(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات،گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) مکرم عطیہ حفظی ہمام صاحب(2) قسطِ گزشتہ میں ہم نے مکرم عطیہ حفظی ہمام صاحب کے احمدیت کی طرف سفر کا ایک حصہ بیان کیا تھا۔ اس قسط میں انکے اس ایمان افروز سفر کے باقی حالات بیان کئے جائیں گے۔ وہ بیان کرتے ہیں : واجب القتل ہونے کا فتویٰ مکرم عبدہ بکر صاحب تو گھربدری کے بعد قاہرہ چلے گئے اور ان کے جانے کے بعد بستی میں شور مچ گیا۔ مولویوں نے مشہور کردیا کہ انہوں نے عبدہ بکر صاحب کو مناظرہ میں شکست دے دی تھی اور چونکہ ان کی طرف سے عبدہ بکر پر اتمام حجت ہو چکا ہے اس لئے اب وہ کافر ومرتد ہونے کے باعت واجب القتل ہیں۔ مَیں جانتا تھا کہ مولوی جھوٹ بول رہے ہیں اور مناظرہ میں تو عبدہ بکر صاحب کی بجائے مولویوں پر اتمام حجت ہوا تھا۔لیکن مَیں یہ سب کچھ سن کر اس پر سوائے افسوس کے اور کچھ نہ کرسکا۔ اس کے بعد میں ایک سال تک ایم ٹی اے دیکھتا رہا اور اپنے دوستوں سے بھی یہی کہتا رہا کہ مولویوں کی باتوں میں آکر احمدیت کی مخالفت کرنے کی بجائے جماعت کا چینل دیکھ کر خود فیصلہ کریں۔ وفاتِ مسیحؑ اور فتویٰ ٔ کفر ایک روز مَیں نے گاؤں کی مسجد میں اسی مولوی صاحب کا خطبہ سنا جس کے ساتھ عبدہ بکر صاحب کا وفات مسیحؑ کے موضوع پر مباحثہ ہواتھا۔ مولوی صاحب نے مفتیٔ سعودیہ ابن باز اور بعض دیگر سعودی علماء کے حوالے سے وفات مسیح کے قائل لوگوں کے کفر کا فتویٰ صادر کیا۔ اس فتویٰ کے بعد مولوی صاحب فرمانے لگے کہ سب سے پہلے انڈیا میں پیدا ہونے والے مرزاغلام احمد قادیانی نے وفات مسیحؑ کی بات کی۔پھر خطبہ کے دوران ہی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو برا بھلا کہنے لگ گیا۔ جمعہ کی نماز کے بعددو نوجوان مولوی صاحب کے پاس گئے تو مَیں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ انہوں نے وفات مسیحؑ کے قائل افراد کے بارہ میں مولوی صاحب کے فتویٰ کی مذمت کرتے ہوئے کئی علماء کے نام لے کر کہا کہ یہ سب وفات مسیحؑ کے قائل ہیں، پھر ان نوجوانوں میں سے ایک نے مولوی کے منہ پر ہی کہہ دیا کہ میں بھی وفات مسیحؑ کا قائل ہوں، اب آپ بتائیں کہ کیا یہ سب علماء اور ہم سب بھی کافر ہیں ؟مولوی صاحب کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس کے برعکس دوسرے لوگ جو مولوی صاحب کی بات کو ہی دین حق سمجھنے کے عادی تھے انہوں نے مولوی صاحب کی زبانی خطبہ میں اس فتویٰ کو سنا تو کہنا شروع کر دیا کہ اے عبدہ بکر تم کہاں ہو؟ کاش تم یہاں ہوتے تو سنتے کہ مولوی صاحب نے تمہارے بارہ میں شریعت کے مطابق کونسا فتویٰ پیش کیا ہے۔پھر وہ نہایت حسرت آمیز لہجے میں کہنے لگے کہ بیچارہ عبدہ بکر اچھا نوجوان تھا لیکن قادیانیت کی وجہ سے خراب ہو گیا۔ إِنِّیْ مُہِیْنٌ مَّنْ أَرَادَ إِھَانَتَکَ 2013ء کا سال ہمارے ملک میں بڑی سیاسی تبدیلیوں کا سال ٹھہرا۔ اس سال اخوان المسلمین کی حکومت اور مولوی حضرات کے خلاف مصر کی عوام کی طرف سے وسیع پیمانے پر مظاہرے ہونے لگے۔مولویوں کے بارہ میں عاقل لوگوں کی رائے یکسر بدل گئی اور وہ جو کبھی انہیں دین حق کے سفیر مانتے اور ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے آج ان سے نفرت کرنے لگ گئے۔ یقینًا یہ ایک بہت بڑی اور غیر متوقع تبدیلی تھی۔ وہ مولوی حضرات جو سالہا سال سے سادہ لوح عوام کے سر پر سوار تھے اور ان کی عقلوں کو بھی غلام بنا کر کھیل رہے تھے انہیں یہ سب کچھ اتنی جلدی کیونکر قابل قبول ہو سکتا تھا لہٰذا ردّ عمل کے طور پر اخوان المسلمین کے بعض حامیوں نے بھی جلوس نکالا لیکن اپنے غصہ پر قابو نہ رکھ سکے اورحسبِ عادت جلاؤ گھیراؤ اورلوٹ مار کے علاوہ پولیس کے بعض جوانوں کے قتل کا بھی ارتکاب کر بیٹھے۔ لیکن چونکہ اب حالات بدل چکے تھے اس لئے مکافات عمل کے طور پر انہیں بھی اسی قسم کے سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ بعض ان میں سے قتل ہوئے، بعض کے گھر گرادیئے گئے، بعض کو قید بامشقت کی سزا ہوئی، اور ان میں سے بعض ابھی تک رُوپوش ہیں ۔ یوں یہ سب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، اور جنہوں نے آپ کے کفر کا فتویٰ صادر کیا تھا، یہ سب آج اپنے جرم کی سزا پاچکے تھے اور بستی میں ان کا وجود تک مٹ گیا تھا۔جب میں نے مکرم عبدہ بکر صاحب کو اس صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ رو پڑے اور کہنے لگے کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ یہ مولوی بھری مجلس میں مسیح موعود علیہ السلام کی توہین وتکفیر کے مرتکب ہوئے ہیں اب خداتعالیٰ انہیں ضرور پکڑے گا۔میں تو اس نشان کا چشم دید گواہ تھا اور اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے بیّن ثبوت کے طور پر ماننے پر مجبور تھا۔ بیعت کا فیصلہ اسی روز میں نے بیعت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔شادی کے بعد میں نے اپنی بیوی کو بھی تبلیغ کی تھی اور وہ بھی میرے ساتھ احمدیت کے بارہ میں تحقیق کررہی تھی۔ چنانچہ جب میں نے بیعت کا فیصلہ کیا تو اس نے بھی میرے ساتھ ہی بیعت کرنے کا اظہار کیا جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس نے جماعت کی صداقت کے نشانات کے علاوہ کچھ رؤیائے صالحہ بھی دیکھے تھے جس سے جماعت کی سچائی اس کے لئے روشن ہو چکی تھی۔ پھر وہ دن بھی آگیا جب میں اپنی بیوی کو لے کر قاہرہ میں جماعت کے سنٹر میں گیا جہاں نماز جمعہ کے بعد مَیں نے اپنی بیعت کا اعلان کیا۔ اس وقت ایک نہایت خوبصورت احساس تھا جس کی یادیں آج بھی میرے دل و دماغ میں تازہ ہیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید زندگی میں آج پہلی بار میں حقیقی مسلمانوں کی جماعت سے مل رہا ہوں۔ یہاں ہرشخص دوسرے سے معصوم اوربے لوث محبت کرنے والا تھا۔یہاں ہر ایک ہی عاجزی وانکساری کا نمونہ تھا۔ یہاں ہر ایک دوسرے کی خدمت کے جذبہ سے سرشار تھا۔ میں نے یہاں پر موجود ہر احمدی کو غیر معمولی سعادتمندی کے ساتھ ایک عجیب روحانی خوشی اور خوش بختی کے احساس سے سرشار دیکھا۔یہ صرف میری ہی رائے نہ تھی بلکہ میری اہلیہ کے جذبات بھی کچھ مختلف نہ تھے۔ وہ بھی وہاں پر احمدی عورتوں سے ملی اوران کے اخلاص و اخلاق اور محبت و اخوت سے بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ نیزوہاں پر اس کی ملاقات مکرم عبدہ بکر صاحب کی بیوی سے بھی ہوئی جو ہمارے سابقہ تعلق کی وجہ سے فورًا ہی گہری دوستی میں بدل گئی اور اس دن سے وہ دونوں سگی بہنوں کی طرح ہو گئی ہیں۔ فتویٰ بازی کی رگ! قاہرہ سے واپسی پر میں نے تو بستی میں آتے ہی اپنی بیعت کا اعلان کردیا۔اسکے ساتھ ہی مشکلات کا آغاز ہوگیا۔ میرے سب بھائی میرے ساتھ بحث کر نے کے لئے اکٹھے ہوگئے۔یہ بات جب بستی کے بچے کھچے ان مولویوں تک پہنچی جنہیں حکومتی مشینری نے نسبتًا کم شر والے سمجھ کر چھوڑ دیا تھا تو ان میں فتویٰ بازی کی رگ جاگ اٹھی اور ان میں سے ایک نے میرے بارہ میں بستی میں مشہور کردیا کہ عطیہ حفظی عیسائی ہوگیا ہے۔ اسی طرح میری تکفیر کے بارہ میں بھی کئی فتاویٰ اور افواہیں گردش کرنے لگیں جن کو سن کر مجھے محسوس ہواکہ مجھ پر بھی وہی الزامات لگائے جارہے ہیں جو ابھی کچھ عرصہ قبل ہی مکرم عبدہ بکر صاحب پر لگائے گئے تھے۔ اس صورتحال میں میرا بھائی مجھ سے مختلف امور کے بارہ میں بحث کرنے لگ گیا اوردورانِ بحث وہ مجھے مولوی صاحب کے پاس لے جانے پر اصرار کرنے لگا۔ بادل نخواستہ میں چلا گیا اور کلمہ شہادت پڑھ کر مولوی صاحب سے پوچھا کہ آپ ایک کلمہ گو کو عیسائی ہونے کا الزام کیونکر دے سکتے ہیں ؟ کلمۂ شہادت سن کر مولوی صاحب نے پینترا بدلا اورکہا کہ میں نے تو یہ کہا تھاکہ قادیانیت اسلام سے خارج فرقہ ہے۔میرے بھائی نے وہیں پر مولوی صاحب کو پکڑ لیا اور کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ کیونکہ تم نے میرے والد صاحب سے کہا تھا کہ تمہارا بیٹا حفظی اوراس کی بیوی عیسائی ہوگئے ہیں۔ اس پر مولوی صاحب نے کھسیانا سا ہو کرکہا کہ ہاں میں نے کہا تھا کیونکہ قادیانیت اسلام سے علیحدگی کا نام ہے۔ اورایسی صورت میں ان کا کسی مسیح موعود پر ایمان کا دعویٰ عیسائیت سے بھی بدتر ہے۔ قسطنطنیہ کی فتح اور دجال مولوی صاحب کی مذکورہ بالا بات سن کر میں نے ان سے پوچھاکہ کیا قسطنطنیہ کی فتح ہوچکی ہے یا ابھی ہونی ہے؟ انہو ں نے جھٹ کہا کہ وہ تو کب کی ہو چکی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حدیث میں تو آیا ہے کہ دجال کا خروج قسطنطنیہ کی فتح کے عرصہ میں ہی ہوگا۔پھراگر قسطنطنیہ کی فتح صدیوں پہلے ہوچکی ہے تو اس حدیث کے مطابق دجال کا خروج بھی ہو چکا ہے، اور اگر دجال ظاہر ہو چکا ہے تو مسیح علیہ السلام بھی نازل ہو چکے ہیں۔ اوراگر مسیح علیہ السلام نازل ہوچکے ہیں تو وہ کہاں ہیں ؟ پھر اسی روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ مسلمان فتح قسطنطنیہ کے بعد تقسیم غنائم کے وقت اپنی تلواریں زیتون کے درختوں کے ساتھ لٹکا دیں گے۔ چنانچہ کیا قتلِ دجال سے پہلے اس ساری ترقی کے باوجود دنیا دوبارہ تلواروں سے ہی جنگ کرنے لگے گی؟ اب یا تو آپ کہہ دیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے یا پھر یہ مانیں کہ یہ تما م واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ آپ کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔ یہ مسلمان ہے! میرا بھائی شاید یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ میرے سامنے مولوی صاحب بے دلیل ولاجواب ہو جائیں ۔ اگرچہ وہ مولوی صاحب کی زبانی مجھ سے کفر کا لیبل اتروانا چاہتا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا جس میں وہ میرے مؤقف کی صداقت کے اعتراف پر مجبور ہو جائے۔اس لئے اس نے مجھے کہا کہ تم ابھی ان باتوں کو چھوڑدو،ان موضوعات پر بات پھر کبھی کر لیں گے۔ پھر مولوی صاحب سے مخاطب ہو کر بولا کہ اب آپ میرے بھائی کا موقف سن چکے ہیں۔ لہٰذا اب مجھے صرف یہ بتا دیں کہ میرا بھائی مسلمان ہے یا عیسائی؟مولوی صاحب کو شاید ابھی تک قسطنطنیہ کی فتح اور دجال کے خروج والی بات ہی ہضم نہ ہوئی تھی اور شاید وہ مزید کسی الجھن کا شکار نہیں ہونا چاہتے تھے۔ اس لئے فورًا کہنے لگے کہ اگر یہ کلمہ شہادت پڑھتا ہے او رنماز وروزہ کی ادائیگی کرتا ہے اور قبلۂ مسلمین کو اپنا قبلہ مانتا ہے تو پھر یہ مسلمان ہے۔ میرے بھائی نے مولوی صاحب سے یہ تو نہ پوچھا کہ قبل ازیں بغیر کسی تحقیق کے ہی آپ نے کفر کا ایسا فتویٰ کیسے صادر کردیا تھا جس کے غلط ہونے کا اب آپ خود اقرار کر رہے ہیں ؟ یہ ایسا فتویٰ تھا جس کی بناء پر کوئی متشدد میری جان بھی لے سکتا تھا۔ لیکن شر پسند مُلّاں نے دین کو کھیل بنا کر خود کو اس کا ٹھیکیدار سمجھ رکھا ہے اور اسی مستی میں بیٹھا لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کررہا ہے۔ میرے بھائی کو تو بس مولوی صاحب کی طرف سے یہی شہادت چاہئے تھی لہٰذا وہ یہ سنتے ہی مجھے وہاں سے لے کر گھر آگئے۔ قبول بیعت کی خوشکن خبر شاید وہ میری زندگی کے خوش ترین لمحات تھے جب عبدہ بکر صاحب نے مجھے فون کر کے بتایا کہ حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے میری بیعت قبول فرمالی ہے۔ پھر انہوں نے فون پر ہی حضور انور کا جوابی خط پڑھ کر سنایا۔ حضور انور کے خط میں مذکور دعاؤں کو سن کر دل بہت نرم ہو گیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ بیعت کے بعد مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہے اور مجھے ہر معاملہ میں اس کی تائید ونصرت کا احساس ہوتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں شرائط بیعت پر مکمل عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ (باقی آئندہ)