(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات،گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) مکرم عبد العزیز محمد الشریف صاحب مکرم عبد العزیز زکی محمد الشریف صاحب کا تعلق مصر سے ہے جہاں ان کی پیدائش 1951ء میں ہوئی اورپھر 2009ء میں تقریبًا 58سال کی عمر میں انہیں بیعت کرنے کی توفیق ملی۔وہ احمدیت کی طرف اپنے سفر کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : مذہبی پس منظراور دنیاداری مَیں مصر کے شہر طنطا میں پروان چڑھاجہاں سیدی بدوی نامی ایک صوفی ولی اللہ کی قبر ہے۔ میرے والد صاحب سیدی بدوی کے عقیدتمندوں میں سے تھے اور والد صاحب کی ان سے محبت اس وقت اوربھی زیادہ ہوگئی جب محکمہ اوقاف کی طرف سے سیدی بدوی ٹرسٹ کے تحت بنائے گئے گھروں میں سے ایک گھر میرے والد صاحب کو مل گیا۔والد صاحب معمولی ملازم تھے لیکن متدیّن مزاج اور نمازوں کے پابند تھے اور مجھے بچپن سے ہی ہمیشہ اپنے ساتھ نماز کے لئے لے جاتے تھے۔ گھر کے دینی ماحول اور والد صاحب کی توجہ کی وجہ سے دورانِ تعلیم دینی امور کے ساتھ شغف بڑھتا گیا۔ لیکن جب یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کر کے میں نے میڈیسن کی ایک انٹرنیشنل کمپنی میں بحیثیت اکاؤنٹنٹ کام شروع کردیا۔ اسی دوران جب میں نے شادی کی تو میری توجہ اپنے کام اور خاندان کی طرف زیادہ ہو گئی اور دینی پہلو اس حد تک کمزوری کا شکار ہوگیا کہ میں نے نماز بھی چھوڑ دی اور دنیاداری میں ہی غرق ہو کر رہ گیا۔ بے وضو نماز! اللہ تعالیٰ نے مجھے چار بچے عطا فرمائے اور میں مادی لحاظ سے ان کی بہتر زندگی کی خاطردن رات کام کرنے لگا۔ اسی دھن میں 1992ء میں زیادہ کمائی کی خاطرمیں سعودی عرب چلا گیا۔ سعودی عرب کے بارہ میں میرے بہت اچھے خیالات تھے لیکن وہاں پر اخلاقی اور روحانی لحاظ سے جو کچھ مَیں نے دیکھا وہ ناقابل یقین تھا۔ امر بالمعروف نامی کمیٹی کے ارکان لوگوں کو جبرًا نماز پڑھاتے تھے حتی کہ میں نے دیکھا کہ لوگ اس کمیٹی کے خوف سے بے وضو ہی نماز کے لئے روانہ ہوجاتے تھے۔نماز تو خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرتی ہے لیکن ایسی جبر واکراہ کی نماز اللہ سے محبت تو درکنار خود نماز کی محبت بھی دل سے نکال دیتی ہے اور جبر ختم ہوتے ہی انسان اس قید سے آزاد ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری جانب اخلاقی گراوٹ اور سخت دلی انتہا تک پہنچی ہوئی تھی۔چھلکے پر بہت زورتھا اورمغزکی کوئی پرواہ نہ تھی۔ متضاد طرز عمل بعض آئمۂ مساجد اپنے خطبوں میں یہود ونصاریٰ پر لعنتیں بھیجتے تھے لیکن شاید انہیں یاد نہیں رہتا تھا کہ جس لاؤڈ سپیکر اور مائیکروفون کو وہ استعمال کررہے تھے یا وہ تمام اشیاء جو ان کی روز مرہ کی زندگی کو پُرآسائش بنانے میں اہم کردار ادا کررہی تھیں وہ انہی یہود ونصاریٰ نے ہی ایجاد کی تھیں۔ یہ حالت دیکھ کر میں نے کہا کہ یہ مولوی تو منافقانہ طرز عمل کے مرتکب ہورہے ہیں اور اسلام کی صحیح تعلیم سے کوسوں دور ہیں۔ شرک کے قائل توحید کے علمبردار! میرے دل میں اب یہ خیال بھی بشدّت پنپنے لگاتھا کہ کہیں کوئی غلطی ضرور ہے۔اورا س وقت تو میرا شک یقین میں بدلنے لگا جب میں نے ایک طرف مسیح ِدجال کے بارہ میں ایسی عجیب وغریب مبالغہ آمیز باتیں سنیں جو اسے الوہیت کے مقام تک لے جاتی تھیں اور دوسری طرف مسیح ناصریؑ کے معجزات کے بارہ میں اس قدر مبالغہ آرائی کا علم ہوا جو انہیں الوہیت کے مقام پر پہنچا دیتی تھی۔ یوں جہالت اور لفظوں کے ظاہری معانی تک محدودورہنے والی فاسد سوچ پر مبنی غلط تفاسیرنے مسیح دجال اورمسیح ناصریؑ کو خدا بناڈالا تھا۔ سائنس اور مذہب کو لڑانے کی کوشش ابھی یہ عقائد کی مشکلات کم نہ ہوئی تھیں کہ انہی ایام میں مجھے مفتی سعودیہ کی ایک کتاب ملی جس میں انہوں نے قرآن وسنت سے زمین کے بیضوی نہ ہونے پر 70 دلائل درج کئے تھے۔