اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔ ………………………… حضرت میاں نور محمد صاحب کھوکھرؓ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍اکتوبر 2011ء میں حضرت میاں نور محمد صاحب کھوکھرؓ آف امیرپور ضلع ملتان کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ حضرت میاں نور احمد صاحب مدرس مدرسہ امدادی بستی وریام کملانہ (شورکوٹ ضلع جھنگ) کا ذکر حضرت مہدی معہود نے ’’حقیقۃ الوحی‘‘ کے نشان نمبر 141 میں فرمایا ہے۔ آپؓ کے کہنے پر آپ کے چھوٹے بھائی حضرت میاں نور محمد صاحب نے استخارہ کیا اور 15؍اگست 1907ء کو قادیان جاکر حضورؑ کی زیارت اور بیعت کی توفیق پائی۔ بیعت کے بعد حضرت اقدسؑ نے آپ سے ملتان میں سلسلہ کی مخالفت کے حالات دریافت فرمائے تو آپ نے عرض کیا بہت لوگ مخالف ہیں۔ اس پر حضرت اقدس نے ایک روح پرور تقریر فرمائی جس کے آخری الفاظ یہ تھے: خداتعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ جہاں ہماری مخالفت میں زیادہ شور اٹھا ہے وہاں ہی زیادہ جماعت تیار ہوئی ہے جہاں مخالفت کم ہے وہاں ہماری جماعت بھی کم ہے۔ حضرت میاں نور محمد صاحبؓ غریبوں کے ہمدرد اور منکسرالمزاج شخص تھے۔ نماز تہجد کے پابند اور بہت دعاگو تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے اکثر آنسو رواں ہو جاتے تھے۔ گنگارام ہسپتال لاہور میں 28 ؍اکتوبر 1949ء کو آپؓ کی وفات ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کا جنازہ پڑھایا۔ …٭…٭…٭… ’’وقت کم ہے بہت ہیں کام چلو‘‘ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ3؍ نومبر 2011ء میں مکرم پروفیسر راجا نصراللہ خان صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں وقت کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا تھا کہ اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَایُضَاعُ وَقْتَہٗ کہ تُو وہ بزرگ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے سورۃ العصر کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’زمانہ جس طرح پر تیزی سے گزر رہا ہے اسی طرح ہماری عمریں تیزی سے گزر رہی ہیں۔ … اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ شریف میں جہاں انسانی عمر کے اس طرح تیزی سے گزرنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اس سورۃ میں اس کا علاج بتایا ہے کہ تمہیں زمانہ کی پروا نہیں اگر ہمارا حکم مان لو۔ اس حکم کی تعمیل سے تم زندہ جاوید ہو جاؤ گے اور وہ یہ ہے کہ آپ مومن بنو اور اعمال صالحہ کرو۔ دوسرے کو مومن بناؤ اور حق کی وصیت کرو۔ حق کے پہنچانے میں تکالیف سے نہ ڈرو اور صبر و استقلال سے کام لو۔ اس علاج پر اگرمومن عمل کرے اور اس کو اپنا دستور العمل بنالے تو یقینا یقینا وہ ہمیشہ کی زندگی پالے گا۔‘‘۔ عام طور پر کہتے ہیں کہ فلاں شخص اپنا وقت ضائع کررہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص خود کو ضائع کررہا ہوتا ہے۔ اور اپنی زندگی کو تعمیری اور کامیاب بنانے کے مواقع ضائع کررہا ہوتا ہے۔ وقت کی مثال برف کی طرح ہے جس نے آخرکار پگھل ہی جانا ہے۔ چنانچہ زندگی کے آخری ایام میں ٹامس ایڈیسن سے پوچھا گیا کہ دنیا میں سب سے قیمتی شے کیا ہوتی ہے؟ وہ بولا ’’وقت۔ کیونکہ آپ ایک ملین ڈالر دے کر بھی گزرا ہوا منٹ نہیں خریدسکتے‘‘۔ بائبل میں وقت کی قدر نہ کرنے والوں کی ایک تمثیل بیان ہوئی ہے۔ دس کنواریاں اپنی مشعلیں لے کر ایک دولہا کے استقبال کے لئے نکلیں ان میں سے پانچ بیوقوف تھیں اور پانچ عقلمند۔ بیوقوف کنواریوں نے اپنی مشعلیں لیں لیکن (وقت پر) ان میں تیل نہ ڈالا۔ عقلمند کنواریوں نے اپنی مشعلیں ہر طرح سے تیار رکھیں۔ دولہا نے دیر لگائی۔ سب اونگھنے لگیں اور سو گئیں۔ آدھی رات کو شور ہوا دیکھو دولہا آگیا۔ اس کے استقبال کو نکلو ’’سب کنواریاں اپنی مشعلیں درست کرنے لگیں … بیوقوف کنواریاں تیل خریدنے دوڑیں۔ اُس وقت دولہا آگیا۔ جو تیار تھیں وہ اس کے ساتھ شادی کے جلوس میں اندر چلی گئیں اور دروازہ بند ہو گیا (وقت ضائع کرنے والی کنواریاں محروم رہ گئیں )۔ بعض لوگ آرام پسندی اور تن آسانی کی وجہ سے کہہ دیتے ہیں ’’ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ یہ کام بعدمیں کرلیں گے‘‘۔ لیکن عقلمند اور دُوراندیش انسان موقع کو غنیمت جانتا ہے اور ’’پہلے کام اور پھر آرام‘‘ کے اصول کو اپنا کر بہت آگے نکل جاتا ہے۔ شیخ سعدیؒ کے ایک فارسی شعر کا ترجمہ ہے کہ ایک چراگاہ ہزار درجہ میدانِ خشک سے بہتر ہے لیکن افسوس کہ گھوڑے کی لگام خود اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ بعض لوگوں کو وقت کی کمی کی شکایت رہتی ہے۔ اصل میں زیادہ کچھ کرسکنے کے لئے وقت سے فائدہ اٹھانے اور وقت کو صحیح رنگ میں استعمال کرنے کا سلیقہ جاننا چاہئے۔ نیک نیّتی اور بلند ہمّتی سے تھوڑا وقت مختلف کاموں کو عمدگی سے بجالانے کے لئے کافی ہوسکتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا راہنما اصول تھا ’’کام،کام اور کام‘‘۔ آپ اپنے ہر کام کو معیّن وقت پر کرنے کی انتہائی پابندی کرتے تھے۔ وقت کو بابرکت اور پُرلذت بنانے کا ایک قیمتی نسخہ یہ ہے: ’’دست باکار دل بایار‘‘۔ محترم بشیر احمد خان صاحب رفیق تحریر کرتے ہیں کہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ انگلستان میں جب گرمیوں کے موسم میں دن بہت لمبے اور راتیں بہت چھوٹی یعنی محض چند گھنٹوں کی ہوتی ہیں تب بھی حضرت چودھری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ نے نماز تہجد اور نماز فجر کی بروقت ادائیگی کا التزام رکھا۔ ذکر الٰہی اور تسبیح و تحمید کے لئے یوں تو آپ کا ہر لمحہ وقف تھا لیکن بطور خاص روزانہ دو میل کی سیر کے دوران درود شریف اور تسبیحات کا ورد فرماتے اس لئے سیر کے دوران کسی کی معیت پسند نہیں فرماتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1920ء میں نونہالان جماعت کی راہنمائی اور تربیت کے لئے طویل اور حد درجہ اثر انگیز نظم لکھی تھی۔ بلاشبہ نوجوانی عمر کا بہترین حصہ ہے تاہم یہ عرصہ بھی محدود ہوتا ہے اور اس کا احساس بعد میں ضرور ہوجاتا ہے۔ حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ: اگر ہر رات قدر کی رات ہوتی تو شب قدر کی یقینا کوئی قدر نہ رہتی۔ اگر تمام پتھر لعل بدخشاں (اعلیٰ قسم کے لعل) بن جاتے تو لعل کی قیمت اور معمولی پتھر کی قیمت برابر ہوتی۔ پس زندگی کو سنوارنے کا بہترین وقت عہد جوانی ہے۔ اس دَور میں کی جانے والی محنت اور اولوالعزمی کا یہ سلسلہ بڑھاپے بلکہ آخری دم تک جاری و ساری رہتا ہے۔ اس کی ایک مثال حضرت مولانا نورالدین کا تحصیل علم کے لئے سفر ہے۔ آپؓ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ میرے باپ پر رحم فرمائے۔ انہوں نے مجھ کو اس وقت جبکہ میں تحصیل علم کے لئے پردیس کو جانے لگا فرمایا اتنی دور جا کر پڑھو کہ ہم میں سے کسی کے مرنے جینے سے ذرا بھی تعلق نہ رہے‘‘۔ حضرت مصلح موعودؓ اپنے لیکچر ’منہاج الطالبین‘ میں فرماتے ہیں : ’’جو دوست جلسہ پر آتے ہیں وہ تو سمجھتے ہوں گے کہ میں نے دو دن لیکچر دیا تو یہ کونسا بڑا کام ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اس لیکچر کے لئے مجھے کس قدر مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ جو مسئلہ میں بیان کرتا ہوں اس کے متعلق مختلف مذاہب کے لوگوں کے خیالات معلوم کرنے کے لئے مجھے بہت کچھ ورق گردانی کرنی پڑتی ہے۔ یہی لیکچر جو میں آج دینا چاہتا ہوں اس کی تیاری کے لئے میں نے کم ازکم بارہ سو صفحے پڑھے ہوں گے۔ ان میں سے میں نے بہت ہی کم کوئی بات بطور سند کے لی ہے اور یہ صفحات میں نے محض خیالات کا موازنہ کرنے کے لئے پڑھے ہیں۔ یہ درست ہے کہ میرے دماغ میں جو باتیں آتی ہیں محض خدا کے فضل سے آتی ہیں۔ مگر خدا کے فضل کے جاذب بھی ہونے چاہئیں اور اس کے لئے فکر کی ضرورت ہوتی ہے، مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے، مراقبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب 20 سال کی عمر میں کیمبرج یونیورسٹی میں طالب علم کی حیثیت سے آئے۔آپ اُن دنوں روزانہ چودہ تا سولہ گھنٹے لگاتار کام کیا کرتے تھے۔ آپ کا مطالعہ بہت وسیع و عمیق تھا اور نہ صرف علوم ریاضی و طبیعات کا مطالعہ کرتے تھے بلکہ تاریخی کتب بھی ان کے زیرمطالعہ رہتی تھیں۔ خصوصاً تاریخ اسلام، اسلامی تہذیب و ثقافت تاریخ ہند اور تاریخ اقوام عالم۔ یہاں انہوں نے دنیا کی تمام مذہب کی الہامی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا … انہوں نے اپنے تین سالہ Tri Po's (کیمبرج میں آنرز ڈگری کا امتحان ٹرائی پاس) دو ہی سالوں میں مکمل کرلیا اور بغیر کسی مشکل کے Wrangler (کیمبرج سے فرسٹ ڈویژن میں کامیاب آنرز گریجوایٹ) بن گئے۔آپ برصغیر ہند و پاک بلکہ اسلامی دنیا کے پہلے سائنسدان تھے جنہیں کیمبرج یونیورسٹی میں لیکچرار بننے کی پیشکش کی گئی۔ پھر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب 1961ء میں (جبکہ آپ کی عمر فقط 35 سال تھی) صدر پاکستان کے سائنسی مشیر اعلیٰ مقرر کئے گئے۔ حضرت چوہدری ظفراللہ خانصاحبؓ کو فارغ رہنا کس قدر ناپسند تھا اور ہر وقت مصروف رہنے کا ایسا جنون تھا کہ ایک بار آپؓ نے فرمایا: میں جب امریکہ اور یورپ میں ہوتا ہوں تو تعطیلات میں دیہاتوں کی طرف چلا جاتا ہوں اور تبلیغ کرتا ہوں، دیہاتوں میں بیشمار دوست ہیں اور ٹھہرنے کے ٹھکانے ہیں۔ مجھے اَور کوئی شوق نہیں ہے۔ سینما اور سینما کی قسم کی چیزوں سے واسطہ نہیں رکھتا۔ ڈنروں اور لنچوں میں بھی اس لئے شریک ہو جاتا ہوں کہ فرائض منصبی مجبور کرتے ہیں ورنہ حقیقتاً دلچسپی دوہی کاموں سے ہے۔ یا فرائض منصبی کی ادائیگی سے یا تبلیغ سے۔ حضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد ہے: متقی وہی ہیں کہ خداتعالیٰ سے ڈر کر ایسی باتوں کو ترک کر دیتے ہیں جو منشاء الٰہی کے خلاف ہیں۔ نفس اور خواہشات نفسانی کو اور دنیا و مافیہا کو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں ہیچ سمجھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن پانچ نعمتوں کا وقت ڈھل جانے سے پہلے پہلے فائدہ اٹھانے کی تلقین فرمائی ہے ان میں سے ایک صحت کی نعمت کا زمانہ ہے۔ مولانا حالیؔ نے حدیث کے حوالہ سے یہ شعر کہا: غنیمت ہے صحت علالت سے پہلے جوانی، بڑھاپے کی زحمت سے پہلے عمر اور علالت کی وجہ سے انسانی قویٰ پر زبردست منفی اثر پڑتا ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ اپنی جوانی کے دَور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں جوانی کے عالم میں جبکہ جہلم کا دریا خوب چڑھا ہوا ہوتا تھا تیر کر پار چلا جاتا تھا‘‘۔ نیز فرماتے ہیں : ’’زمانۂ طالب علمی میں کئی کئی وقت کھانا نہیں کھاتا تھا اور کوئی ضعف و نقاہت قطعاً محسوس نہیں ہوتا تھا‘‘۔ جوانی میں اپنی دانتوں کی مضبوطی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں کسی زمانہ میں ایک بڑے امیر (مہاراجہ کشمیر) کے ساتھ اس کے باغ میں گیا۔ باغ میں سے اس امیر نے اپنے ہاتھ سے بادام توڑ کر مجھے دیئے۔ میں نے بادام دانت سے توڑ توڑ کر کھانے شروع کئے۔ اس امیر نے میری طرف بڑی حیرت سے دیکھا۔ یا آج یہ حالت ہے کہ چھوہارہ اور انگریزی مٹھائی نہیں کھاسکتا‘‘۔ قرآن کریم نے یہ اٹل قانونِ قدرت بیان فرما دیا ہے کہ ہر جان موت کا مزا چکھنے والی ہے۔ اس لئے ہر وقت موت کو یاد رکھنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں : ’’یاد رکھو قبریں آوازیں دے رہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جاتی ہے۔ ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب کرتا جاتا ہے اور تم اسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے ہو۔‘‘ چنانچہ قرآن کریم نے اہل ایمان کو یہ دعا سکھلائی ہے: وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَار۔ اور ہمیں نیکوں کے ساتھ موت دے یعنی نیکوکاروں کے زمرہ میں شامل کرکے موت دے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓاپنے مضامین میں عموماً اور اپنی عمر کے آخری سالوں میں خاص طور پر انجام بخیر ہونے کی دعا پر بہت زور دیتے تھے۔ 1958ء میں آپ نے ’’نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں ‘‘ کے زیرعنوان ایک قیمتی مضمون لکھا اور اس کے آخر میں تحریر فرمایا کہ یہ مضمون میں نے جنوری کے آغاز میں شروع کیا تھا مگر اعصابی تکلیف اور احساس بے چینی کی وجہ سے اسے جلد ختم نہ کرسکا بلکہ آہستہ آہستہ لکھ کر اور اوپر تلے کئی دنوں کا ناغہ کرکے قریباً ایک ماہ میں آج ختم کیا ہے اور پھر بھی میری خواہش کے مطابق مکمل نہیں ہوا۔ حالانکہ صحت کے زمانہ میں مَیں ایسا مضمون قریباً ایک گھنٹہ میں لکھ لیا کرتا تھا۔ لہٰذا دوستوں سے دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے آخر عمر تک یعنی ’زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند‘ خدمت دین کی توفیق دیتا رہے اور میری کمزوریوں کو معاف فرمائے اور انجام بخیر ہو۔ …٭…٭…٭… لائبیریا میں اشاعت اسلام کے دوران تائید الٰہی کے نظارے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28اکتوبر 2011ء میں مکرم محمد اکرم باجوہ صاحب سابق امیر و مشنری انچارج لائبیریا کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں لائبیریا میں اشاعت اسلام کے دوران تائیداتِ الٰہی کے بعض واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار نے بطور مبلغ 27؍مئی 1988ء کو سرزمین لائبیریا پر قدم رکھاتو خاکسار کی تقرری Voin Jama میں ہوئی جو منروویا سے 250 میل دُور تھا۔ یہ فاصلہ عموماً 7گھنٹے میں طے ہوتا ہے لیکن برسات اور بارشوں سے اُس وقت راستے بہت خراب تھے۔ لہٰذا یہ سفر 60 گھنٹے میں طے کیا۔ غیرآباد جنگل سے گزر کر تیسرے دن ایک شہر پہنچنے پر کھانا میسر ہوا۔ اجنبی ماحول میں خداتعالیٰ کا ہی آسرا تھا۔چنانچہ کرائے پر ایک گھر لے کر مرکز قائم کیا۔ ایک دن ایک جرنلسٹ وہاں آیا تو اُس کے ذریعے مقامی ریڈیو سٹیشن پر یہ اعلان کروادیا کہ جو مسلمان قرآن پڑھنا چاہتا ہو احمدی مبلغ اسے چھ ماہ میں مکمل قرآن پڑھا سکتاہے۔ یہ اعلان سن کر ایک صاحب موسیٰ ابراہیم صاحب مشن ہاؤس آئے۔ تبلیغی گفتگو ہونے لگی اور تین ماہ بعد انہوں نے احمدیت قبول کرلی اور پھر اپنی ایک رؤیا کا ذکر کیا جو میرے Voin Jama آنے سے قبل انہوں نے دیکھی تھی۔ اس کے بعد مزید بیعتیں ہونے لگیں۔ کچھ عرصہ بعد مجھے ملیریا اور ٹائیفائیڈ ہو گیا۔ اُن دنوں خواب میں دیکھا کہ ’میرے جسم کا ایک حصہ کاٹ دیا گیا‘۔ مَیں نے اس کی تعبیر یہ سمجھی کہ میرا بیٹا بعمر 5 سال شاید وفات پاگیا ہے۔ اس خیال سے مرغ بسمل کی سی تڑپ پیدا ہوئی۔ بے وطنی کی حالت اور اکیلے پن میں اضطراری کیفیت پیدا ہوئی تو وضو کرکے نفل ادا کرنے لگ گیا۔ ابھی سورۃ فاتحہ پڑھ رہا تھا کہ دل میں یہ خیال ڈالا گیا کہ جو تُو سمجھتا ہے وہ نہیں۔ خواب کی تعبیر بعد میں سمجھ آئی جب بیماری کی وجہ سے 26 پونڈ وزن کم ہوگیا۔ تندرست ہونے کے بعد دو سیمینارز کا انعقاد کیا جن میں عیسائی اور مسلمان مدعو تھے۔ ان سے احمدیت کا مؤثر تعارف ہوا۔ چنانچہ قریبی گاؤں کے ایک دوست مکرم محمد کائتو (Kaito) صاحب نے تسلّی کرنے کے بعد بیعت کرلی۔ جب وہ واپس اپنے گاؤں گئے تو اُن کے گاؤں میں مخالفت کا طوفان اٹھا۔ لیکن اسی رات اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ اُن کو انجام بخیر ہونے کی بشارت دی۔ چنانچہ یہ خواب سُن کر اُن کی بیوی نے کہا کہ ہم گاؤں کے لوگوں کو چھوڑ دیں گے لیکن احمدیت کو نہیں چھوڑیں گے۔ وہ اخلاص اور احمدیت کی محبت میں مخمور تھے اور تبلیغ کے میدان میں بہت مددگار ثابت ہوئے۔ 1989ء میں ایک گاؤں میں تبلیغ کے لئے مَیں نے ایک زیرتبلیغ نوجوان Dr. Momdu Kroma کو ترجمانی کے لئے ساتھ چلنے کو کہا۔ جس صبح روانہ ہونا تھا، اس سے پہلی رات انہوں نے خواب دیکھا کہ تقریباً 2 ہزار کے مجمع میں وہ تقریر کررہے ہیں اور احمدیت کی روحانی غذا کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔ اس خواب کے پورا ہونے پر اُن کا سارا خاندان احمدی ہوگیا۔ 1989ء میں اپنے علاقہ کے پہلے احمدی مکرم موسیٰ ابراہیم صاحب کے ساتھ اُن کے گاؤں گیا۔ مسجد میں تبلیغی پروگرام ہوا۔ رات ان کے گھر قیام تھا تو ان کی والدہ نے نہایت فکرمندی اور گھبراہٹ کا اظہار کیا کہ لوگ اب ہمارے مخالف ہو جائیں گے۔ مکرم موسیٰ ابراہیم نے غیرت دینی کے جوش میں کہا کہ میں نے احمدیت کو سچ مان کر ہی قبول کیا ہے۔ مجھے ان کی مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں۔ اُسی رات اُن کی والدہ نے ایک خواب کے ذریعہ احمدیت کی صداقت کو پہچان لیا اور اگلی صبح بیعت کرلی۔ 