اس تنظیم سے خط و کتا بت کی اور کچھ لٹر یچر بھجوایا۔ سر دار کرامت علی نے مجمع عام میں انجمن حمایت اسلام اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے خطوط پڑھ کر سنائے۔ اور اسی اتفاقی رابطے کے نتیجہ میں اس تنظیم نے اہل پیغام سے الحاق کر لیا۔ (بحوالہ۔(1) مسلمانان سرینام کے تمدّنی و مذہبی حالات اور فروغ احمدیت کی تاریخ،از محمد یٰسین صاحب۔ ہفت روزہ پیغام صلح لاہور جلد58 شمارہ 29، مطابق 28جولائی 1971ء صفحہ 2) (2):’’ سرینام کنو نشن‘‘، محررہ پروفیسر چوہدری عزیز احمد۔پیغام صلح جلد 73،شمارہ 3بمطابق یکم فروری 1990ء صفحہ 9) (3) :معلوماتی کتابچہ برموقعہ انٹرنیشنل کا نفر نس نومبر 2012ء از ڈاکٹر رابرٹ بیپت(Dr,Robbert Bipat)پریذیڈنٹSIV) سرینام میں باقاعدہ اسلامی تنظیم کے طور پر رجسٹرڈ ہونے کے لحاظ سے (S.I.V.)پہلے نمبر پر ہے،اورجیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اس کے بانیوں میں کرامت علی برادران نمایاں ہیں۔ مسٹر اصغر کرامت علی ’’جمعیت العلماء‘‘ سرینام کے صدر اور ملک کی پہلی سیاسی جماعت ’’دی مسلم پارٹی‘‘ (De Moeslim Partij) کے بانی اور صدر بھی رہے۔ (Wikipedia.org.nl/ Asgar_Karamat_Ali)(مسلمانان سرینام کے تمدّنی و مذہبی حالات اور فروغ احمدیت کی تاریخ،از محمد یٰسین صاحب۔ ہفت روزہ پیغام صلح لاہور جلد58،شمارہ29، مطابق 28جولائی 1971ء صفحہ 2) مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ’’سنی مسلم ایسوسی ایشن‘‘(S.M.A.) 1950ء میں مذہبی تنظیم کے طور پر رجسٹرڈ ہوئی۔ 1973ء میں (SIV)نے لکڑی کی پرانی مسجد کی جگہ نئی مسجد کی تعمیر شروع کی جس کا افتتاح 27جولائی 1984ء کو ہوا۔ محل وقوع اور طرز تعمیر کی وجہ سے یہ مسجد سرینام میں خاص شہرت کی حامل ہے اور اہل پیغام سے منسوب ایک بڑی مسجد ہے۔ جماعت احمدیہ کا تعارف ٹرینیڈاڈ کے مرکزی مبلغ مولانا محمداسحق ساقی صاحب ایک مقامی احمدی حکیم خان کے ساتھ 13اپریل 1953 ء کو پہلی دفعہ سرینام تشریف لائے۔آ پ کو اس دورے کی دعوت (SIV)’’سرینامی اسلامی تنظیم‘‘ کے افراد نے دی تھی، کیونکہ اس وقت تک یہ لوگ نام اور عقائد کے فرق سے واقف نہ تھے۔آپ نے ان کی جامع مسجد میں جو Keizerstraat 88 پر واقع ہے قیام کیا اور مختلف دینی پروگراموں میں شرکت کی۔ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حقیقی مقام، آپ کی حیثیت اور دعاوی کی وضاحت کی اور آپ کے بعد جاری ہونے والی خلافت اور خلیفہ کی حیثیت کا تعارف کروایا اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہونے والی خدماتِ اسلام سے ان کو آگاہ کیا۔ اس دورے کے دوران آپ کا رابطہ علاقہ سارون (Saron)میں رہنے والے ایک بااثر زمیندارمکرم عبدالغفور جمن بخش صاحب سے بھی ہوا۔ آپ نے انہیں بھی جماعت کا تفصیلی تعارف کروایا اور خدمت دین کے لئے وقف زندگی کا نظام اور واقفین کی تعلیم و تربیت کے طریق پر روشنی ڈالی۔احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام لانے والے اس مختصر مہمان وفد نے ایک ہفتہ یعنی20 اپریل1953ء تک اِس ملک میں قیام کیا۔ اس دورے کے خوشکُن نتائج تب سامنے آئے جب محترم عبد الغفور جمن بخش صاحب نے اپنے ایک بیٹے عبدالعزیز جمن بخش صاحب کوجو ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہے تھے 1954 ء کے اوائل میں جامعہ احمدیہ ربوہ پاکستان میں دینی تعلیم کے حصول کے لئے بھیجا، اور انہوں نے مرکز احمدیت ربوہ میں 25 جنوری1955 ء کو بیعت کر کے سرینام کے سب سے پہلے احمدی اور سب سے پہلے واقفِ زِندگی ہونے کا تاریخی اعزاز حاصل کیا۔ جب 10مارچ 1954ء بروز بدھ مسجد مبارک ربوہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر عبد الحمید نامی شخص نے بعد از نماز عصر قاتلانہ حملہ کیا،اس و قت آپ مسجد میں موجود تھے اور حملہ آور کو دبوچنے والوں میں شامل تھے۔ جس کی وجہ سے آپ کا دایاں انگو ٹھا حملہ آور کے چاقو سے مجروح ہوا۔ اس واقعہ کے حوالے سے بھی آپ کا نام تاریخ احمدیت میں شامل ہو کر امر ہو گیا۔ (تاریخ احمدیت جلد 16صفحہ نمبر 231۔ایڈیشن 2007ء مطبوعہ پرنٹ ویل پریس امرتسر انڈیا) تاریخ احمدیت جلد 7 کے آخر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مبلغین کے ایک گروپ فوٹو میں آپ بھی اپنے امام ہمام کے قدموں میں موجود ہیں۔ اس تصویر میں محترم شیخ رشید احمد اسحق صاحب اور محترم غلام احمد نسیم صاحب بھی موجود ہیں، جنہیں بعد ازاں سرینام میں خدمت کی توفیق ملی۔یہ تصویر جامعۃ المبشرین میں 14جنوری 1956ء کومنعقدہ ایک تقریب میں لی گئی تھی۔ (تاریخ احمدیت جلد 7۔ایڈیشن 2007ء مطبوعہ پرنٹ ویل پریس امرتسر انڈیا) سرینام میں پہلا مبلغ سرینام میں پہلا مشن مکرم شیخ رشید احمد اسحق مبلغ سلسلہ نے 1956 ء میں جاری کیا۔آپ پاکستان سے براستہ لندن ٹرینیڈاڈپہنچے اورمرکزی مبلغ مکرم محمداسحق ساقی صاحب کے پاس کچھ عرصہ قیام کیا۔مورخہ 7اکتوبر 1956ء کو جما عت ٹرینڈاڈ نے مولانا رشید اسحق صاحب کی الوداعی پارٹی کا اہتمام کیا۔اور اسی روز آپ نے محترم عبدالغفور جمن بخش صاحب کو بذریعہ تار مولانا محمد اسحق ساقی صاحب اور اپنی آمد کی اطلاع دی۔مورخہ8 اکتوبر کو دن اڑھائی بجے جہاز نے ٹرینڈاڈ سے پرواز کی اور تین گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد ساڑھے پانچ بجے پاراماریبو پہنچا۔ اس وقت ہوائی اڈہ شہر سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر تھا،جہاں کچھ لوگ آپ کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ فضائی مستقر سے باہر آنے پر دونوں مبلغین کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔قریبا آٹھ بجے یہ قافلہ محترم عبد الغفور جمن بخش صاحب کے گھر پہنچا،جہاں مبلغین کے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔اس میز بان نے اپنے ایک بیٹے عبد المجید کو اپنے گھر کی بالائی منزل پر رہنے کی جگہ دی اور اُس کا گھر مشنری کے لئے خالی کروایا۔کچھ دیر بعد ہی ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں دونوں مبلغین نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا اور تبلیغی گفتگو کی۔رات گئے تک گفتگو اور ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔ (روزنامہ الفضل ربوہ۔