(حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں ) دنیا میں کوئی کام بغیر کسی نظام کے درست اور صحیح طور پر نہیں چل سکتا۔ تمام کائنات ایک خاص نظام کے ماتحت چل رہی ہے اور اس وجہ سے کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کے لئے بھی خداتعالیٰ نے یہی چاہا کہ وہ خود بھی ایک نظام کے ماتحت اور تابع رہیں اور اس کے لئے خداتعالیٰ نے ہمیشہ سے رسول اور انبیاء بھجوائے۔ جنہوں نے آکر انسانوں کے اندر خدا کی عبادت اور مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور بھلائی کا سبق دیا تاکہ تمام انسانی روحیں ایک نظام کے ماتحت سارے کام کر سکیں۔ جماعت احمدیہ میں بھی تمام احمدیوں کی ساری دنیا میں راہنمائی اور روحانی و اخلاقی اقدار کے لئے ایک نظام حضرت اقدس محمد رسول اللہ کے غلام صادق حضرت احمد علیہ السلام کے ذریعہ چلا جو کہ خلافت کا بابرکت نظام ہے۔ جماعت احمدیہ ہر ملک میں اپنے نظام کو خلافت احمدیہ کے منشاء اور ہدایات کے مطابق چلاتی ہے اور خلیفۂ وقت سے رہنمائی حاصل کرتی ہے۔ اور خلیفۃ المسیح انفرادی طور پر بھی مختلف ممالک میں اور اجتماعی طور پر خطبات جمعہ اور دیگر ایڈریسز کے ذریعہ جماعت کے روحانی و اخلاقی اور ان کے تعلق باللہ کے معیار کو بڑھانے کے لئے ہدایات جاری فرماتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے نظام کو چلانے کے لئے مختلف ممالک میں جو عہدیدار بنائے اور منتخب کئے جاتے ہیں ان کا انتخاب کس طرح اور کس بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات سے ایک انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے 5دسمبر 2003ء کے خطبہ جمعہ میں عہدیداران کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’جماعت احمدیہ کا نظام ایک ایسا نظام ہے جو بچپن سے لے کر مرنے تک ہر احمدی کو ایک پیار اور محبت کی لڑی میں پرو کر رکھتا ہے۔‘‘ اگر اس بات کو سمجھ لیا جائے کہ ہمارے نظام کا مقصد کیا ہے تو سب کام سہل اور آسان ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ۔ اس مضمون کو جاری رکھتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’حضرت مصلح موعودؓ کی دُور رَس نظر نے ذیلی تنظیموں کا قیام کیا تھا اور یہ آپ کا ایک بہت بڑا احسان ہے جماعت پر اور اسی وجہ سے جیسا کہ میں نے کہا، ابتدا ہی سے جماعت کے ہر بچہ کے ذہن میں جماعتی نظام کا ایک تقدس اور احترام پیدا ہو جاتا ہے اور اسی احترام اور تقدس کے تحت وہ پروان چڑھتا ہے۔ ‘‘ (خطبات مسرور جلد اول 514-515) عہدیداران کے انتخاب میں قرآنی اصول سورۃ النساء کی آیت 59 میں اللہ تعالیٰ نے انتخاب کے لئے جو اصول مقرر فرمایا ہے اس کی تشریح کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ 31دسمبر2004ء (فرمودہ پیرس، فرانس) میں فرمایا: ’’سب سے پہلے تو ہم قرآن کریم سے راہنمائی لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا فرمایا ہے یا کیا فرماتا ہے کہ اپنے عہدیداروں کا چناؤ کس طرح کرو۔ جو آیت میں نے تلاوت کی ہے۔ (سورۃ النساء:59) ترجمہ: یقینا اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو یقینا بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے یقینا اللہ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے۔ ‘‘ ٭حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ یہاں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ عہدیدار چننے والوں کو فرمایا کہ عہدے ان کو دو، ان لوگوں کو منتخب کرو جو اس کے اہل ہوں۔ اس قابل ہوں کہ جس کام کے لئے انہیں منتخب کررہے ہو وہ اس کو کر سکیں، وقت دے سکیں۔ یہ نہیں کہ چونکہ تمہارے تعلقات ہیں اس لئے ضرور اس عہدے کے لئے اس کو منتخب کرنا ہے یا ضرور اسی کو اس عہدے کے لئے ووٹ دینا ہے۔ اس میں ایک بہت بڑی ذمہ داری چناؤ کرنے والوں پر، منتخب کرنے والوں پر ڈالی گئی ہے۔ اس لئے جو ووٹ دینے کے جماعتی قواعد کے تحت حقدار ہیں، ہر ممبر تو ووٹ نہیں دیتا، جو بھی ووٹ دینے کا حقدار ہے ان کو ہمیشہ دعا کر کے فیصلہ کرنا چاہئے کہ جو بہترہو اس کو ووٹ دے سکے۔ ‘‘ ٭حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یہاں ضمناً یہ بھی بتا دوں کہ بعض دفعہ بعض افراد پر کسی وجہ سے پابندی لگی ہوتی ہے کہ وہ انتخاب میں حصہ نہیں سکتے اس لئے اس بارے میں ضد نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ہمارے نزدیک فلاں شخص ہی اس کام کے لئے موزوں تھا یا موزوں ہے اس لئے اسی کو ہم نے ووٹ دینا تھا اور اس کی اجازت دی جائے ورنہ ہم انتخاب میں شامل نہیں ہوتے۔ یہ غلط طریق ہے۔ اطاعت کا تقاضا یہ ہے اور نظام جماعت کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کوئی فیصلہ ہو گیا ہے کہ کسی شخص کو حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے تو پھر اس بارے میں اصرار نہیں کرنا چاہئے۔‘‘ ٭اسی خطبہ جمعہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ مزید نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’یہ بھی ذہن میں رہے، منتخب کرنے والوں کے اور جو منتخب ہو رہے ہیں ان کے بھی، بعض دفعہ لمبا عرصہ کر کے بعض ذہنوں میں باتیں آ جاتی ہیں کہ کوئی عہدہ جماعت میں کسی کا پیدائشی حق نہیں ہے، کوئی مستقل حق نہیں ہے۔ اس لئے جو خدمت کا موقع ملتا ہے وہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ کا فضل ہو تو اللہ تعالیٰ خود ہی خدمت کا موقع دے دیتا ہے۔ خود کبھی خواہش نہیں کرنی۔ اس لئے اشارۃً بھی کبھی کسی قسم کا یہ اظہار نہیں ہونا چاہئے کہ مجھے عہدیدار بنائو۔ نہ کسی کے دوست یا عزیز کو یہ حق حاصل ہے کہ کسی شخص کے حق میں ہلکا سا بھی اشارۃً یاکنایۃً اظہار کرے کہ اس کو ووٹ دیا جائے۔ اگر نظام جماعت کو پتہ چل جاتا ہے تو پھر جس کے حق میں پہلے پراپیگنڈہ کیا گیا ہے اس کو بھی اور جو پراپیگنڈہ کرنے والا ہے یا جس نے کوئی بات کسی کے لئے کہی ہو انتخابات سے پہلے، اس کو بھی انتخابات میں شامل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس حق سے محروم کیا جا سکتا ہے اور کر بھی دیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ جو جماعت کے انتخاب ہیں ان کو خالصۃً اللہ تعالیٰ کے لئے خدمت گزاروں کی ٹیم چننے والا تصور کر کے انتخاب کرنا چاہئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے منتخب عہدیداران کی ذمہ داری بھی لگائی ہے کہ تمہیں جب منتخب کر لیا جائے تو پھر اس کو قومی امانت سمجھو۔ اس امانت کا حق ادا کرو۔اپنی پوری استعدادوں کے ساتھ اس ذمہ داری کو نبھائو۔ اپنے وقت میں سے بھی اس ذمہ داری کے لئے وقت دو۔ جماعتی ترقی کے لئے نئے نئے راستے تلاش کرو۔ اور تمہارے فیصلے انصاف اور عدل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہونے چاہئیں۔ کبھی تمہاری ذاتی انا، رشتہ داریوں یا دوستیوں کا پاس انصاف سے دور لے جانے والا نہ ہو۔ کبھی کسی عہدیدار کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ فلاں شخص نے مجھے ووٹ نہیں دیا تھا۔ یا فلاں کانام میرے مقابلے کے لئے پیش ہوا تھا اس لئے مجھے کبھی موقع ملا، کبھی کسی معاملے میں تواس کو بھی تنگ کروں گا۔یہ مومنانہ شان نہیں ہے بلکہ انتہائی گری ہوئی حرکت ہے۔‘‘ (خطبات مسرور جلد دوم صفحہ946) ٭اسی طرح حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 5دسمبر 2003ء میں فرمایا: ’’پھر انتخاب بھی ہوتے ہیں، عہدے بدلتے بھی رہتے ہیں توہر ایک کو اپنے ذہن میں یہ سوچ رکھنی چاہئے کہ جب بھی وہ عہدیدار بنیں گے وہ ایک خادم کے طور پر خدمت کرنے کے لئے بنیں گے۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ عہدیدار بدلے بھی جاتے ہیں، خلیفہ وقت خود بھی اپنی مرضی سے بعض عہدوں کو تبدیل کر دیتے ہیں، تو بہرحال نئے آنے والے شامل ہوتے ہیں اور نئے آنے والوں کو بھی یہی سوچ ہونی چاہئے اور اگر بنیادی ٹریننگ ہو گی تو اس سوچ کے ساتھ جو عہدہ ملے گا تو ان کو کام کرنے کی سہولت بھی رہے گی۔‘‘ (خطبات مسرور جلد اول صفحہ523-524) ٭حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے بارے میں اپنے خطبہ جمعہ میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’پھر عہدے کی خواہش کرنا ہے، پہلے بھی میں نے کہا کہ یہ ایک ایسی بات ہے جو جماعت میں بڑی معیوب سمجھی جاتی ہے اور اس شخص کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے جو اس بارے میں کوشش کرتا ہے۔ اس بارے میں ایک حدیث میں اس طرح آتا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن سمرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے فرمایا کہ اے عبدالرحمن! تو امارت اور حکومت نہ مانگ، اگر تجھے بغیر مانگے یہ عہدہ ملے تو اس ذمہ داری کے بارے میں تیری مدد کی جائے گی، یعنی خواہش نہ ہو اور پھر عہدہ مل جائے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرماتا ہے اور اپنے بندے کی مدد کرتا ہے اور اگر تیرے مانگنے پر تجھے یہ عہدہ دیا گیا تو پھر اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہو گا، ذرا سی بھی غلطی ہو گی تو پکڑ بہت زیادہ ہو گی۔ (بخاری کتاب الاحکام)۔‘‘ (خطبات مسرور جلد دوم صفحہ951) اس کے علاوہ عہدیداران کے متعلق بعض عمومی باتیں بھی ہیں جن کا مَیں ذکر کر دیتاہوں۔ اللہ کے فضل سے جماعت میں عموماً عہدے کی خواہش کا اظہارکوئی نہیں کرتااور جب عہدہ مل جاتاہے توخوف پیدا ہوتاہے کہ مَیں ادا بھی کر سکتاہوں یا نہیں۔ لیکن بعض سرپھرے بھی ہوتے ہیں۔ خط لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے ضلع میں صحیح کام نہیں ہورہا۔ لکھنے والا لکھتاہے گومَیں جانتاہوں کہ عہدے کی خواہش کرنا مناسب نہیں لیکن پھربھی مَیں سمجھتاہوں کہ اگرمیرے سپرد امارت یا فلاں عہدہ کردیاجائے تو مَیں چھ مہینے یا سال میں اصلاح کرسکتاہوں۔ تبدیلیاں پیدا کردوں گا۔ توبعض تو ایسے سرپھرے ہوتے ہیں جو کھل کر لکھ دیتے ہیں۔ اور بعض بڑی ہوشیاری سے یہی مدعا بیان کررہے ہوتے ہیں۔ تو ان پر مَیں یہ واضح کردوں کہ ہمارے نظام میں، جماعت احمدیہ کے نظام میں اگر کسی انتخاب کے وقت کسی کا نام پیش ہو جائے تو وہ اپنے آپ کوووٹ دینے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ اپنے آپ کو ووٹ دینا بھی اس بات کااظہار ہے کہ مَیں اس عہدے کا حقدار ہوں۔ ایسے لوگوں کو یہ حدیث پیش نظررکھنی چاہئے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس گیا اور میرے ساتھ میرے دو چچازاد بھائی تھے ان میں سے ایک بولا: یارسول اللہ! ہم کو ان ملکوں میں سے کسی ملک کا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیئے ہیں امیر مقرر کر دیجئے اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہاتو آپ نے فرمایا۔ ’’ اللہ کی قسم ہم ولایت کی خدمت اس کے سپرد نہیں کرتے جو اس کی درخواست کرے یا اس کی حرص کرے۔‘‘ (مسلم کتاب الامارۃ) حضور نے یہاں پر اس حدیث کا ذکر پھر فرمایا کہ : ’’ اے عبد الرحمن! عہدہ اور حکومت کی درخواست مت کر کیونکہ اگر درخواست سے تجھ کو (عہدہ یا حکومت) ملے تو اس کا بوجھ تجھ پر ہو گا اور اگر بغیر سوال کے ملے تو خداتعالیٰ کی نصرت شاملِ حال ہو گی۔‘‘ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں حضرت مصلح موعود ؓ کا یہ حوالہ بھی پیش فرمایا: ’’بعض لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے عہدے لینے کے لئے مجالس میں شامل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ لعنت ہوتے ہیں اپنی قوم کے لئے اور لعنت ہوتے ہیں اپنے نفس کے لئے۔ وہ وہی ہیں جن کے متعلق خداتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلٰوتِھِمْ سَاھُوْنَ ـ الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآئُوْن (الماعون:5تا7) ریا ہی ریا ان میں ہوتی ہے۔ کام کرنے کا شوق ان میں نہیں ہوتا۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ اس ضمن میں مزید فرماتے ہیں : ’’کارکنوں کو چاہئے کہ تندہی سے کام کریں۔ یہ خواہش کہ ہمارا نام و نمود ہو ایسا خیال ہے جو خراب کرتا ہے۔ اس خیال کے ماتحت بہت لوگ خراب ہو گئے ہیں، ہوتے ہیں، ہوتے رہیں گے۔ تم اللہ سے ڈرو اور اسی سے خوف کرو اور اس بات کو مدنظر رکھو کہ اس کا کام کر کے اس سے انعام کے طالب ہو … اور لوگوں سے مدح اور تعریف نہ چاہو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں میں للہیت پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے اور مجھ پر بھی رحم کرے۔ آمین‘‘۔ (خطبات مسرور جلد اول صفحہ528تا530) ……………………… ان تمام امور کی روشنی میں جماعت احمد یہ میں عہدیداران کو منتخب کرنے کیلئے چندعمومی قواعد ذیل میں درج ہیں۔ مقامی اور ملکی سطح پر انتخابات کے تفصیلی قواعد جاننے کیلئے ملاحظہ ہوں قواعد نمبر215 تا 290(قواعد وضوابط تحریک جدید انجمن احمدیہ، ایڈیشن 2008): عمومی قواعد: قاعدہ نمبر221: یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ تمام عہدیداران: (الف) داڑھی رکھتے ہوں۔ استثنائی صورت میں (داڑھی نہ رکھنے والے کا بھی انتخاب ہو سکتا ہے لیکن) اس کی اجازت حضرت خلیفۃ المسیح سے لینا ضروری ہو گا۔ (ب) معروف طور پر متقی ہوں۔ قاعدہ نمبر222: (الف) درج ذیل افراد کسی بھی جماعتی انتخاب میں ووٹ دینے کے اہل نہ ہوں گے۔ -ایسا شخص جو لازمی چندہ جات کا نادہندہ ہو۔ - ایسا شخص جس کی عمر 18سال سے کم ہو۔ -ایسے افراد جن کے خلاف نظام جماعت نے تعزیری کارروائی کی ہو۔ نوٹ : ایسے زیر تعزیرافراد کو حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف سے معاف کیے جانے کے بعد تین سال کا عرصہ گزرنے پر دوبارہ الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی۔ -ایسے عہداران جنہیں نظام جماعت نے بوجوہ معطل کر دیا ہو (معطلی کے عرصہ کے دوران)۔ (ب) ایسے بقایا داران/ نادھندگان، جو انتخاب کی تاریخ کے اعلان کے بعد اپنا چندہ ادا کریں وہ اس انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے۔ محض انتخاب میں حصہ لینے کی خاطر چندے کی ادائیگی کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔ (ج) ایک نومبائع اپنی بیعت کے ایک سال کے بعد انتخاب میں حصہ لینے کا حق دار ہو گا۔ بشرطیکہ وہ قواعد و ضوابط میں دی گئی تمام دوسری شرائط پوری کرتا ہو۔ نوٹ نمبر1: چندہ ادا کرنے والے ممبر سے مراد ایسا شخص ہے جو چھ ماہ یا اس سے زائد کے لازمی چندہ جات کا بقایا دار نہ ہو، اس شرط سے وہ افراد مستثنیٰ ہیں جنہوں نے مرکز سے بقایا جات کی بالاقساط ادائیگی یا رعایتی شرح سے چندہ کی ادائیگی کی اجازت حاصل کی ہو۔ تاہم ایسے تمام افراد کسی جماعتی عہدہ یا مجلس انتخاب کے ممبر کی حیثیت سے منتخب نہیں کئے جا سکتے سوائے اس کے کہ مرکز کی طرف سے قبل از وقت ان کے انتخاب کی اجازت حاصل کر لی گئی ہو۔ نوٹ نمبر2: ایسا شخص جو اپنی متعلقہ ذیلی تنظیم(مجلس انصار اللہ / مجلس خدام الاحمدیہ) کے چندہ مجلس کا چھ ماہ سے زیادہ کا بقایادار اور چندہ سالانہ اجتماع کا ایک سال سے زائد عرصہ کا بقایادار ہو وہ کسی بھی جماعتی عہدہ کے لئے منتخب نہیں ہوسکتا۔ ……………………… ان معروف قواعد کی تھوڑی سی مزید تشریح کی جاتی ہے کہ جن عہدیداروں کا انتخاب کیا جائے وہ شعار اسلامی پر پابند ہوں۔ جن میں ایک اہم چیز داڑھی کا رکھنا ہے۔ داڑھی رکھنا سنت نبوی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور آپ کے خلفاء نے وقتاً فوقتاً اس کی طرف توجہ بھی دلائی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے ایک عرب نے داڑھی کی نسبت دریافت کیا تو حضرت اقدسؑ نے فرمایا: ’’یہ انسان کے دل کا خیال ہے بعض انگریز تو داڑھی اور مونچھ سب کچھ منڈوا دیتے ہیں وہ اسے خوبصورتی خیال کرتے ہیں اور ہمیں اس سے ایسی کراہت آتی ہے کہ سامنے ہو تو کھانا کھانے کو جی نہیں چاہتا۔ داڑھی کا جو طریق انبیاء اور راستبازوں نے اختیار کیا وہ بہت پسندیدہ ہے البتہ اگر بہت لمبی ہو جاوے تو کٹوا دینی چاہئے ایک مشت رہے۔ خدا نے یہ ایک امتیاز مرد اور عورت کے درمیان رکھ دیا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد نمبر4 صفحہ388۔ ایڈیشن 1985ء۔ مطبوعہ انگلستان) حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 14فروری 1945ء میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اصل بات یہ ہے کہ گو داڑھی کو مذہب میں کوئی بڑا دخل نہیں لیکن اغیار تمہاری داڑھیوں کو، سر کے بالوں کو اور تمہارے کپڑوں کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ تم اپنے مذہب کے لئے کتنی غیرت رکھتے ہو اور تم اسلامی شعار کو قائم کرنے کی کس قدر کوشش کرتے ہو۔