حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’متقی بنو، سب سے بڑے عابد بن جاؤ گے۔ قناعت اختیار کرو سب سے زیادہ شکر گزار بن جاؤ گے۔ لوگوں کے لئے وہی چاہو جو اپنے لئے چاہتے ہو حقیقی مومن بن جاؤ گے۔ اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرو حقیقی مسلمان بن جاؤ گے۔ کم ہنسو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ بنا دیتا ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الورع وا لتقویٰ) تو اس حدیث میں تقویٰ کے بعد جو دوسری اہم بات بیان کی گئی ہے وہ قناعت ہے کہ قناعت اختیار کرو۔ کیونکہ قناعت تمہیں شکرگزار بندہ بنا دے گی اور اگر تم شکر گزار بن گئے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم پھر میرے فضلوں کواور بھی زیادہ حاصل کرنے والے ہوگے۔ مومن کا کام ہے کہ پوری محنت سے اپنے کام پر توجہ دے، تمام میسر وسائل کو بروئے کار لائے اور پھر جو کچھ حاصل ہو اس پر قناعت کرے اور الحمدللہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے اس طرح نوازتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ اور بعض دفعہ بعض لوگوں کو ان کی پسند کا کام یا پسند کی تنخواہ نہیں ملتی اور یہ صورت پاکستان وغیرہ تیسری دنیا کے ممالک میں بھی ہے اور یہاں یورپ امریکہ وغیرہ میں بھی ہے کہ پڑھا لکھا ہونے کے باوجود اکثر آج کل دنیا کے جو معاشی حالات ہیں اس میں مرضی کا یا اس معیار کا کام نہیں ملتا کیونکہ بے روزگاری بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ تو ان حالات میں ہمیں جو کچھ کام میسر آتا ہے کر لینا چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا تو بہرحال بہتر ہے۔ تو پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے۔ میرے پاس بھی کئی لوگ مشورے کے لئے آتے ہیں تو میں نے جس کو بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ جو بھی کام ملتا ہے کر لو تو پہلے جو فارغ تھے اب کچھ نہ کچھ کام پر لگ گئے ہیں اور پھر بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کام پر لگنے کے بعد وہ بہتر کام کی تلاش کرتے رہتے ہیں اور قناعت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنے رہتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے پھربہتری کے سامان بھی پیدا فرما دئیے۔ اور بہتر ملازمتیں مل گئیں۔… بعض دفعہ انسان سوچتا ہے کہ یہ بھی میری ضرورت ہے یہ بھی میری ضرورت ہے لیکن جب قناعت کی عادت پڑ جائے تو ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی جنہیں پہلے وہ بہت اہم سمجھتا تھا۔ او راس طرح بچت کی بھی عادت پڑ جاتی ہے۔ اور ایک احمدی کو بچت کی عادت پڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی خاطر مالی قربانی کی بھی عادت پڑ جاتی ہے۔ پھر ایک نیکی سے دوسری نیکیاں جنم لیتی رہتی ہیں۔ سوائے اس کے کہ کوئی انتہائی کنجوس ہو وہ توصرف بچت کرکے صرف پیسے ہی جوڑتا ہے وہ تو استثناء ہوتے ہیں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال نصف معیشت ہے۔ اور لوگوں سے محبت سے پیش آنا نصف عقل ہے اور سوال کو بہتر رنگ میں پیش کرنا نصف علم ہے۔‘‘(بیھقی فی شعب الایمان۔ مشکوٰۃ باب الخدرالثانی فی السور صفحہ ۴۳۰) (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍اپریل۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۴؍جون۲۰۰۴ء) مزید پڑھیں: دوسروں کو علم سکھانا صدقہ جاریہ ہے