https://youtu.be/Q0tmBf9k4w4?si=b3oVaDi0tPQ96MU_&t=1769 موسم میں خنکی تھی۔ سہ پہر کو دادی جان اپنے آنگن میں چارپائی پر بیٹھیی مطالعہ میں مصروف تھیں۔ گڑیا، احمد اور محمود اُن کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ احمد: دادی جان موسم ٹھنڈا ہوتا جارہا ہے۔ دادی جان: جی ہاں! آپ سب نے امی جان کے کہنے کے مطابق تمام احتیاطوں پر عمل کرنا ہے اور کوشش کرنی ہے کہ پورے بازو والی قمیض بھی پہنیں تاکہ موسم اگر یکدم ٹھنڈا ہوجائے تو آپ پر اثر نہ کرے۔ گڑیا:دادی جان! آپ نے کہا تھا کہ آپ کو یاد کرواؤں کہ اس کتاب میں سے کوئی کہانی سنائیں گی جو آپ دوپہر کو پڑھ رہی تھیں۔ دادی جان مسکرا کر بولیں: جی ہاں میں خطباتِ محمود میں ایک کہانی پڑھ رہی تھی۔ چلیں آپ کو بھی پڑھ کر سناتی ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتےہیں کہ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعودؑ سچی دوستی کے متعلق ایک کہانی سنایا کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے ایک امیر آدمی تھا جو بہت بڑا دولتمند تھا۔ اُس کا ایک لڑکا تھا جس نے اپنی دولت کی وجہ سے کئی اوباش نوجوان اپنے ارد گرد جمع کر لیے تھے۔ وہ اُن کے لیے قسم قسم کے کھانے تیار کرکے لے جاتا، قسم قسم کے شربت اُن کے پینے کے لیے تیار کراتا۔ کبھی فالودہ اُن کو کھلاتا، کبھی پھل اُن کے سامنے پیش کرتا، کبھی مٹھائیاں اُن کے لیے منگواتا، کبھی عطر اور خوشبودار تیل اُن کو دیتا، کبھی مختلف قسم کی خوشبودار دھونیوں سے اُن کے کمرے کو معطر کرتا۔ غرض ان کی مجلس خوب گرم رہتی۔ وہ شربت پیتے رہتے، کھانے کھاتے رہتے،مٹھائیاں اور پھل وغیرہ استعمال کرتے رہتے اور کہتے کہ ہم تجھ سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ ہمارے جیسے دوست کبھی کسی کو میسر نہیں آئے۔ احمد: دادی جان! اوباش نوجوان کسے کہتے ہیں؟ دادی جان: بیٹا، اوباش نوجوان وہ ہوتے ہیں جو پڑھائی چھوڑ کر برے کاموں میں لگ جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی خراب کرتے ہیں۔ دادی جان کہانی آگے بڑھانے لگیں: باپ اپنے بیٹے کو ہمیشہ نصیحت کرتا اور اُسے کہتا کہ اُن دوستوں کا کوئی اعتبار نہیں مگر وہ جواب میں یہی کہتا کہ ابّا آپ کو کیا پتا؟ یہ دوست تو ایسے اچھے اور وفادار ہوتے ہیں کہ ان سے بڑھ کر وفادار دوست اَور کوئی ہوہی نہیں سکتا۔ ایک دن باپ نے اپنے بیٹے سے کہا اگر تمہاری یہ بات درست ہے کہ یہ نوجوان تمہارے سچے دوست ہیں اور تمہیں میری بات پر اعتبار نہیں آتا تو تم اِس کا تجربہ کرکے دیکھ لو۔ گڑیا:دادی جان! کیا تجربہ کرنا تھا؟ دادی جان: جی وہی حضور بیان فرما رہے ہیں ۔ اس کے والد نے کہا: تم ان کے گھروں پر جاؤ اور اُن سے کہو میرے باپ نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا ہے اب میرے گزارے کی کوئی صورت نہیں مجھے کچھ روپے دو تاکہ مَیں اُن سے تجارت کرسکوں۔ پھر دیکھو کہ تم سے یہ دوست کیسا سلوک کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگا بہت اچھا مَیں اِس کا تجربہ کر لیتا ہوں۔ محمود ہنستے ہوئے: اب پتا چلے گا کون سا دوست اصلی ہے؟ دادی جان: بالکل! چنانچہ وہ کسی دوست کے پاس گیا اور اُس سے کہنے لگا ابّا نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا ہے اب مَیں چاہتا ہوں کہ گزارے کے لیے کوئی تجارت کروں۔ فی الحال تم مجھے پانچ ہزار روپیہ دے دو۔ جب تجارت سے آمد شروع ہوگی تو آہستہ آہستہ یہ قرض اتار دوں گا۔ جس وقت دوست سے اُس نے یہ ذکر کیا وہ سنتے ہی کہنے لگا مجھے آپ سے بڑی ہمدردی ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ میرا روپیہ اِس وقت فلاں فلاں جگہ پھنسا ہوا ہے۔ اگر روپیہ میرے پاس ہوتا تو مَیں ضرور دیتا مگر مَیں معذور ہوں۔ گڑیا نے سوال کیا: دادی جان! معذور یعنی وہ دوست handicapped تھا ؟ دادی جان: معذور یعنی عذر پیش کررہا تھا۔ کوئی بہانہ بنا رہا تھا کہ میرے پاس پیسے نہیں، حالانکہ وہ نہیں دینا چاہتا تھا۔پھر یہ کہہ کر اور معذرت کا اظہار کرکے وہ واپس اپنے گھر چلا گیا۔ اس کے بعد یہ دوسرے دوست کے پاس گیا اور اس نے بھی یہی جواب دیا۔ پھر تیسرے دوست کے پاس گیا اور اُس نے بھی یہی جواب دیا۔ چونکہ اِس عرصہ میں یہ بات اُس کے تمام دوستوں میں پھیل گئی اس لیے آخر میں تو ایسا ہوا کہ یہ جب اپنے کسی دوست کو آواز دیتا تو وہ باہر ہی نہ نکلتا اور ملازم کے ذریعہ کہلا بھیجتا کہ اُس سے جاکر کہہ دو میاں گھر میں نہیں ہیں۔ آخر وہ مایوس ہوکر رات کو اپنے گھر میں واپس آگیا اور باپ سے کہنے لگا کہ آپ کی بات تو سچی نکلی۔ مَیں سب کے پاس گیا مگر کسی نے بھی میری مدد نہیں کی۔ کچھ تو ایسے تھے جنہوں نے باہر نکل کر معذرت کر دی اور اکثر ایسے تھے جو باہر ہی نہ نکلے۔ احمد نے کہا: ہائے دادی جان! یعنی اس کا کوئی بھی پکا اور سچا دوست نہیں تھا؟ دادی جان: جی ہاں! اب آگے سنو۔ باپ نے یہ سن کر کہا تم نے تو اپنے دوست دیکھ لیے آؤ اب مَیں تمہیں اپنا دوست بتاتا ہوں۔ یہ کہہ کر اُس نے اپنے بیٹے کو ساتھ لیا اور دوست کی طرف چل پڑا۔ راستہ میں اُسے کہنے لگا بیٹا! سچا دوست بڑی مشکل سے ملا کرتا ہے اور پھر جس طبقہ میں تم اپنے دوست تلاش کرتے ہو اس میں تو کسی سچے دوست کا ملنا اَور بھی مشکل ہوتا ہے۔ تمہیں میرا دوست دیکھ کر تعجب آئے گا مگر سچا دوست وہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے و ہ اُسے شہر سے باہر لے گیا۔ وہاں ایک چھوٹی سی جھونپڑی تھی۔ اس جھونپڑی کے قریب پہنچ کر اُس نے دروازے پر دستک دی اور جو شخص اُس کے اندر تھا اُسے بلایا۔ بیٹا یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ میرا باپ تو اتنا امیر آدمی ہے اور اُس کا دوست ایسا غریب اور چھوٹے طبقے کا ہے کہ ایک جھونپڑی میں رہتا ہے۔ احمد: جھونپڑی یعنی کچا اور چھوٹا سا مکان؟ دادی جان: جی ہاں۔ تھوڑی دیر کے بعد اندر سے آواز آئی کہ کون ہے؟ اس نے اپنا نام لیا کہ مَیں ہوں اور ایک ضروری کام کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔ اس آواز کو سننے کے بعد خاموشی طاری ہوگئی۔ دو منٹ، چار منٹ، دس منٹ، بیس منٹ گزر گئے مگر کسی نے دروازہ نہ کھولا۔ بیٹے نے اپنے باپ سے کہا آپ کا دوست بھی ویسا ہی نکلا جیسے میرے دوست تھے۔ باپ نے کہا ذرا ٹھہر جاؤ میرا دوست ایسا نہیں ہے۔ معلوم نہیں کیا وجہ پیش آئی کہ اُس نے نکلنے میں دیر لگا دی ہے۔ تھوڑی دیر گزری تو دروازہ کھلا اور اندر سے معمولی غریبانہ لباس میں ایک شخص نکلا جس کے ساتھ اُس کی عورت تھی۔ ہاتھ میں تلوار تھی اور کمر کے ساتھ ہمیانی(تھیلی) بندھی ہوئی تھی جس میں روپے تھے۔ محمود نے فوراً پوچھا:ہمیانی کیا ہوتی ہے؟ دادی جان: یہ ایک کمر پر باندھنے والی تھیلی ہوتی تھی جس میں سکے یا روپے رکھے جاتے تھے۔ جیسے آجکل پاؤچ ہوتے ہیں۔ دادی جان نے پھر پڑھنا شروع کیا: اُس نے باہر نکل کر السلام علیکم کہا اور پھر پوچھا کہ کیا کام ہے؟ اُس نے کہا کام تو پھر بتاؤں گا پہلے تم یہ بتاؤ کہ تم نے باہر نکلنے میں اتنی دیر کیوں لگائی ہے؟ وہ کہنے لگا میرے آپ کے ساتھ مدت سے دوستانہ تعلقات ہیں اور ہم کبھی کبھار آپس میں مل بھی لیتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے پر کامل یقین اور اعتبار ہے کہ آپ کو کوئی ضرورت پیش آئے تو مَیں آپ کے کام آؤں گا اور اگر مجھے کوئی ضرورت پیش آئے تو آپ میرے کام آئیں گے۔ لیکن یہ واقعہ کہ رات کو آپ میرے پاس آئے ہوں اور آپ نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا ہو ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پس جب آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو مَیں نے سمجھ لیا کہ ضرور کوئی بڑی مصیبت آئی ہے تبھی آپ رات کو میرے پاس آئے ہیں۔چنانچہ مَیں نے سوچا کہ میرے پاس تین چیزیں ہیں۔ ایک میری بیوی ہے، کچھ ساری عمر کا اندوختہ پانچ سَو روپیہ ہے جو زمین میں دفن ہے جو ایک چھوٹی موٹی ملازمت سے مَیں نے تھوڑا تھوڑا کرکے جمع کیا ہے اور ایک میری جان ہے۔ مَیں نے خیال کیا کہ گوآپ بڑے آدمی ہیں مگر کسی وقت بڑے آدمی کو بھی کوئی مصیبت پیش آجاتی ہے۔ شاید آپ کو روپیہ کی ضرورت ہو اور اِسی لیے آپ میرے مکان پر تشریف لائے ہوں۔ سو مَیں اٹھا اور روپیہ نکالنے لگا اور اِسی وجہ سے مجھے دیر لگی ہے۔ کیونکہ مَیں غریب آدمی ہوں اور مَیں نے ایک گہرا گڑھا کھود کر وہاں پانچ سو روپیہ دفن کیا ہوا تھا گڑھے کے کھودنے اور روپیہ نکالنے میں کچھ دیر ہوگئی۔ مگر بہرحال مَیں نے روپیہ نکال لیا۔ پھر مَیں نے اپنی بیوی کو ساتھ لیا اور خیال کیا کہ شاید عورتوں کی خدمت کی ضرورت ہو۔ چنانچہ مَیں نے اسے کہا چل نیک بخت! شاید تیری خدمت کی ضرور ت ہو۔ تیسری چیز میری جان ہے سو وہ بھی حاضر ہے۔ اور تلوار میرے ہاتھ میں ہے ۔کوئی بھی آپ کا دشمن ہو مَیں اُس سے لڑنے اور اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوں۔ سو مَیں تینوں چیزیں لے کر آگیا ہوں۔ اگر کسی عورت کی خدمت کی ضرورت ہے تو میری بیوی حاضر ہے، اگر روپیہ کی ضرورت ہے تو میری ساری عمر کا اندوختہ حاضر ہے، اگر جان کی ضرورت ہے تو میری جان حاضر ہے۔ جس دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے کہیں مَیں اُس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ گڑیا نے تعجب سے پوچھا: دادی جان! اندوختہ کیا ہوتا ہے؟ دادی جان بولیں:اندوختہ کا مطلب ہے جمع پونجیsavings، جو تھوڑا تھوڑا کرکے بچائی جاتی ہے۔ دادی جان پڑھنے لگیں : اُس امیر آدمی نے شکریہ کے ساتھ اُسے رخصت کیا اور کہا مَیں تو صرف اپنے بیٹے کو نصیحت کرنے کے لیے یہاں لایا تھا۔ اس کے بعض اوباش نوجوان دوست تھے اور یہ اُن کو بڑا وفادار اور سچا دوست سمجھتا تھا۔ مَیں نے اسے بتایا کہ وہ سچے دوست نہیں ہیں۔ سچا دوست اگر تم دیکھنا چاہتے ہو تو میرے ساتھ آؤ۔ چنانچہ مَیں نے اسے دکھا دیا کہ سچا دوست کیسا ہوا کرتا ہے۔ مجھے کسی خدمت کی ضرورت نہیں تم اپنے گھر چلے جاؤ۔ کہانی ختم ہوئی تو تینوں بچے کچھ دیر خاموش رہے۔ احمد:دادی جان! اب سمجھ آیا کہ سچا دوست وہ ہوتا ہے جو وقت پر کام آئے، چاہے جان قربان کرنی پڑے۔ گڑیا :صرف کھانے پینے والے دوست ساتھ نہیں دیتے۔ احمد: ہمیں بھی ایسے دوست بنانے چاہئیں جو نیکی میں مدد کریں۔ A friend in need is a friend indeed ٹھیک کہا ناں میں نے دادی جان؟ دادی جان نے پیار سے کہا: بالکل میرے بچو! یہی حضرت مسیح موعودؑ ہمیں سکھانا چاہ رہے ہیں۔ (کہانی ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اپریل 1944ء) (درثمین احمد۔ جرمنی)