https://youtu.be/5ZRTSEoPg1k بزرگانِ سلسلہ کے ساتھ گزرے چند یادگار اور بابرکت لمحات محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد بھی اپنے یورپ کے سفروں کے دوران کئی بار بریڈفورڈ تشریف لائے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت ہی نفیس طبیعت عطافرمائی تھی۔ آپ جس محفل میں جاتے اُس محفل کی جان بن جاتے۔ آپ کی شخصیت ایسی تھی کہ آپ جہاں جاتے لوگ آپ کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔ مولانا دوست محمد صاحب شاہد ٭… آپ کو تبلیغ کا جنون تھا۔ آنے سے پہلے ہی حکم دے دیتے کہ غیر از جماعت دوستوں کے ساتھ مجلس سوال وجواب کا پروگرام رکھ لیں۔ہر مشکل سے مشکل ترین سوال کا جواب اور حوالے آپ کو زبانی یاد ہوتے تھے۔ ٭… ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ارشاد پربریڈ فورڈ کی بیت الحمد میں مجلس سوال وجواب کا اہتمام کیا گیاجس میں بڑی تعداد میں غیر از جماعت دوست شامل ہوئے۔ مولوی صاحب نے حسبِ معمول سوالات کے جواب اور حوالے فوراََ پیش کردیے۔ اس موقع پر ایک پاکستانی مہمان جو یہاں کی مسلمان کمیونٹی کی جانی پہچانی شخصیت ہیں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے مولوی ان کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں، ان کے علامہ صاحب نے تو حوالے فرفر یاد کیے ہوئے ہیں اور ایک منٹ میں نکال کر آگے رکھ دیتے ہیں۔ان کا مقابلہ تو نہیں ہوسکتا۔ بریڈفورڈ کی مسجد کے باہرمولانا دوست محمد صاحب شاہد کےساتھ ٭… ایک دن ہم مولانا صاحب کی خواہش کے مطابق آپ کو بریڈفورڈ کی سینٹرل لائبریری لے گئے جو ایک وسیع عمارت میں تھی اور جس کی آٹھ منزلیں تھیں۔حضرت مولوی صاحب کو ریسرچ کا تو جنون تھا،وہاں جاتے ہی ہر منزل پر بعض کتب کے متعلق لائبریرین سے دریافت فرمانے لگے۔ لائبریرین بھی جو سب انگریز تھے، آپ کے وسیع علم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے،خاکسار سے پوچھنے لگے کہ یہ صاحب کون ہیں؟ جب خاکسار نے ان کو بتایا کہ یہ مذہبی سکالر اور مؤرخ ہیں اور پاکستان سے آئے ہوئے ہیں توسب کا ایک ہی تبصرہ تھا کہ ان صاحب کے اندر تو علم کا وسیع سمندر بھرا ہوا ہے۔ الحمدللہ ٭… ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کو رمضان المبارک میں چند ہفتوں کے لیے ہڈرزفیلڈ جماعت میں بھجوا دیا جو بریڈفورڈ سے دس میل کے فاصلے پر ہے۔ آپ وہاں روزانہ درس قرآن اور درس حدیث دیتے۔ ایک شام خاکسار بھی اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ مولانا صاحب کا درس سننے کے لیے ہڈرزفیلڈ چلا گیا اور مسجد میں پیچھے بیٹھ گیا۔ درس کے دوران محترم مولانا صاحب کی اچانک خاکسار پر نظر پڑی تو درس روک کر بڑے پیار سے فرمانے لگے، جناب باری ملک صاحب آپ کب پہنچے؟ آپ تو ‘‘صف اول کے مجاہد’’ ہیں،آپ پیچھے کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ آگے آجائیں۔ خاکسار مولانا صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں آگے جا کر بیٹھ گیا۔ یہ آپ کی شفقت کا ایک خوبصورت انداز تھا۔ ٭… ایک دفعہ مولانا صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اجازت سے چند دن آرام کرنے کے لیے بریڈفورڈ تشریف لائے لیکن خدمتِ دین کا جذبہ تھا کہ روزانہ کوئی پروگرام ترتیب دینے کا حکم دیتے۔ حضورِانور نے خاکسار کو حکم دیا کہ مولانا دوست محمد صاحب کو یارکشائر کے کسی پُرفضامقام پر لے جائیں۔ ہم آپ کو بریڈفورڈ کے قریب ہی ایک خوبصورت جگہ Bolton Abbey لے گئے جہاں چار سو سال پرانے گرجے کے کھنڈرات بھی ہیں اور خوبصورت جھیل بھی ہے۔ حضرت مولانا صاحب بہت لطف اندوز ہوئے،باربار فرماتے سبحان اللہ حضرت صاحب کو میرا کتنا خیال ہے، کیسی خوبصورت جگہ بھجوایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کیا خوبصورت نظارے ہیں۔حضرت صاحب نے میرے لیے باری کو اچھا گائیڈ چنا ہے۔ ٭… اس موقع پر مولانا صاحب نے اتنے دلچسپ لطائف سنائے کہ ہم سب کا ہنس ہنس کر بُرا حال ہو گیا۔بعد میں ایک ملاقات کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے دریافت فرمایا کہ مولوی دوست محمد صاحب کو کہاں لے گئے تھے، خاکسار نے عرض کی حضور ہم مولوی صاحب کو Bolton Abbey لے گئے تھے جہاں محترم مولوی صاحب نے بڑے دلچسپ اور مزاحیہ اشعار سناکر ہم سب کو خوب ہنسایا تو حضورِانور بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ اسی لیے میں نے تمہیںکہا تھا کہ مولوی صاحب کو کسی پُر فضا مقام کی سیر ضرور کروا دو۔مولوی صاحب خوب رونق لگاتے ہیں۔ ٭… مولانا دوست محمد صاحب شاہد کا یہ طریق تھا کہ جہاں بھی جاتے اپنی ذمہ داریوں کو نہ بھولتے،ہر جگہ تاریخ سے متعلق اگر کوئی معلومات مل سکتیں تو ضرور اکٹھی کرنے کی کوشش فرماتے۔ ایک دفعہ ہم مولانا صاحب کو بریڈفورڈ کے قریب Guiseley لے گئے جہاں Harry Ramsden کا مشہور زمانہ ریسٹورنٹ تھا جہاںیارکشائر کی مشہور Fish & Chips ملتی تھی۔ اس مشہور ریسٹورنٹ میں دنیا بھر کی مشہور شخصیات آکر کھانا کھا چکی ہیں۔اس ریسٹورنٹ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مع حضرت بیگم صاحبہ اور اپنی بچیوں کے تشریف لے گئے تھے اور وہاں کی مشہور Fish & Chips کھائی تھی۔یہاں ریسٹورنٹ والوں نے مہمانوں کی کتاب رکھی ہوئی تھی جس میں برطانیہ، امریکہ اور یورپ کے مشہور افراد اور سربراہان مملکت نے اپنے تاثرات تحریر کیے ہوئے تھے، حضورؒ کو بھی یہ کتاب پیش کی گئی اور حضور ؒنے بھی اس کتاب میں اپنے تاثرات تحریر فرمائے تھے۔ مولانا صاحب کو یہاں پہنچ کر Fish & Chips کے لذیذ کھانے سے زیادہ حضورؒ کے اس نوٹ کو حاصل کرنے میں دلچسپی تھی۔ چنانچہ ریسٹورنٹ کے مینیجر سے درخواست کی تو انہوں نے ہمیں وہ کتاب دکھا دی،ہم نے اس میں حضورؒ کا نوٹ ڈھونڈا اور مولانا صاحب نے اس کی تصاویر بھی لیں اور ویڈیو بھی بنائی۔مولانا صاحب بار بار یہ کہتے کہ Fish & Chips کا اپنا مزا تو تھا ہی لیکن حضرت صاحب کا نوٹ ملنے کی مجھے بہت خوشی ہے۔ ٭… حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ۱۹۹۳ء کے دورہ یورپ میں خاکسار بھی حضورِانور کی شفقت سے قافلہ کا ممبر تھا۔ فرینکفرٹ میں جرمنی کی جماعت نے قافلہ کے بعض افراد کو ان کی نئی خریدی ہوئی عمارت جوBonames کہلاتی تھی میں ٹھہرایا ہواتھا۔ خاکسار ایک کمرے میں تھا۔ ہمارے ساتھ والے کمرے میں مولانا دوست محمد صاحب شاہد ٹھہرے ہوئے تھے۔ روزانہ صبح کے وقت مولوی صاحب ہمارے کمرے کے قریب آکر آوازدیتے کہ کیوں جی مجاہدین اُٹھ گئے ہیں۔ ہم کہتے جی مولوی صاحب ہم اُٹھ گئے ہیں،آپ سنائیں آپ کا کیا حال ہے۔ مولوی صاحب کا ہمیشہ یہ جواب ہوتا ’’حال تو اچھا ہے لیکن مستقبل اس سے بھی زیادہ اچھا ہے۔