اور عجیب بات یہ ہے کہ مفتی صاحب زمین کی گردش کے بھی حق میں نہیں تھے بلکہ انہوں نے زمین کی گردش پر یقین رکھنے والوں کو بھی جہالت کا طعنہ دیا تھا۔ میں حیران ہوگیا کہ تمام سعودیہ اور اسلامی ممالک کے مدارس کی کتب میں یہ معلومات پڑھائی جاتی ہیں جن کا مفتی صاحب انکار کررہے ہیں اور یوں تمام مدرّسین اور تمام مدارس کے مہتممین اورسارا تعلیمی نظام ہی مزعومہ ’’جہالت‘‘ سکھاتا ہے جو مفتی صاحب کے بقول قرآن وسنت کے خلاف ہے!! علاوہ ازیں کچھ اوربھی ایسے امورتھے جن کی بنا پر میرے ذہن میں سوالوں او راعتراضات کی بھرمار ہونے لگی اور میرے دل میں اپنے موروثی عقائد اور ان علوم کے بارہ میں شک پیدا ہونا شروع ہو گیا جو میں نے مولویوں سے سیکھے تھے۔ ایم ٹی اے سے تعارف میں 2001ء میں سعودیہ سے مصر واپس آیا تو میرے بچوں نے گھر کی بالکونی میں بہت بڑی ڈش لگا کر مختلف ٹی وی چینلز دیکھنے کا انتظام کیا ہوا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے گھر کے اردگر دبننے والی بلند وبالا عمارتوں وغیرہ کی وجہ سے سیٹلائٹ ڈش کا سگنل کمزور ی کا شکار ہوگیا۔ چنانچہ میں نے ایک ایکسپرٹ کو بلایا تو اس نے بالکونی کی بجائے ڈش کو چھت پر لگانے کامشورہ دیا۔ چنانچہ ایسا کرنے سے تمام چینلز کی فریکوئینسی کو دوبارہ سیٹ کرناپڑا۔اور اس دوران MTAنامی ایک چینل بھی سامنے آیا تو اس ایکسپرٹ نے کہا کہ اس چینل کو ہرگز نہ دیکھنا۔ مَیں نے اس کا سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ دیکھو یہ لوگ کس طرح قرآن کریم کی تحریف کرکے مسلمانوں کے ذہنوں کو خراب کررہے ہیں۔ پھر اس نے اپنی بات کے ثبوت میں چینل کو سیٹ کر کے آواز اونچی کردی۔ اس وقت پروگرام ’الحوار المباشر‘ لگا ہوا تھاجس کا عنوان تھا حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت سے نجات۔چند جملے ہی سنے تھے کہ مجھے محسوس ہوا کہ میں جس راستے کی تلاش میں ہوں اور اس پر چلنا چاہتا ہوں شاید اس کی ابتدا اسی چینل سے ہونا مقدر ہے کیونکہ جو چند جملے میں نے سنے تھے ان سے تو قرآن وسنت کا بول بالا ہوتا تھا اور وہ غلط فہمی کو دور کرنے والے تھے۔ میں نے اس ایکسپرٹ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا تاہم اسی وقت اس چینل کو دیکھنے کا مصمّم ارادہ کر لیا۔ تائید الٰہی کا احساس میں اپنے کام سے واپس آکر ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتا اور رات گئے تک اس چینل کے پروگرامز دیکھتا رہتا۔رفتہ رفتہ میرا دل اس چینل کے ساتھ ایسا لگ گیا کہ میں اس کے علاوہ اور کوئی چینل نہ دیکھتا تھا۔ علمی اور روحانی علوم سے بہرہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ اس ٹی وی کے پروگرامز دیکھنے کے دوران ایک عجیب و غریب امرمیرے سامنے آیا،اور وہ یہ کہ اس کے پروگرامز دیکھنے کے دوران جو بھی سوالات میرے ذہن میں اٹھتے ان کا جواب یا تو کچھ دیر بعداسی پروگرام میں یا اگلے روز کسی دوسرے پروگرام میں مل جاتا۔ ایسا ایک مرتبہ نہیں ہوا بلکہ بار بارہوا اور اس بنا پر مجھے خدا تعالیٰ کی خاص تائید کا احساس ہونے لگا۔ اُن کا اسلام اور حقیقی اسلام اس چینل پر پیش کئے جانے والے خیالات، تفاسیر او ر مفاہیم دل میں اترنے والے اور عقل ومنطق کے عین مطابق تھے ان کو سننے سے ذہنی سکون اور قلبی سرور ملتا تھا۔اور حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی عظمت اور عُلوّ شان ثابت کرنے والے امور کو سن کرمجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہونے لگاتھا۔اس عرصہ میں مجھے اس اسلام میں جسے مولوی حضرات پیش کرتے تھے اور اس اسلام میں جسے جماعت احمدیہ پیش کررہی تھی بہت واضح فرق محسوس ہونے لگا تھا۔ مولوی حضرات جس اسلام کو پیش کرتے تھے وہ خرافانہ تفاسیر اور بے سروپا قصوں اور کہانیوں کا مجموعہ تھا یہ ایسا اسلام تھا کہ جس میں اگر کوئی داخل ہوجائے توپھر اس سے باہر نکلنے کا ہر دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ ایسا اسلام جس میں اختلاف رائے کی سزا بھی موت ہوسکتی ہے ، جس میں جبر واکراہ کی حکومت ہے۔