حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہونے والے بعض معجزات میں سے ایک یہ معجزہ بھی ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ انہوں نے پانی پر بھی چل کر دکھایا تھا۔ ان سطور میں اس دعویٰ کا ایک مختصر تحقیقی جائزہ پیش ہے، جس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ عہد نامہ جدید کی تین اناجیل میں ایک واقعہ بیان ہوا ہے جس کے مطابق حضرت یسوع مسیح نے ایک مرتبہ پانی پر چل کردکھایاتھا۔ واضح رہے کہ قرآن مجید نے، جو کہ محکماتِ فرقانی پر مشتمل اور گزشتہ کتب کے درست مندرجات کا مصدق ہے، نبی اللہ حضرت عیسیٰ مسیح ناصری علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے متبعین کے حالات بیان کرتے ہوئے اس قسم کا کوئی واقعہ یا معجزہ بیان نہیں کیا اور قرآن کریم ہی نہیں بلکہ اناجیل اربعہ میں سے لوقاؔ کی انجیل بھی اس بارہ میں بالکل خاموش نظر آتی ہے۔ ایک اتنا اہم اور غیر معمولی معجزہ اگرواقعۃً رونما ہوا تھا اورجو یسوع مسیح نے اپنی زندگی میں صرف ایک بار دکھایا ہواس کویکسر نظر انداز کردینالوقاؔ سے بھلاکیسے ممکن ہو سکتا تھا۔ یہی ایک حقیقت اس واقعہ کی صحت کو مشکوک حیثیت دینے کے لئے کافی ہے۔حقیقت یہی ہے کہ یہ واقعہ باقی کی تین اناجیل میں بہت بعد میں اضافہ کرکے شامل کیا گیا جس کا اصل مقصد یہ تھا کہ رومن دنیا میں یسوع مسیح کی شخصیت کو ایک مافوق البشر دیو مالائی کردار کے طور پر پیش کروا کر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ پولوسی عیسائیت سے متاثرکیا جا سکے۔ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اپنی کتاب"Christianity -A journey from Facts to Fiction" میں اس ضمن میں پولوسؔ کے کردار کے حوالے سے لکھتے ہیں : " What St Paul changed was only the names of the pagan gods and replaced them with Jesus,God the Father and the Holy Ghost." یعنی پولوس ؔنے صرف دیومالائی خداؤں کے نام تبدیل کرکے ان کی جگہ یسوع،خداوند باپ اورمقدس روح کے نام ڈال دیئے۔‘‘ (Christianity -A journey from Facts to Fiction صفحہ 136۔ایڈیشن چہارم سن اشاعت 2006ء۔ شائع کردہ اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ) چنانچہ قدیم رومن دیومالائی مذہب میں پہلے ہی ایک ایسے معبود کی پرستش کی جاتی تھی جو زلزلوں، آندھیوں اور پانی کا خدا تھا اور نہ صرف وہ خود بلکہ اس کے گھوڑے بھی رتھ سمیت پانی پہ چلنے اور دوڑنے کی قدرت رکھتے تھے۔اس دیوتا کا لاطینی نام نیپچون تھا جس سے ہمارے نظام شمسی کا ایک سیارہ بھی منسوب ہے۔( آزاد دائرۃ المعارف وکی پیڈیا زیر عنوان نیپچونNeptuneبمطابق اشاعت 21 فروری 2016)۔ یونانی کتب میں یہی دیوتا کچھ اور ناموں سے بھی یاد کیا گیا ہے۔رومن دنیا کو یسوع مسیح کی شکل میں ایک متبادل معبود پیش کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے بھی ان طاقتوں سے متصف بیان کیا جائے جو رومن دیوتاؤں سے منسوب تھیں۔ اس کی قلعی مرقس ؔکی انجیل کا ایک فقرہ بھی کھولتا نظر آتا ہے جواناجیل کے قدیم لاطینی اور کچھ انگریزی تراجم میں موجود ہے مگر جدید تراجم (بشمول اردو) میں سے حذف کیا جا چکاہے۔ چنانچہ مرقسؔ کی اردو انجیلوں میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ رات کے ’’پچھلے پہر‘‘ پیش آیا (مرقس ؔ باب 6: (45-53) اردو بائبل پی ڈی ایف شائع کردہ Mojzat.org۔ اشاعت بمطابق 14؍ فروری 2016) جبکہ انگریزی ترجمہ میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ رات کے ’’چوتھے پہر‘‘ پیش آیا تھا۔ "About the fourth watch of the night he cometh unto them,walking upon the sea". (Mark6:38) (بحوالہ: The Holy Bible (Authorised King James Version) شائع کردہ National Publishing Company ایڈیشن 1987 صفحہ 1038 واضح رہے کہ اس علاقہ میں اس زمانہ میں یہودی قانون کے تحت رات کے تین پہر ہی شمار کیے جاتے تھے جبکہ چارپہروں کی رات روم میں رائج تھی۔ (بحوالہ Smith's Bible Dictionary۔ ناشر Grand Rapids, MI: Christian Classics Ethereal Library۔سن اشاعت 2002۔صفحہ 795 ) کیتھولک بائبل پریس امریکہ کی شائع کردہ انگریزی بائبل کے 1993 ایڈیشن میں رات کا لفظ اب ہٹا دیا گیا ہے اور اس کی جگہ صبح کے الفاظ لکھ دئیے ہیں : "And early in the morning he came walking toward them on the sea". (Matthew 14:25) بحوالہ " The Holy Bible.New Revised Standard Version:Catholic Edition.Published by Catholoc Bible Press 1993") پس حقیقت یہی ہے کہ اس واقعہ کا اصل مصنف ایک خوش اعتقاد رومن شخص ہی ہو سکتا ہے نہ کہ یسوع مسیح کا کوئی حواری یا شاگرد۔ اناجیل کے بیانات میں ابہام و تضادات اناجیل میں درج اس مبینہ واقعہ کی دیگر جزوی تفصیلات میں بھی کافی ابہام اور تضاد پایا جاتا ہے چنانچہ یوحنا باب 6: ( 16-21 ) میں یہ وا قعہ کچھ یوں بیان ہوا ہے: ’’پھر جب شام ہوئی تو اس کے شاگردجھیل کے کنارے گئے اور کشتی میں بیٹھ کرجھیل کے پار کفر نحوم کو چلے جاتے تھے۔اس وقت اندھیرا ہو گیا تھا اور یسوع ابھی تک ان کے پاس نہ آیا تھا۔اور آندھی کے سبب سے اس جھیل میں موجیں اٹھنے لگیں۔ پس جب وہ کھیتے کھیتے تین چار میل کے قریب نکل گئے تو انہوں نے یسوع کو جھیل پر چلتے اور کشتی کے نزدیک آتے دیکھا اور وہ ڈر گئے۔ مگر اس نے ان سے کہا کہ میں ہوں، ڈرو مت۔پس وہ اسے کشتی میں چڑھا لینے کو راضی ہوئے اور فوراًوہ کشتی اس جگہ جا پہنچی جہاں وہ جاتے تھے‘‘۔ ( یوحنا باب 6: ( 16-21 ) بحوالہ اردو بائبل پی ڈی ایف شائع کردہ Mojzat.org۔ مطابق14فروری 2016) مرقس ؔ باب 6: (45-53) میں لکھا ہے :’’اور فی الفور اس نے اپنے شاگردوں کو مجبور کیا کہ کشتی پر بیٹھ کر اس سے پہلے اُس پاربیت ؔصدا کو چلے جائیں جب تک وہ لوگوں کو رخصت کرے۔اور ان کو رخصت کر کے پہاڑ پر دعا کرنے چلا گیا۔اور جب شام ہوئی تو کشتی جھیل کے بیچ میں تھی اور وہ اکیلا خشکی پر تھا۔جب اس نے دیکھا کہ وہ کھینے سے بہت تنگ ہیں کیونکہ ہوا ان کے مخالف تھی تو رات کے پچھلے پہرکے قریب وہ جھیل پر چلتا ہوا ان کے پاس آیا اور ان سے آگے نکل جانا تھا۔لیکن انہوں نے اسے جھیل پر چلتے دیکھ کر خیال کیا کہ بھوت ہے اور چلّا اٹھے۔کیونکہ سب اسے دیکھ کر گھبرا گئے تھے مگر اس نے فی الفور ان سے باتیں کیں اور کہا خاطر جمع رکھو، میں ہوں، ڈرو مت۔پھر وہ کشتی پر ان کے پاس آیا اور ہوا تھم گئی اور وہ اپنے دل میں نہایت حیران ہوئے۔