جمعہ 18جنوری 1957ء) مقامی اخبار میں پہلی خبر روزنامہ اخبار(De Nieuwe Tijd)دی نیوٹائید میں مورخہ 12 اکتوبر 1956ء بروز جمعۃ المبارک صفحہ نمبر 1پر آپ کا اور مولانا محمد اسحق ساقی صاحب کا انٹرویو تصویر کے ساتھ شائع ہوا۔اخبار نے لکھا کہ: ’’جماعت احمدیہ کے دو مبلغین ہمارے ملک پہنچے ہیں، ان میں سے ایک مولوی ساقی ٹرینیڈاڈ میں جما عت کے مشنری ہیں اور کربین کے دیگر ممالک کا دورہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک 24سالہ نوجوان مبلغ مولوی احمد بھی ہے جو سرینام میں ہی قیام کرے گا۔ اس جماعت کا ہیڈکوارٹر ربوہ پاکستان میں ہے،اور یہ جماعت ہیگ ہالینڈ میں بھی ایک مسجد تعمیر کر رہی ہے۔ ان مبلغین کا قیام عبدالغفور جمن بخش کے گھر پہ ہے جو سلاگن ہائوڈ (Slangenhoud straat) میں ہے۔ کل ہفتہ کے دن سے یہ اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کریں گے۔اور روزانہ شام چار سے چھ بجے تک یہاں تبلیغی نشست ہوا کرے گی‘‘۔ روزنامہ (De Nieuwe Tijd)کی اس خبر سے ملک میں پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حقیقی جماعت اور واقفینِ سلسلہ کے تعارف کا سلسلہ شروع ہوا۔ جماعت کا قیام مسلسل تبلیغی سرگرمیاں بفضل خدا بار آور ہوئیں اورآخر وہ تاریخی دن بھی آ پہنچا جب اِس ملک میں جماعت احمدیہ کا پودا لگا۔8 نومبر 1956 ء بروز جمعرات اہل پیغام سے تعلق رکھنے والے چند افراد نے خلافت ثانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔اور یہ اعلان کیا کہ آج سے پہلے ہم احمدی کہلاتے تو تھے لیکن ہمارے اور حقیقت کے درمیان ایک پردہ تھا جو آج دُور ہوگیا اور آج سے ہم صحیح معنوں میں احمدی ہیں۔ ملک میں ایک نئی جما عت کے قیام کا علاقہ میں خوب چرچا ہوا اور تبلیغی کوششیں بھی مسلسل جاری رہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے چند دنوں میں افراد جماعت کی تعداد دگنی ہوگئی۔ (روزنامہ الفضل ربوہ۔جمعہ 18جنوری 1957ء۔ جلد 46،شمارہ نمبر16) مولاناشیخ رشید احمداسحق صاحب مولانا شیخ رشید احمد اسحق صاحب نے بہت محنت اور جوش کے ساتھ جماعتی کام کیا۔ مقامی لوگ آج تک ان کی دلیری اور علمیت کے معترف ہیں۔ آپ کو 1966ء تک سرینام میں خدمت کی توفیق ملی۔ فروری1958 ء میں ہالینڈ کی ولی عہد شہزادی Beatrix سرینام(ڈچ گی آنا) کے سرکاری دورہ پر تشریف لائیں۔ مکرم شیخ رشید احمد اسحق صاحب نے ملک کے گورنر J.Van Tilburg کے ذریعہ شہزادی کو ڈچ ترجمے والا قرآن مجید اور احمدیت کے بارہ میں ایک تعارفی خط پیش کیا۔دسمبر 1959ء تافروری 1960ء ریڈیو پر مختلف عناوین پر متعددتقاریر کیں۔ یوم مصلح موعود اور یوم مسیح موعود علیہ السلام کے موقعہ پر بھی ریڈیو پر 25منٹ کی تقریر کی۔ریڈیو پر وقت لینے کے لئے آپ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔مگر آپ حوصلے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ سرینام میں امریکی سفیر Mr. Michnight کی خدمت میں مولانا صاحب نے انگریزی ترجمہ والا قرآن مجید پیش کیا اور ایک ایڈریس میں قرآن مجید کے فضائل اور احمدیت کے تعارف پر روشنی ڈالی۔اس تقریب کی خبر مقامی اخبار De Ware Tijd میں شائع ہوئی۔ امریکی صدر مسڑ آئزن ہاور (Mr.Eisenhower)جنوبی امریکہ کے مختلف ممالک کے دورے کے دوران مورخہ 3 مارچ 1960 ء کوسرینام کے فضائی مستقر پر کچھ دیر کے لئے رکے۔ مولانا صاحب نے گورنر J.Van Tilburgکے ذریعہ ان کی خدمت میں ’اسلامی اصول کی فلا سفی‘ اور جماعت کے بارے میں تعارفی خط پیش کیا۔مقامی اخبارروزنامہSURINAME نے مورخہ 4مارچ کوصفحہ نمبر 1پر استقبالیہ سرگرمیوں کے ضمن میں شائع کی جانے والی تفصیلی خبر میں مولانا رشید اسحاق صاحب اور کتاب کے نام کے ساتھ اس کا ذکر کیا۔ بعد ازاں صدر امریکہ نے مولانا صاحب کے نام شکریہ کا خط بھی بھجوایا جو اسی اخبار میں شائع ہوا۔بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے ممبر اور کلچرل ڈپارٹمنٹ کے وائس پریذیڈنٹ’’ مسڑ کاکا ‘‘ سرینام کے دورہ پر آئے تو مکرم رشید صاحب نے انہیں انگریزی کتب کا سیٹ پیش کیا۔ (روزنامہ الفضل ربوہ منگل 19جولائی 1960ء۔ جلد49، شمارہ163) (تاریخ احمدیت جلد 21صفحہ 94ایڈیشن اوّل، 2011ء) مولانا بشیر احمد صاحب آرچرڈ کا دورہ سرینام مکرم مولانابشیر احمد آرچرڈ صاحب مبلغ انچارج ٹرینڈاڈ نے مرکز کے حکم سے مورخہ 21تا25 فروری 1959 ء سرینام کا دورہ کیا، آپ نے اخبارات کے ایڈیٹرز سے ملاقاتیں کیں، اسلام اور احمدیت کے بارہ میں آپ کا انٹرویو روزنامہ (SURINAME)میں شائع ہوا۔آپ نے سنٹر ل بنک کے ڈائریکٹر،امر یکن کونسل اور محکمہ اطلاعات و نشریات کے افسران سے ملاقاتیں کیں۔ اس وقت کے وزیر اعظم مسڑ ایس ڈی ایمنسل (Mr.S.D.Emancils) سے بھی آپ نے مقامی مبلغ کے ہمراہ ملاقات کی اور جماعت کے عقائد،نظام جماعت اور اسلام کی خصوصیات کا بہت اچھے اندازمیں تعارف کروایاجس سے وہ بہت متأثر ہوئے۔ریڈیو اور اخبار نے اس ملاقات کا خصوصی ذکر کیا۔مورخہ24 فروری کو Islam and universal brotherhood کے موضوع پر آپ نے ایک لیکچر دیا۔قبل از وقت ریڈیو اور اخبار کے ذریعہ اس پروگرام کی تشہیر کی گئی۔اس پروگرام میں اہل علم حضرات، پارلیمنٹ کے ممبرز اور اعلیٰ سرکاری افسران شامل ہوئے۔مہمان مقرر نے پوری تفصیل کے ساتھ اسلام کے فضائل کاذکر کیا اور اس کی خوبصور ت تعلیم کی برتری ثابت کی۔ حاضرین نے بار بار تالیاں بجا کر مقرر کو داد دی۔بعد ازاں مجلس سوال و جواب بھی ہوئی، مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب اور رشید اسحق صاحب نے حاضرین کے سوالوں کے جواب دئے۔ اس طرح مرکزی نمائندے کا یہ دورہ ہر لحاظ سے انتہائی کامیاب رہا۔ مولانا غلام احمد نسیم صاحب شیخ رشید احمد اسحق کے بعد محترم مولانا غلام احمد نسیم صاحب مبلغ سلسلہ گیانا نے 1967ء سے 1969ء کے دوران سرینام کے تین دورے کئے۔اس دوران 28مئی 1968ء کو آپ نے ریڈیو ’’آپنتی‘‘(Apintie)پر احمدیت کا پیغام کے موضوع پر تقریر کی۔ مورخہ 4 اور 6جون کو ریڈیو ’’رادیکا‘‘(Radika)پر دین اسلام کی خوبیاں بیان کیں۔ پیر 14جولائی1969ء کو شام کو شائع ہونے والے روز نامہ De Westکے نمائندے کو انٹرویو دیا جومورخہ 15 جولائی 1969ء بروز منگل آپ کی تصویرکے ساتھ اخبار کی زینت بنا۔ مورخہ 15جولائی کو ریڈیو آپنتی (Apintie)پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت کا تعارف کروایا۔20جولائی کو ریڈیو راپار (Rapar) پر اسلام کی خوبیاں بیان کیں۔ مورخہ 29جولائی1969 ء کو ’’کلچرل سنٹر سرینام‘‘ (C.C.S. Cultureel Centrum Suriname) میں ’’اسلام کی خوبیاں اور اسلام عصر حاضر کے مسائل کاحل‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا، 2اگست 69 ء کو STVS چینل نمبر 8 پر پروگرام پیش کیا: ’’میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں ‘‘۔ محترم مولانا غلام احمد نسیم صاحب کی ان مساعی کی مختصر رپورٹ روزنامہ الفضل ربوہ میں 14ستمبر 1969ء کو ’’سرینام جنوبی امریکہ میں تبلیغ اسلام‘‘کے عنوان سے شائع ہوئی۔نیز ’’احمدیہ مشن سرینام کی یادیں ‘‘کے عنوان سے آپ کے تین دوروں کی مختصر روئیداد روزنامہ الفضل ربوہ میں مورخہ 6نومبر 2006ء کو صفحہ نمبر 5پر شائع شدہ ہے۔ مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب 1970ء میں مولانا غلام احمد نسیم صاحب کی جگہ محترم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب مبلغ انچارج کی حیثیت سے گیانا تشریف لائے اور 1973ء تک خدمت کی توفیق پائی۔ اس دوران سرینام کے تین دورے کئے، اورہر بار دو سے تین ماہ قیام کیا۔ اگست1970ء میں آپ نے سرینام کا پہلادورہ کیا۔اس دوران آپ نے 8 اگست 1970 ء کو ریڈیو آپنتی(Apintie)پر پہلی تقریر کی جس میں آپ نے مسیح کی آمد ثانی کے متعلق پیشگوئیوں کی وضاحت کی اور ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر چسپاں کیا۔تیرہ اگست کو ریڈیو ’’راپار‘‘ (Rapar)پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے حوالے سے آپ کے مقام کی وضاحت کی اور خلافت کی پیشگوئی اور اس کے اجراء کا ذکر کیا۔ 16؍اگست 1970ء کو دوبارہ Radio Apintie پر لیکچر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُن تحریرات کو پیش کیا جن میں آپ نے خود کو ظلّی، بروزی اور امّتی نبی ثابت کیاہے۔ آپ نے1971 ء میں سرینام کا دوسرا دورہ کیا۔ اس دورہ کے دوران 6 فروری 1971 ء کو ریڈیو اپنتی (Apintie) پر گفتگو کرتے ہوئے آپ نے حج اور قربانی کے فلسفہ پر روشنی ڈالی۔ 13 فروری کو اسی ریڈیو پر آپ نے انبیاء اور دیگر مذاہب کے احترام کے حوالے سے اسلامی تعلیم پیش کی۔26 فروری کے پروگرام میں آنے والے مسیح و مہدی پر ایمان اور اس کی جماعت سے جڑنے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ ریڈیو راپار پر بھی متعدد پروگرام کئے اور جماعت کا پیغام ملک کی وسیع آبادی تک پہنچایا۔ محترم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب کواپریل 1971ء میں سرینام میں جماعت کی پہلی مسجد ’’مسجد ناصر‘‘ کے افتتاح کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔جس کی تفصیلی خبر بھی مقامی اخبار میں شائع ہوئی۔ مولانا محمد صدیق ننگلی شاہد صاحب محترم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب کے بعد مولانامحمد صدیق ننگلی صاحب1973ء میں اعلائے کلمہ اسلام کے لئے گیانا پہنچے، تقریباً پونے دو سال گیانا میں خدمات بجالانے کے بعد محترم مولانا محمد اسلم قریشی صا حب کو گیانا مشن کا چارج دے کر مورخہ 7 جو ن 1975ء کو سرینام تشریف لائے۔ گیانا کے ایک روزنامہ (Guyana Graphic) نے بدھ 4 جون 1975ء کی اشاعت میں آپ کی جارج ٹائو ن سے پاراماریبو روانگی اور محترم مولانا محمد اسلم قریشی صاحب کی بطور مشنری انچارج آمد کی خبر شائع کی، اور یہ بھی ذکر کیا کہ ان کی مساجد میں خواتین بھی نماز جمعہ ادا کر سکتی ہیں۔ ریڈیو پروگرام کا آغاز ستمبر1975ء میں آپ نے راپار ریڈیو پر ’’جماعت احمدیہ ربوہ کا پروگرام ‘‘کے نام سے پندرہ منٹ کا ہفتہ وار پروگرام شروع کیا اور ستمبر میں چار پروگرام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سال کا معاہدہ کیا۔ یہ پروگرام ہر ہفتہ کی رات ساڑھے سات سے آٹھ بجے کے درمیان نشر ہوتے رہے۔ مذہب کے بارے میں ایک انٹرویو دسمبر 1978ء کے ابتدائی ایام میں (SIV)کے صدر رشید پیر خان صاحب نے آپ کو فون پر بتایا کہ چند افراد نے مذہب کے بارہ میں آٹھ سوال تیار کئے ہیں۔ ایک پادری نے ان کے جواب دیدئے ہیں، لیکن مجلس المسلمین ان کا جواب نہیں دینا چاہتی، اور ہندوئوں نے بھی انکار کیا ہے۔ آپ ان سوالات کا جواب دیں۔ چنانچہ معروف صحافی مسٹر نیکو واخ میسٹر ان سوالات کو لے کر دسمبر کے آخری ہفتے میں مسجد تشریف لائے اور مولانا صدیق صاحب کا انٹر ویو لیا۔ سوالات کا تعلق مذہبی ہم آہنگی کی اہمیت و ضرورت، بین المذاہب رابطے، مذہبی رواداری اور برداشت، مذہبی تعلیم کا مرکزی نقطہ اور اس کے حصول کے طریق سے تھا۔ محترم مولانا صاحب نے ان سوالات کے مفصّل اور مدلّل جواب دئے۔ نیز صحافی موصوف کو ڈچ ترجمے والا قرآن مجید اور دیگر جماعتی لٹریچر بھی دیا۔ یہ تفصیلی انٹر ویو ہفتہ 13جنوری 1979 ء کو روز نامہ داوار ٹیڈ (De Ware Tijd) میں مولانا صاحب کے درج ذیل تعا رف کے ساتھ شائع ہوا: ’’49سالہ مسلم مشنری مولانا محمد صدیق 1973ء میں پاکستان سے گیانا آئے تھے۔ کچھ عرصہ وہاں کام کرنے کے بعد جون 75ء میں سرینام آئے۔ آپ ایفرام سیخن ویخ میں ایک سادہ سے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ احمدیہ مسلم انٹر نیشنل مشنری سکول سے سات سالہ کورس مکمل کیا ہوا ہے۔ اس جماعت کا ہیڈ کوارٹر ربوہ پاکستان میں ہے۔ آپ وہاں سے تبلیغ اسلام کے لئے سرینام آئے ہوئے ہیں ‘‘۔ اس انٹرویو کو عوام میں بہت پذیرائی ملی، اور لوگوں نے بہت اچھا تأثر لیا۔محترم مولانا صدیق صاحب کا یہ انٹرویو آپ کے دس سالہ قیام کے دوران شائع ہونے والی سب سے مفصّل جماعتی خبر تھی۔ مسجد نصر کا افتتاح جماعت کی دوسری مسجد، مسجد’’نصر‘‘ کے افتتاح کے موقع پر 24فروری1984ء بروز جمعۃ المبارک روزنامہ De Ware Tijd نے صفحہ نمبر14پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام، مبلغین سلسلہ اور مسجدکی نمایاں تصاویر کے ساتھ افتتاح کی خبر کو اس سرخی کے ساتھ شائع کیا: ’’جماعت احمدیہ نے اپنی مسجد ریکارڈ وقت میں مکمل کر لی‘‘۔ گذشتہ اتور کو علاقہ’’ نیو ساروخ ویخ‘‘ (Nieuwzorgweg) میں ایک مسجد کا افتتاح ہوا۔ یہ مسجد جماعت احمدیہ نے دن رات کام کرکے بہت کم وقت میں مکمل کر لی ہے۔ یہ مسجد مین روڈ سے قریباً دو کلو میٹر دور ہے۔اس مسجد کا سنگ بنیاد گزشتہ سال 25دسمبر کو رکھا گیا تھا۔ یہ کام اس لئے بھی قابل تعریف ہے کہ بچے بوڑھے جوان اور خواتین سب نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا جس سے اجرت کا خرچ بچ گیا اور صرف مٹیریل کا خرچ 15ہزار گلڈرز ہوا ہے۔