https://youtu.be/oSXnvzlZV84 جو میری تقریریں ہوتی ہیں، اُن میں سے پوائنٹس نکال کے لجنہ کو چھوٹے چھوٹے passage بھیجا کریں۔ ایک ہفتے ایک پوائنٹ لے کے دے دیا، سرکولر کر دیا، اگلے ہفتے پھر ایک اَور دے دیا،اس سے اگلے ہفتے پھر اَور دے دیا، تو تیس چالیس دنوں میں یا تیس چالیس ہفتے یا ایک سال میں آپ پوری تقریر کو سرکولیٹ کر دیتے ہیں، اس سے فائدہ بھی ہوتا ہے مورخہ ۵؍اکتوبر ۲۰۲۵ء، بروز اتوار، امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ ناروے کی نیشنل مجلس ِعاملہ اور طالبات کے ایک وفد کو شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں واقع ایم ٹی اے سٹوڈیوز میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے ناروے سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِ انورمجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ بعد ازاں تمام شاملینِ مجلس کو حضورانور سے مختلف سوالات پیش کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ایک لجنہ ممبر نے حضورِ انورکی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ تبلیغ کے دوران جب لوگوں کو خدا پر ایمان لانے کے بارے میں کہا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو خدا سے نہیں کہا تھا کہ ہمیں اور اس دنیا کو پیدا کریں، نیز دریافت کیا کہ ایسے لوگوں کو کیا جواب دینا چاہیے؟ اس پر حضورِ انورنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے اوراس نے پیدا کیا۔ حضورانور نے سمجھایا کہ اگر تمہارے ہاتھ میں کوئی چیز ہو، یہ کاپی میرے ہاتھ میں ہے، مَیں اس کو یہاں رکھوں یا یہاں رکھوں، میری مرضی ہے، کسی کو اعتراض تو نہیں ہو سکتا اور اس کا حق نہیں۔ حضورِ انورنے بات کو جاری رکھتے ہوئے کائنات کی وسعت کے تناظر میں انسان کی معمولی حیثیت اور اللہ تعالیٰ کی عظمت کو واضح فرماتے ہوئے بصیرت افروز راہنمائی عطا فرمائی کہ اس طرح جان ہے، یہی چیز سمجھنی چاہیے کہ وہ مالک ہے، اس نےاپنی مخلوق کو پیدا کیا ہے، دنیا میں مختلف چیزیں پیدا کیں، جانور پیدا کیے، شیر پیدا کیے، گائے پیدا کی، ہاتھی پیدا کیے، deerپیدا کیے اور بے شمار چیزیں پیدا کیں۔ درخت بنائے، پہاڑ بنائے اور اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں فرمایا کہ سارے میری حمد کرتے ہیں، میری تعریف کرتے ہیں، ان کو پتا ہے کس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔ اس لیے تم بھی کرو اور یہ پوری کائنات اتنی بڑی ہے، پورا Universe ہے، آپ Universe کا اگرmap دیکھو، Galaxies دیکھو، آجکل تو تصویریں بھی بڑی ماڈرن آ گئی ہیں، coloured galaxy بھی آ گئی ہے، اس میں بہت سے مختلف starsاورplanetsمیں سے بعض بہت چھوٹے اور بعض بڑے نظر آتے ہیں اور ان Galaxies کے اندر نقطوں میں بھی ہماری یہ ایک زمین نظر نہیں آتی۔ وہاں لکھا ہوتا ہے کہ Our earth is somewhere here۔ حضورِ انورنے یاد دلایا کہ ہم اتنی سی چھوٹی چیز ہیں اور اس میں ہماری ایک انسان کی کیا حیثیت ہے، بالکل ہی ایکminor microscopic germکی بھی نہیں ہے۔ اسی تناظر میں حضورِانورنے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اتنی دنیا پیدا کی ہے، اپنی مرضی سے پیدا کی ہے اور اس لیے اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ تو میرا تم پر احسان ہے کہ مَیں نے تمہیں پیدا کیا اور تم اتنی چھوٹی چیز ہو، اتنی چھوٹی سی زمین ہے اور اس میں حیثیت تمہاری کیا ہے کہ جس میں نو اَرب کی آبادی ہے؟ اس میں تمہیں چاہیے کہ میرا شکر ادا کرو کہ مَیں نے تمہیں پیدا کیا اور تمہیں اتنی نعمتیں دیں اور تم اس دنیا میں آرام سے گزر رہے ہوتے ہو۔ مزید برآں حضورِ انورنے اللہ کی حکمتوں کا حقیقی فہم و ادراک پیدا کرنے کی غرض سے ایک سبق آموز واقعہ بیان فرمایا کہ حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ بیان فرماتے تھے کہ ایک پاگل جیسا انسان تھا، مجذوب سا سڑک پر بیٹھا ہوتا تھا اور جب وہاں سے گزرتے تھے، تو وہ ہمیشہ سر مارتا ہوا یہ کہا کرتا تھا کہ اللہ میاں! تیری دنیا پسند نہیں آئی۔ جس طرح آج کل کے تمہارے پاگل لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں پیدا نہیں کیا۔ وہ بھی کہتا تھا کہ اللہ میاں تیری دنیا پسند نہیں آئی۔ روزانہ سڑک پر بیٹھے شور مچایا ہوتا تھا اور نعرہ لگاتا تھاکہ دنیا پسند نہیں آئی، دنیا پسند نہیں آئی، دنیا پسند نہیں آئی۔ ایک دن خلیفہ اوّل ؓ کہتے ہیں کہ مَیں وہاں سے گزرا، ان کی خلافت سے پہلے کی بات ہے، تو وہ خاموش بیٹھا تھا۔ تو مَیں نے کہا کہ آج تم خاموش ہو، شور نہیں مچا رہے اور اللہ میاں کو کہہ نہیں رہے کہ تیری دنیا پسند نہیں آئی، توکہنے لگا کہ آج اللہ تعالیٰ نے مجھے جواب دیا ہے کہ پھر جو تمہیں دنیا پسند آئی ہے، وہاں چلے جاؤ، تو میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔اس پاگل کو تو سمجھ آگئی کہ جواب نہیں، لیکن ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔ ایک لجنہ ممبر نے راہنمائی کی درخواست کی کہ عائلی مسائل اور خُلع یا طلاق کے اضافے کی وجہ سے اگر شادی کرنے سے ڈر لگے، تو اس خیال کو کیسے دُور کیا جا سکتا ہے؟ اس پرحضورِ انورنے مفصّل راہنمائی عطافرماتے ہوئے توجہ دلائی کہ یہ تو صدر لجنہ، صدر جماعت، امیر جماعت، سیکرٹری تربیت، انصار اللہ، خدام الاحمدیہ، سیکرٹریان اور آپ لوگوں کا کام ہے کہ لوگوں کی تربیت کریں۔ یہی مَیں خطبے دیتا رہتا ہوں۔ حضورِ انورنے جلسہ ہائے سالانہ یوکے اور جرمنی اور نیشنل اجتماع یوکے کے موقع پر لجنہ سے کیے گئے حالیہ خطابات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ان میں بھی یہی کہا ہے کہ اصلاح کرو، اپنے مردوں کی بھی اصلاح کرو، عورتوں کی بھی اصلاح کرو اور جو بیعت کامقصد ہے اس کو پُورا کرو۔ حضورِ انورنے قرآنی تعلیم کی روشنی میں بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں مرد اور عورت کے لیے بہت سارے حقوق رکھے ہیں اور مردوں کو کہا کہ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ کہ اُن سے اچھی طرح حسنِ سلوک کیا کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےحسنِ سلوک کی اپنی مثالیں قائم کیں کہ کس طرح خیال رکھا کرتے تھے۔ حضورِانورنے ایک واقعہ کے ذریعے بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی اہمیت کو اُجاگر فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ ایک اپنے صحابیؓ کو بہت غصّے کا اظہار کیا۔ اس نے کوئی ایسی بات کی تھی کہ میری بیوی اپنے گھر چلی گئی تھی، اپنے ماں باپ کو ملنے کے لیے میکے گئی تھی اور ایک دن یا دو دن کے لیے پوچھ کر گئی تھی اور دس دن بعد آئی ہے۔ اب مَیں نے عہد کیا ہے کہ مَیں نے کبھی اس کو ماں باپ کو ملنے نہیں جانے دینا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مجلس میں بات ہوئی، آپ کو بڑا غصّہ چڑھا، آپؑ نے اس کو اتنا ڈانٹا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اتنے غصّے میں آپؑ کو کبھی نہیں دیکھا تھا کہ میری مجلس میں بیٹھے ہو اور بیوی سے یہ سلوک کرو گے، تو یہاں سے تم اُٹھ جاؤ۔ ایک دوسرے صحابیؓ بیٹھے سن رہے تھے، سارے لوگ سر جھکا کے اِستغفار کرنے لگے کہ بڑا غصّہ ہے، وہ صحابیؓ کہتے ہیں کہ مَیں گھر جانے سے پہلے بازار گیا، بازار سے مَیں نے بہت ساری چیزیں اپنی بیوی کو تحفہ دینے کے لیے لیں، کہتے ہیں کہ مَیں بھی بیوی سے ناراضگی کر لیا کرتا تھا۔ بیوی کے پاس گیا، اس کو مَیں نے تحفے دیے اور بڑی نرمی اور پیار سے بات کی تو وہ میرا منہ دیکھتے رہ گئی اور کہنے لگی کہ آج تمہیں کیا ہو گیا ہے، بڑے نرم ہو گئے ہو، خیر توہے؟ کہنے لگے کہ بس! آج جو میرا مسیح موعود ؑکی مجلس میں حال ہوا ہے، جو مَیں ڈانٹیں سن کے آیا ہوں، اس کے بعد میری توبہ کہ مَیں کبھی تمہارے سے سختی سے بات کروں۔ حضورِانورنے توجہ دلائی کہ یہ تو عقل کی بات ہے، جتنی باتیں ہم کرتے ہیں، واقعات سناتا ہوں، قرآن کے حوالے سناتا ہوں، حدیث کے حوالے سناتا ہوں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سناتا ہوں، مختلف باتیں کرتا ہوں، پھر بھی لوگوں کو عقل نہیں آتی اور مردوں میں برداشت نہیں ہے۔ حضورِ انورنے اس بات پر بھی زور دیا کہ مردوں میں برداشت زیادہ ہونی چاہیے۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ کہ مردوں کو ہر معاملے میں عورتوں پر فوقیت حاصل ہے، یہ نہیں ہے کہ صرف پیسے کماتے ہیں، تو پیسے دے دیے اور کہہ دیا کہ مَیں نے حق پورا کر لیا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے nerves بھی مضبوط ہوتے ہیں، ان کو دوسرے جذبات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جس طرح تمہارے جذبات ہیں، اس طرح عورتوں کے بھی جذبات ہیں، اس لیے خیال رکھو۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے کہ مرد عورت کا خیال رکھے اور عورت مرد کا خیال رکھے، دونوں کو اللہ کی پہچان ہونی چاہیے۔ حضورِ انورنے مرد اور عورت کو اپنے جیون ساتھی کے انتخاب میں مادی چیزوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دینداری کے پہلو کو مقدّم رکھنےکی بابت راہنمائی عطا فرمائی کہ اس لیے رشتوں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم رشتہ کرو تو یہ دیکھا کرو۔ عام طور پر چار چیزیں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ کوئی دیکھتا ہے کہ مَیں جہاں رشتہ کر رہا ہوں، اس خاندان میں دولت ہے کہ نہیں، امیر لوگ ہیں کہ نہیں یا فیملی اچھی ہے کہ نہیں یا عورت خوبصورت ہے کہ نہیں۔ یہ چیزیں دیکھنے والی نہیں ہیں، لیکن ایک چیز جو تمہیں دیکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس میں دین ہے کہ نہیں۔ اگر عورت میں دین ہے، تو اس سے رشتہ کرو۔ اگر یہ سوچ مردوں میں پیدا ہو جائے، پھر مرد دیندار عورت کو تلاش کریں گے، توجب خود دیندار ہوں گے، تو دیندار عورت بھی تلاش کریں گے۔ یہ تو نہیں کہ مرد بدمعاش ہو اور وہ کہہ دے کہ عورت میری بڑی نیک ہونی چاہیے، نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ جب ایسی باتیں ہوں گی، تو پھر طلاقیں نہیں ہوں گی، سوچ بدل جائے گی۔ اسی طرح عورت جب دیکھے گی کہ مَیں نے رشتہ کرنا ہے تودیندار سے کرنا ہے، بجائے اس کے کہ مَیں یہ دیکھوں کہ اس کے پاس فلاں ماڈل کی کار ہے کہ نہیں، اپنا گھر ہے کہ نہیں۔ حضورِ انورنے اس عمومی معاشرتی رویّے کی بھی نشاندہی فرمائی کہ ماں باپ پہلے ہی شرط لگا دیتے ہیں کہ اچھا ! ہماری بیٹی تمہارے گھر جا رہی ہے، بتاؤ تم علیحدہ گھر میں رہو گے یا سسرال کے ساتھ رہو گے؟ اب چھ مہینے سال دو سال بعدبھی اگر اس کے اتنے حالات نہیں ہیں کہ وہ علیحدہ گھر لے سکے یا کرائے پر بھی لے سکے تو وہ کہیں گے کہ تم نےسسرال کے ساتھ رہنا ہے، ہماری بیٹی سسرال میں نہیں رہ سکتی، کچھ دیر تو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ تو لڑکیوں کو برداشت کرنا چاہیے، ذرا سی بات پر وہ بھی خُلع لے لیتی ہیں۔ حضورِانورنے آخر میں اپنے اندر حقیقی روحانی تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سوچ میں تبدیلی لانے اور دین کو دنیاوی معاملات پر مقدّم رکھنے کی بابت تلقین فرمائی کہ یہ دونوں طرف کی سوچیں ہیں، سوچیں بدلو، دین پیدا کرو، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کرو، اپنے آپ کو یہ سمجھو کہ ہم نے اس زمانے میں جب زمانے کے امام کو مانا ہے تو ہم نے اپنے اندر ایک روحانی تبدیلی بھی پیدا کرنی ہے، ہم نےصرف دنیا ہی نہیں کمانی۔ اب ناروے ہم آ گئے ہیں، تو یہ نہیں ہے کہ ہم یہی سارا وقت گنتے رہیں کہ اتنے کرونے ہماری کمائی ہو گئی، ہمارے پاس گھر ہے کہ نہیں، mortgage پر ہم نے گھر لے لیا کہ نہیں لیا، ہمارے پاس کار اچھی ہے کہ نہیں، میری اچھی job ہے کہ نہیں، خاوند اپنا کام کر رہا ہے، عورت اپنا کام کر رہی ہے اور پیسے کما رہی ہے اور بچے neglect ہو رہے ہیں، تو یہ تو کوئی بات نہیں ہے۔ یہ چیزیں سوچنی پڑیں گی، تو سوچیں دونوں طرف کی ہیں، اگر دونوں طرف کی سوچیں ٹھیک ہو جائیں، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہو جائے، دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کا عہدبڑا زور سے کھڑے ہو کے دُہراتےہو، تو ُاس پر عمل کرنے لگ جاؤ، جو بات کہتے ہو اُس پر practice بھی تو ہونی چاہیے، تو پھر نہ خُلع ہوگا، نہ طلاق ہوگی، نہ خوف ہوگا، بے شک جا کے آرام سے شادی کرو۔ ایک شریکِ مجلس نے دریافت کیا کہ مَیں دوسروں، مثلاًغیر احمدی مسلمان یا دہریوں، کو اسلام احمدیت کا پیغام مؤثر اورحکمت کے ساتھ کس طرح سمجھا یا سکھا سکتی ہوں؟ اس پر حضورِ انورنے فرمایا کہ آپ خود احمدیت قبول کر چکی ہیں اور آپ کو اس کا جواب مجھ سے بہتر معلوم ہے۔ آپ نے اسلام کیوں قبول کیا؟آپ جانتی تھیں کہ اس میں اچھائی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض پیشگوئیوں میں بتایا گیا تھا کہ آخری زمانے میں چودھویں صدی میں ایک شخص آئے گا، جو دین ِاسلام کو دوبارہ زندہ کرے گا، کیونکہ آخری زمانے میں لوگ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو بھول جائیں گے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بطور تابع مبعوث ہو گا، جسے مسیح اور مہدی کے خطاب سے پکارا جائے گا۔ حضورِ انورنے مسلمانوں کے مسیح و مہدی کے عمومی تصوّر کے بارے میں بھی بیان فرمایا کہ باقی تمام مسلمان ابھی تک مہدی اور مسیح کے انتظار میں ہیں، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دو مختلف ہستیاں ہیں۔ مہدی ایک الگ شخص ہے اور مسیح ایک الگ شخص۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسیح آسمان سے اُترے گا اور مہدی کہیں شام یا کسی اور جگہ ظاہر ہو گا۔ پھر وہ تلوار لے کر نکلے گا اور خونریزی کرے گا اور صلیبیں توڑ دے گا، تو وہ دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک، جنوب سے شمال اور مغرب سے مشرق تک صلیبیں توڑنے میں مصروف رہے گا، پھر وہ اپنی پوری زندگی صلیبیں توڑنے اور سؤر مارنے میں گزار دے گا۔لہٰذا یہ کوئی معقول بات نہیں ہے، اس لیےآپ انہیں کہہ سکتی ہیں کہ دین میں عقل اور سمجھ ہونی چاہیے اور اسلام کا مذہب دانائی سے عاری نہیں۔ تو مَیں نے اسلام اس لیے قبول کیا ہے، کیونکہ مجھے لگا کہ احمدیہ جماعت کے پیش کردہ دلائل ہی اسلام کی حقیقی تعلیمات ہیں اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو پُورا کرتے ہیں، اس لیےاگر آپ ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو پھر آپ انہیں قبول بھی کر سکیں گے۔ پھر انہیں بتائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کے دفاع میں لٹریچر پیش کیا ہے اور اسلام کی تعلیمات کو حقیقی معنوں میں بیان اور واضح کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب مَیں نے اسے سمجھا ہے اور مَیں نے اسے قبول کیا ہے۔ ہم مسلمان ہیں، ہم ایک قادرِ مطلق خدا پر ایمان رکھتے ہیں، ہم توحید پر ایمان رکھتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیینؐ مانتے ہیں اور ہم مانتے ہیں کہ قرآنِ کریم آخری شرعی کتاب ہے، اب کوئی نئی شریعت نہیں آ سکتی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود علیہ السلام آ چکے ہیں اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور تابع ہونے کا دعویٰ کیا ہے تا کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو از سرنو زندہ کیا جا سکے۔ جواب کے آخر میں حضورِ انورنے اس بات پر زور دیا کہ اگر آپ اس طرح سمجھائیں گی، تو وہ سمجھ جائیں گے، جو نیک فطرت ہوں گے، وہ قبول کر لیں گے، جیسا کہ آپ ہیں۔ اگر نہ کریں تو یہ ان کی مرضی ہے۔ ہمارا کام اسلام کا پیغام پھیلانا ہے۔ یہی قرآن کریم کہتا ہے، یہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی فرمایا گیا کہ تمہارا کام صرف بَلِّغْ یعنی اسلام کا پیغام پہنچانا ہے، اور اب کون ہدایت پاتا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ایک لجنہ ممبر نے دریافت کیا کہ اسلام میں حلال اور طیّب کی کیا حکمت ہے، کافی احمدی باہر سے کھانا کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بسم الله پڑھ کے کھا سکتے ہیں، تو کیا یہ ٹھیک ہے؟ اس پر حضورِ انورنے فرمایا کہ حلال چیز وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام پرجس جانور کو ذبح کیا گیا ہو، اور اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے وہ قرآنِ کریم میں چار پانچ باتیں لکھی ہیں کہ یہ چیزیں بتوں کے نام پر، کسی تیروں کی قسمت کے نام پر یا کسی غیر اللہ کے نام پر کوئی بھی چیز جو تم ذبح کرتے ہو، تو وہ حرام ہے۔ اور اگر ان کے نام پر ذبح نہیں کی جا رہی، ویسے تم نے slaughter کر دیا، جس طرح آج کل slaughter ہاؤسز میں کرتے ہیں، یہاں حلالslaughter ہاؤسز جو ہیں، وہاں کیا پتا کسی کو کلمہ آتا بھی ہے کہ نہیں، پوچھو تو پتا ہی نہیں ہوگا۔ اگر لَآ اِلٰہَ کہہ بھی دیں گے، تومطلب کوئی نہیں آتا، سوائے عربوں یا عراقیوں کے، جن کےbutcher shop یاslaughter ہاؤسز ہیں۔ تو حلال چیز وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نام پر ہو اور جو ویسے ہی کسی غیر کے نام پر نہیں ہوئی لیکن اس کو اسلامی طریقے سے slaughterکیا گیاہے، bleedکیا گیا ہے یا half stun کرکے بعض bleed کر دیتے ہیں اور خون bleedہو جاتا ہے، تو وہ حلال ہو جاتا ہے، اس کو بسم اللہ پڑھو اور کھا لو۔ حضورِ انورنے توجہ دلائی کہ اس لیے قرآنِ شریف میں شکار کے بارے میں بھی اسی طرح آیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ شکاری جانور جو بعض دفعہ تم train کرتے ہو، وہ پکڑ لیتے ہیں، اگر ان کو وہ کھائیں نہ اور اُٹھا کے لے آئیں۔ بعض کتّے hunting کےلیے استعمال ہوتے ہیں یا retriever ہوتے ہیں، جو تم gun سے مارتے ہو، اس چھپے ہوئے جانور کو اُٹھا کے لے آتے ہیں، اگر وہ مر بھی جائے، لیکن اس کو جانور کا دانت نہ لگا ہو، توتم اس کو ذبح کر کے کھا سکتے ہو، وہ حلال ہو جاتا ہے۔ تو حلال چیز وہ ہے جو کسی غیر اللہ کے نام پر ذبح نہ ہو، اس کو بسم اللہ پڑھ کے کھا لیتے ہو۔ مزید برآں حضورِ انورنے طیّب چیزوں کی شرعی حیثیت بیان فرمائی کہ طیّب چیزیں وہ ہیں جو پاکیزہ ہیں۔ بعض چیزیں حلال بھی ہوتی ہیں، مثلاً مرغا حلال ہے، لیکن اگر تمہاری مرغی یا چکن مر جائے اور اس میں بُو آنے لگ جائے، تو اب وہ باوجود حلال ہونے کے طیّب نہیں رہے گی، اس میں پاکیزگی نہیں۔ اس لیے وہ چیز تمہارے لیے حرام ہو جائے گی، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ بھوکے مر رہے ہو، تب تم کھا سکتے ہو۔ حضورِ انورنے حلال اور طیّب کے فرق کو اس طرح بھی واضح فرمایا کہ جس طرح ایک آدمی کا واقعہ آتا ہے کہ وہ گھر میں گدھے کا گوشت پکا رہاتھا اور ساتھ والے ہمسائے نے حج پر جانا تھا۔ اس نے حج کے لیے پیسے جوڑے ہوئے تھے، لیکن اس کے گھر میں بھی گوشت نہیں پکتا تھا۔ پھر ہمسائے کے گھر سے گوشت پکنے کی خوشبو آئی تو اس نے اپنےبچے کو بھیجا کہ تم جا کے اُس سے کہو کہ ہمیں بھی تھوڑا سا گوشت دے دو، ہم نے کئی ہفتوں سے نہیں کھایا۔ تو وہ کہنے لگا کہ یہ میرے لیے حلال ہے، تمہارے لیے حلال نہیں اور نہ ہی تمہارے لیے طیّب ہے۔ میرے لیے بھی طیّب تو نہیں ہے، لیکن حلال اس لیے ہو گیا ہےکہ مَیں بھوکا مر رہا ہوں۔ پھر اس نے باپ کو آ کے کہا کہ وہ کہتا ہے کہ ہمارےلیے یہ حلال نہیں ہے، تو پھر باپ اس کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ تم بھی مسلمان ہو اور تمہارےلیے ایک چیز حلال ہے اور میرے لیے نہیں؟ اس نے کہا کہ بات یہ ہے کہ دو تین مہینے ہو گئے، ایک وقت ہم کھانا کھاتے تھے، بلکہ اب ایک ہفتہ ہو گیا ہے کہ ہم نے کھانا ہی نہیں کھایا، میرے بچے بھوک سےمر رہے تھے، مَیں باہر گیا، تو باہر ایک گدھا مرا ہوا تھا، تو اس میں سے تھوڑا سا گوشت کاٹ کے مَیں لے آیا ہوں اور وہ پکا رہا ہوں تاکہ میرے بچے کھا لیں اور بھوک ختم ہو جائے۔ اُس کو اِس سے بڑا صدمہ پہنچا۔ اس نے اپنے حج کے لیے جو پیسے جوڑے ہوئے تھے وہ سارے اس کو دے دیے کہ تم یہ گندا گوشت پھینکو، یہ طیّب نہیں ہے اور نہ یہ حلال ہے اور بازار سے جا کے پاکیزہ چیزیں اور اچھی خوراک لے کے کھاؤ کہ جو طیّب غذا ہے اور اس کو تم اپنے بچوں کو بھی کھلاؤ، اور اس نے سارے حج کے پیسے اس کو دے دیے۔ پھر ایک بزرگ کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اس دفعہ صرف اس شخص کا حج قبول کیا، جو حج پر نہیں گیا تھا، اس نے غریب کی خدمت کی تھی، اللہ نے صرف اس کا حج قبول کیا ہے اور باقیوں کا نہیں کیا۔ تو حلال اور طیّب چیز میں یہ فرق ہوتا ہے۔ ایک شریکِ مجلس نے حضورِانورسے راہنمائی کی درخواست کی کہ نارویجین سوسائٹی میں اَور دوسرے مذہبی گروپس ہوتے ہوئے بحیثیت ایک احمدی لجنہ ہم کس طرح اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے اس سوسائٹی میں اسلامی تعلیمات کے مطابق رول ماڈلز بن سکتی ہیں؟ اس پر حضورِ انور نے دریافت فرمایا کہ آپ نے کوئی پلان بنایا ہے؟ جس پر سائل نے عرض کیا کہ ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم دوسرے مذاہب کی تعلیمات اور اپنی تعلیمات کو ساتھ ساتھ لے کے چلیں اور بتائیں کہ ہمارے مذہب کی تعلیمات کیوں بہتر ہیں۔ یہ سماعت فرما کر حضورِ انورنے توجہ دلائی کہ یہ مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں، اس سےJealousy پیدا ہوتی ہے، یہ طریقہ نہیں ہے۔ حضور انور نےفرمایا کہ آپ سیمینار کریں اور اس میں بتائیں کہ اسلامک ٹیچنگ اس بارے میں کیا ہے، ویمن رائٹس کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے، interest rate اور economic problems کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے، شادی کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے، عورتوں اور مردوں کے کیا حقوق ہیں۔اَور مختلف حقوق جو، دو تین سال مَیں جلسوں اور تقریروں میں بیان کرتا رہا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے وہ پچیس تیس حقوق بتائے تھےکہ اسلام یہ کہتا ہے۔ یعنی مختلف topics لے کے اور پھر جو contemporary issues ہیں، ان کےtopics کےاُوپر آپ سیمینار کریں اور کہیں کہ اسلام اس کی یہ تعلیم دیتا ہے، قرآن اس کے بارے میں یہ کہتا ہے، سائنس اس کے بارے میں یہ کہتی ہے، ماڈرن ٹیکنالوجی کے بارے میں یہ کہتا ہے اور باقی جو سائنس کے دوسرےsubjects ہیں، ان کے بارے میں یہ کہتا ہے۔ اسی طرح حضورِ انورنے توجہ دلائی کہ ڈاکٹر سلام تو کہا کرتے تھے کہ قرآنِ شریف میں سات سوحکم ہیں، تو یہ بتائیں۔جس طرح ایک جلسۂ مذاہب ہوا تھا، ہر مذہب نے اپنی اپنی خوبیاں بیان کر دی تھیں، آپ سیمینارز کریں اور دوسرے مذہب اپنی خوبیاں بیان کریں۔ عیسائی اپنی خوبیاں بیان کریں، ہندو اپنی خوبیاں بیان کریں، آپ کہیں کہ اسلام یہ کہتا ہے تو لوگ خود ہی judge کر لیں گے کہ کیا بہتر ہے۔ اب اسلامی اصول کی فلاسفی اسی کا نتیجہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس میں اسلام کی خوبیاں بیان کی ہیں کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے اور ہندوؤں نے اپنا مذہب بیان کیا اور دوسرے عیسائیوں نے اپنا اور سب سے زیادہ جو پسند کیا گیا وہ مسیح موعود علیہ السلام کا مضمون پسند کیا گیا، کتابی شکل میں آگیا، وہ آپ لوگوں کو دیتے بھی ہیں۔ حضورِانورنے اس بات پر بھی زور دیا کہ لوگوں کو صرف یہ نہیں کہنا کہ ہمارا مذہب بہتر ہے، یہ تو اگلے کو چِڑانے والی بات ہے۔ آپ یہ کہیں اسلام کی یہ یہ خوبیاں ہیں، باقی تمہاری مرضی مانو کہ نہ مانو، یہی تبلیغ کا ذریعہ ہے اور خود پھر رول ماڈل بنیں۔ حضورِ انورنے سچائی، ایمانداری، محنت اور قول و فعل میں مطابقت پیدا کرنے کو اپنا ایک خاص وصف بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگوں کو کہنا کہ اسلام کہتا ہے کہ پردہ کرو اور خود بازار میں پھر رہے ہوں اور گلے میں دوپٹہ بھی نہ ہو۔ مجھے پتا ہے کہ یہاں آکے بعض عورتیں بہت پرانے زمانے کے برقعے پہن کے آتی ہیں، نقابیں بڑی خوبصورت لیتی ہیں۔ ایک عورت سے مَیں نے پوچھا کہ تم نے بڑا اچھا برقعہ لیا ہے، تم نے یہ ابھی نیا سلوایا ہے، نقاب کو تو پاکستان میں بھی اب آہستہ آہستہ چھوڑ رہے ہیں۔ تمہارا اتنا اچھا نقاب ہے۔ کہنے لگی کہ جب مَیں آئی تھی، تو تب سے مَیں نے یہ سنبھال کے رکھا ہوا ہے، جب آپ کو ملنے آؤں یا مسجد جاؤں تو پہن لیتی ہوں۔ کم از کم اس نے سچ تو بولا۔ تو سچائی، ایمانداری، محنت اور جو ہم کہتے ہیں اس پر عمل کرناہمارا ایک خاص کیریکٹر ہونا چاہیے۔ قرآنِ شریف کہتا ہے کہ وہ باتیں نہ کہو کہ جو تم کرتے نہیں ہو، تو جو بات ہم کرتے نہیں، اس کو تو اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا کہ نہ کہو، کیونکہ تمہیں اس کا ثواب نہیں گناہ ہی ہے۔ پھر حضورِ انورنے تلقین فرمائی کہ آپ بھی رول ماڈل بن جاؤ، جب بچوں کے سامنے اپنے نمونے پیش کریں گی تو اگلی نسل بھی ٹھیک ہو جائے گی۔ تو یہی چیز اصل ہے کہ اپنی شناخت بیان کرنی ہے۔شناخت کےلیے بڑا ایک جہاد کرنا پڑتا ہے۔ آپ نے ایم ایس سی، پی ایچ ڈی، بی ایس سی، فلاں فلاں سکول، ہائر سیکنڈری سکول کے جو سرٹیفیکیٹ لینے ہیں، ڈگریاں لینی ہیں، اس کے لیے محنت کرتے ہیں۔ سو ! ابھی مَیں نے پچھلے دنوں ایک تقریر میں خدام میں یا لجنہ میں بھی کہا تھا کہ اَور کاموں کے لیے تو ہم محنت کرتے ہیں اور اس کےلیے ہم کہتے ہیں کہ تم نہ کرو۔ حضورِ انورنے ہدایت فرمائی کہ جو میری تقریریں ہوتی ہیں، ان میں سے پوائنٹس نکال کے لجنہ کو چھوٹے چھوٹے passage بھیجا کریں۔ ایک ہفتے ایک پوائنٹ لے کے دے دیا، سرکلر کر دیا، اگلے ہفتے پھر ایک اَور دے دیا، اس سے اگلے ہفتے پھر اَور دے دیا، تو تیس چالیس دنوں میں یا تیس چالیس ہفتے یا ایک سال میں آپ پوری تقریر کو سرکولیٹ کردیتے ہیں، اس سے فائدہ بھی ہوتا ہے۔ شاملینِ مجلس میں سے ایک خاتون نے ذکر کیا کہ بعض لجنہ ممبرات اپنی ملازمت یا تعلیم کی مصروفیات کی وجہ سے جماعت کے لیےوقت نہیں نکالتیں، نیز دریافت کیا کہ ایسی لجنہ ممبرات کی کس طرح راہنمائی کی جائے؟ اس پر حضورِ انورنے فرمایا کہ ہم نےدین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کا عہد کیا ہے، تربیت کرنابچپن سے ماں باپ کا کام ہے، ماں باپ اگر بچپن سے تربیت کر رہے ہیں، ناصرات یا اطفال جب چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں، بارہ سے چودہ سال تک توبڑے activeہوتے ہیں، لیکن جب پندرہ سال کے بعد لجنہ یا خدام الاحمدیہ میں جاتے ہیں، تو کہتے ہیں ہم آزاد ہوگئے ہیں اور پھر جب اٹھارہ سال کے ہو جاتے ہیں، تو پھر اَور آزاد ہو جاتے ہیں۔ حضورِ انورنے تعلیم کے ساتھ ساتھ جماعتی خدمت کے لیے وقت نکالنے اور ان امور میں توازن قائم کرنے کے حوالے سے توجہ دلائی کہ اب جہاں تک پڑھائی کا سوال ہے، تو یہ تو margin ان کو دینا چاہیے، جو پڑھنے والی لڑکیاں ہیں، ان کو کہیں کہ ٹھیک ہے تم پڑھائی کر لو، لیکن تمہارے weekends خالی ہوتے ہیں یا اَور تمہارے چھٹی کے دن ہوتے ہیں، سال میں ۳۶۵؍ دن ہوتے ہیں، تو اس میں سے مشکل سے ایک سو ساٹھ دن آپ سکولوں اور کالجوں میں جاتے ہیں، باقی چھٹیاں ہوتی ہیں، بے شک آپ گِن کے دیکھ لیں۔ باقی جو دو سو دن ہوتے ہیں ان میں ان سے کہہ دو کہ وقت دو۔ تم نے اپنی سیر کےلیے وقت رکھنا ہے، اپنے فیملی کے ساتھ جانا ہے اور enjoyکرنا ہے، تو ٹھیک ہے کرو، لیکن اس کے باوجود سال میں تیس سے پچاس دن تو دین کو دو۔ اس میں کچھ جلسے کے دن آجائیں گے، چار پانچ دن ڈیوٹیاں ہیں اور اجتماع کے دن آ جائیں گے، چار پانچ دن یا دس بارہ دن تو یہ ہو گئے، پھر آپ کی تربیتی کلاسیں ہیں، ان کے دن آ جائیں گے، تو یہ پلان بنا کے ان کو دے دیں کہ یہ ہمارا پلان ہے۔تم اپنے آپ کو احمدی کہتے ہو اور یہ تمہاری پڑھائی کا شیڈیول ہے، ٹھیک ہے پڑھائی بھی کرو، کیونکہ اس کی preference ہونی چاہیے اور پھر باقی وقت جو ہے وہ دو۔ حضورِانورنے کام کرنے والی خواتین کے حوالے سے خدمتِ دین کےلیے وقت نکالنے کی بابت راہنمائی فرمائی کہ پھر جو کام کرنے والی عورتیں ہیں، ان کو کہیں کہ آپ کی پہلی preference دین ہے، سوائے اس کے کہ کوئی بھوکا مر رہا ہے یا کوئی ایسے پروفیشن میں ہے، جس کی ضرورت ہے مثلاً ڈاکٹر ہے، نرس ہے، ٹیچر ہے، انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں یا اَور کوئی ایسا پروفیشن ہو رہا ہے، سوشل سروس کررہے ہیں، تو ٹھیک ہے وہ کرو، لیکن پھر بھی تمہیں چھٹیاں ملتی ہیں، ہفتے میں دو دن چھٹیاں ہوتی ہیں، سال کی تم پینتالیس سے ساٹھ دن کی چھٹیاں لے سکتے ہو، جلسے کے دنوں میں لیتے ہو، ان دنوں میں خدمت کی کوشش کرو اور جو خدمت کرتے ہیں ان پر اللہ کا فضل ہی ہوتا ہے۔ نیز ہدایت فرمائی کہ ان کو سمجھاؤ، تربیت کرو، مستقل مزاجی اور پیار سے سمجھاتے رہیں۔ حضورِانورنے اس امر کی اہمیت کو بھی اُجاگر فرمایا کہ جب بچیاں ناصرات میں داخل ہوتی ہیں یا بچے خدام میں داخل ہوتے ہیں، تو وہ تو ان کی تنظیموں کا کام ہے کہ پھر ان کو سنبھالیں اور اس وقت ماں باپ کا بھی کام ہے کہ ان کو سمجھاتے رہیں کہ دیکھو !بچے جس طرح تم پہلے تھے، اسی طرح اب رہو، کیونکہ تم لوگ دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کا عہد کرتے ہو۔تو پیار اور مستقل مزاجی سے سمجھاتے رہیں، اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں بھی یہی فرمایا ہے کہ نصیحت کرو اور نصیحت کرتے چلےجاؤ، اگر اللہ میاں نے ایک دفعہ کہہ دیا اور اس کے بعد بات ختم ہوجاتی، تو یہ حکم قرآنِ شریف میں نہ ہوتاکہ نصیحت کرو۔ نصیحت کرنے کا حکم اسی لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پتا ہے کہ انسان کی فطرت یہ ہے، ہمیں اللہ نے پیدا کیا، اس کو ہماری نیچر کا پتا ہے کہ تھوڑی دیر بعد ہم بگڑ جاتے ہیں۔اس لیے بار بار اصلاح کے پہلو ہونے چاہئیں، لیکن پیار اور نرمی سے اپنا نمونہ دکھائیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ لوگ سختی سے بولتے ہیںتو یا تو وہ rigid ہو جاتے ہیں یا وہ بالکل ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ حضورِ انورکی خدمت ِ اقدس میں ایک لجنہ ممبر نے عرض کیا کہ جب جماعتی کتب کا ترجمہ کرتے ہیں، تو بعض اوقات زبان کے لحاظ سے توترجمہ درست ہوتا ہے لیکن روحانی گہرائی اور اثر پوری طرح ظاہر نہیں ہو پاتا۔ نیز راہنمائی کی درخواست کی کہ ہم ترجمہ کرتے وقت اس کے مفہوم اور تاثیر کو کس طرح بہتر طور پر برقرار رکھ سکتے ہیں؟ اس پر حضورِ انورنےقرآنِ کریم اور کُتبِ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے حوالے سے اصل متن کی روح اور ترجمے کی حدود کی بابت توجہ دلائی کہ بات یہ ہے کہ جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا تعلق ہے، ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا، قرآن کریم کا بھی ترجمہ صحیح نہیں ہو سکتا، کیونکہ عربی بہت وسیع زبان ہے اور ترجمے میں عربی کا جو ایک لفظ کئی معنے دیتا ہے۔انگلش میں مثلاً اس کے بعض لفظ ہی نہیں ہوتے۔ بعض دفعہ انگلش میں ایک لفظ ہوتا ہے، جرمن زبان اس کو کچھ اور کہہ رہی ہوتی ہے، تو اس لیے ہم کہتے ہیں کہ قرآن ِ شریف تو عربی میں پڑھو اور عربی کو سمجھنے کی کوشش کرو تاکہ کم از کم قریب تو جاؤ۔ جو عربی lexicon (لغت)ہے یا ڈکشنریز ہیں، ان کو دیکھو اور پھر سمجھ آئے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کُتب کے لیےکم از کم جو پاکستانیorigin کی لجنہ ہیں، ان کے گھروں میں اُردو بولی جاتی ہے، اردو سیکھنے اور پڑھنے کی کوشش کریں تاکہ سمجھ آئے۔ مزید برآں حضورِ انورنے اُردو سیکھنے کی اہمیت اور اصل زبان کی افادیت کو اُجاگر کرنے کے لیے یاد دلایا کہ حضرت خلیفة المسیح الرّابع رحمہ الله نے اس بارے میں بڑی کوشش کی تھی کہ باہر کے ملک والے اُردو سیکھیں، خلیفہ ثالثؒ نے بھی بڑی کوشش کی تھی کہ سیکھو۔ مزیدایک عملی مثال کے ذریعہ سے اُردو سیکھنے کی جانب توجہ مرکوز کروائی کہ کیونکہ اب جماعت پھیل رہی ہے تو سیکھنے کی ضرورت ہے، باہر سے لوگ آتے ہیں، وہ سیکھ لیتے ہیں۔ اب ہمارے یہاں انگریز ایک احمدی ہوئے تھے اور وہlawyer ہے، اس نے پھر وقف کر دیا اور اب وہ جماعت کی خدمت کر رہا ہے، لیکن وہ کہتا ہے کہ مَیںoriginal زبان میں سیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا علم ہے، کیونکہ انگلش میں پوری طرح اس کا حق ادا نہیں ہوتا، تو وہ اُردو سیکھ رہا ہے۔ وہ آپ ہی کوشش کر کے بعض آپ کی یہاں ناروے میں رہنے والی عورتوں سے زیادہ اچھی اُردو بولنے لگ گیا ہے۔ اور اب تو نیشنل عاملہ کا ممبر بھی بن گیا ہے اور نیشنل عاملہ میں پاکستانی origin کے بعض لوگوں کو اُردو نہیں آتی، مگر اس کو آتی ہے۔ حضورِ انورنے سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ حق ادا ہو ہی نہیں سکتا، جب تک originalزبان میں نہ ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان کا تو بالکل ہی حق نہیں ادا ہو سکتا۔ اس لیےجو اُردو سیکھ سکتے ہیں، اُن کو سیکھنی چاہیےتاکہ اس میں سمجھ آئے۔ ہاں اس کے علاوہ جب اگر آپ سمجھیں کہ گہرا اثر نہیں ہو رہا تو پھر آپ ڈکشنریconsult کریں، جس کو پڑھنے کا شوق ہے، اس میں دیکھیں کہ اس لفظ کے اَور کیا کیا معنی ہیں؟ پھر آپ کو صحیح اس کی گہرائی کا پتالگے گا، اور جب اس طرح ہو گا، تو پھر ہی اثر پیدا ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جو کچھ مَیں نے اتنا تھوڑا بہت سیکھا ہے، اس کا مجھے اتنا علم دے دے کہ میرے دل پر کوئی اثر تو ہو، اور پھر اگر سوچ کے پڑھیں تو اثر ہوتا ہے۔ ملاقات کے اختتام پر حضورِ انورنے تمام شاملینِ مجلس کو از راہِ شفقت قلم کا تحفہ بطورِ تبرک عطا فرمایا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کےمڈ ویسٹ ریجن کے ایک وفد کی ملاقات