اس لئے کہ وہ روٹیوں کے بارے میں سمجھے نہ تھے بلکہ ان کے دل سخت ہوگئے تھے۔اور وہ پار جا کر گنیسرت کے علاقہ میں پہنچے اور کشتی گھاٹ پر لگائی‘‘۔ ( مرقس ؔ باب 6 : (45-53) بحوالہ اردو بائبل پی ڈی ایف شائع کردہ Mojzat.org۔اشاعت بمطابق 14؍ فروری 2016) مندرجہ بالا دونوں بیانات کے موٹے موٹے تضادات یہ ہیں کہ ایک طرف یسوع کے شاگرد کفرنحومؔ کو جا رہے تھے مگر دوسری طرف لکھا ہے کہ یسوع نے انہیں بیت صدا ؔجانے کو کہا تھا۔ تیسری طرف باوجودیکہ یسوع خود ان سے آملا پھر بھی وہ سب نہ تو بیت صدا اورنہ ہی کفر نحوم بلکہ گنیسرت ؔکے گھاٹ پرپہنچے،جو تمام مختلف مقامات ہیں۔ اسی طرح کشتی کا تین چار میل کے فاصلہ پہ ہونا جھیل کے بیچ میں ہونے سے بھی مختلف بیان ہے۔ اسی طرح سے بعض محققین نے یوحنا باب 6 آیت1 (’’ ان باتوں کے بعد یسوع گلیل کی جھیل یعنی تبریاس کی جھیل کے پار گیا‘‘ )سے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ یسوع اس دن تو پہلے ہی جھیل کے پار موجود تھا تو پھر شاگردوں کو بنفس نفیس دوسری طرف موجود ہوکر انہیں رخصت کرنا کس طرح سے ممکن ہوا؟ وغیرہ۔ اس واقعہ کے حوالہ سے متی کی انجیل کا بیان اور بھی مختلف اور دلچسپ ہے جس نے اپنی انجیل (باب 14:28-31 ) میں اس واقعہ کی ذیل میں یہ ضمنی تفصیل بھی درج کر دی کہ جب یسوع کے حواری پطرس نے یسوع کو پانی پر چلتے دیکھا تو کہا ’’کہ اے خداوند اگر تو ہے تو مجھے حکم دے کہ پانی پر چل کر تیرے پاس آؤں۔ اس نے کہا آ۔پطرس کشتی سے اتر کر یسوع کے پاس جانے کے لئے پانی پر چلنے لگا۔جب ہوا دیکھی تو ڈر گیا اور جب ڈوبنے لگا تو چلا کر کہا اے خداوند مجھے بچا۔یسوع نے فوراً ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑ لیا اور اس سے کہا اے کم اعتقاد تو نے کیوں شک کیا؟‘‘ (متی باب 14:28-31 بحوالہ اردو بائبل پی ڈی ایف شائع کردہMojzat.org۔ اشاعت بمطابق 14؍فروری 2016ء) اس ذیلی واقعہ کا ذکر بقیہ اناجیل نے نہیں کیا۔ متی کی انجیل کے مطابق یسوع کے متبعین میں سے صرف ایک فرد یعنی پطرس ؔنے پانی پر چلنے کی جراٗت تو کی مگر باوجود یسوع کی اعجاز نما موجودگی اور صحبت کے وہ بھی ڈوبنے لگ گیا تھااور یسوع کو اسے پکڑ کر اس کی جان بچانی پڑی۔ متیؔ کی انجیل میں اس واقعہ کو درج کرنے والے نے مرقس ؔ کی طرح ایک ’’ احتیاط ‘‘یہ بھی برتی کہ یوحنا کی بیان کردہ ’’آندھی ‘‘ کا ذکر سرے سے غائب کر دیا اور اس کی جگہ ’’ہوا مخالف تھی‘‘ تحریر کیا۔آندھی اور مخالف سمت سے چلنے والی ہوا میں بہت فرق ہوتاہے۔ اور اس کا سبب بعض محققین نے یہ بیان کیا ہے کہ دراصل یسوع جھیل پر بنے عرشہ ( jetty) پر چل رہا تھا جو کہ آندھی کے سبب جھیل میں اٹھنے والی بلند موجوں کی وجہ سے زیر آب آچکا تھا۔ اور یہ بھی ایک روزمرہ کا عام مشاہدہ ہے کہ پانی چڑھا ہو تو عرشے زیر آب آجاتے ہیں مگر پھر بھی ان پر چلنا ممکن ہوتا ہے اور دور سے دیکھنے والے افراد کو یوں لگتا ہے جیسے کوئی پانی پر چل رہا ہے،خاص طور پر جبکہ رات کا اندھیرا چھا چکا ہو اور تیز ہوا موجیں اڑا رہی ہو۔ اور انگلش بائبل کے مطابق تو اس وقت موجیں نہیں بلکہ پورا سمندر ہی اوپر کواٹھاہوا تھا: "And the sea arose" (John 6:18) (The Holy Bible. Authorised King James Version) (شائع کردہ National Publishing Company ایڈیشن 1987ء صفحہ 1104) اکثر عرشے لمبے ہوتے ہیں اور پانی میں دُور تک پہنچے ہوتے ہیں۔ International Journal of Nautical Archaeology کی اشاعت مارچ 2013ء میں یہ تحقیق شائع ہوئی ہے کہ مذکورہ جھیل میں غوطہ خوروں کو کئی ہزار سال پرانا ایک چبوترہ یا پلیٹ فارم دریافت ہوا ہے جو دس میٹر بلند اورستر( 70) میٹر لمبا ہے اور یہ قدرتی نہیں بلکہ پتھروں سے بنا یا گیاانسانی تعمیر کا نمونہ ہے جوکہ عموماً آجکل زیر آب ہی رہتا ہے۔ ماہرین تاریخ کے مطابق یہ وہی چبوترہ یا پلیٹ فارم ہو سکتا ہے جس کے اوپر یسوع مسیح چلے تھے اور طغیانی اور اندھیرے کی وجہ سے ان کے شاگردوں کی نظروں کو یہ دھوکہ لگاکہ گویا وہ پانی پہ چل رہے ہیں۔ مزید یہ کہ چونکہ شاگردوں کے لئے کشتی کھینا مشکل تھا کافی دیر بعد بھی باوجود چپّو چلانے کے وہ اس پلیٹ فارم کے قریب ہی تھے مگرانہیں یوں محسوس ہو رہاتھا جیسے وہ تین چار میل دور بلکہ جھیل کے درمیان پہنچ چکے ہیں۔ یہاں یہ دلچسپ حقیقت بیان کرنا مناسب ہو گا کہ بائبل کے ایک اوّلین اردو ترجمہ کے مطابق، جو 1878ء میں شائع ہوا تھا،مسیح کے شاگردوں کودراصل یہ نظارہ نظر کا دھوکہ ہی معلوم ہواتھا۔ بنارس ٹرانسلیشن کمیٹی (Banaras Translation Committee) نے یہ ترجمہ براہ راست یونانی زبان سے اردو میں کیا تھا اور اسے رومن اردو میں شائع کیا گیا تھا۔اس کے الفاظ میں : "Jab unhon ne use darya par chalte dekha,khiyal kia,ki kuchh dhokha hai" یعنی:’’جب انہوں نے اُسے دریا پر چلتے دیکھا،خیال کیا، کہ کچھ دھوکہ ہے‘‘۔ (Marqus Bab VI:49 .Injil I Muqaddas (I).Third Edition Published 1878 by British And Foreign Bible Society Instituted In The Year 1804. Page 49) جدید تراجم میں ’’دھوکہ ‘‘کی بجائے ’’بھوت‘‘ کا لفظ لکھ دیا گیا ہے۔اسی طرح سے یہاں ’’ دریا ‘‘کا لفظ بھی توجہ طلب ہے کیونکہ بعد کے اردو تراجم میں اسے’’ جھیل‘‘ اور انگلش تراجم میں سمندر’’seaـ ‘‘لکھا گیا ہے۔ اگر تو یہ واقعہ کسی دریا پر پیش آیا تھاتو پھرمرقسؔ اور یوحنا ؔکی اناجیل میں بیان شدہ جغرافیائی مقامات کا ذکر مشکوک ہوکر رہ جاتا ہے۔غالباً اسی کی پیش بندی کرتے ہوئے متیؔ نے یسوع مسیح کی طرف منسوب بیان میں کسی مقام کا نام لینے کی بجائے صرف ’’اُس پار‘‘ کے الفاظ لکھنے پر اکتفا کیا۔ متی کی انجیل میں بیان کردہ اس واقعہ کو اب ذیل میں نقل کیا جاتا ہے جسے مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں پڑھنا کہیں زیادہ دلچسپی کا باعث ہو گا: ’’اور اس نے فوراً شاگردوں کو مجبور کیا کہ کشتی میں سوار ہو کر اس پار چلے جائیں جب تک وہ لوگوں کو رخصت کرے۔اور لوگوں کو رخصت کر کے تنہا دعا کرنے کے لئے پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب شام ہوئی تو وہاں اکیلا تھا۔مگر کشتی اس وقت جھیل کے بیچ میں تھی اور لہروں سے ڈگمگا رہی تھی کیونکہ ہوا مخالف تھی۔اور وہ رات کے چوتھے پہر جھیل پر چلتا ہوا ان کے پاس آیا۔شاگرد اسے جھیل پر چلتے ہوئے دیکھ کر گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ بھوت ہے اور ڈر کر چلّا اٹھے۔یسوع نے فوراً ان سے کہا خاطر جمع رکھو،میں ہوں، ڈرو مت۔