ڈسٹرکٹ ڈپٹی کمشنر، اہل سنت کے صوبائی امام و دیگر معززین علاقہ کی شرکت۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ذریعہ مسجد کے افتتاح اور جماعت کے تعارف کی وسیع پیمانے پر تشہیر۔ ٭…میں اپنی زندگی میں پہلی بار کسی مسجد میں داخل ہواہوں۔ (ایک عیسائی پادری) ٭…امن و سکون پھیلانے کے لئے ہماری خواہش و کوشش ایسی ہی ہونی چاہئے جیسی کہ جماعت کے مقدس بانی حضرت مرزا غلام احمد(علیہ السلام)کی تھی۔یہی وہ جماعت ہے جو محبتیں پھیلا رہی ہے اور اپنی تمام تر طاقت سے نفرتیں ختم کرنے کا کام کر رہی ہے۔ (ڈسٹرکٹ کمشنر آف مبیا ٹائون NYEREMBE D. MUNASA) ٭… مَیں جماعتی کتب کا مطالعہ کرتا ہوں، آپ بھی پڑھیں۔ (اہل سنت کے سرکاری صوبائی امام SHEIKH MOHAMMED MWANSASU ) ٭…یہ مسجد مبیا شہر میں ایک نئی روشنی کی علامت ہے اور ترقی کا نشان۔ (مہمان خصوصی ڈسٹرکٹ کمشنر آف MBOZI، AHMAD NAMOHE) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ مسلمہ کو مشرقی افریقہ کے ملک تنزانیہ کے تیسرے بڑے صوبہ MBEYA کے مرکز میں یعنی مبیا شہر میں ایک خوبصورت اور وسیع و عریض مسجد کی تعمیر کی توفیق ملی ہے۔ یہ صوبہ تنزانیہ کے مرکزی شہر دارا لسلام کے جنوب مغرب میں 825 کلو میٹرکے فاصلے پر ہے۔ اور سطح سمندر سے 5500 فٹ کی بلندی پر واقع سرسبز و شاداب اور بلندو بالا پہاڑی سلسلہ میں گھرا ہوا ہے۔زمین کی زرخیزی اور بارشوں کی کثرت نے اس صو بہ کو مکئی، چاول، کیلا،بینز، آلو، سویا نَٹس اور گندم کی فصل کی کاشت کا سب سے بڑا صوبہ بنادیاہے۔ کل آبادی 2.7 ملین ہے۔لوگوں کی زیادہ تر آبادی Wasafwa اور Wanyakyusa قبائل سے تعلق رکھتی ہے، جن کی معیشت کا زیادہ تر انحصار کاشتکاری پر ہے۔آبادی کی اکثریت رومن کیتھولک عیسائی ہے مگرعیسائیوں کے متعدد فرقے یہاں موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ اس صوبہ میں تنزانیہ کے کسی بھی دوسرے صوبہ سے زیادہ گرجا گھر موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تین صد سے زائد گرجاگھر مبیا میں موجود ہیں جبکہ مساجد کی تعداد صرف تیس کے قریب ہے۔ مسلمانوں میں سنّی، اہلحدیث اورشیعہ کے مختلف فرقے اوراس دَور میں اسلام کے حقیقی وارث احمدی موجود ہیں۔ ہندو اور سکھ بھی معمولی سی تعداد میں ہیں۔ مبیا میں جماعت کا قیام مبیا شہر میں جماعت کی ابتداء1983/84 ء میں چند احمدی گھروں کے یہاں آکر آبادہونے سے ہوئی جن میں سے بعض روزگار کی تلاش میں اور بعض سرکاری ملازم ہونے کے باعث اپنے تبادلے کی وجہ سے یہاں آئے تھے۔ان احباب میں سے ایک معروف اور نہائت مخلص احمدی ڈاکٹر عیدی ابراہیم موائنگا صاحب ہیں جنہوں نے یہاں آتے ہی موجود دو تین احمدی گھرانوں کو اکٹھا کرکے جماعت کی شکل دی۔آپ لمبے عرصہ سے ریجنل صدر بھی ہیں۔ نیز مکرم حسن موری صاحب کا ذکر بھی ضروری ہے۔ آغاز میں ان کے گھر میں ایک عرصہ تک نمازیں اور دیگر جماعتی کام ادا ہوتے رہے۔ موجودہ مسجد بھی ان کے محلہ میں ہی بنی ہے۔ اسی طرح مکرم Ambari Mpulaki صاحب بھی پرانے احمدیوں میں سے ہیں۔ سال 2005 ء میں اس شہر میں باقاعدہ مشن اور نماز سنٹر کی ابتدا ایک گھر کی خرید سے ہوئی جس کے لئے اس وقت کے امیر و مشنری انچارج مکرم فیض احمد زاہد صاحب نے خصوصی کوشش کی اور مرکز کی منظوری سے یہ گھر 5.5 ملین تنزانین شلنگز میں خریدا۔ 2005 ء تانومبر2015ء یہی گھر جماعتی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔گھر کا ایک حصہ نماز سنٹر جبکہ دوسرا حصہ مبلغ سلسلہ کی رہائش کا کام دیتا رہا۔ اس صوبہ میں خدمت سلسلہ کی توفیق پانے والے ابتدائی مبلغین بالترتیب مکرم عیسیٰ کنیاٹا مرحوم، مکرم فرید احمد تبسم، مکرم مبارک احمد مرحوم، مکرم خواجہ مظفر احمد، مکرم بشارت الرحمن بٹ اور خاکسار کریم الدین شمس ہیں۔ زیررپورٹ مسجد کے لئے پلاٹ کی خرید سے لے کر مسجد اور نئے مشن ہائوس(مبلغ کی رہائشگاہ)کی تعمیر کی نگرانی و جملہ امور کی انجام دہی کی سعادت خاکسار کے حصہ میں آئی۔ الحمد للہ علی ذالک۔اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے 28 نومبر 2015ء بروز ہفتہ دوپہر 1:20پر اس مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔ مسجد کی تعمیر امیر و مشنری انچارج تنزانیہ مکرم مولانا طاہر محمود چوہدری صاحب کی اجازت سے 15مئی بروز جمعۃالمبارک صبح 10بجے مسجدو مشن کا سنگ بنیاد خاکسار کریم الدین شمس صوبائی مبلغ مبیا نے رکھا اور دعا کروائی۔ مسجد و مشن کی تعمیر میں کل چھ ماہ کا عرصہ صرف ہوا۔مسجد کے مسقف حصہ میں تین صد سے زائد افراد نماز باجماعت ادا کر سکتے ہیں اور اگر صحن کے پختہ حصہ کو بھی شامل کرلیا جائے تو پانچسو پچاس افراد کی گنجائش بن جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مسجد اپنی خوبصورتی اور وسعت کے باعث پورے علاقے کے لوگوں کی توجہ اور گفتگو کا مرکز بنی ہوئی ہے خصوصاً مسجد کے فرنٹ پہ تحریر تو زبان زد ِخاص و عام ہے کہ :مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا والی قرآنی عبارت مع سواحیلی ترجمہ کے لکھی ہوئی ہے یعنی یہاں جو بھی داخل ہوگا امن میں آجائے گا۔مسجد اور اس کے مینار شہر میں داخل ہونے والوں کا استقبال کرتے ہیں۔ مسجد کا یہ نام (مسجدناصر) ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے ہماری درخواست پر از راہ شفقت عطافرمایا ہے۔مبیا صوبہ کی یہ ہماری پہلی مرکزی مسجد ہے۔ مسجد کے افتتاح کے لئے 28 نومبر 2015ء کا دن مقرر کیا گیا۔ مسجد کے افتتاح کے پروگرام کے لئے تین صد سے زائد دعوت نامے تیار کرواکر سرکاری و غیر سرکاری عمائدین، مذہبی لیڈران،سکول و کالجز کے پرنسپل صاحبان،بینک مینجران اور مختلف طبقات کے سرکردہ افراد میں تقسیم کئے گئے۔ سرکاری و غیر سرکاری مہمانان مسجد کے افتتاح کیلئے تنزانیہ کے مرکز دارالسلام سے محترم امیر و مشنری انچارج صاحب اور ان کی دو افراد پر مشتمل M.T.A.