‘‘ فرماتے ہیں : ’’جب تم داڑھی منڈواتے ہو یا چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھتے ہو تم اپنے منہ سے اقرار کرتے ہو کہ اسلام کے احکام پر عمل نہیں ہو سکتا پھر تم یہ بتاؤ تم دوسروں پر کیا اثر ڈال سکتے ہو۔ ‘‘ آپ نے اس خطبہ میں فرمایا کہ داڑھی رکھنے میں بھی کئی حکمتیں اور مصالح ہیں، یہ جسمانی صحت کے لئے مفید ہے اور جماعتی تنظیم کے لئے بھی بہت فائدہ مند ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں مشعل راہ جلد اول صفحہ401-402) خطبہ جمعہ 18اپریل میں آپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اسی طرح داڑھی رکھنے کا مسئلہ ہے آپ نے فرمایا (یعنی حضرت مسیح موعود ؑ نے) کہ ہم تو نصیحت کر دیتے ہیں جسے ہمارے ساتھ محبت ہو گی وہ خود رکھے گا، ہماری داڑھی ہے اور جو ہمارے ساتھ محبت کرے گا، وہ خود رکھ لے گا، تو کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ اب ہمیں داڑھی رکھنے پر کوئی زور نہیں دینا چاہئے۔پس عہدیداروں کا داڑھی رکھنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور ہم نے اس پر پابند ہونا ہے۔ ‘‘ (مشعل راہ جلد اول صفحہ38) متعلقہ قواعد میں ایک بات یہ ہے کہ ایسا شخص جس کو کسی عہدہ کے لئے چنا جائے وہ متقی ہو۔ تقویٰ کا پیمانہ ناپنے کا آلہ تو اللہ کے پاس ہے، کوئی انسان کسی کے تقویٰ کو ناپ تول نہیں سکتا، جو ظاہری حالات ہوں اس سے انسان پتہ لگا سکتا ہے کہ کسی کے اخلاق کیسے ہیں اس لئے درج ذیل باتوں کی طرف توجہ ہونی چاہئے کہ ایسا شخص متکبر نہ ہو۔ خود غرض نہ ہو۔ غیبت کرنے والا نہ ہو، باتوں کو غیر ضروری طور پر ادھر ادھر پھیلانے والا نہ ہو، جس سے بدامنی ہوتی ہو یا لوگوں کے اندر بے چینی پیدا کرنے والی ہوں۔ اس کے اندر پیار، نرمی، اخوت، محبت اور جماعت کے افراد کے لئے ہمدردی پائی جاتی ہو۔ اور وہ صبر وتحمل رکھنے والا ہو۔ حضرت مسیح موعودؑ کا تو مشن ہی تقویٰ پیدا کرنا تھا آپ نے جماعت کو بار بار تقویٰ کی راہ اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور بعض اوقات اس پر بے چینی کا اظہار بھی فرمایا۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا: ’’خداتعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں کسی پر ظلم نہ کرو۔ نہ تیزی کرو نہ کسی کو حقارت سے دیکھو جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہوتا ہے تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے اگر حرارت کی طرف تمہاری طبیعت کا میلان ہو تو پھر اپنے دل کو ٹٹولو کہ یہ حرارت کس چشمہ سے نکلی ہے یہ مقام بہت نازک ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ9) پھر فرمایا : ’’اہل تقویٰ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے… میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے یہ ایک قسم کی تحقیر ہے جس کے اندر حقارت ہے ڈرے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاوے۔ بعض آدمی بڑوں سے مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات مسکینی سے سنے۔ اس کی دلجوئی کرے اس کی بات کی عزت کرے کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے۔‘‘ فرمایا:’’خدا کے کلام سے پایا جاتا ہے کہ متقی وہ ہوتے ہیں جو حلیمی اور مسکینی سے چلتے ہیں وہ مغرورانہ گفتگو نہیں کرتے ان کی گفتگو ایسی ہوتی ہے جیسے چھوٹا بڑے سے گفتگو کرے ہم کو ہر حال میں وہ کرنا چاہئے جس سے ہماری فلاح ہو، اللہ تعالیٰ کسی کا اجارہ دار نہیں وہ خاص تقویٰ کو چاہتا ہے۔ جو تقویٰ کرے گا وہ مقام اعلیٰ کو پہنچے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 36-37 لندن ایڈیشن) اپنی جماعت کی خیرخواہی کے لئے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے کیونکہ یہ بات عقلمند کے نزدیک ظاہر ہے کہ بجز تقویٰ اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا… ہماری جماعت کو خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ کی بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رو بہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔ ‘‘ (صفحہ10) عہدیداران کا تعلق چونکہ لوگوں سے ہوتا ہے ان کا دن رات کا واسطہ ان سے پڑتا ہے اس لئے یہ اقتباسات چنے گئے ہیں۔ ورنہ تقویٰ کے بارے میں حضرت اقدس ؑ کی کتب بھری پڑی ہیں جن سے تقویٰ کی اہمیت اور برکات معلوم ہو سکتی ہیں۔ ………………………… قواعد و ضوابط میں ایک اور بات جس کا ذکر ہے اور کبھی کبھی اِکّا دُکّا اس بات کا اظہار کر دیتے ہیں کہ چندوں پر کیوں زور دیا جاتا ہے اور قواعد میں یہ بات کیوں رکھی گئی ہے۔ اس لئے اس موقعہ پر یہ بھی مناسب ہے کہ چندوں کی برکت اور اس کا مقصد بھی بیان کیا جائے اور عہدیداران کو تو ہر لحاظ سے معیاری ہونا چاہئے خواہ اس کا تعلق خداتعالیٰ سے ہو خواہ بندوں سے ہو۔ اللہ تعالیٰ قران کریم میں فرماتا ہے: ’’اور اللہ کے راستے میں (مال و جان) خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں (اپنے آپ کو) ہلاکت میں مت ڈالو۔ (البقرۃ:2:196) سورۃ آل عمران آیت 93میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو فرمایا کہ : ’’تم کامل نیکی کو ہرگز نہیں پا سکتے جب تک اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے (خدا کے لئے) خرچ نہ کرو اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کرو اللہ اسے یقینا خوب جانتا ہے۔‘‘ صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ میں یہ روایت آتی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دیا کرے گا اپنے روپیوں کی تھیلی کا منہ (بخل کی راہ سے) بند کر کے نہ بیٹھ جانا ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا۔ جتنی طاقت ہے دل کھول کر خرچ کیا کرو۔‘‘ (مالی قربانی ایک تعارف ناشر تحریک جدید انجمن احمدیہ صفحہ12-13) حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے چندوں اور مالی قربانی، اس کی ضروریات اور اہمیت کو بھی متعدد مرتبہ بیان فرمایا۔ اشتہار تبلیغ رسالت میں آپ فرماتے ہیں : ’’خداتعالیٰ نے متواتر ظاہر کر دیا ہے کہ واقعی اور قطعی طور پر وہی شخص اس جماعت میں داخل سمجھا جائے گا جو اپنے عزیز مال کو اس راہ میں خرچ کرے گا۔‘‘ (مالی نظام حصہ دوم نظارت بیت المال صفحہ3) پھر فرماتے ہیں : ’’قوم کو چاہئے کہ ہر طرح سے اس سلسلہ کی خدمت بجا لاوے۔ مالی طرح پر بھی خدمت کی بجا آوری میں کوتاہی نہیں چاہئے۔ دیکھو دنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے۔ پس ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس امر کا خیال ضروری ہے۔‘‘ (مالی نظام۔ حصہ اول صفحہ56) ان اقتباسات سے یہ بات ظاہرو باہر ہے کہ مالی قربانی سے انسان کو خداتعالیٰ کا قرب، تزکیۂ نفس اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور یہ ہر احمدی کا فرض اوّلین ہے کہ مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ آخری زمانے میں چونکہ اشاعت اسلام حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ ہوئی ہے جس کا سورۃ الصف کے آخری رکوع میں ذکر بھی ہے کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت پر مطلع کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے گی؟ تم جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو اور اللہ کے راستے میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کا ساتھ جہاد کرتے ہو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو، وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کر دے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں اور ایسے پاکیزہ گھروں میں بھی جو ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں ہیں یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (سورۃ الصف 61:11-13) تو مالی قربانی تزکیۂ نفس کے لئے ہے۔ اس وجہ سے انتخاب قواعد و ضوابط میں یہ بات شامل ہے کہ ایسا شخص جسے لوگوں کی خدمت پر مامور کیا گیا ہے انہیں ایک رول ماڈل بننا چاہئے اور ان کی مالی قربانیاں بھی معیاری ہونی چاہئیں۔ ……………………… اب چندہ عام کی شرح 1/16 ہے۔ جماعت کے قواعد کے مطابق ایسا شخص ہی الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے اور ووٹ دے سکتا ہے جس کا چندہ معیاری ہو اور باشرح ہو۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ پھر فرماتے ہیں : ’’میری ساری زندگی کا تجربہ ہے کہ جو لوگ مالی قربانی میں خداتعالیٰ سے صاف معاملہ نہیں رکھتے اور تقویٰ کے ساتھ اپنے مال میں سے اللہ اور اس کے دین کا حصہ الگ نہیں کرتے ان کے دیگر معاملات بھی بگڑ جاتے ہیں، گھروں کا سکون تباہ ہو جاتا ہے، کاروبار میں نقصان اٹھانے لگتے ہیں، اولاد کی تربیت میں بگاڑ آجاتا ہے اور بالعموم انسان کی زندگی سے برکتیں اٹھ جاتی ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کے دعوت الی اللہ کے کام میں بھی کوئی جان اور قوت پیدا نہیں ہوتی۔ اس لئے اس مسئلہ کو معمولی نہ سمجھیں۔ خدا خوفی کے ساتھ، اپنے ہی بھلے کے لئے اس طرف پوری توجہ دیں۔ اور یقین رکھیں کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے مال بڑھتے ہی ہیں، گھٹتے ہرگز نہیں۔ ‘‘ (مالی نظام۔ حصہ اول صفحہ 96 ناشر صدر انجمن احمدیہ پیغام حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ) پس یہ وہ راز ہیں مالی قربانی کے، عہدیداروں کو اس پر خود عمل کرنا چاہئے تا کہ دوسروں سے عمل کرا سکیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ مالی قربانی کو قواعد و ضوابط میں رکھا گیا ہے۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے متعدد بار تحریک جدید اور وقفِ جدید کے نئے سالوں کے آغاز پر اعلان میں متعدد واقعات ایسے سنائے ہیں کہ کس طرح خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کے افراد مالی قربانیوں میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور ان مالی قربانیوں کے نتیجے میں خداتعالیٰ انہیں کس طرح روحانی اور تعلق باللہ جیسی کامیابیوں سے نواز رہا ہے۔ الحمدللہ۔ اس لئے یہ مالی قربانی کا مطالبہ بار بار کیا جارہا ہے کہ خاص طور پر وہ لوگ جن کو جماعت کی خدمات سپرد ہیں وہ ایک اعلیٰ نمونہ قائم کریں اور دوسروں کے لئے رول ماڈل بنیں۔ ………………………… عہدیداروں کو نصیحت حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 5دسمبر2003ء میں عہدیداران کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’پھرآخرمیں خلاصۃً دوبارہ بیان کر دیتاہوں کہ جو باتیں مَیں نے کہی ہیں عہدیداران کے لئے اور یہ خلفائے سلسلہ کہتے چلے آئے ہیں پہلے بھی لیکن ایک عرصہ گزرنے کے بعد بعض باتیں یادنہیں رہتیں۔ جونئے آنے والے عہدیداران ہوتے ہیں جو نہیں سمجھ رہے ہوتے صحیح طرح اس لئے باربار یاددہانی کروانی پڑتی ہے۔ توخلاصۃ ً یہ باتیں ہیں : (1)…عہدیداران پر خود بھی لازم ہے کہ ا طاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھائیں اور اپنے سے بالا افسریاعہدیدار کی مکمل اطاعت اور عزت کریں۔ اگر یہ کریں گے توآپ کے نیچے جو لوگ ہیں، افراد جماعت ہو ں یا کارکنان،آپ کی مکمل اطاعت اورعزت کریں گے۔ (2)…یہ ذہن میں رکھیں کہ لوگوں سے نرمی سے پیش آنا ہے۔ان کے دل جیتنے ہیں، ان کی خوشی غمی میں ان کے کام آناہے۔اگر آ پ یہ فطری تقاضے پورے نہیں کرتے تو اس کامطلب یہ ہے کہ ایسے عہدیدار کے دل میں تکبر پایا جاتاہے۔ (3)… امراء اورعہدیداران یا مرکزی کارکنان یہ دعا کریں کہ ان کے ماتحت یا جن کا ان کو نگران بنایا گیاہے، شریف النفس ہوں، جماعت کی اطاعت کی روح ان میں ہو اورنظام جماعت کا ا حترام ان میں ہو۔ (4)…کبھی کسی فرد جماعت سے کسی معاملہ میں امتیازی سلوک نہ کریں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ بعض لوگ بڑے ٹیڑھے ہوتے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ امراء کے، عہدیداران کے،یا نظام جماعت کے ناک میں دم کیا ہوتاہے ایسے لوگوں نے لیکن پھربھی ان کی بدتمیزیوں کو جس حد تک برداشت کرسکتے ہیں کریں اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پرکسی قسم کا شکوہ نہ کریں، بدلہ لینے کا خیال بھی کبھی دل میں نہ آئے۔