اگر صرف اس خرچ کو سامنے رکھتے ہوئے اس عمارت کو دیکھیں تو بہت حیرت ہوتی ہے کیونکہ یہ عمارت اس سے کہیں زیادہ مہنگی ہے۔اس جماعت کی پہلے ایک مسجد ایفرام سیخن ویخ میں ہے، جو مرکزی مسجد ہے۔ اس جماعت کے نظام کو چلانے کے لئے ایک کُل وقتی مبلغ موجود ہے جن کا نام محمد صدیق ہے،جو پا کستان واپس جارہے ہیں، اور نئے مبلغ محمداشرف اسحاق ان کی جگہ آچکے ہیں، جو آٹھ سال تنزانیہ اور کچھ عرصہ یوگنڈ ا میں کام کر چکے ہیں۔ مولانا محمدصدیق 1975ء سے یہاں کام کر رہے تھے۔جماعت احمدیہ (S.A.V.) کومسلمانوں کی دوسری جماعت (S.I.V) سے نہیں ملانا چاہیے۔اگرچہ دونوں خود کو احمدی کہتے ہیں، مگر دونوں میں بڑا فرق ہے۔ جماعت احمدیہ ربوہ حضرت مرزا غلام احمد کو مسیح موعودنبی اللہ مانتی ہے اور دوسری صرف ’’مجدد‘‘۔ اس جما عت کی ایک خوبی یہ ہے کہ خواتین کو مساجد میں آنے سے نہیں روکتے، اسی لئے اس مسجد میں بھی ایک پردہ لگایا گیا ہے تا کہ خواتین دوسری طرف نماز ادا کر سکیں۔ چار سال پہلے اس علاقہ میں کوئی احمدی نہیں تھا،پھر یہاں ایک جماعت قائم ہوئی اور اب انہیں اپنی مسجد بنانے کا موقعہ ملا ہے اور یہ اس چھوٹی سی جماعت کے لئے قابل فخر بات ہے۔ افتتاح کے موقعہ پر مسجد اور اس سے ملحقہ جگہ کو سجایا گیا۔جماعت احمدیہ اور سرینام کا پرچم لگایا گیا تھا۔ اس مو قعہ پر ایک بک سٹال بھی لگایا گیااور مہمانوں کے لئے ریفریشمنٹ کا انتظام بھی کیا گیا‘‘۔ ماہنامہ تحریک جدید ربوہ کے ا پریل 1984ء کے شمارہ کے ٹائٹل پر اس مسجد کی تصویر شائع ہوئی۔ ملک کے صدر سے مبلّغین کی ملاقات مولانا محمد صدیق صاحب کی وطن واپسی سے قبل ملک کے صدر سے ملاقات کی درخواست بھجوائی، جس کی منظوری کے بعد 27 فروری 1984ء کو دونوں مبلغین جماعتی وفد کے ساتھ جمہوریہ سرینام کے صدر مسٹر رام دت میسر سے ملنے ان کے آفس گئے۔ انہیں ڈچ ترجمہ والا قرآن مجید اور جماعتی لٹریچر پیش کیا۔صدر نے اہل پیغام اور جماعت کا فرق پوچھا تو مولا نا محمد صدیق نے بتایا کہ وہ حضرت مرزا غلام احمد کے تمام دعاوی پر ایمان نہیں رکھتے، جبکہ ہم انہیں مہدی، مسیح اور امتی نبی مانتے ہیں۔ مولانا محمد اشرف اسحق صاحب سے صدر نے تنزانیہ کے حالات پوچھے۔ اس طرح یہ ملاقات کا میابی کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔ 29فروری کو ٹی وی چینل 8 (STVS)نے دو دفعہ اس ملاقات کے مناظر دکھائے اور اسی روز اخبار(De Ware Tijd)نے تصویر کے ساتھ تفصیلی طور پر اس ملاقات کی خبر شائع کی، اور لکھا کہ: ’’جماعت احمدیہ سرینام کے دو مبلغین نے صدر (Mr.Fred Ramdat Misier)سے ملاقات کی۔دونوں مبلغین ِاسلام تعلیم یافتہ پا کستانی ہیں۔ مولانا صدیق اسلامیات اور عربی کے گریجویٹ ہیں اور پاکستان میں اٹھارہ سال کام کرنے کے بعد گیانا آئے اور پھر سرینام، اور اب جلد واپس پاکستان جانے والے ہیں۔ ان کی جگہ کام کرنے کے لئے مولانا محمد اشرف اسحق آئے ہیں۔ اس جماعت کی بنیاد 1889ء میں حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود نے رکھی، اور ان کی آمد کا اصل مقصد دنیا میں اسلام کی تبلیغ ہے۔ اس جماعت کے کئی سو مبلغین ساری دنیا میں کام کر رہے ہیں، اور اس جماعت کے پیروکاروں کی تعداد گیارہ ملین کے قریب ہے۔ اور اس وقت حضرت مسیح موعود کے چوتھے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد اس جماعت کے سربراہ ہیں۔ اس ملاقات میں جماعت کے صدر حسینی بدولہ اور سیکر ٹری عبد المطلب محمود بھی موجود تھے‘‘۔ ماہنامہ ’’تحریک جدید ‘‘ربوہ کے جولائی 1984ء کے شمارہ میں اس ملاقات کی تصویر شائع ہوئی۔ معروف صحافی مسٹر نیکو واخ میسٹر(Mr.Nico Waagmeester)نے یکم مارچ 1984ء کو مولانا محمدصدیق شاہدصاحب کا تفصیلی انٹر ویو لیا۔جوجمعۃ المبارک 2 مارچ1984 ء کو اِن الفاظ کے ساتھ روزنامہ اخبار De Ware Tijdکی زینت بنا: ’’جماعت احمدیہ کے مشنری مولانامحمد صدیق پاکستان واپس جارہے ہیں۔ وہ 1973ء میں پاکستان سے گیانا آئے تھے، اور سرینام کے متعدد دورے کرنے کے بعد 1975ء میں انہوں نے باقاعدہ اس مشن کا چارج لیا، اور ان کے آنے سے اس جماعت کے مرکز ایفرام سیخن کی رونقیں بحال ہو گئیں۔ وہ اپنے وطن واپس جاتے ہوئے بہت خوش دکھائی دیتے ہیں، اس لئے کہ انہوں نے یہاں بڑی محنت سے کا م کیا اور اس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے، اور ایک قلیل جماعت اب ترقی کے راستے پر گامزن ہے اور اپنی پہچان بنا چکی ہے۔ان کے بڑے کارناموں میں ایک نئی مسجد کی تعمیر شامل ہے۔ آٹھ سال تک انہوں نے ریڈیو پر چار سو سے زائد تقاریر کیں۔ 1977ء میں وہ اپنی بیٹی کی شادی کے لئے پاکستان گئے تو قبل از وقت ریڈیو پروگرام ریکارڈ کرواکے گئے تاکہ تسلسل قائم رہے۔ ملک میں مذہبی آزادی کے بیش نظر انہوں نے کھل کر اپنے عقیدے کا پرچار کیا، مگر کبھی کسی مذہب کی توہین نہیں کی۔ ہمیشہ دوسرے کی بات کو تحمل سے سنا اور اچھے انداز سے اس کے مذہب کی خامیاں اور اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیں۔ ان کا اصول یہ تھا کہ کسی کے انفرادی عمل کی وجہ سے اس کے مذہب کو برا کہنا درست نہیں۔ مولانا حضرت خلیفۃالمسیح کے نمائندے کے طور پر اس ملک میں رہے، اور انہی کے حکم سے واپس جا رہے ہیں۔ مولانا اپنے امام کے ہر حکم کو خوشدلی سے قبول کرتے ہیں اور کسی دنیاوی لالچ یا نقصان کی پروا نہیں کرتے۔ اس جماعت میں تنخواہ اور پنشن کا نظام بھی موجود ہے اور مبلغین کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ہمارے ملک میں دواحمدی جماعتیں ہیں دونوں مرزا غلام احمد کو مانتی ہیں۔ بڑی جماعت سر ینامی اسلامی جماعت ہے (S.I.V.) جو انہیں صرف مجدد اور اسلام کا مبلغ مانتی ہے، اور ان کی تحریر کردہ 80کتب میں سے بعض کو نہیں مانتی۔ دوسری یہ جماعت سرینامی احمدیہ جماعت (S.A.V.) جو انہیں قرآن مجید کی سورۃ نمبر61 سورۃ الصف میں مذکور پیشگوئی کے مطابق امّتی نبی مانتی ہے اور حکم عدل سمجھتی ہے۔ اس لئے ان دونوں جماعتوں میں نمایاں فرق ہے۔اول الذکر خلافت کو نہیں مانتی اور عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کی انکا ری ہے۔ اس جماعت کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں ہے۔ جبکہ احمدیہ مسلم جماعت کا ہیڈ کوارٹر ربوہ میں ہے۔دونوں جماعتوں کی علیحدگی 1914ء میں ہوئی تھی‘‘۔ (باقی آئندہ)