کی ٹیم، موروگورو سے مکرم عابد محمود بھٹی صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ تنزانیہ، مکرم عزیز احمد صاحب استادجامعہ، مکرم آصف محمود بٹ صاحب ریجنل مبلغ موروگورو، مکرم ریاض احمد ڈوگر صاحب ریجنل مبلغ ارنگا اور مکرم علی رضا صاحب مبلغ سلسلہ(امسال کے فارغ التحصیل از جامعہ کینیڈا)تشریف لائے۔فجزاھم ا للّٰہ تعالیٰ احسن الجزاء۔ مسجد ناصر کے افتتاح کے لئے جماعتی مہمانان کے علاوہ صوبہ مبیا(MBEYA)کے ریجنل کمشنر اور ڈپٹی کمشنرخاص مہمانان میں شامل تھے۔ریجنل کمشنر صاحب بوجہ بیماری حاضر نہ ہو سکے مگر انہوں نے ساتھ والی ڈسٹرکٹ کے ڈپٹی کمشنر صاحب کو نمائندہ مقرر کردیا۔ یوں افتتاح کی تقریب میں دو ڈپٹی کمشنر صاحبان موجود تھے۔کئی اہم مذہبی و غیر مذہبی شخصیات بھی حاضر پروگرام ہوئیں۔ مسلمانوں میں سے سنّی،شیعہ،اہل حدیث کے نمائندگان شامل ہوئے بلکہ سنّیوں کے ریجنل امام، جو سرکاری طور پر اس عہدے پر فائز ہیں، اپنے وفدکے ہمراہ تشریف لائے اور تقریربھی کی۔ہندوؤں اورعیسائیوں نے بھی شرکت کی۔ افتتاح کی یہ تقریب پاکستانی، انڈین اور افریقن احباب کا خوبصورت اجتماع تھا۔ افتتاحی تقریب مسجد ناصر کی افتتاحی تقریب 28نومبر2015ء بروز ہفتہ عمل میں آئی۔امیر و مشنری انچارج تنزانیہ اور مبیا کی ڈسٹرکٹ MBOZI کے ڈپٹی کمشنر مکرم AHMAD NAMOHE نے مل کر مقررہ وقت یعنی دوپہر 1:20 پرافتتاحی فیتہ کاٹا جس کے معًا بعد امیر و مشنری انچارج صاحب نے اجتماعی دعا کروائی۔ دعا کے بعد مہمان خصوصی اور دیگر اہم مہمانان نے امیر صاحب کے ہمراہ مسجد کا وزٹ کیا۔ دوپہر 1:30 پر افتتاحی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جو مکرم معلم رمضان شعبان صاحب نے کی۔نظم مکرم مکرانی حمزہ صاحب نے پڑھی جو کہ صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ تنزانیہ نے اس مسجد کے افتتاح کے لئے چند روز قبل لکھی تھی۔اس نظم کا عنوان تھا ’یہ امن و سلامتی کا گھر ہے‘۔نظم کے بعد مہمانان کا تعارف کروایا گیا اور انہیں خوش آمدید کہا گیا۔ اس تقریب میں معززین شہر کی ایک بڑی تعداد حاضر تھی۔حسب پروگرام چار مہمانان کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا گیا۔ سب سے پہلے عیسائی پادری مکرم AMULIKE KAMENDUصاحب، جو فرقہ اہل سبت سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا اس اہم تقریب میں مدعو کئے جانے پر شکر گزار ہوں اور میں اپنی چالیس سالہ بطور پادری زندگی میں پہلی بار کسی مسجد کے افتتاح میں شامل ہوا ہوں۔ میری زندگی کا یہ حیران کن واقعہ ہے۔جماعت واقعی بنی نوع انسان میں کسی قسم کی تفریق نہیں کرتی۔جماعت نے مجھے دعوت دے کر ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں ‘‘ کا عملی ثبوت دیا ہے۔ میں آپ سب کا بہت شکرگزار ہوں اور آپ کو مسجد کی تعمیر پر مبارکباد دیتا ہوں۔ ان پادری صاحب نے پروگرام کے آخر پر امیر صاحب سے درخواست کی کہ انہیں نماز باجماعت میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ انہوں نے ہمارے ساتھ نماز ظہر و عصر اداکیں اور مسجد کے محراب کے سامنے کھڑے ہوکر امیرصاحب اور دیگر مبلغین کرام کے ساتھ بطور یادگار تصویر بھی بنوائی۔ دوسری تقریر ڈپٹی کمشنر مبیا شہر مکرم Nyerembe D. Munasa صاحب کی تھی۔ آپ نے کہا کہ جماعت نے اس مسجد کی تعمیر کا جو اہم فریضہ سرانجام دیا ہے۔ اس پر جماعت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں نیز دنیا بھر میں ایسی ہزاروں مساجد کی تعمیر، قرآن کریم کے ستر سے زائد تراجم کرنے،سواحیلی زبان میں سب سے قبل دینی اخبار جاری کرنے اور دنیا بھر میں خدمت انسانیت کرنے پر خصوصی مبارکباد دی اور کہا کہ جماعت ہر وقت، ہر لمحہ اپنی پوری طاقت اس بات پر صَرف کرتی ہے کہ مساوات اور عدل و انصاف کا قیام ہو،سب کو حق ملے اور سبھی کو خوشی کی زندگی میسر آئے۔آپ نے مزید کہا کہ امن و سکون پھیلانے کے لئے ہماری خواہش و کوشش ایسی ہی ہونی چاہئے جیسی کہ جماعت کے مقدس بانی حضرت مرزا غلام احمد(علیہ السلام)کی تھی۔ آپ نے ــ''محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں ''کے جماعتی سلوگن کو باربار دہرایا اور کہا کہ یہ بات بالکل سچی ہے اور یہی وہ جماعت ہے جو محبتیں پھیلا رہی ہے اور اپنی تمام تر طاقت سے نفرتیں ختم کرنے کا کام کر رہی ہے۔ تیسری تقریر، بکواٹا (اہل سنّت کا رجسٹرڈ سرکاری نام)کے صوبائی امام، Sheikh Mohammed Mwansasu صاحب کی تھی۔ آپ نے جماعت کو ایک خوبصورت اور بڑی مسجد کی تعمیر پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنی کوششوں کی زبردست عملی تصویر پیش کی ہے اور بجائے شور کرنے کے خاموشی سے کام کرکے دکھایا ہے۔ آپ نے حاضرین سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں جماعت کو قریب سے دیکھتا ہوں اور جماعتی کتب کا مطالعہ کرتا ہوں لہٰذا آپ بھی پڑھیں۔ اور آپ جو بکواٹا (اہل سنّت)پر اعتراض کرتے ہیں تو احمدیوں سے مل جائیں کہ ان میں تو کوئی برائی نہیں۔ آپ کے بعد ریجنل کمشنر مبیا کے نمائندہ ومہمان خصوصی ڈپٹی کمشنرآف ڈسٹرکٹ Mbozi مکرم Ahmad Namohe صاحب سٹیج پر تشریف لائے اور مسجد کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی طور پر اس تعمیر سے بہت خوش ہوئے ہیں۔ یہ مسجد مبیا شہر میں ایک نئی روشنی کی علامت ہے اور ترقی کا نشان۔یہ مسجد اس بات کی آئینہ دار ہے کہ جماعت عملی کوشش کرتی ہے صرف باتیں نہیں کرتی۔ہمیں اس شاندار مسجد کی تعمیر کی مثال کو اپناتے ہوئے بڑے بڑے ٹارگٹ اپنے سامنے رکھنے چاہئیں تا ترقی کی اونچی اونچی منازل طے کرسکیں۔ اور اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہر اچھے کام کی قدر کرنی چاہئے خواہ اس کا کرنے والا کوئی بھی ہو، تا اس نیک کام کے بہتر نتائج ظاہر ہوں۔ مکرم امیر و مشنری انچارج صاحب تنزانیہ نے آخر پر سب حاضرین و شاملین کا شکریہ ادا کیا خصوصًا مہمان خصوصی و دیگر مقررین کا نیز آپ نے کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں احمدیہ مساجد ہی عافیت کا مقام ہیں۔ یہ مسجد بھی اس علاقہ کی امن کی جگہ ہوگی۔ آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی گئی یہ مسجد بلا تفریق مذہب وملّت سب کے لئے ہے۔ ہر کسی کو اس مسجد میں خدا ئے واحد کی عبادت کی کھلی اجازت ہے۔ آپ نے احمدی افراد کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ احمدیوں کو اب مسجد کو آباد رکھنے کی خاص کوشش کرنی چاہئے۔ اگر بعض کے گھر مسجد سے دور بھی ہیں تو بھی انہیں کوشش کر کے کم از کم ایک یا دو نمازوں کے لئے مسجد آنا چاہئے تاکہ ہم مسجد کی تعمیر کے بعد اس کا حق ادا کرنے والے بن سکیں۔ آپ نے اپنی نصائح کے اختتام پر دوبارہ تمام حاضرین کا شکریہ اداکیا اور اختتامی دعا کروائی، جس کے بعد سب شاملین کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔کھانے کے بعد امیر صاحب نے نماز ظہر وعصر پڑھائیں اور یوں یہ پُروقار محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔ نئے مشن ہائوس ( مبلغ کی رہائش ) کا افتتاح نماز ظہر و عصر کے معًا بعد (28 نومبر2015ء) کو ہی مسجد کے ساتھ بننے والے نئے مربی ہائوس کے افتتاح کا بھی پروگرام تھاجو کہ مسجد کے دائیں طرف تعمیر ہوا ہے۔ چنانچہ نمازوں کی ادائیگی کے بعد تمام احباب امیر صاحب کی معیت میں مشن ہائوس تشریف لے گئے جہاں امیر صاحب نے رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا والی دعا پڑھتے ہوئے افتتاحی فیتہ کاٹا اور دعا کروائی۔ یہ گھر چار بیڈرومز، کچن، فیملی ہال و سٹنگ روم وغیرہ پر مشتمل ہے اور موجودہ زمانہ کی تعمیری ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس پروگرام میں کل حاضری اللہ تعالی کے فضل وکرم سے 235 رہی جن میں 125غیر احمدی یا غیر مسلم تھے۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں اشاعت و تشہیر مسجد ناصرکے افتتاح کے موقع پر تنزانیہ کے چار نیشنل ٹیلی ویژن، پانچ ریڈیوز اور پانچ بڑے قومی اخبارات کے نمائندگان حاضر تھے۔ اللہ کے فضل سے مسجد کی خوب تشہیر ہوئی۔ دو نیشنل ٹیلیویژن، T.B.C اور ITV نے مسجد کی تصاویر کے ساتھ تفصیلی خبریں نشر کیں۔ Fm.Mbeya Radio, Radio Afrika, Radio Fm 100, FM-T.B.C Radio اور دیگر کئی ریڈیوز نے بھی مسجد کے افتتاح کی خبریں باربار نشر کیں۔ اسی طرح نیشنل سطح پر پرنٹ ہونے والے کئی بڑے بڑے اخبارات نے تفصیلی خبریں پرنٹ کیں جیسے کہ اخبار NIPASHE، اخبار UHURU، اخبار MTANZANIA، اور اخبار MAJIRA۔ یوں اندازاً ڈیڑھ ملین سے زائد لوگوں تک جماعت کا پیغام پہنچا۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔ قارئین الفضل کی خدمت میں دعا کی درخواست ہے کہ اس علاقے کے لوگوں کی اکثریت اسلام احمدیت کے نور سے جلد از جلدمنور ہوسکے۔آمین۔ ٭…٭…٭