اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔ ………………………… مکرم چوہدری عبدالقدیر چٹھہ صاحب درویش قادیان روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍اکتوبر 2011ء میں مکرمہ امۃ الرشید صا حبہ نے اپنے والد محترم چوہدری عبدالقدیر چٹھہ صاحب درویش قادیان ابن محترم چوہدری سردار خان چٹھہ مرحوم کا ذکرخیر کیا ہے۔ محترم چودھری عبدالقدیر چٹھہ صاحب 1927ء میں موہلنکے چٹھہ ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی۔ پھر قادیان میں تعلیم مکمل کی اور وہیں دفتر ایم این سینڈیکیٹ میں بطور اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ خدمت بجالانے لگے۔ جولائی 1947ء میں آپ کی شادی آپ کی کزن محترمہ امۃالقیوم صاحبہ بنت مکرم چوہدری ہدایت اللہ صاحب آف چک35 ضلع سرگودھا سے ہوئی۔ لیکن چند دن بعد ہی تقسیم ہند ہوگئی۔ آپ کو قادیان سے ایسا عشق تھا کہ چند دن کی دلہن چھوڑ کر حضرت مصلح موعودؓ کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے حفاظتِ مرکز کے لئے قادیان پہنچ گئے۔ آپ کی اہلیہ سات سال کے بعد قادیان بھجوائی جاسکیں۔ قادیان سے آپ کو بہت محبت تھی۔ اگر کبھی سفر پر بھی جاتے تو واپس قادیان جانے کی جلدی ہوتی۔ قادیان پہنچ کر کہا کرتے تھے کہ مجھے سکون مل گیا ہے۔ آپ کی وفات 13؍اپریل 1987ء کو پاکستان میں ہوئی جب آپ بیٹے کی شادی کے سلسلہ میں وہاں گئے ہوئے تھے۔ آپ کی خواہش کے مطابق جنازہ قادیان لایا گیا اور اگلے روز بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔ آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے تعزیتی تار میں فرمایا کہ ’’جماعت ایک شجاع اور مخلص خادم سے محروم ہوگئی‘‘۔ محترم چودھری عبدالقدیر چٹھہ صاحب حقیقت میں درویش صفت انسان تھے۔ ہر وقت ذکر الٰہی کرنے والے، تہجد گزار، پنجوقتہ نماز باجماعت ادا کرنے والے، کثرت سے درود شریف اور استغفار کرنے والے، خدا پر کامل توکّل کرنے والے، دعا گو، بہت سادہ، حلیم، صابر اور عاجز انسان تھے۔ اپنے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے ہر دلعزیز تھے۔ احمدیوں کے علاوہ اکثر ہندوسکھ بھی اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھواتے تھے۔ چنانچہ غیرمسلموں کی کثیر تعداد بھی آپ کے جنازہ میں شامل ہوئی جن میں سابق وزیرمکرم سردار ستنام سنگھ باجوہ صاحب بھی شامل تھے۔ اُن کی بیگم صاحبہ نے بھی اپنا کچھ زیور آپ کے پاس بطور امانت رکھوایا ہوا تھا۔ جو آپ نے اپنے آخری سفر پر پاکستان جانے سے ایک روز قبل خود لے جاکر اُن کے سپرد کردیا۔ آپ کی ایک بہت بڑی صفت ضرورتمندوں کا خیال رکھنا تھا۔ سائل کو کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹاتے۔ خلافت کے ساتھ عقیدت اور محبت سے لبریز تھے۔ جماعت کا کوئی کام ہو رات ہو یا دن ہمیشہ تیار رہتے اور بڑی محنت اور جذبہ کے ساتھ اس کو سرانجام دیتے۔ آپ ایک مثالی شوہر اور نہایت ہی شفیق باپ بھی تھے۔ بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتے لیکن تربیت کا بڑا خیال رہتا۔ نمازوں اور چندوں کی ادائیگی اور خلافت سے محبت کی تلقین کرتے رہتے۔ تینوں بچوں کی وصیت اپنی زندگی میں ہی کروادی تھی۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم چوہدری عبدالواسع چٹھہ صاحب زندگی وقف کرکے نائب ناظر امور عامہ اور جماعتی نمائندگی میں میونسپل کونسلر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ محترم عبدالقدیر چٹھہ صاحب زمانہ درویشی میں سب سے پہلے نظارت امور عامہ میں بطور کلرک خدمت بجالاتے رہے اور رشتہ ناطہ کا کام بھی آپ کے سپرد رہا۔ بعدازاں آپ محاسب صدرانجمن احمدیہ اور پھر ناظرمال خرچ اور افسر لنگرخانہ کی خدمت تازندگی بجالاتے رہے۔ اس دوران تین سال کے لئے وکیل اعلیٰ تحریک جدید اور کئی مرتبہ قائمقام ناظر اعلیٰ و امیر مقامی کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ نیز قادیان میں جماعتی جائیداد سے متعلق و دیگر اہم امور کے سلسلہ میں مختلف سرکاری محکموں اور اعلیٰ افسران سے ملاقات کے لئے بھجوائے جانے والے وفود میں شامل رہے۔ …٭…٭…٭… مکرم میر عبدالرشید تبسم صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10اکتوبر 2011ء میں شامل اشاعت ایک مضمون میں مکرمہ محمودہ بشریٰ صا حبہ نے اپنے والد محترم میر عبدالرشید تبسم صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔ محترم میر عبدالرشید تبسم صاحب سابق نائب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ 10؍اکتوبر 1944ء کو پونچھ (کشمیر) میں محترم حکیم عبدالرحیم صاحب (معلّم اصلاح و ارشاد) کے ہاں پیدا ہوئے۔ پرائمری کی تعلیم کوٹلی میں حاصل کی۔ پھر تعلیم کی خاطرربوہ آگئے اور میٹرک کرنے کے بعد 1961ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ 1968ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ اسی دوران مولوی فاضل اور ایف۔اے کے امتحانات بھی پاس کئے۔ چھ ماہ دفاتر صدر انجمن احمدیہ میں کام کرنے اور بیرون از ربوہ مختلف جماعتوں میں تربیتی امور بجالانے کی توفیق ملی۔ یکم مئی 1969ء سے اکتوبر 1971ء تک مربی ضلع بہاولنگر رہے۔ پھر 30مئی1972ء تک بطور مربی ضلع لاہور ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق ملی۔بعد ازاں 4جون 1972ء کو گھانا بھجوائے گئے جہاں سے مارچ1980ء میں واپسی ہوئی۔ اگست 1980ء تا جولائی1982ء بطور مربی ضلع شیخوپورہ خدمات بجا لانے کا موقع ملا۔وسط 1982ء میں ہالینڈ بھجوائے گئے۔ جنوری 1984ء میں ہالینڈ سے واپسی ہوئی اور4 فروری 1984ء کو آپ کو حیدرآباد سندھ میں بطور مربی ضلع تعینات کیا گیا۔ ستمبر 1992ء سے مربی ضلع بہاولپور کے طور پر اور جولائی 1994ء میں گلشن اقبال کراچی میں متعین ہوئے۔ اگست 1994ء سے کراچی اور سندھ کی دعوت الی اللہ کے نگران مقرر ہوئے۔ یکم نومبر 1996ء کو مربی ضلع راولپنڈی کے طور پر کام شروع کیا۔ 4جون2000ء سے مربی ضلع اٹک مقرر ہوئے۔ اگست 2003ء میں نائب ناظر اصلاح و ارشاد مقرر ہوئے۔ اسی دوران 22؍اگست 2005ء کو وفات پائی۔ آپ انتہائی فرمانبردار بیٹے،انتہائی پیارو محبت اور احسان کا سلوک کرنے والے شوہر، انتہائی شفیق باپ اور نہایت مخلص و وفا دار خادم دین تھے۔ …٭…٭…٭… مکرم چوہدری محمد عبداللہ صاحب درویش قادیان روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28اکتوبر 2011ء میں مکرم چوہدری نور احمد ناصر صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے اپنے والد محترم چودھری محمد عبداللہ صاحب درویش قادیان کا ذکرخیر کیا ہے۔ محترم چوہدری محمد عبداللہ صاحب کے آباء و اجداد سرہندشریف میں زمینداری کے پیشہ سے منسلک تھے لیکن ذاتی دشمنی کی وجہ سے ہجرت کرکے حسن پور کلاں میں ایک سکھ راجہ کے پاس چلے آئے۔ آپ کے والد چودھری نورمحمدصاحب سفید پوش تھے اور علا قہ کے با اثر شخص تھے۔ حضرت چوہدری عبدالقادر صاحبؓ سجووال کے رہنے والے تھے اور فوج میں ڈرائیور تھے۔ اُن کو خیال آیا کہ اگر چودھری صاحب احمدی ہوجائیں تو اس علاقہ میں احمدیت کے پھیلنے میں آسانی ہو جائے گی۔ چنانچہ انہوں نے چودھری نورمحمد صاحب کو تبلیغ شروع کی تو ان کو نہایت مخالف پایا بلکہ اُن کی بد سلوکی بھی برداشت کرتے رہے۔ لیکن اس کے باوجود باقاعدہ آتے اور جماعتی اخبار آپ کے بستر پر رکھ کر چلے جاتے۔ آپ بغیر پڑھے اخبار اپنی اہلیہ کو جلانے کے لئے دیدیتے۔ ایک روز اتفاقاً آپ کی نظر اخبار پر لکھے حرف ’محمدؐ ‘ پر پڑی۔ دیکھا تو یہ شعر لکھا تھا : ؎ وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمدؐ دلبر میرا یہی ہے اس شعر نے تو گویا ان کی کایاہی پلٹ دی۔ سارا اخبار پڑھا اور بیوی سے پوچھا کہ پہلے والے اخبار جلادیئے ہیں ؟ وہ کہنے لگیں رکھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ آپ نے سارے اخبار پڑھے پھر حضرت عبدالقادر صاحبؓ کو بلایا اور بذریعہ خط بیعت کرلی۔ پھر اسی سال یعنی 1913ء کے جلسہ سالانہ پر گئے اور حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی دستی بیعت کی توفیق پائی۔ اسی سال 16؍دسمبر کو آپ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ جلسہ سالانہ پر آپ نے حضورؓ سے نومولود بچے کا نام رکھنے کی درخواست کی تو حضورؓ نے فرمایا: ’’مجھے محمدعبداللہ نام بہت ہی پیارا لگتا ہے یہ نام رکھ لیں ‘‘۔ محترم چودھری محمد عبداللہ صاحب نے احمدیہ مدرسہ کاٹھگڑھ سے مڈل کیا۔ یہیں سے قرآن کریم کا ترجمہ سیکھا اور قرآن کی محبت دل میں بسائی۔ تلاو ت بڑی خوش الحانی سے اور بکثرت کرتے تھے۔رمضان میں 3 دن میں دَور مکمل کر لیا کرتے تھے۔ محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے آپ کی وفات پر کتبہ کی عبارت پر لکھوایا: ’’تلاوت قرآن پاک میں خاص شغف رکھتے تھے ‘‘۔ تقسیم ہند سے بہت پہلے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے احمدی نو جوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی تحریک کی اور ایک علیحدہ رجمنٹ ’’15پنجاب احمدیہ رجمنٹ‘‘ بھی منظور کروالی۔ محترم چودھری محمد عبداللہ صاحب نے بھی اس تحریک پر لبّیک کہا۔ آپ فوج میں VCO یعنی وائس کمانڈنگ آفیسر تھے۔ جب حضورؓ نے حفاظت مرکز کی تحریک فرمائی تو آپ نے فوج کی ملازمت چھوڑ دی۔ لیکن آپ چار بھائی تھے اور دیگر بھائی بھی اس تحریک پر لبّیک کہنے کے خواہشمند تھے۔ چنانچہ قرعہ اندازی کی گئی تو نام چھوٹے بھائی کا نکلا۔ آپ کے کہنے پر دوبارہ قرعہ پھینکا گیا تو بھی نام چھوٹے بھائی کا نکلا۔ آپ کے اصرار پر تیسری بار بھی جب قرعہ چھوٹے بھائی کے نام نکلا تو آپ نے درخواست کی وہ اپنا حق آپ کو دے دیں۔ چھوٹے بھائی نے کہا کہ پھر میرا بیٹا اپنے ہمراہ قادیان لے جائیں تاکہ مَیں بھی اس تحریک میں حصہ لے سکوں اور اپنا بیٹا (مضمون نگار) میرے پاس چھوڑ جائیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ محترم چودھری محمد عبداللہ صاحب بہت نفاست پسند انسان تھے۔ صاف ستھرے استری کئے ہوئے کپڑے اور سر پر کُلّہ والی پگڑی کلف لگا کر پہنتے۔ شخصیت نہایت بارعب تھی۔ دانتوں کی صفائی کا خاص خیال رکھتے۔ خلافت احمدیہ کے ساتھ اطاعت، فرمانبرداری اور پیار کاسلوک آپ کی صفات کا خاصہ تھا اور ہمیشہ اپنی اولاد کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ انتہائی دعا گو اور نماز تہجد میں باقاعدہ تھے۔ آخری بیماری میں بھی وضو کرکے نماز تہجد ادا کرتے رہے۔ قادیان کے ساتھ بے انتہا عشق تھا۔ اگر باہر جاتے بھی تو قادیان واپس جانے کے لئے بے چین رہتے۔ آپ کی ایک بڑی صفت یتیموں کے ساتھ حسن سلوک تھا۔ خاکسار کی اہلیہ مرحومہ سیدہ مریم صدیقہ اپنے والد محترم سیّد لیاقت حسین شہید صاحب کی شہادت کے بعد اپنے تین بھائیوں کے ساتھ بچپن میں قادیان آگئیں تو آپ نے اُن کی پرورش بڑے احسن طریق سے کی اور اپنے بچوں کی طرح پڑھایا۔ اور ان کی شادی اس غرض سے میرے ساتھ کی کہ کہیں کوئی اَور یتیم بچی سمجھ کر ظلم نہ کرے۔ مہمان نوازی آپ کا ایک اَور وصف تھا۔ جلسہ کے دنوں میں اپنا گھر وقف کر دیتے اور مہمانوں کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے۔ آپ کی بڑی خواہش تھی کہ آپ کی ساری اولاد زندگی وقف کرے۔ مجھے بھی آپ نے وقف کیالیکن حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ نے فرمایا کہ تمہارا وقف یہ ہے کہ تم اپنے درویش والد کی خدمت کرو۔ چنانچہ خاکسار نے ہمیشہ اس نصیحت کا خاص خیال رکھا اور پھر اپنے ابا جان کی خواہش کے مطابق اپنے بیٹوں کو وقف کیا۔ چنانچہ میرا بڑا بیٹا منصور احمد ناصر M.Sc. فزکس کرکے پندرہ سال سے مجلس نصرت جہاں سکیم کے تحت لائبیریا میں خدمت بجالا رہا ہے۔اور چھوٹا بیٹا مسرور احمد ظفر مربی سلسلہ 7 سال پاکستان میں رہنے کے بعد گزشتہ 12سال سے گھانا میں خدمت کی توفیق پا رہا ہے۔ آپ کو افسر لنگرخانہ قادیان، محاسب صدر انجمن احمدیہ، نائب ناظر دعوت الی اللہ اور نائب ناظر اعلیٰ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ سیکرٹری بہشتی مقبرہ کے طور پر آپ کو بہشتی مقبرہ کی تزئین نَو کی سعادت ملی۔ آپ نے مختلف اوقات میں پانچ شادیاں کیں جن سے آپ کے6بیٹے اور7 بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹے مکرم مولانا نورالدین صاحب مربی سلسلہ قادیان میں لائبریرین کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ دیگر اولاد بھی مختلف خدمات بجالانے کی سعادت حاصل کررہی ہے۔ …٭…٭…٭… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15ستمبر 2011ء میں شامل اشاعت مکرم عبدالکریم قدسی صاحب کا ایک قطعہ بعنوان ’’خلافت کی رِ دا ‘‘ ملاحظہ فرمائیں : دُھوپ کتنی ہو خلافت کی رِدا سایہ افگن ہے سروں پر شان سے دستِ شفقت پھر بچاتا ہے ہمیں غم کی آندھی، بے جہت طوفان سے