ان کے لئے دعا کریں، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ (5)…پھریہ کہ نظام جماعت کا استحکام اور حفاظت سب سے مقدم رہناچاہئے اور اس کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ پھر کبھی اپنے گرد ’جی حضوری‘ کرنے والے یا خوشامد کرنے والے لوگوں کواکٹھا نہ ہونے دیں۔ جن عہدیداروں پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہو جاتاہے پھرایسے عہدیداران سے انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ایسے عہدیدار پھر ان لوگوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن جاتے ہیں۔ تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کی تلقین فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی بُرے مشیر میرے اردگرد اکٹھے نہ کرے۔ (6)…پھر یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے جیساکہ مَیں بیان بھی کر چکاہوں کہ جہاں نظام جماعت کے تقدّس پر حرف نہ آتاہو، عفو اور احسان کا سلوک کریں۔ ان کے لئے مغفرت مانگیں جو ان کی اصلاح کا موجب بنے۔یہ تو عہدیدارن کے لئے ہے لیکن آخر میں مَیں پھر احباب جماعت کے لئے ایک فقرہ کہہ دیتاہوں کہ آ پ پر بھی،جو عہدیدار نہیں ہیں، ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کا کام صرف اطاعت، اطاعت اور اطاعت ہے اورساتھ دعا کرناہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ واریاں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ (خطبات مسرور جلد اول صفحہ531-532) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت بھی فرمائی کہ: ’’جماعت احمدیہ میں عہدیدار اسٹیجوں پر بیٹھنے یا رعونت سے پھرنے کے لئے نہیں بنائے جاتے بلکہ اس تصور سے بنائے جاتے ہیں کہ قوم کے سردار قوم کے خادم ہیں۔ … وہ تمام عہدیدار چاہے ذیلی تنظیموں کے عہدیدار ہوں، چاہے جماعتی عہدیدار ہوں، خلیفہ ٔ وقت کے نمائندے کے طورپر اپنے اپنے علاقہ میں متعین ہیں اوران سے یہی امید کی جاتی ہے اور یہی تصورہے کہ وہ خلیفہ ٔوقت کے نمائندے ہیں۔ اگر وہ اپنے علاقہ کے احمدیوں کے حقوق ادا نہیں کررہے،ان کی غمی خوشی میں شریک نہیں ہو رہے،ان سے پیار محبت کا سلوک نہیں کررہے،یا اگر خلیفۂ وقت کی طرف سے کسی معاملہ میں رپورٹ منگوائی جاتی ہے تو بغیر تحقیق کے مکمل طریق کے جواب دے دیتے ہیں یا کسی ذاتی عناد کی وجہ سے،جو خدا نہ کرے ہمارے کسی عہدیدار میں ہو، غلط رپورٹ دے دیتے ہیں توایسے تمام عہدیدارگنہگار ہیں۔ ‘‘ (خطبات مسرور جلد اول صفحہ516-517) ………………………… احباب کو نصیحت حضور انور نے جہاں عہدیداروں کو نصائح فرمائیں وہاں احباب جماعت کو بھی ان کے عہدیداروں کے تعلق میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اب مَیں افراد جماعت کو بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا نظام جماعت میں کیا کردار ہونا چاہئے۔ پہلی بات یاد رکھیں کہ جتنے زیادہ افراد جماعت کے معیار اعلیٰ ہوں گے اتنے زیادہ عہدیداران کے معیار بھی اعلیٰ ہوں گے۔ پس ہر کوئی اپنے آپ کو دیکھے اور ان معیاروں کو اونچا کرنے کی کوشش کرے اور اپنے فرائض یعنی ایک فرد جماعت کے عہدیدار کے لئے کہ اطاعت کرنی ہے اس کے بھی اعلیٰ نمونے دکھائیں۔ یہ نمونے جب آپ دکھا رہے ہوں گے تو اپنی نسلوں کو بھی بچا رہے ہوں گے۔ انہی نمونوں کو دیکھتے ہوئے آپ کی اگلی نسل نے بھی چلنا ہے اور انہیں نمونوں پر جو نسلیں قائم ہوں گی وہ آئندہ جب عہدیدار بنیں گی تو وہ وہی نمونے دکھا رہی ہوں گی جو اعلیٰ اخلاق کے نمونے ہوتے ہیں۔ …امیرکی اور نظام جماعت کی اطاعت کے بارے میں یہ حکم ہے۔ لوگ تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم خلیفہ کی اطاعت سے باہر نہیں ہیں، مکمل طور پر اطاعت میں ہیں، ہر حکم ماننے کو تیار ہیں۔ لیکن فلاں عہدیدار یا فلاں امیر میں فلاں فلاں نقص ہے اس کی اطاعت ہم نہیں کر سکتے۔ تو خلیفۂ وقت کی اطاعت اسی صورت میں ہے جب نظام کے ہر عہدیدار کی اطاعت ہے۔ اور تب ہی اللہ کے رسول کی اور اللہ کی اطاعت ہے۔‘‘ (خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 955)