(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍نومبر ۲۰۲۱ء) گنی کناکری کا ریجن بوکے (Boke) ہے۔ وہاں کے ایک گاؤں کے مشنری کہتے ہیں کہ تحریک جدید کے چندوں کی وصولی کے سلسلہ میں ہفتہ تحریک جدید منایا گیا۔ خطبہ جمعہ میں توجہ دلائی۔ انفرادی طور پر گھروں میں دورہ بھی کیا۔ ایک مخلص احمدی دوست جبریل صاحب ہیں جو پیشے کے لحاظ سے بڑھئی ہیں۔ ان کے گھر گئے اور انہیں چندے کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے کہا کہ میں نے آج کے اخراجات کے لیے بیس ہزار فرانک رکھے ہوئے تھے وہ میں سب چندے میں ادا کرتا ہوں۔ اب اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں لیکن دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قربانی قبول فرمالے۔ جبریل صاحب بتاتے ہیں کہ پچھلے تین ماہ سے انہوں نے ایک لکڑی کا بیڈ فروخت کرنے کے لیے تیار کیا ہوا تھا لیکن کوئی خریدار نہیں آ رہا تھا۔ چندے کی ادائیگی کے کچھ ہی دیر بعد ایک شخص بیڈ خریدنے آ گیا اور اس نے ایک ملین اور پانچ لاکھ فرانک میں وہ خرید لیا۔ اس پر جبریل صاحب نے فوراً ہمارے مشنری کو فون کیا کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ہماری قربانی کو قبول کیا بلکہ کئی گنا بڑھا کر اس نے ہمیں لوٹا دیاہے اور یہ بات وہ اپنے دوستوں کو بھی بتاتے ہیں تا کہ ان کے بھی ایمان مضبوط ہوں۔ منیر حسین صاحب فری ٹاؤن سیرالیون کے مبلغ ہیں۔ کہتے ہیں کہ خادم صوفی سونگو (Sufi Songo) صاحب پڑھائی کر رہے ہیں۔ طالب علم ہیں اور پڑھائی کے سلسلہ میں مسجد میں مقیم ہیں۔ جب انہوں نے میرا خطبہ سنا۔ ریکارڈنگ سنی ہو گی یا گذشتہ سال کا تحریک جدید کا خطبہ سنا ہو گا جس میں مالی قربانی کرنے والے لوگوں کا میں نے ذکر کیا تھا تو کہتے ہیں: میں نے بڑی توجہ سے سارا خطبہ سنا اور میرے اندر اس بات کا بہت جوش اور جذبہ پیدا ہوا کہ کاش میں بھی مالی قربانی میں حصہ لے سکتا لیکن مشکل یہ تھی کہ میں طالب علم ہوں اور کوئی بھی کام نہیں کرتا اور پڑھائی کا خرچہ بھی مشکل سے پورا ہوتا ہے لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود میرے اندر بہت بےقراری پیدا ہوئی۔ میں نے سیکرٹری تحریک جدید کو اپنا پانچ لاکھ لیون کا وعدہ لکھوا دیا جو کہ میرے لیے بہت مشکل تھا۔ اس کے بعد میں ان کی ادائیگی کے لیے کچھ پریشان ہوا اور رات دن میں نے دعائیں کرنی شروع کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کوئی سامان پیدا فرمائے اور میں اپنا وعدہ پورا کر سکوں۔ چنانچہ کچھ دنوں کے بعد میرا ایک رشتہ دار اپنے بیٹے کو لے کر آیا کہ اسے احمدیہ سکول میں داخل کروانا ہے۔ میں نے سکول کے پرنسپل سے بات کی تو انہوں نے بچے کو داخلہ دے دیا۔ بچے کے والدنے مجھے ایک لاکھ لیون دیے اور کہا کہ تمہارے کھانے وغیرہ کے کام آئیں گے یہ رکھ لو۔ اس دن کہتے ہیں میرے پاس کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں تھا لیکن میں نے یہ ساری رقم چندہ تحریک جدید میں ادا کر دی کہ وعدہ جو ہے اس کا کچھ حصہ تو پورا ہو۔ کچھ دن بعد کہتے ہیں کہ ایک نامعلوم نمبر سے فون آیا کہ ایک کام کرنا ہے اور اس کا اچھا معاوضہ بھی ادا کریں گے۔ کیا تم تیار ہو؟ میں نے فوراً حامی بھر لی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کام کے معاوضہ کے طور پہ مجھے ایک ملین لیون ملے جس سے میں نے اپنا وعدہ تحریک جدید فوری طور پہ ادا کر دیا۔ گیبون کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں ایک نومبائع عیسیٰ دیندانے (Dindane Issa) صاحب ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بیعت اور باقاعدگی کے ساتھ چندہ کی ادائیگی سے قبل میری حالت یہ تھی کہ بسا اوقات دو ہفتے یا تین ہفتے گزر جاتے تھے مگر کام نہیں ملتا تھا مگر جب سے باقاعدگی سے چندہ ادا کرنا شروع کیا ہے تو اب تقریباً روزانہ ہی کام مل جاتا ہے اور یہ بڑی دور سے آ کے باقاعدہ چندہ ادا کرتے ہیں بلکہ جتنا چندہ ادا کرتے ہیں اتنا ہی ٹیکسی کا کرایہ بھی دیتے ہیں اب ان کا انتظام کیا گیا ہےکہ بجائے دوہرا خرچ کرنے کے اپنے گھر سے ہی چندہ بھجوا دیا کریں۔ …بچے بھی کس طرح قربانی کا شعور رکھتے ہیں۔ ایسے بچے جو غریب ممالک میں ہیں اور ایسا شعور ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے بچوں کو، پڑھے لکھے بچوں کو بھی بعض جگہ یہ شعور نہیں ہے۔ اس کا واقعہ یوں ہے کہ حسین یوسف صاحب زنجبار کے علاقے کے مبلغ کہتے ہیں۔ بچے مسجد سے باہر کھیل رہے تھے تو ایک بزرگ وہاں سے گزرے انہوں نے خوش ہو کر بچوں کو ٹافیاں خریدنے کے لیے چودہ سو شلنگ دیے۔ بچے پیسے لے کر ایک احمدی دکاندار کے پاس گئے اور ان پیسوں کے سکے تبدیل کروا لیے۔ چھوٹا چینج کروا لیا۔ اور اپنے اپنے حصوں کے پیسے بجائے ٹافیاں خریدنے کے چینج کرا لیے۔ نوٹ تڑوا لیا اور سب بچے سکے لے کر مسجد آئے اور اپنے اپنے حصے کے پیسوں میں سے ایک ایک سو شلنگ چندہ ادا کیا اور بڑی خوشی سے اپنی اپنی رسید اپنے پاس رکھی۔ جب احمدی دکاندار کو علم ہوا کہ بچوں نے چندہ ادا کرنے کے لیے سکے تبدیل کروائے تھے تو اس کی بھی حیرت کی انتہا نہیں رہی۔ اور یہی بچے ہیں جو ان شاء اللہ جماعت احمدیہ کی مضبوط بنیادیں بن جائیں گے۔ پھر بچوں کی قربانی کا ایک اور عجیب نظارہ ہے۔ یہ بھی تنزانیہ کا ہی ہے۔ اس کے بارے میں سموئے (Samuye) کے معلم لکھتے ہیں کہ جماعت میں تین بچے ہیں جو چوتھی جماعت میں پڑھتے ہیں، باقاعدگی سے مسجد میں تعلیمی اور تربیتی کلاسز میں شامل ہوتے ہیں۔ تینوں بچوں کے گھرانے مالی لحاظ سے غریب ہیں۔ کوئی مستقل آمدنی کا ذریعہ نہیں۔ گذشتہ ماہ سے یہ آپس میں مقابلہ کرتے تھے اور مقابلے میں چندہ تحریک جدید ادا کرنے کی طرف ان کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ ہر ایک علیحدگی میں اپنا چندہ لاتا تھا اور کوشش کرتا تھا کہ جتنی بھی رقم اس کے پاس موجود ہے وہ ادا کرے اور اس طرح انہوں نے کسی نے پانچ سو، کسی نے چار سو، سات سو شلنگ جو بھی ان کے پاس تھا دیا اور کہتے ہیں کہ جب ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ تم جو یہ چندہ تحریک جدید لاتے ہو، یہ پیسے کہاں سے لے کے آتے ہو؟ ایک نے بتایا کہ اپنی والدہ کے ساتھ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے میں مدد کرواتا ہوں تو جیب خرچ کے طور پر جو پیسے ملتے ہیں اس میں سے چندہ تحریک جدید کے لیے رکھ لیتا ہوں اور کہتے ہیں کہ جب سے میں نے چندہ ادا کرنا شروع کیا ہے ہمیشہ لکڑیوں کے گاہک فوری طور پہ مل جاتے ہیں اور کبھی نقصان نہیں ہوا۔ دوسرے بچے نے بتایا کہ وہ بھی اپنی جیب خرچ میں سے چندے کی رقم علیحدہ کرتا ہے۔ تیسرے بچے نے بتایا کہ اس کے گھر کے قریبی درختوں پر پھل وغیرہ لگتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ اپنے کھانے کے لیے پھلوں سے زائد کو بیچ بھی دیتا ہے جس سے حاصل ہونے والی رقم سے چندہ ادا کر دیتا ہے۔ ان تینوں بچوں نے چندے کی برکات کا بھی بیان کیا کس طرح چندہ کی ادائیگی سے ان کی زندگی میں سکون محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو ایمان و اخلاص میں بڑھاتا چلا جائے۔ یہ ہے ایمان جس سے ہمارے بچے بھی مزہ لوٹتے ہیں۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: تحریک جدید کی مالی قربانی کے بعض ایمان افروز واقعات