‘‘ ٭… ایک دفعہ یورپ کے سفر کے دوران مسجد نور فرینکفرٹ میں نماز عصر کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مولانا دوست محمد صاحب شاہد سے پوچھا کیا حال ہے؟ مولوی صاحب نے فرمایا حضور! حال بہت اچھا ہے۔ حضورؒ نے فرمایا آپ کی شادی کسی بوزنین عورت کے ساتھ نہ کروا دیں؟ مولوی صاحب نے کہا نہیں حضور میرے بچے ناراض ہو جائیں گے۔ حضور نے فرمایا بچوں کو کیسے پتا چلے گا۔ مولوی صاحب نے عرضی کیا حضور یہ ڈش انٹینا کا دَور ہے خبر فوراََ پھیل جاتی ہے۔ حضورؒ اس پر بہت مسکرائے۔ ٭… ایک دفعہ خاکسار کو بریڈفورڈ کے سب سے بڑے پیر معروف حسین صاحب کا فون آیا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں ان کے گھر جاکر ان سے ملوںکیونکہ وہ ایک اہم بات کرنا چاہتے ہیں۔خاکسار ان کے گھر گیا تو مجھے پچھلے کمرے میں لے گئے اور چند نوٹ مجھے دیے کہ مولانا دوست محمد صاحب نے اپنی ایک کتاب میں ان کے خاندان نوشاہی قادری کے چند حوالے دیے ہیں جو غلط ہیں۔ خاکسار نے ان کو کہا کہ میں مولانا دوست محمد صاحب شاہد کو یہ حوالے بھجوا دوں گا اور ان سے اس کا جواب حاصل کروں گا۔ چنانچہ خاکسار نے وہ حوالے مولانا کو بھجوا دیے۔ محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے چند ہی دنوں میں ان کے اعتراض کا تفصیلی جواب خاکسار کو بھجوا دیا اور ثابت کیا کہ ان کی تحریروں میں کوئی غلط حوالہ نہیں ہے۔ خاکسار نے مولانا کا جواب پیر صاحب کو پہنچایا تو اس کو پڑھنے کے بعد کہنے لگے کہ میں اس کو تفصیل سے دیکھ کر آپ سے رابطہ کروں گا۔ اس کے بعد ان کی طرف سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ چودھری انور حسین صاحب (سابق امیرجماعت احمدیہ شیخوپورہ) چودھری انور حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ شیخوپورہ تھے۔ آپ بہت بڑے زمیندار بھی تھے اور نامور وکیل بھی۔ لیکن سادگی اور عجز ان کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ خلافت سے عقیدت میں بے مثال شخصیت تھے۔ ان کو یہ بھی اعزاز حاصل تھا کہ حضرت خلیفۃ لمسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کے بیرون ملک دوروں میں خلفاء کی شفقت سے قافلے میں شامل ہونے کا اعزاز ملتا رہا۔ غالباً یہ اپنے خرچ پر سفر کیا کرتے تھے۔ حضورؒ کی ہجرت کے بعد بھی چودھری صاحب حضور کے ساتھ یورپ کے دوروں میں ہر سال موسم گرما میں شامل ہوتے۔ آپ خلفاء کے حقیقی عاشق تھے۔ خلیفہ وقت کے سامنے بیٹھ کر ان کے پُرنور چہرہ کو دیکھتے رہتے۔ ٭… حضورؒ چودھری صاحب سے پنجابی میں بات فرماتے اور اکثر سفروں کے دوران ہالینڈ، بیلجیم، جرمنی، سوئٹزرلینڈ وغیرہ میں صبح کے وقت دفتر میں بلا کر کچھ دیر ان سے باتیں فرماتے۔ بعض دفعہ حضور نمازوں کے بعد مسجد میں ہی کچھ دیر تشریف فرماتے اور محترمی چودھری صاحب سے پنجابی میں دلچسپ گفتگو فرماتے۔ چودھری انور حسین صاحب کے ساتھ (یہ تصویر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے North Shields Portپر لی تھی) ٭… محترمی چودھری صاحب پنجابی میں ’’ بلّے بلّے‘‘ بڑے پیارے انداز سے کہتے اور حضورؒ خوب لطف اندوز ہوتے۔ ٭… ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے آپ کو چند دن کے لیے بریڈفورڈ ایک ضروری کام سے بھجوایا اور فرمایا کہ آپ وہاں باری کے پاس ٹھہر جائیں اور کام کرکے واپس لوٹیں۔ ہماراگھر بہت چھوٹا تھا لیکن پھر بھی ہم نے چودھری صاحب کو ایک کمرہ دے دیا تاکہ آپ آرام سے قیام فرماسکیں۔کئی احباب جماعت اس کوشش میں لگے رہے کہ کسی طرح چودھری صاحب اُن کے گھر صرف ایک رات ہی قیام فرما لیں لیکن چودھری صاحب نہیں مانے۔ ایک دن ایک احمدی دوست جو کافی خوشحال تھے اور ان کا کافی بڑا اور وسیع گھر تھا اصرار کر کے چودھری صاحب کو ایک رات کے لیے اپنے گھر لے گئے۔ رات دس بجے کے قریب ان کا فون آیا کہ میں چودھری صاحب کو واپس تمہارے گھر لا رہا ہوں۔ جب چودھری صاحب ہمارے گھر پہنچ گئے اور وہ دوست اپنی ناراضگی کا اظہار کر کے چلے گئے توخاکسار نے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہوئی،ان کا گھر تو کافی بڑا ہے اور سہولتیں بھی زیادہ ہیں۔ چودھری صاحب نے فرمایا میں اس لیے رات گئے ضد کر کے واپس آگیا ہوں کیونکہ حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ باری کے پاس ٹھہریں،اگر میں ان کے ہاں قیام کرتا تومجھے ساری رات جاگنا پڑتا کیونکہ مجھے نیند تو آنی نہیں تھی اور حضورِانور کی نافرمانی بھی ہو جاتی۔اللہ اللہ! اطاعت کا کیا بلند معیار تھا۔ مکرم چودھری مبارک مصلح الدین احمدصاحب مکرم چودھری مبارک مصلح الدین صاحب بھی حضور ؒکی ہجرت کے بعد مختلف مواقع پر کئی بار انگلستان آتے رہے اور بریڈفورڈ بھی کئی بار تشریف لاتے رہے۔ آپ کی شادی خاکسار کے ماموں محترمی صوبیدار غلام رسول صاحب مرحوم کی بڑی بیٹی عائشہ امینہ صاحبہ سے ہوئی تھی۔ اِس وجہ سے خاکسار کو ان کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا رہا۔ ٭… آپ کا خلافت سے عشق اور اطاعت مثالی تھی۔ ایک دفعہ آپ نے مہمانوں کوربوہ اپنے گھر کھانے کی دعوت پر مدعو کیا ہوا تھااور سب کھانا کھا رہے تھے کہ دروازے پر گھنٹی بجی۔ آپ دروازے پر گئے اور واپس آکرجلدی جلدی کوٹ اور ٹوپی پہننی شروع کر دی۔ مہمانوں سے معذرت کرنے لگے کہ حضورؒ کا ایک ضروری حکم ملا ہے جس پر فوری عمل کرنا ہے اس لیے مجھے جانا پڑے گا۔ سب نے کہا کہ آپ کھانا تو کھا لیں۔کہنے لگے کہ حضور کی اطاعت مقدم ہے۔ یہ کام مکمل کر نے کے بعد گھر آ کر بقیہ کھانا کھا لوں گا۔ ٭…ایک دفعہ بنگلہ دیش کے دورے کے دوران شدیدبیماری اور اللہ کے فضل سے تندرستی کے بعد اکثر یہی کہتے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعائوں کی وجہ سے زندگی عطا فرمادی ہے۔ ٭… ایک دفعہ خاکسار ربوہ میں تھا تو ایک دن صبح سویرے ان کے گھر گیا تو قرآن ہاتھ میں پکڑ کر دفتر جانے کے لیے تیار تھے۔ خاکسار نے عرض کی کہ اتنی صبح کدھر جا رہے ہیں تو کہنے لگے کہ حضورؒ نے میر ی ڈیوٹی لگائی ہے کہ دفتر میںقرآن کلاس لیا کروں۔ میں کارکنان سے پہلے دفترپہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ٭… آپ کا یہ معمول تھا کہ روزانہ سونے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کا کچھ حصہ ضرور پڑھتے۔ محترم مولانامبارک احمد صاحب ساقی محترم مولانا مبارک احمد ساقی صاحب مربی سلسلہ تھے جو لمبا عرصہ مغربی افریقہ میں خدمات سرانجام دینے کے بعد لندن میں تعینات تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد حضورؒ نے آپ کو ایڈیشنل وکیل التبشیر مقرر فرمایا۔آپ باوجود صحت کی خرابی کے بڑی محنت سے اپنی دینی ذمہ داریوں کو سر انجام دیتے رہے۔ آپ کو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں تحریر و تقریر پر عبور حاصل تھا۔ حضورؒ کے ساتھ بہت سے اہم کام سرانجام دینے کا اعزاز آپ کو حاصل ہو ا۔ مولانامبارک احمد صاحب ساقی ٭… حضور ؒکی ہجرت کے بعد ابتدائی ایام میں روزانہ شام نماز عشاء کے بعد حضورؒ کی مجلس عرفان ہوتی تھی جس میں شمولیت کے لیے احباب جماعت دُوردُور سے تشریف لاتے۔ ایک شام نمازِ عشاء کے بعد مسجد فضل کے باہر احاطے میں زیادہ احباب ہونے کی وجہ سے خاصا شور تھا، اچانک اوپر کھڑکی سے حضورِانور کی آواز آئی، حضور نے فرمایا ساقی صاحب کو بلائو، جب ساقی صاحب حاضر ہو گئے تو حضور نے ان کوفرمایا کہ ان کو چپ کروائو، شور سے ہمسایوں کو تکلیف ہوتی ہے۔محترمی ساقی صاحب نے حکم کی تعمیل فوراََ کرواتے ہوئے چند منٹ میں ہی خاموشی کروادی اور مستقل طور پر اس کا انتظام کروایا کہ اس کے بعد کبھی وہاں کوئی شور نہ ہو۔ ٭… حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے ۱۹۸۷ء کے دورۂ یورپ میںآپ بھی ایڈیشنل وکیل التبشیر کی حیثیت سے قافلے میں شامل تھے۔ سارا سفر محترمی ساقی صاحب کی قربت حاصل رہی اور ان کے ساتھ بہت ہی اچھا وقت گزرا۔ آپ انتہائی نیک، مخلص، دعاگو اور محنتی انسان تھے۔ ٭… ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے محترم ساقی صاحب کو ارشاد فرمایا کہ باری کو کہیں کہ Organic مکئی کی چھلیاں ڈھونڈ کر بھیجے۔ ساقی صاحب کا فون آگیا۔ اب ان دنوں ایک ناممکن سی بات تھی کہ کہیں سے Organic سبزیاں مل جائیں۔ محترم ساقی صاحب نے تسلی دی کہ حضرت صاحب کا حکم ہے اس لیے اللہ تعالیٰ خود ہی کوئی سامان فرمادے گا۔ اس رات خاکسار نے ساری رات دعا کی اللہ خود ہی ایسا سامان پیدا فرما دے کہ حضورؒ کی خواہش پوری ہو جائے۔ خاکسار اگلے ہی دن جو جمعہ کا دن تھا مسجد سے نمازجمعہ میں دعاکر کے نکلا اور ساتھ والے شہر Halifax گیا جہاں ایک انگریز تاجر خاکسار کا واقف تھا۔ اس کا ایک بڑا سٹورتھا لیکن وہ خود ایک چھوٹے سے گائوں میں رہتا تھا۔ سارا راستہ دعائیں کرتا گیا کہ اللہ جلدی سامان پیدا فرمادے۔ وہ اپنے سٹور میں ہی مل گیا۔خاکسار سے پوچھنے لگا کہ تم تو جمعہ کے دن کام نہیں کرتے آج کیسے آنا ہو گیا؟ خاکسار نے آنے کی وجہ بیان کی تو وہ سوچنے لگا اور پھر کہنے لگا کہ میرے گھر کے پاس ہی گائوں میں ایک ایسا فارم ہے جہاں کسان Organic سبزیاں اور پھل اگاتا ہے۔ اس سے پوچھوں گا،اگر اس کے پاس مکئی کی چھلیاں بھی ہوئیں تو تمہیں فون کر دوں گا۔وہ دن اور جمعہ کی رات بھی دعائوں میں گزری۔اگلے دن ہفتہ کو اس کا فون آ گیا کہ مجھے اس ہمسائے کے فارم سے Organic مکئی اور چھلیاں مل گئی ہیں۔تمہیں کتنی چاہئیں؟ خاکسار نے کہا کہ میں خود آتا ہوں۔چنانچہ خاکسار خود اس گائوں میں چلا گیا اور کسان سے بھی ملا۔ اس نے برائے نام قیمت پر دو بڑی بوریاں مکئی کی چھلیاں بھر کر دے دیں جو خاکسار وہاں سے سیدھا پانچ گھنٹے کا سفر طے کر کے حضورِانور کے پاس لے گیا۔ لندن پہنچ کر محترم ساقی صاحب کو اطلاع دی۔نماز کے بعد محترمی ساقی صاحب نے حضور ؒکو اطلاع دے دی اور وہ چھلیاں حضورِانور کو پیش کی گئیں۔ حضور بڑے خوش ہو ئے اور فرمایا کہ مجھے علم تھا کہ باری یارکشائر کے کسی فارم سے ضرور یہ چھلیاں ڈھونڈ لے گا۔ خاکسار کے لیے یہ ایک نشان بھی تھا کہ جب خداتعالیٰ کا پیارا خلیفہ کسی چیز کی خواہش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اس کا غیب سے انتظام فرما دیتا ہے۔ الحمدللہ۔ اگلے دن حضور نے خدام کو فرمایا کہ انگیٹھی جلا کر اس پر ان چھلیوں کو بھونو۔ اب یہ اتنی زیادہ چھلیاں تھیں کہ مسجد میں موجود ہر شخص کو بھی کھانے کو مل گئیں اور بعض ہمسایوں اور احمدیوںکو بھی بھجوائی گئیں۔ مکئی بہت ہی میٹھی تھی۔ محترم ساقی صاحب بڑے خوش تھے، خاکسار کو خود اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر پیش کی۔ محترم آفتاب احمد خان صاحب محترم آفتاب احمد خان صاحب پاکستان کے ایک انتہائی کامیاب سفیر تھے۔ آپ کا تقرر بانیٔ پاکستان محمد علی جناح نے پاکستان کے سفراء کی پہلی ٹیم میں فرمایا تھا۔ آپ قریباََ چالیس سال تک بیرونی ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے۔ آپ کو سفارتی حلقوں میں بہت عزت اور احترام کے ساتھ جانا جاتا تھا۔ سفارت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ لندن میں قیام پذیر ہوگئے اور ہائونسلو کے قریب ہینگرلین پرگھر خرید کر وہاں رہائش اختیار کی۔آپ کی بیگم محترم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب کی بیٹی تھیں۔ ہجرت کے بعد جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے محترم چودھری انور کاہلوں صاحب کو یوکے جماعت کا امیر مقرر فرمایا تو آپ کو نائب امیر مقرر کیا گیا۔ آفتاب احمد خان صاحب آپ کے اندر بےپناہ انتظامی صلاحیتیں تھیں اور آپ نے جلد ہی ان صلاحیتوں کو اپنے کاموں کے ذریعہ منوالیا۔ حضور آپ کو امورِ خارجہ کے بہت سے کام سونپتے اور آپ بہت عمدگی سے ان کاموں کو سر انجام دیتے۔ محترمی انور کاہلوں صاحب کے بعد آپ کو امیر جماعت احمدیہ مقرر کیا گیا اورآپ نے جماعت احمدیہ یوکے کی تنظیم سازی اور نظم و ضبط کو بہت مضبوط کیا۔ آپ باقاعدہ تمام جماعتوں کے دورے کر کے مقامی افراد سے ملتے اور جماعتی امور پر بات کرتے۔ آپ کو انگریزی اور اردو زبانوں پر پورا عبور تھا اس لیے آپ نوجوانوں سے بھی کھل کر بات کر لیتے۔ آفتاب احمد خان صاحب کے ساتھ Chief Constable, West Yorkshireسے ملاقات کے دوران آفتاب احمد خان صاحب اور ڈاکٹر سعید خان صاحب کے ساتھ ٭…آپ کے دَور میں ہی ۱۹۹۱ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ قادیان جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے تشریف لے گئے۔ یہ ایک تاریخی واقعہ تھاکیونکہ قادیان سے ہجرت کے بعد کسی بھی خلیفۃ المسیح کا اس مقدس بستی کا پہلا دورہ تھا۔ محترم آفتاب خان صاحب نے اس تاریخی دورے کی تیاری اور انتظامات کے سلسلہ میں تاریخی کردار ادا کیا۔ ٭… دہلی قیام کے دوران آپ کی ملاقاتیں ہندوستان کے بڑے سینئر سیاستدانوں، حکومتی افسران اور وزرا سے اور سفراء سے بھی ہوئیں۔ آپ کو بہت احترام دیاگیا۔ ٭… جلسے کے ایام میں ایک شام خاکسار کو امیر صاحب نے فرمایا چلو ہم یوکے گیسٹ ہائوس میں جماعت احمدیہ یوکے کے افراد سے مل کر آئیں۔ خاکسار ان کے ساتھ چل دیا۔ہم پیدل ہی یوکے گیسٹ ہائوس گئے اور امیر صاحب نے یوکے کے مہمانوں سے ملاقات کی۔ یوکے کے مہمان امیر صاحب کو اپنے درمیان دیکھ کر بے انتہا خوش تھے۔ آپ نے سب کا احوال دریافت کیا اور اگر کسی کو کسی مدد کی ضرورت تھی تو ان کی مدد کی۔ ٭… ایک دن نماز عصر کے بعد آپ پھلوں سے بھری ہوئی ایک بڑی ٹوکری لے کر آگئے اور خاکسار کو حکم دیا کہ یہ پھل ڈیوٹی پر موجود یوکے کے تمام خدام کو دے آئو۔ خاکسار نے خدام کے پاس جا کر تمام خدام کو امیر صاحب کی طرف سے پھل پیش کیے۔ ٭… محترم آفتاب خان صاحب کی طبیعت میں انتہائی سادگی اور عجز تھا۔ باوجود پاکستان کے سینئر ترین سفیر کے عہدے پر خدمات سرانجام دینے کے آپ میں عُجب و پندارنام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ آپ خلیفہ وقت کے سامنے بیٹھتے تو اکثر آپ کی آنکھیں آبدیدہ ہوتیں۔ محترم ہدایت اللہ صاحب بنگوی محترم ہدایت اللہ صاحب بنگوی بھی پاکستان کی فارن سروس سے ایک لمبے عرصہ تک منسلک رہے اور مختلف ممالک میں ملک کی خدمات بڑی کامیابی سے سرانجام دیتے رہے۔ان کی ان خدمات کی وجہ سے بیرونی ممالک کے سفارت کار آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔ ٭… آپ کا تقرر کچھ عرصہ کے لیے انڈونیشیا میں جکارتہ میںبھی رہا۔ یہاں آپ کے تعلقات وہاں کے مقبول صدر سوئیکارنو سے بھی رہے۔ آپ کے پاس ایک دھوتی تھی جو آپ اکثر رات کو پہنتے اور بڑے فخر سے بتاتے کہ یہ صدرسوئیکارنو نے مجھے تحفۃً دی تھی۔ ٭… محترم بنگوی صاحب ان خوش قسمت افراد میں سے تھے جن کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خاص شفقت اور قربت حاصل ہوئی۔ آپ نے یوکے جماعت کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں۔ جب حضورِانور نے آپ کو افسر جلسہ سالانہ یوکے مقرر فرمایا توباوجود صحت کی خرابی کے بڑی محنت اور دیانتداری سے آپ نے خدمات سرانجام دیں۔ ٭… اسلام آباد میں ایک Portakabin میں آپ کا دفتر ہوتا، یہاں سے آپ کام سرانجام دیتے۔یہ دفتر نہ صرف افسر جلسہ سالانہ کا دفتر ہوتا بلکہ تما دوسرے ناظمین بھی اسے اپنے دفتر کے طور پر استعمال کرتے۔محترم بنگوی صاحب اس دفتر میں ہجوم ہونے سے کبھی نہ گبھراتے۔ ٭… ایک دفعہ آپ جلسہ سالانہ کی خریداری کی غرض سے بریڈفورڈ بذریعہ ریل گاڑی تشریف لائے۔خاکسار ان دنوں مجلس خدام الاحمدیہ نارتھ ریجن کا ریجنل قائد تھا۔ خاکسار محترمی بنگوی صاحب کو لینے کے لیے لیڈز ریلوے سٹیشن پر گیا۔ وہاں بنگوی صاحب مل نہیں رہے تھے۔ کافی تلاش کے بعد محترمی بنگوی صاحب ملے،آپ نے باقاعدہ اوور کوٹ اورسر پر ایک بڑا Hat پہنا ہواتھا اور ہاتھ میں اپنے بیگ کے علاوہ چھتری بھی پکڑ رکھی تھی۔ جب کار میں بیٹھ گئے تو خاکسار نے مذاق سے عرض کی کہ بنگوی صاحب آپ تو انگریز بن گئے ہیں،فرمانے لگے کہ یہ انگریزوں کی اچھی عادت تھی کہ جب کبھی گھر سے باہر نکلتے تواوور کوٹ ضرور پہنتے اور سر پر Hat اور ہاتھ میں چھتری ضرور رکھتے،میں نے ان کی اس اچھی عادت کو اپنایا ہوا ہے اور جب کبھی سفر کے لیے روانہ ہوتا ہوں تو ان باتوں کا ضرور خیال رکھتا ہوں۔ ٭… آپ جب کبھی بھی بریڈفورڈ تشریف لاتے تو بریڈفورڈ میں پاکستان قونصلیٹ کے افسران آپ سے ضرور ملنے آتے اور بڑے ادب اور احترام سے آپ کو ملتے۔ ٭… ۱۹۸۹ء کے جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پرجماعت جرمنی نے فرینکفرٹ میں ایک ہاسٹل کرائے پر لیا ہوا تھا جہاں قافلے کے افراد اور دوسرے مہمانوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ خاکسار اورمحترمی بنگوی صاحب کی رہائش کا انتظام ایک ہی کمرے میں تھا۔ محترمی بنگوی صاحب کی صحبت اورقربت کے یہ چند دن خاکسار کے لیے یادگار دن تھے۔ روزانہ رات کو محترمی بنگوی صاحب کے ساتھ محفل سجتی اور بہت دلچسپ باتیں ہوتیں۔بعض اور دوست بھی ہمارے کمرے میں آ جاتے۔ محترمی عبدالباقی ارشد صاحب محترمی عبدالباقی ارشد صاحب کا شمار بھی یوکے جماعت کے بہت سینئر ممبروں میں ہوتا ہے۔ آپ ایک لمبے عرصہ تک سعودی عرب میں قیام کے بعد لندن آکر ومبلڈن کے ٹینس گرائونڈ کے پاس ایک بڑا گھر خرید کر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ قیام پذیر ہوئے۔ ٭… آپ کو یوکے جماعت کے نائب امیر، سیکرٹری جائیداد اور افسر جلسہ سالانہ کی حیثیت سے لمبے عرصہ تک خدمات کی توفیق ملی۔ آپ کو ابتدا میں مسجد بیت الفتوح کی تعمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات کا اعزاز ملا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کاتقرر فرمایاتھا۔ عبدالباقی ارشد صاحب ٭… آپ کو یہ اعزاز بھی ملا کہ ہجرت کے وقت آپ نے ایمسٹر ڈیم جا کر یوکے جماعت کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا استقبال ایئرپورٹ پر کیا۔ ٭… حضور کے ارشاد پر آپ نے اسلام آباد کی زمین کی نیلامی پر بولی بھی دی۔ ٭… آپ کے بیٹے نبیل ارشد کو کئی سال تک حضورِانور کی گاڑی چلانےکا اعزاز بھی حاصل رہا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور عبدالباقی ارشد صاحب کے ساتھ(اسلام آباد ۱۹۸۶ء) ٭… ایک دفعہ خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو یارکشائر ڈیلز کے ایک خوبصورت مقام پر ایک سکول کی عمارت کا بتایا جو نیلامی کے لیے جارہی تھی۔ خاکسارنے حضور سے درخواست کی کہ اگر حضور خود تشریف لاکر جگہ دیکھ لیں تو اچھا ہو گا۔ہم خدام وہاں باربی کیو بھی کر لیں گے۔ حضور نے فرمایا ارشد باقی صاحب کو پوچھو۔ اگر وہ مجھے لے آئیں گے تو میں آجائوں گا۔ خاکسار نے حضور کا پیغام محترم باقی صاحب کو دیا تو آپ نے کہا کہ اگر حضور کا حکم ہے تو میں حاضر ہوں۔چنانچہ حضورِانور وہاں تشریف لائے اور خود جگہ کا معائنہ فرمایا اور ہم نے حضور کے اعزاز میں باربی کیو کا اہتمام بھی کیا۔ ٭… محترم ارشد باقی صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے افریقہ ٹریڈ کا چیئرمین مقرر فرمایا۔ یہ ادارہ تجارت کے فروغ کے لیے بنایا گیا تھا۔ آپ نے یہاں بھی محنت سے خدمات سرانجام دیں۔ ٭… آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے الشرکۃالاسلامیہ کا چیئر مین مقرر فرمایا تھا۔ آپ باقاعدگی سے دفتر آتے اور بڑی محنت سے تاوقتِ وفات اس خدمت کو سرانجام دیتے رہے۔ ٭… آپ کے اندر خلافتِ احمدیہ اور نظام جماعت کی اطاعت اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آپ اکثر خاکسار کو فون کرتے اور بات کرتے۔ آپ ہمیشہ خلیفہ وقت سے انتہائی محبت اور عقیدت کا اظہار فرماتے۔ ایک دفعہ کسی ایسے شخص کا ذکر ہوا جس نے اپنی حرکتوں سے جماعت اور حضورانور کا دل دکھایا تھا۔ محترم باقی صاحب اس پر اس قدر ناراض تھے کہ خاکسار نے کبھی بھی کسی شخص کو اتنا ناراض نہیں دیکھا۔ خاکسار کو کہا کہ اس شخص کانام بھی میرے سامنے مت لو۔ ٭… آپ کچھ عرصہ اصلاحی کمیٹی کے بھی چیئر مین رہے۔ آپ نظام جماعت کے معاملے میں انتہائی سخت تھے اور نظام جماعت کی اطاعت کے معاملے پر کسی سے کسی قسم کی نرمی نہیں کرتے تھے۔ مالی معاملات میں بھی آپ سختی سے عمل کرواتے تھے۔ ٭…٭… (جاری ہے)…٭…٭