یہ اسلام بے سکونی کے جذبات پیدا کرتا تھا، شکوک کے دروازے کھولتا تھااور بے شمار ایسے اعتراضات پیدا کرتا تھا جن کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس کے بالمقابل جماعت احمدیہ کا پیش کردہ اسلام فخر واعتزاز کا باعث تھا کیونکہ ان کے پیش کردہ اسلام کی عظیم الشان تعلیمات اسے عالمی دین کے طور پر پیش کرتی تھیں ، اس میں تقویٰ کے علاوہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں تھی۔اس میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کو مالک یوم الدین کے طو رپر پیش کیا جاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ دین کے معاملہ میں کسی انسان کی طرف سے کوئی جبر نہیں ، نہ کسی مرتد کا قتل جائز ہے۔ اگر کسی مرتد کو سزا دی گئی تو اس کے محارب قبائل سے جا ملنے اور آمادہ بجنگ ہونے کی بنا ء پر دی گئی، محض ارتداد کی بناء پر کوئی سزا نہیں دی گئی۔اس اسلام میں لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے مولوی کے ہاتھ میں نہیں۔ یہی تو وہ اسلام ہے جس میں خدا کی توحید غیر معمولی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں رہتا نہ عیسیٰ علیہ السلام اور نہ ہی مسیح الدجال۔ یہی تو وہ اسلام ہے جس کی پیروی کر کے اُمّت اسلامیہ خیر اُمّت کہلانے کی مستحق ٹھہرتی ہے۔اور اسی بنا پر اس شرف کی حقدار ٹھہری کہ آنے والا موعود مسیح اسی امت سے ہو۔ ثریا سے اترنے والا کنز ِایمان یہ سب جاننے کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ آج وہ مسیح الزمان آچکا ہے اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے عین موافق اسلامی تعلیمات کے روحانی خزانے کو ثریا سے لا کر اس دنیا میں تقسیم کردیا ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر مجھے اس بات میں ادنیٰ شک بھی نہ رہا کہ جو اسلام جماعت احمدیہ پیش کررہی ہے وہی صحیح اسلام ہے جو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور آپ نے اسے پھیلایا۔چنانچہ میں نے انشراح قلب کے ساتھ اس جماعت میں داخل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ مامور من اللہ کاکلام میں نے ویب سائٹ پرجماعت میں شمولیت کی خواہش کا پیغام بھیجا تو چند روز کے بعد جماعت احمدیہ مصر کے ایک دوست نے مجھ سے رابطہ کیا اور پھر جب ہماری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب فلسفۃ تعالیم الاسلام (اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ) دی۔ یہ کتاب غیر معمولی تصنیف ہے۔ایسے روحانی خیالات کو پڑھ کر روح وجدمیں آگئی اور یقین ہوگیا کہ اس کتاب کا مؤلف خدا کا فرستادہ ہے۔چنانچہ میں نے اس احمدی دوست کو فون کر کے بیعت کرنے کا اظہار کیا۔ بیعت۔۔روحانی پیدائش جب میں بیعت کی غرض سے حاضر ہوا اور دوستوں سے ملا تو انہوں نے مجھے نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے مختص جگہ کے بارہ میں بتایا۔ عجیب بات ہے کہ یہ اس محلہ میں تھی جہاں میری دوسری بیوی کی رہائش ہے۔ مَیں نے وہاں پر بیعت فارم پُر کردیااور اس روز میں نے محسوس کیا کہ شاید میری حقیقی تاریخ پیدائش یہی ہے کیونکہ آج میں حقیقی زندگی کے رازآشناؤں سے جا ملا تھا۔اب مجھے نمازوں اورعبادتوں کی حقیقی لذتوں سے تعارف ہوا تھا۔بیعت کے بعد میری زندگی بدلنے لگی اور روحانی ومادی لحاظ سے ترقی محسوس ہونے لگی۔اسی طرح ان برکات کا ظہور میرے گھر میں بھی ہواجو دینی اور دنیوی اعتبار سے خدا کے فضلوں اور برکات سے بھر گیااور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ا ن برکات کو دائمی بنا دے اوردیگر مسلمانوں کو بھی اس ہدایت کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ ……………… (باقی آئندہ)