‘‘ (متی باب22-27:14) (بحوالہ اردو بائبل پی ڈی ایف شائع کردہ Mojzat.org۔ اشاعت بمطابق 14فروری 2016ء) یہ امر بھی تعجب خیز ہے کہ مبینہ طور پر پانی پر چلنے کے واقعہ کے بارہ میں خود یسوع مسیح اور اس کے شاگرد بعد میں بالکل خاموش رہے اور اسے اپنی صداقت کی تائید میں بطور شہادت یا دلیل پیش نہیں کیا چنانچہ کسی انجیل میں بظاہراتنے عظیم الشان اور محیر العقول واقعہ کا براہ راست یا بالواسطہ دوبارہ ذکر نہیں ملتا۔اس بارہ میں مروجہ اناجیل کی خاموشی معنی خیز ہے اور جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا لوقاؔ کی انجیل میں تو اس واقعہ کا سرے سے کوئی ذکر ہے ہی نہیں۔ بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام مروجہ اناجیل کے بارہ میں فرماتے ہیں : ’’اصل بات یہی ہے کہ زمانہ دراز گزرا ہے۔اصل کتاب موجود نہیں ۔ نرے تراجم ہی تراجم رہ گئے ہیں۔ خدا جانے کیا کچھ ان لوگوں نے اپنی طرف سے بڑھایا اور کیا کیا نکال دیا،اس کا علم خدا ہی کو ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ537) ادھر ایک آسڑیلین محقق پروفیسر Barbara Thiering نے اپنی ایک کتاب Jesus The Man میں یہ بیان کیا ہے کہ’’پانی پر چلنے‘‘ سے مراد سچ مچ پانی پہ چلنا نہیں بلکہ یہ محض ایک مروجہ اصطلاح تھی جو یہودی رَبیّوں کی اس رسم کے لئے استعمال ہوتی تھی جب کوئی غیر یہودی (جو شریعت کے پابند نہ تھے مگر)یہودی سوسائٹی کا حصہ بننا چاہتے اور اس مقصد کے لئے انہیں ایک کشتی میں بٹھا کر پانی میں انتظار کروایا جاتا اور پھر ایک ربّی عرشہ پر چل کر کشتی تک پہنچتا اور انہیں برکت دے کر سوسائٹی کا غیریہودی ممبر بنا دینے کی رسم پوری کرتا۔رَبی کے عرشہ پر چلنے کو اصطلاحاً ’’پانی پر چلنا‘‘ قرار دیا جاتا چنانچہ مذکورہ رات کو حضرت عیسیٰ ؑنے کسی ربی کی بجائے خود یہ رسم سرانجام دے کر سب کو گویا پیغام دیا کہ اب یہ رسم سرانجام دینا ان کا ہی حق ہے نہ کہ ان ربّیوں کا جو اُن پر ایمان نہیں لائے۔ (خلاصۃً بحوالہ"Jesus The Man":By Dr Barbra Thiering.Corgi Edition Published 1993.Page 123) لیکن اصطلاح کے علاوہ یہ نظارہ ایک کشف یا رؤیا بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ رؤیا میں دیکھا کہ آپ ہوامیں تیر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ’’ عیسیٰ ؑ تو پانی پر چلتے تھے اور میں ہوا پر تیر رہا ہوں ‘‘۔ ( روزنامہ الفضل ربوہ۔ 2فروری 2016ء صفحہ نمبر 6) پس حضرت عیسیٰ ؑکا پانی پر چلنا ایسا ہی ہو سکتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا ہوا میں تیرنا۔ جس سے استنباط کرتے ہوئے مصلح موعودحضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ ’’اس رؤیا کے ماتحت میں سمجھتا ہوں کہ وہ زمانہ آنے والا ہے کہ … جلسہ کے ایام میں تھوڑے تھوڑے وقفے پر یہ خبریں بھی ملا کریں گی کہ ابھی ابھی فلاں ملک سے اتنے ہوائی جہاز آئے ہیں۔ ‘‘ (روزنامہ الفضل ربوہ۔ 2فروری 2016ء صفحہ نمبر 6) پس کسی بشر کا،خواہ وہ نبی و رسول بھی ہو، بغیر کسی سہارے کے ہوا میں اڑنا یا پانی پر چلنا ایک تمثیل،ایک رؤیا یا کشفی نظارہ تو ہو سکتا ہے مگر مادی یا جسمانی ہرگز نہیں۔ وَماَعَلینا الّا البلٰغ۔