(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۶؍نومبر۱۹۳۷ء) ۱۹۳۷ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپؓ نے اس فلسفے کو نہایت خوبصورتی سے بیان فرمایا کہ تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرنے والےصفاتِ الٰہیہ کے مظہر کیسے بن سکتے ہیں قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) انسان کے اندر خداتعالیٰ نے مٰلِک والی صفت بھی رکھی ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِکا مظہر بنتا ہے۔ اس کے اندر الحق والی صفت بھی رکھی ہے۔ وہ بھی سچ کو قبول کرتا اور سچائی کے مقابلہ میں دنیا کی ہر چیز کو بھول جاتا ہے۔ پھر رحیمیت والی صفت بھی انسان کے اندر رکھی گئی ہے۔ پھر خداتعالیٰ نے اپنے آپ کو لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کہا تھا۔ اس کی تنزّلی صورت یعنی رحیمیت بھی انسان میں پائی جاتی ہے۔ پھر رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ کی تنزّلی صورت یعنی رب العٰلمین ہونا اس کا پرتو بھی انسانی روح پر پڑاہے اور اس کا مظہر بننے کی قابلیت بھی اس میں موجود ہے۔ غرض یہ چاروں صفات ایسی ہیں کہ اگر انسان چاہے تو وہ ان کا مظہر بن سکتا ہے۔ تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے گذشتہ جمعہ میں اس امر کے متعلق خطبہ بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو جو پیدا کیا ہے وہ یونہی نہیں پیدا کیا بلکہ اس کی صفات کا تقاضا تھا کہ دنیا پیدا کی جاتی اور خصوصاً انسان کی پیدائش معرضِ وجود میں آتی۔ چنانچہ انسان کی پیدائش قرآن کریم کے بیان کے مطابق اس لئے ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی چار صفات اپنے آپ کو ظاہر کرنا چاہتی تھیں۔ یہ صفات اپنے منبع کے لحاظ سے تو وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آیت اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّاَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ۔ فَتَعٰلَی اللّٰہُ الۡمَلِکُ الۡحَقُّ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡکَرِیۡمِ۔ (المومنون:۱۱۶، ۱۱۷) میں بیان فرمایا ہے۔ اور بندوں کے تعلق کے لحاظ سے سورئہ فاتحہ میںآیات اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ (الفاتحہ:۲ تا ۴)آیات میں بیان فرمایا ہے۔ گویا پہلی آیت میں چار صفات بطو رمنبع کے بیان کی گئی ہیں۔ یعنی وہ صفات جنہوں نے دُنیا کی پیدائش کا تقاضا کیالیکن ان کے نتیجہ میں جب انسان کو پیدا کیا گیا تو چار اور صفاتِ الٰہیہ نے انسانوں کی خبرگیری کی۔ گویا تخت شاہی کے مالک بلند شان والے مہربان رب کی طرف سے جب دنیا پیدا ہوئی تو وہ دنیا کے لحاظ سے ربّ العٰلمین بن گیا۔ پھر توحیدِکامل نے جب اپنا جلوہ دکھانا چاہا تو وہ انسانوں کیلئے رحمانیت کی صفت میں ظاہر ہوئی اور دنیا کی ہر ضرورت کو اُس نے پورا کرکے بتادیا کہ سوائے اس کے اور کوئی خدا نہیں۔ پھر اَلْحَقُّ کی صفت نے جب ظہور کرنا چاہاجو سچے وعدے کرنے والی اور دنیا کو قائم رکھنے والی ہے تو اس نے رحیمیت کی شکل میں اپنا جلوہ دکھایا۔ اور گو اَلْحَقُّ کے معنے قائم رکھنے والے کے بھی ہیں مگر چونکہ اس میں سچائی کے معنے بھی شامل ہیں، اس لئے اس نے فیصلہ کیا کہ میںصفت رحیمیت کے ماتحت ہر اُس چیز کو قائم رکھوں گا جو سچائی پر مبنی ہوگی اور پھر اس کی نیکی کا بار بار بدلہ دوں گا اور اسے ہمیشہ کی زندگی عطا کروں گا۔ پس اُس نے مخلوق میں سے سچ پر قائم ہونے والے وجودوں کو ہمیشہ کیلئے قائم رکھ کر اپنے اَلْحَقُّ ہونے کا ثبوت دیا۔ پھر ملکیت نے چاہا کہ وہ کوئی قانون جاری کرے اور جب اس نے قوانین جاری کئے تو اس نے کہا اب میں ہر ایک سے حساب لوں گا کہ اس نے قانون کی کس حد تک پیروی کی ہے اور وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ تو یہ چار صفات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں جو خطبہ کے شروع میں مَیں نے پڑھی تھی، یہ سورئہ فاتحہ کی چار صفات کیلئے بطور منبع ہیں۔ مٰلِکِ نے جب اپنی جلوہ گری کی تو لازمی طور پر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صفت انسانوں کیلئے ظاہر ہوئی۔ توحید نے جب اپنا ثبوت دینا چاہا تو لازمی طور پر اس کی رحمانیت کی صفت ظاہر ہوئی۔ اور خداتعالیٰ کی صفت اَلْحَقُّ نے جب اپنا ظہور چاہا تو اس نے رحیمیت کے ذریعہ سے سچائی کے دِلدادوں کو ہمیشگی کی زندگی بخشی۔ پھر رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ نے چاہا کہ کوئی ایسی مخلوق ہو جس کی وہ ربوبیت کرے۔ پس اُس نے دنیا پیدا کی ا وراس کیلئے رَبِّ العٰلَمِیْنَ ہوکر ظاہر ہوا۔ غرض رَبِّ العٰـلَمِیْنَ بھی خدا کی صفت ہے اور الرحمٰن بھی خدا کی صفت ہے اور مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ بھی خدا کی صفت ہے۔ لیکن مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صفت تابع ہے رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ کی صفت کے۔ اگروہ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ نہ ہوتا تو رَبِّ العٰلَمِیْنَ بھی نہ ہوتا۔ اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنَ نتیجہ ہے اس کے مٰلِکِ ہونے کا۔ اگر وہ مٰلِکِ نہ ہوتا تو مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ بھی نہ ہوتا۔ جس نے کوئی قانون ہی نہ بنایا ہو وہ اس کے متعلق باز پُرس کرنے کا بھی کوئی حق نہیں رکھتا۔ اسی طرح اگر وہ اَلْحَقُّ نہ ہوتا اور تمام تر سچائیوں کا منبع نہ ہوتا اور پھر اس کے اندر دوسری چیزوں کو قائم رکھنے کی طاقت نہ ہوتی تو وہ رحیم بھی نہ ہوتا۔ کیونکہ رحیمیت کی صفت ہی ہے جو بنی نوع انسان کے سچائی پر قائم ہونے کی وجہ سے انہیں اچھے سے اچھا بدلہ دیتی ہے اور انہیں ہمیشہ کیلئے قائم رکھتی ہے۔ چنانچہ عربی زبان میں جس کے اندر یہ خوبی ہے کہ اس کے الفاظ اس حقیقت اور فلسفہ کو بھی بیان کردیتے ہیں جو مسمّٰی سے تعلق رکھتے ہیں یا جن کی مُسمّٰی سے امید کی جاتی ہے۔ ایک محاورہ ہے جو یہ ظاہرکرتا ہے کہ سچائی ہی دائمی زندگی کا موجب ہو جاتی ہے۔ صِدْقٍ عربی زبان میں سچائی کو کہتے ہیں۔جس طرح حق سچائی کو کہا جاتا ہے عربی زبان کا محاورہ ہے کہ جب کسی چیز کے دوام پردلالت کرنا ہو تو اُسے صِدْقٍ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔مثلاً کہتے ہیں لَہٗ قَدَمُ صِدْقٍ جس کے لفظی معنے تو یہ ہیں کہ اسے سچائی کا قدم حاصل ہے۔ لیکن محاورہ میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اسے وہ مقام حاصل ہے جو کبھی جاتا نہ رہے گا۔ اس محاورہ سے ظاہر ہے کہ عربی زبان میں یہ حقیقت لغوی طور پر تسلیم کی گئی ہے کہ سچائی ہی دائمی زندگی بخشتی ہے اس لئے انہوں نے ہمیشہ رہنے کیلئے صِدْقٍ کا لفظ ہی استعمال کرنا شروع کردیا۔ پس اَلْحَقُّ کی صفت ہی ہے جس کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اَور صفت یعنی رحیمیت اس کے بندوں کیلئے ظاہر ہو۔ تاکہ ان کی سچائی کا بدلہ انہیں ابدی زندگی کی صورت میں ملے۔ غرض اگر اللہ تعالیٰ اَلْحَقُّ نہ ہوتا تو الرَّحِیْمُ بھی نہ ہوتا۔ اسی طرح الرَّحْمٰن کی صفت لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یعنی توحید کامل کے تابع ہے یعنی توحیدِ کامل رحمانیت کے ظہور کا موجب ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے سِوا کوئی اور بھی معبود ہوتا تو وہ ہرگز الرَّحْمٰن نہ ہوتا۔ کیونکہ الرَّحْمٰن کے معنے ہیں کہ وہ ہر چیز کی جائز ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ خواہ اس نے کوئی کام کیا ہویا نہ کیا ہو۔ اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب ایک ہی خدا ہو۔ اگر کئی خدا ہوں تو کسی کی ضرورت کوئی پوری کرے گا اور کسی کی کوئی۔ یا کوئی ضرورت کوئی پوری کرے گا اور کوئی ضرورت کوئی اَور۔ میں اپنے پچھلے خطبہ میں بتاچکا ہوں کہ توحید کامل کا لازمی نتیجہ رحمانیت ہے۔ جب کبھی توحیدِ کامل اپنا ظہور کرنا چاہے گی وہ رحمانیت کی صفت میں ہی انسانوں کے سامنے آئے گی۔ اس لئے کہ اگر ہماری ضرورتیں دو وجود پوری کرنے والے ہوں تو توحید کس طرح ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر پانی کسی خدا نے دینا ہے اور روٹی کسی نے، تو توحید کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جب ہم اپنی ہر ضرورت خداتعالیٰ سے پوری ہوتے دیکھیں تو پھر ہماری عقل کہتی ہے کہ اس کے سوا کسی اور خدا کی ضرورت نہیں۔ تو رحمانیت جس کے معنی ہر انسانی ضرورت پورا کرنے کے سامان مہیا کرنے کے ہیں تو حیدِ کامل کا نتیجہ ہے۔ یعنی توحید جب مخلوق کیلئے ظاہر ہوگی رحمانیت کے ذریعہ سے ہوگی۔ غرض یہ چاروں صفات جو سورئہ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں ان صفات کی تابع ہیں جو خداتعالیٰ نے اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّاَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ۔ فَتَعٰلَی اللّٰہُ الۡمَلِکُ الۡحَقُّ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡکَرِیۡمِ۔ میں بیان کی ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے دنیا کو کھیل کے طور پرنہیں بنایا بلکہ اس لئے بنایا ہے کہ ہم مٰلِکِ میں، ہم الحق ہیں، ہم لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ہیں، ہم رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ہیں۔ گویا یہ چاروں صفات ہیں جنہوں نے تقاضا کیا کہ ہم اپنے آپ کو ظاہر کریں۔ پس ہم نے اپنے آپ کو ظاہر کیا مگر کس طرح رَبُّ العٰلمین کی صورت میں، الرحمٰن کی صورت میں، الرحیم کی صورت میں اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صورت میں اور یہ چاروں صفات جو سورئہ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں تنزّلی صفات ہیں۔ کیونکہ یہ بندوں سے تعلق پر دلالت کرتی ہیں۔ یعنی وہ رَبُّ العٰلمین تبھی ہوسکتا تھا جب عالَم موجود ہو اور اس کی وہ ربوبیت کرے۔ کسی ایسے شخص کے متعلق جس کا کوئی بیٹا نہ ہو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنی اولاد کی نہایت اچھی پرورش کرتا ہے۔ پرورش کا لفظ اُسی وقت استعمال کیا جائے گا جب اُس کے بچے اور دیگر عزیز ہوں گے۔ پس رَبُّ العٰلمین ایک تنزّلی صفت ہے یعنی صفاتِ الٰہیہ کی وہ جہت ہے جو مخلوق سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی طرح الرحمٰن ہونا بھی بندوں کے وجود کو ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ اگر ایسی مخلوق نہ ہو جس کو ضروریات لگی ہوئی ہوں تو اس کی ضرورت پورا کرنے کا سوا ل ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اور یہ صفت لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کی اس جہت کا ظہور ہے جو بندوں سے متعلق ہے۔ پس الرحمٰن بھی تنزّلی صفات میں سے ہے۔ پھر رحیم جس کے معنے اچھے کاموں کا بدلہ دینے اور بار بار بدلہ دیتے چلے جانے کے ہیں جس کانتیجہ انسان کیلئے ابدی زندگی ہے، یہ بھی تنزّل صفت ہے کیونکہ اس صفت کے ماتحت ضروری تھا کہ دنیا میں نیک کام کرنے والے لوگ ہوں۔ ورنہ خداتعالیٰ تو ابد سے ہے اور وہ اپنی ذات میں قائم ہے۔ اُس کا کسی کو قائم رکھنا اور اسے ہمیشہ کی زندگی دینا تبھی ظاہر ہوسکتا ہے جب ایسے لوگ ہوں جو فنا ہوجانے والے ہوں۔ لیکن باوجود ان کے فانی ہونے کے وہ ان کو قائم رکھے اور اس طرح الرحیم کہلائے۔ پس الرحیم کی صفت بھی الحق کے تابع ہے اور تنزّلی صفات میں سے ہے۔ یعنی وہ صفات جو مخلوق کے متعلق ہیں۔ اسی طرح مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہونا بھی بتاتا ہے کہ کوئی مخلوق ہو جس میں الٰہی قانون جاری کیا جائے اور پھر اس قانون کے مطابق اس سے حساب لیا جائے اور پھر نیک کاموں پر جزاء اور بُرے کاموںپر سزا دی جائے۔ یہ تونہیں کہا جاسکتاکہ وہ اپنی ذات کے اندر ہی فیصلے کرتا رہتا ہے۔ فیصلہ تو بہرحال دوسروں کے معاملات کا ہی ہوتا ہے۔ پس مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ بھی تنزّلی صفات میں سے ہے۔ یعنی جن کا ظہور مخلوق سے وابستہ ہے (یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ صفات میں سے وہ جو بِالبداہت کی ایک بِالفعل موجودات اور مخلوقات پر دلالت کرتی ہوں وہ تنزّلی صفات ہیں کیونکہ وہ اپنی ذات میں ایک مخلوق کے وجود کو اور پھر اس سے اللہ تعالیٰ کے سلوک کو ظاہر کرتی ہیں۔ گویا ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے عرش کریم سے اُترتا ہے تا اپنی مخصوص صفات کو بندوں کیلئے ظاہر کرے۔ اور تنزیہی صفات وہ ہیں جو بِالبداہت کسی مخلوق کے وجود پر دلالت نہیں کرتیں اور ان کا خیال مخلوق کے خیال کے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے۔ جیسے خداتعالیٰ کا سچائی محض ہونا ہے یعنی اَلْحَقُّ ہونا یا لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ہونا یا ایک لفظ سے یہ مفہوم ادا کیا جائے تو اس کا احد ہونا۔ اسی طرح کامل الصفات ہستی کا مٰلِکِ ہونا، رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ہونا یا حي ہونا یا العظیم ہونا اور اسی طرح اور صفات ہیں جن کو ذہن میں لاتے ہوئے کسی مخلوق کی طرف ذہن کا انتقال ضروری نہیں ہوتا)۔غرض یہ چاروں صفات تشبیہی اور تنزّلی ہیں۔ جن میں اللہ تعالیٰ کا فعل بہت حد تک بندوں کے افعال سے ملتا جلتا ہے اور ان کا ظہور ان چار صفات کے تقاضا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جو آیت زیر تشریح میں بیان ہوئی ہیں اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مجملاً ذکر کیا ہے کہ ان چار صفات نے انسانی پیدائش کا تقاضا کیا جس پر ہم نے انسان کو پید اکیا نہ کہ بِلا وجہ اور فضول۔ اب ہمیں غور کرنا چاہئے کہ جبکہ ان چاروں صفات کے نتیجہ میں انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان کا پرتو ظلی طور پر انسان پر پڑے ورنہ ان صفات کا ظہور انسان کے ذریعہ سے ہو نہیں سکتا۔ چنانچہ میں جیسا کہ گذشتہ جمعہ میں بیان کرچکا ہوں کہ یہ چاروں صفات تنزّلی صورت میں انسان کے اندر پائی جاتی ہیں۔ انسان کے اندر خداتعالیٰ نے مٰلِک والی صفت بھی رکھی ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کا مظہر بنتا ہے۔ اس کے اندر الحق والی صفت بھی رکھی ہے۔ وہ بھی سچ کو قبول کرتا اور سچائی کے مقابلہ میں دنیا کی ہر چیز کو بھول جاتا ہے۔ پھر رحیمیت والی صفت بھی انسان کے اندر رکھی گئی ہے۔ پھر خداتعالیٰ نے اپنے آپ کو لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کہا تھا۔ اس کی تنزّلی صورت یعنی رحیمیت بھی انسان میں پائی جاتی ہے۔ پھر رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ کی تنزّلی صورت یعنی رب العٰلمین ہونا اس کا پرتو بھی انسانی روح پر پڑاہے اور اس کا مظہر بننے کی قابلیت بھی اس میں موجود ہے۔ غرض یہ چاروں صفات ایسی ہیں کہ اگر انسان چاہے تو وہ ان کا مظہر بن سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی بنے یا نہ بنے۔ مگر خدا نے ہر شخص کو یہ قابلیت دے دی ہے اور وہ اگر چاہے تو رب العٰلمین۔ الرحمٰن۔ الرحیم اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صفات کا مظہر ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص کہے یہ کس طرح ہوسکتا ہے۔ سو ایسے لوگوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ملکیت کی قابلیت کا ہر انسان میں پیدا کیا جانا تو ظاہر ہی ہے اور اس صفت کا اتنا غلبہ ہے کہ دنیا میں ناقابل سے ناقابل انسان کو بھی مجازی طور پر بادشاہ بننے کی خواہش ہوتی ہے۔ بلکہ جتنا کوئی ناقابل ہو اُتنا ہی اسے اپنا حکم چلانے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ مشورہ دینے کیلئے بےتاب رہتا ہے۔ پھر بادشاہت ایک نظام چاہتی ہے اور انسان بھی۔ ملک ہوکرقانون بناتا اور مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہوکر قاضی بنتا اور لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرتا ہے اور ہر انسان اس نظام کی پابندی کیلئے مدنی الطبع بنایا گیا ہے۔ (جاری ہے) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مجلس شوریٰ کے انعقاد کی غرض و غایت