توبہ دراصل حصول اخلاق کے لئے بڑی محرک اور مؤیّد چیز ہےاور انسان کو کامل بنادیتی ہے۔ یعنی جو شخص اپنے اخلاق سیّئہ کی تبدیلی چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ سچے دل اور پکے ارادے کے ساتھ توبہ کرے۔ یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ توبہ کے تین شرائط ہیں۔بدوں اُن کی تکمیل کے سچی توبہ جسے توبۃ النصوح کہتے ہیں حاصل نہیں ہوتی۔ ان ہرسہ شرائط میں سے پہلی شرط جسے عربی زبان میں اِقْلَاع کہتے ہیں۔ یعنی ان خیالاتِ فاسدہ کو دور کردیا جاوے جو ان خصائل ردیّہ کے محرک ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ تصورات کا بڑ ابھاری اثرپڑتا ہے کیونکہ حیطۂ عمل میں آنے سے پیشتر ہرایک فعل ایک تصوّری صورت رکھتا ہے۔ پس توبہ کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ان خیالاتِ فاسد و تصورات بد کو چھوڑدے۔ مثلاً اگر ایک شخص کسی عورت سے کوئی ناجائز تعلق رکھتا ہو تو اسے توبہ کرنے کے لئے پہلے ضروری ہے کہ اس کی شکل کو بدصورت قراردے اور اس کی تمام خصائل رذیلہ کو اپنے دل میں مستحضر کرے کیونکہ جیسا مَیں نے ابھی کہاہے تصورات کا اثر بہت زبردست اثر ہے اور میں نے صوفیوں کے تذکروں میں پڑھا ہے کہ انہوں نے تصوّر کو یہانتک پہنچایا کہ انسان کو بندر یا خنزیر کی صورت میں دیکھا۔ غرض یہ ہے کہ جیسا کوئی تصوّر کرتاہے ویسا ہی رنگ چڑھ جاتا ہے۔ پس جو خیالات بد لذّات کا موجب سمجھے جاتے تھے ان کا قلع قمع کرے۔ یہ پہلی شرط ہے۔ دوسری شرط ندم ہے یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا۔ ہر ایک انسان کا کانشنس اپنے اندر یہ قوت رکھتا ہے کہ وہ اس کو ہر برائی پر متنبہ کرتا ہے مگر بدبخت انسان اس کو معطل چھوڑدیتا ہے۔ پس گناہ اور بدی کے ارتکاب پرپشیمانی ظاہر کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لذات عارضی اور چندروزہ ہیں اور پھر یہ بھی سوچے کہ ہر مرتبہ اس لذت اور حظ میں کمی ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بڑھاپے میں آ کر جبکہ قویٰ بیکار اور کمزور ہوجائیں گے آخر ان سب لذّاتِ دنیا کو چھوڑنا ہوگا۔ پس جبکہ خود زندگی ہی میں یہ سب لذّات چھوٹ جانے والی ہیں تو پھر ان کے ارتکاب سے کیاحاصل؟ بڑا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جو توبہ کی طرف رجوع کرے اور جس میں اول اِقلاع کاخیال پیداہو یعنی خیالات فاسدہ و تصوّرات بیہودہ کو قلع قمع کرے۔ جب یہ نجاست اور ناپاکی نکل جاوے تو پھر نادم ہو اور اپنے کئے پرپشیمان ہو۔ تیسری شرط عزم ہے۔ یعنی آئندہ کے لئے مصمّم ارادہ کرلے کہ پھر ان برائیوں کی طرف رجوع نہ کرے گا۔ اور جب وہ مداومت کرے گا تو خداتعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطاکرے گا یہانتک کہ وہ سیِّئات اس سے قطعاً زائل ہوکر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گے اور یہ فتح ہے اخلاق پر۔ اس پر قوت اور طاقت بخشنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے۔ جیسے فرمایا اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا (البقرۃ: ۱۶۶)۔ ساری قوتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں اور انسان ضعیف البنیان تو کمزور ہستی ہے۔ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا (النساء: ۲۹) اس کی حقیقت ہے۔ پس خداتعالیٰ سے قوت پانے کے لئے مندرجہ بالا ہر سہ شرائط کو کامل کرکے انسان کسل اور سستی کو چھوڑدے اور ہمہ تن مستعد ہوکر خداتعالیٰ سے دعا مانگے۔ اللہ تعالیٰ تبدیلِ اخلاق کردے گا۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۳۸تا ۱۴۰۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء مطبوعہ لندن) مزید پڑھیں: جو حصے خدا نے قرار دے دیئے ہیں اُن پر کاربند ہو جاؤ