1990ء میں لائبیریا میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو مجھے عارضی طور پر سیرالیون بھجوادیا گیا۔ وہاں Makani شہر میں قیام تھا۔ ایک گاؤں Bandabu میں جماعت قائم ہوچکی تھی۔ لہٰذا نومبایعین کی تربیت کے سلسلہ میں وہاں گیا۔ نماز جمعہ کے بعد چند اگلے گاؤں دورہ پر چلا گیا اور آئندہ جمعہ کو پھر اُسی مسجد میں آگیا۔ جب منبر پر آکر مَیں نے اذان کے لئے کہا تو کوئی نہ اٹھا۔ چند لمحے بعد وہاں کا امام مسجد منبر کی طرف آیا تو مَیں خاموشی سے اتر آیا۔ اُس نے خطبہ دیا اور نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد وہ امام اور لوگ کہنے لگے کہ ہم تو احمدی نہیں۔ ہم احمدی مبلغ کے پیچھے کیوں نماز پڑھیں۔ اس واقعہ کے نتیجہ میں احمدی الگ ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ پھر خدا کے فضل سے احمدیوں کو وہاں ایک خوبصورت دو منزلہ مسجد بنانے کی توفیق ملی لیکن وہ 80 سالہ امام جس نے احمدیوں کو اپنی مسجد سے نکالا تھا خدا نے اسے یہ سزا دی کہ وہ ایک لڑکی سے بدکاری کرتا ہوا پکڑا گیا۔ ہر لمحہ خدا کی تجلّیات کے نظارے دیکھنے کو ملتے رہے اور دل جذبۂ شکر سے بھرتا رہا۔ ایک دفعہ کھلے آسمان تلے تبلیغی پروگرام سے قبل اچانک گھنے بادل آگئے جس سے گھبراہٹ کا ہونا یقینی تھا۔ نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو خاص دعا کی توفیق ملی۔نماز ختم کرنے کے بعد دیکھا تو آسمان صاف تھا۔ پروگرام بھی بہت کامیاب رہا۔ پھر مَیں براستہ لندن پاکستان آیا تو لندن کے قیام کے دوران حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے مجھے دوبارہ لائبیریا جانے کا ارشاد فرمایا۔ لائبیریا میں حالات خانہ جنگی کی وجہ سے خاصے دگرگوں تھے۔ نومبر 1992ء میں سیرالیون پہنچا اور آٹھ ماہ تک حالات ٹھیک ہونے کا انتظار کیا۔ پھر جون 1993ء میں حضورؒ نے ان دعاؤں کے ساتھ لائبیریا جانے کا ارشاد فرمایا کہ ’’اللہ تیرے سارے کام ٹھیک کر دے اور لائبیریا میں تاریخ ساز کام کرنے کی توفیق ملے‘‘۔ جب میں منروویا ایئرپورٹ پر اترا تو Ecomog فورسز کے فوجی ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے اور خوفناک منظر پیش کررہے تھے۔ امیگریشن کے مراحل سے گزر کر باہر نکلا تو سوچا کہاں جاؤں ؟ ایک غیراحمدی دوست کا خیال آیا لیکن پھر دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ پہلے مشن ہاؤس جاتا ہوں اور صورتحال دیکھتا ہوں۔ لہٰذا مشن ہاؤس پہنچا تو باہر ایک احمدی دوست ملے جو ایک گاؤں سے تھے اور مشن ہاؤس میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ جو مجھے دیکھ کر خوشی سے ملے اور تسلی ہوگئی کہ اب کسی اَور جگہ جانے کی ضرورت نہیں۔ ملکی خانہ جنگی کے دوران مشن ہاؤس میں ویرانی کا عالم تھا۔ سب کچھ لُوٹ لیا گیا تھا۔ کلینک اور کتب کا سٹور بھی ختم ہو چکے تھے۔ نئے سرے سے جماعت کو منظم کرنا تھا۔ آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے سب کچھ بحال ہونے لگا۔ نئی جگہ ایک وسیع عمارت میں احمدیہ کلینک قائم کیا۔ لائبیریا کے صدر مملکت نے کلینک کی بحالی کا افتتاح کیا۔ اخبارات و رسائل میں تشہیر ہوئی۔ پہلے ڈاکٹر مکرم سید مشہود احمد صاحب تھے۔ نومبر 1993ء میں حضورؒ نے مجھے لائبیریا کا امیر و مبلغ انچارج مقرر فرمایا۔ یہ اعزاز دسمبر 2010ء تک قائم رہا۔ خیال تھا کہ نارمل حالات ہوگئے ہیں مگر اکثر خوفناک نظاروں اور مشکلات کے پہاڑوں سے گزرنا پڑا۔ قتل و غارت اور تباہی کے مناظر نے دل دہلا دیئے۔ ان حالات میں ہر طرح سے محفوظ رہنا ایک معجزہ سے کم نہیں تھا۔ 1996ء میں باغیوں نے دارالحکومت پر حملہ کردیا۔ پورا شہر اُن کے نرغہ میں تھا۔ ہر طرف آگ اور دھوئیں کے بادل تھے۔ عمارتیں اور گھر جل رہے تھے۔ اس خوفناک صورتحال میں ڈاکٹر مشہود صاحب بھی کلینک سے اپنی فیملی لے کر مشن ہاؤس آگئے۔ مشن کے اردگرد دھماکوں اور گولیوں کی خوفناک آوازیں تھیں۔ ایسے میں سوائے اللہ کی ذات کے کچھ نظر نہ آتا تھا۔چار دن اسی حالت میں گزرے تو ہمیں یرغمال بناکر ایک آرمی بیرک میں لے جایا گیا۔ بعد ازاں باغیوں نے گھر اور مشن ہاؤس کو آگ لگادی۔ نو دن ہم بیرک میں ٹھہرے۔ دونوں اطراف سے متحارب گروپ حملہ آور ہوتے تو ہم اپنے سامنے گولے گرتے اور لوگ مرتے دیکھا کرتے۔ ایک شام ایک گولہ زوردار دھماکہ سے دیوار پھاڑ کر کمرہ میں (جہاں ہم تھے) گرا۔ خدا کی قدرت کہ وہ ہماری طرف آنے کی بجائے الماری سے ٹکرا کر دوسری طرف پلٹ گیا اور ہم سب بچ گئے۔ اسی طرح ایک رات ایک گولہ چھت کا ایک حصہ اڑا کر اندر گرا مگر وسط میں گرنے کی بجائے دیوار کے قریب ہی پھٹ گیا۔ خداتعالیٰ کی ذات لمحہ لمحہ موت سے بچارہی تھی۔ آرمی بیرک میں باغیوں کے ایک جرنیل کو قتل کر دیا گیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ باغی گروپ بیرک کے قریب گیا۔ اگر وہ بیرک میں داخل ہو جاتے تو قتل عام شروع ہوجاتا۔ مگر خدا تعالیٰ نے اس جرنیل کی موت سے ہمیں زندگی کا موقع دیا۔ پھر ایک دن مخالف گروپ والے ٹینک میں بیٹھ کر سفید رومال لہراتے ہوئے بیرک کے گیٹ تک پہنچ گئے۔ بیرک میں انڈین، لبنانی اور غیرملکی بھی تھے۔ ہم سب ایک بلندجگہ پر کھڑے اُنہیں دیکھ رہے تھے کہ شاید UNO والے صلح کرانے آئے ہیں۔ یکدم وہ آگے بڑھنے کی بجائے واپس چلے گئے۔ امید کی کرن حیرت میں ڈوب گئی۔ مگر جب علم ہوا کہ یہ تو باغی گروپ کے لوگ تھے اور اگر بیرک میں داخل ہو جاتے تو ہیبتناک واقعہ کا امکان ہوتا۔ مگر خداتعالیٰ نے ہمیں محفوظ رکھا۔ حضورؒ کو تمام صورتحال کا بخوبی علم تھا کہ ہم کہاں ہیں اور کیسے پھنسے ہوئے ہیں۔ اُن کی دعائیں اور خدا کا فضل تھا جو زندہ رکھے ہوئے تھا۔ ڈاکٹر مشہود صاحب کی اہلیہ کی ڈیلیوری کا وقت قریب تھا۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو فون پر بتایا کہ 10 ؍اپریل 1996ء ڈلیوری کی تاریخ ہے۔ حضورؒ نے فرمایا گھبرائیں نہیں خداتعالیٰ فضل فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے 10 دن میں UNO فورسز کے توسط سے بذریعہ ہیلی کاپٹر ہمیں وہاں سے نکالا اور 22؍اپریل کو ڈکار سینیگال کے ایک ہسپتال میں ڈلیوری ہو گئی۔ کچھ دن سینیگال میں ٹھہرنے کے بعد ہم گیمبیا چلے گئے جہاں 3 ماہ قیام کیا۔ جب معلوم ہوا کہ UNO فورسز نے لائبیریا کے دارالحکومت کا کنٹرول سنبھال لیا ہے تو حضورؒ کی خدمت میں اطلاع بھجوائی۔ اس پر حضورؒ نے لائبیریا جانے کا ارشاد فرمایا۔ واپسی کے سفر میں اور لائبیریا پہنچ کر بھی خداتعالیٰ کے فضلوں کے بے شمار نظارے دیکھے۔ 25؍اگست کو گیمبیا سے سیرالیون اور پھر لائبیریا کے لئے روانہ ہوا۔ ہمارا جہاز منروویا ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے والا تھا کہ موسم کی خرابی کے باعث رَن وے نظر نہ آیا اور جہاز دوبارہ فضا میں بلند ہو گیا۔ دوسری مرتبہ بھی یہی ہوا اور پریشانی میں دعاؤں کا ورد اَور تیز ہو گیا۔ خیال بھی نہ تھا کہ جہاز Land کرتے ہی Crash ہو جائے گا۔ دراصل جہاز کا ایک پَر اُتر کر پہلے ہی گر چکا تھا اور باڈی ٹوٹ گئی تھی۔ کریش ہونے پر معلوم ہوا کہ دروازے کھل نہیں سکتے۔ ایک کھڑکی کا کچھ حصہ ٹوٹا ہوا تھا۔ اس کو کھینچ کر راستہ بڑا کیا اور وہاں سے مسافر ایک ایک کرکے جہاز کے پَر پر جمپ لگا کر نیچے اترے۔ جب حضورؒ کو اس واقعہ کی خبر دی تو حضورؒ نے فرمایا ’’الحمدللہ۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا… خداتعالیٰ تو خود آپ کی حفاظت فرماتا ہے‘‘۔ جب مَیں مشن ہاؤس پہنچا تو دیکھا کہ عمارت جل چکی تھی، چھتیں گری ہوئیں اور دھوئیں سے سیاہ تھیں۔ عجب ویرانی کا منظر تھا۔ میرے آنسو نکلنا فطری امر تھا۔ اُس وقت بونداباندی ہورہی تھی۔ یوں لگا کہ آسمان بھی آنسو بہا رہا ہے۔ مشن ہاؤس اور مسجد کی از سرِنَو تعمیر نیز جماعت کو منظم کرنا انتہائی مشکل نظر آ رہا تھا۔ لیکن خدا کے فضل اور احباب کے جذبۂ دینی سے جلد ہی دو منزلہ مسجد تعمیر کرلی گئی۔ …٭…٭…٭… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19جولائی 2011ء میں مکرم فر ید احمد نو ید صاحب کی ایک طویل نظم بعنوان ’’مسافرانِ رہ ِ وفا ‘‘ شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے: یہ مسافرانِ رہِ وفا، بڑے عزم سے بڑی شان سے سرِ بزمِ یار گزر گئے لہو سلسلوں میں جہان سے وہ جو حوصلے تھے پہاڑ سے، تھے بلند وہم و گمان سے وہ جنہیں وفا تھی عزیز تر، کہیں بڑھ کے رشتۂِ جان سے مرے دوستوں نے وفا کئے وہ جو عہد باندھے تھے یار سے اک عجیب عالمِ شوق میں، سرِ دار ضبط و قرار سے نئے باب لکھتے چلے گئے مئے دلبری کی خُمار سے کوئی کیفیت ہو، کوئی گھڑی، انہیں یاد کرتے ہیں پیار سے یہی لوگ فخرِ جہان ہیں، تمہیں لگ رہا ہے حقیر ہیں تمہیں تاب کیا کہ سمجھ سکو، شہِ شش جہت کے سفیر ہیں تری مشقِ ظلم کو چیر دیں، یہ دعائے شب کے وہ تیر ہیں مرا یار توڑے گا خود اُنہیں، جہاں جو بھی دستِ شریر ہیں مکرم لطف الرحمن شاکر صاحب (واقفِ زندگی ) کے سانحہ ارتحال پر کہی جانے والی مکرم عطاء المجیب راشد صاحب کی نظم روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14جون 2011ء میں شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے: ایک چاکر درِ خلافت کا پیکرِ شکر اک غلام گیا خدمتِ خلق تھا شعار اس کا دوڑ کر سُوئے خاص وعام گیا اس کی باتوں میں تھی لطافت بھی شیریں گفتار و خوش کلام گیا واہ کیا اسمِ با مسمّٰی تھا باعثِ لطف و فیضِ عام گیا روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10جون 2011ء میں شامل اشاعت مکرمہ امۃالباری ناصر صاحبہ کی نعت میں سے انتخاب پیش ہے: قدم بڑھاتا ہے وہ مہرباں خدا کی طرف جو دیکھتا ہے محبت سے مصطفٰےؐ کی طرف خدا کے فضل سے پلٹے گا بن کے ابرِ کرم درود جائے گا جو سیدالوریٰؐ کی طرف اُڑائیں ان کے جو خاکے اُڑے گی خاک ان کی جو دل کا گند اُچھالیں گے پیشواؐ کی طرف ہے اُس کو طاقت و قدرت ضرور توڑے گا جو ہاتھ ظلم کا اُٹھے گا مجتبیٰؐ کی طرف سکون و امن، محبت اور عافیت کے لئے زمانہ دیکھے گا اُس فخرِ انبیاءؐ کی طرف