https://youtu.be/dBmJHoYeh7U ایک مخلص ، نافع الناس اور خدمت گار وجود سلسلہ کے ایک مخلص، خدمت گار، نافع الناس اور ہمارے بزرگ دوست محترم بشیر احمد سیفی صاحب سابق صدر محلہ دارالرحمت غربی و سیکرٹری مال لوکل انجمن احمدیہ ربوہ مورخہ ۱۲؍فروری ۲۰۲۵ء کو ۷۹؍سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔۱۴؍فروری بعد نماز جمعہ خاکسار نے بیت الناصر دارالرحمت غربی میں آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ دارالفضل میں آپ کی تدفین ہوئی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت اِس مخلص خادم کی نماز جنازہ غائب ۱۲؍مارچ ۲۰۲۵ء کو پڑھائی۔ نماز جنازہ غائب سے پہلے آپ کا تفصیلی تعارف بھی پیش کیا گیا۔ (الفضل انٹر نیشنل ۸؍اپریل ۲۰۲۵ء) ابتدائی حالات اور خاندان میں احمدیت: بشیر احمد سیفی صاحب کی پیدائش جنوری ۱۹۴۶ء میں بستی رنداں ضلع ڈیرہ غازی خان میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم کا نام حاجی قادر بخش صاحب تھا۔ یہ پیدائشی احمدی تھے۔ اِن کی وفات ۱۹۶۲ء میں ہوگئی۔ آپ کے والد صاحب موصی تھے لیکن ان کی تدفین گاؤں میں ہی ہوئی۔ محترم سیفی صاحب کے دادا محمد بخش صاحب نے ۱۹۰۷ء میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں بیعت کی سعادت حاصل کر لی تھی لیکن قادیان نہ پہنچ سکے اور مسیح دوراں کی زیارت نہیں ہوسکی۔ سیفی صاحب کے ماموں محمد موسیٰ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ یہ مکرم عبدالحکیم جوزا صاحب مربی سلسلہ کے والد محترم تھے۔ یہ موصی تھے۔ ان کی تدفین بھی بستی رنداں میں ہی ہوئی اور یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں لگا ہوا ہے۔ محترم بشیر سیفی صاحب ابھی دو سال کے تھے جب آپ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کی والدہ محترمہ سے آپ کے والد کی دوسری شادی تھی اور والدہ بھی بیوہ تھیں۔ دوسری شادی سے پہلے آپ کی والدہ کا ایک بیٹا محترم مولوی محمد الدین مربی سلسلہ (سندھ ہومیوپیتھی والے) تھے۔ سیفی صاحب نے مڈل تک تعلیم ضلع جھنگ کے ایک گاؤں کوٹ عیسیٰ شاہ سے حاصل کی جہاں آپ کے والد صاحب پڑھائی کے لیے آپ کو اپنے بھائی یعنی سیفی صاحب کے چچا کے پاس چھوڑ آئے۔ آپ کے چچا وہاں استاد تھے۔ میٹرک اور ایف اے آپ نے چنیوٹ سے کیا جہاں آپ کے بھائی ماسٹر عبدالجبار صاحب بطور استاد ملازم تھے۔ ۱۹۶۷ء میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے آپ نے بی اے کیا۔ ربوہ میں شادی سے قبل آپ کی رہائش اپنے بھائی ماسٹر عبدالجبار صاحب کے ہاں دار النصر غربی میں رہی۔ یو بی ایل میں ملازمت: یو بی ایل سیفی صاحب کی پہچان تھا۔ آپ کو اہل ربوہ خاص طور پر یو بی ایل یا دارالرحمت غربی کے صدر محلہ کی وجہ سے جانتے ہیں۔ آپ نے ۱۹۶۹ء میں آفیسر گریڈ III میں بھرتی ہو کر ملازمت کا آغاز کیا اور ترقی کرتے کرتے ۲۰۰۶ء میں بطور اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ(AVP) ریٹائر ہوئے۔ آپ کی ملازمت کا زیادہ عرصہ ربوہ میں گزرا اور یہاں لمبا عرصہ برانچ مینیجر کے طور پر خدمت کی۔ آپ کی پہلی تقرری راولپنڈی میں ہوئی تھی۔ وہاں سے جہلم تبادلہ ہوا۔ ۱۹۷۴ء کے زمانہ میں جب جماعت کے خلاف حالات کیے جا رہے تھے اُن دنوں آپ جہلم میں تعینات تھے اور ایک معروف احمدی کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ۱۹۷۷ء میں آپ یو بی ایل ربوہ کے مینیجر بن گئے۔ ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۴ء تک چنیوٹ برانچ کے مینیجر اور ۱۹۸۴ء تا ۱۹۸۸ء دوبارہ ربوہ بطور برانچ مینیجر تبادلہ ہوا۔ ایک سال لالیاں پھر ربوہ اور چنیوٹ اور آخری پانچ سال ۲۰۰۱ء تا ۲۰۰۶ء آپ ربوہ برانچ کے مینیجر رہے اور اہل ربوہ کی خوب خدمت کی توفیق پائی۔ جماعتی خدمات: محترم بشیر احمد سیفی صاحب ۱۹۸۰ء تادم واپسیں یعنی پینتالیس سال مختلف عہدوں پر جماعتی خدمات بجا لاتے رہے۔ آپ نے دارالرحمت غربی میں بطور صدر محلہ اور ممبر عاملہ پینتالیس سال خدمت کی ہے۔ آپ پچیس سال صدر محلہ رہے اور بیس سال دیگر عہدوں جن میں سیکرٹری اصلاح و ارشاد، سیکرٹری امور عامہ، اسسٹنٹ سیکرٹری مال، جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری تحریک جدید کے طور پر خدمات بجالاتے رہے۔ لوکل انجمن احمدیہ ربوہ میں اڑتیس سال خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ آپ کو ۱۹۸۴ء میں سیکرٹری مال لوکل انجمن احمدیہ ربوہ بنایا گیا تھا۔ اس وقت صدر عمومی ربوہ محترم حکیم شیخ خورشید احمد صاحب تھے۔ آپ بتاتے تھے کہ آپ سے پہلے کوئی سیکرٹری مال ربوہ نہ تھا۔ سیکرٹری مال کے ساتھ ساتھ تحریک جدید اور وقف جدید کے شعبہ جات بھی آپ کے سپرد تھے۔ آپ پینتیس سال یعنی ۲۰۱۹ء تک سیکرٹری مال ربوہ رہے اور پانچ صدرانِ عمومی کے ساتھ کام کا موقع ملا۔ ۲۰۱۹ء تا ۲۰۲۲ء آپ معاون صدر عمومی رہے۔ جب آپ سیکرٹری مال ربوہ تھے تو آپ کے ساتھ آپ کی گاڑی بھی دورہ جات کے لیے وقف ہوا کرتی تھی۔ خود بھی دورہ جات پر نکلتے اور آخری برسوں میں نائب صدر عمومی چودھری محمد خالد گورایہ صاحب کے ہمراہ بھی دورے کرتے تھے۔ آپ کی گاڑی نہ صرف جماعتی کاموں میں استعمال ہوتی تھی بلکہ خدمتِ خلق کے لیے بھی رواں دواں رہتی تھی۔ جس کسی نے کام کہا اُس کے ساتھ چل پڑے۔ دفتر آتے ہوئے مَیں نے دیکھا کہ آپ صبح اپنے ساتھ محلے کے بعض بزرگان کو بھی اپنی کار پر لے کر آتے تھے۔ یہ سلسلہ ایک عرصہ تک جاری رہا۔ مجلس انصار اللہ پاکستان میں خدمات: محترم سیفی صاحب ۲۰۰۶ء میں یو بی ایل سے ریٹائر ہوئے۔ محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ان دنوں صدر انصار اللہ پاکستان تھے، انہوں نے آپ کو بلایا اور کہا کہ آپ بطور نائب قائد عمومی ملازمت میں آجائیں۔ آپ نے کہا کہ میں رضا کارانہ خدمت کروں گا، مشاہرہ نہیں لوں گا۔ چنانچہ آپ نے باقاعدگی کے ساتھ روزانہ قیادت عمومی انصاراللہ میں دفتری اوقات میں رضاکارانہ طور پر آنا شروع کر دیا۔ وقت کی پابندی کرتے تھے۔ آپ کے سپرد زیادہ تر ٹیلی فون سننا، میٹنگز کی یاد دہانیاں کروانا اور ڈاک وصول کر کے متعلقہ شعبہ جات کی فائلز میں رکھنا ہوتا تھا۔ میں جب قائدعمومی تھا تو میرے ساتھ بھی انہوں نے کام کیا۔ ۲۰۰۶ء سے اکتوبر ۲۰۲۰ء تک آپ انصاراللہ پاکستان میں بڑی باقاعدگی کے ساتھ مسلسل چودہ سال رضاکارانہ خدمات بجا لاتے رہے۔ دورانِ ملازمت مشکلات اور اسیری: ملازمت کے دوران آپ کو جماعتی حوالے سے بعض مشکلات اور قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا۔ ۱۹۷۴ء کے زمانہ میں آپ جہلم میں متعین تھے جب جماعت کے خلاف شورش برپا کی گئی۔ جہلم میں آپ بہت معروف احمدی تھے اور احمدی احباب کے ساتھ ہی اٹھنا بیٹھنا تھا۔ بینک میں ایک معاند نے مخالفت شروع کر دی۔ افسران بالا نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ کچھ عرصہ کے لیے ربوہ چلے جائیں۔ آپ جہلم میں اپنے گھر میں ہی موجود تھے جب جلوس آپ کے گھر کی طرف آیا۔ اُس گھر کے دو حصے تھے ایک میں آپ اور ایک میں ایک غیر از جماعت سرکاری وکیل رہائش پذیر تھا۔سرکاری وکیل کی اہلیہ نے اپنے شوہر کو بذریعہ فون اطلاع کر دی کہ جلوس سیفی صاحب کی طرف آرہا ہے۔ وکیل نے کہا کہ انہیں فوراً گھر میں بلا لیں۔ چنانچہ انہوں نے آپ کو پناہ دی اور جلوس کو پولیس کے ذریعہ منتشر کر وا دیا۔ پھر انہی وکیل صاحب نے آپ کو اسی رات چناب ایکسپریس کے ذریعہ ربوہ کے لیے روا نہ کر دیا اور آپ بخیریت ربوہ پہنچ گئے۔ آپ تو خیریت سے ربوہ پہنچ گئے لیکن اگلے روز آپ کو یہ افسوسناک خبر ملی کہ آپ کے پیارے دوست محترم مقبول احمد سیٹھی صاحب کو جہلم میں شہید کر دیا گیا ہے۔ مقبول سیٹھی صاحب کی شہادت ۲؍جولائی ۱۹۷۴ء کو ۳۲؍ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ (شہدائے احمدیت ناشر طاہر فاؤنڈیشن صفحہ ۱۶۱ تا ۱۶۳)۔مقبول سیٹھی صاحب سیفی صاحب کے قریبی دوست تھے اور ان کا ‘‘مقبول شوز سٹور’’ آپ کے بینک کے پاس ہی تھا۔ انہوں نے سیفی صاحب کو کہا ہوا تھا کہ دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ کھایا کریں۔چنانچہ آپ دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ کھاتے۔ مقبول سیٹھی صاحب بہت فعال احمدی اور ملنسار وجود تھے۔ سیفی صاحب کو ہوٹل سے کھانا کھانے سے منع کر دیا اور خود مہمان نوازی کرتے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ‘‘مقبول ثانی’’ رکھا گیا جو اللہ کے فضل سے ڈاکٹر ہیں اور یوکے میں مقیم ہیں۔ سیفی صاحب نے بتایا کہ جہلم میں میری مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ میرا جماعت اور مسجد سے مضبوط رابطہ تھا اور احمدی احباب میرے پاس بینک میں آیا کرتے تھے۔ میں ان کے کام بھی کرتا اور ان کی تواضع بھی کیا کرتا تھا اور یہ بات بینک مینیجر کو کھٹکتی تھی۔اس وجہ سے میری وہاں مخالفت شروع ہوگئی۔حالات کچھ بہتر ہوئے تو آپ واپس جہلم چلے گئے اور پھر وہاں سے آپ کی ٹرانسفر سوہاوہ کے نزدیک ایک گاؤں میں کر دی گئی۔ آپ وہاں گئے تو آپ نے جاتے ہی بطور احمدی تعارف کروایا۔ آپ کو وہاں مینیجر کے طور پر بھیجا گیا اور پہلے مینیجر کو فراڈ کیس کی وجہ سے فارغ کیا گیا تھا۔ آپ کو وہاں مشورہ دیا گیا کہ آپ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ والی انگوٹھی نہ پہنا کریں۔ آپ نے یہ مشورہ ماننے سے انکار کر دیا کہ میں اسے نہیں اتاروں گا۔ معزول شدہ مینیجرنے آپ کے خلاف مذہبی بنیاد بنا کر وہاں سے نکالنے کے لیے بھی کوشش کی لیکن افسران بالا نے اس کی ایک نہ سنی۔ آپ کہتے تھے کہ بینک میں چونکہ بےضابطگی ہوئی تھی اس لیے انسپکشن ٹیم آئی۔ اس میں سے ایک ممبر نے میری الیس اللّٰہ کی انگوٹھی دیکھی تو مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں تو میں نے تعارف کروایا نیز یہ کہ میں احمدی ہوں تب انہوں نے کہا کہ میں بھی احمدی ہوں۔ اس طرح الیس اللّٰہ کی بابرکت انگوٹھی کا فائدہ ہوا کہ مجھے ایک احمدی نے پہچان لیا۔ ۱۹۸۴ء میں آپ چنیوٹ برانچ میں تھے تو اُن دنوں آپ پر مذہبی بنیاد پر ایک کیس قائم کر دیا گیا۔ آپ کے بارے میں یہ شکایت مارشل لاکورٹ میں کروا ئی گئی کہ یہ مرزائی ہے اور نظامِ زکوٰۃ کو خراب کرنے کا کام کر رہا ہے۔ مذہبی چارج لگا کر آپ کو گرفتار کر لیا گیا۔ ملٹری کورٹ میں مقدمہ کی سماعت ہوئی اوراس دوران آپ جیل میں رہے۔ دوران مقدمہ آپ کے محکمے نے آپ کا بہت ساتھ دیاکہ یہ جھوٹی درخواست دی گئی ہے اور ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ چنانچہ ایک ماہ میں کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا کہ سیفی صاحب مقدمہ سے بری ہیں اور شکایت کنندہ کو دو لاکھ جرمانہ اور چھ ماہ کی قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ مقدمہ خالصتاً آپ کے احمدی ہونے کی بنا پر کیا گیا تھا۔ آپ ایک ماہ اسیر رہے۔ اللہ تعالیٰ نے سر خرو کیا اور عدالت نے باعزت بری کر دیا۔ خدمتِ خلق کا وصف: خدمتِ دین کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ ایک نافع الناس وجود تھے۔ اہل محلہ کی خدمت پر ہر وقت کمربستہ رہتے۔ ان کے ذاتی کام، یوٹیلٹی بلز جمع کروانا، بیوگان، بے سہارا اور نادار لوگوں کے متفرق امور اور مسائل جن میں بینکوں، سرکاری دفاتر، کچہری اور جماعتی دفاتر کے کام شامل ہیں، ان میں ہمہ وقت مصروف رہتے۔ کئی لوگوں کے مکانوں کی ذمہ داری، ان کی دیکھ بھال، کرایہ وصول کر کے ان کے اکاؤنٹ میں جمع کروانا۔ شناختی کارڈ، میرج سرٹیفیکیٹ، برتھ سرٹیفیکیٹ اور دیگر کاغذات کے حصول کے لیے ان کے ساتھ چل پڑتے۔ اس کے لیے آپ کی کار بھی وقف تھی۔ ربوہ سے باہر کے عزیزوں کے کام جن کا تعلق جماعتی دفاتر سے ہوتا وہ سب بھی آپ نے اپنے ذمے لیے ہوئے تھے۔ مہمان نوازی آپ کا اعلیٰ وصف تھا۔ اس وصف سے ہم نے بھی خوب استفادہ کیا ہے۔ دوست احباب کی دعوتوں میں کھلے دل کے ساتھ اہتمام اور انتظام کرتے تھے۔ ہمارا ایک حلقہ احباب تھا اس کی دعوتیں بھی ہوتیں اور سیفی صاحب اپنی دعوت میرے ذمہ لگا دیتے کہ آپ انتظام کر دیں۔ بیرون ربوہ سے دوست احباب آتے تو ان کو بغیر دعوت کے جانے نہ دیتے تھے۔ کسی کی طرف سےکوئی تحفہ آتا تو اس سے بہتر تحفہ اس کو لوٹانے تک چین نہ آتا تھا۔ بطور صدر محلہ آپ کی ایک خوبی میں نے مشاہدہ کی کہ رمضان المبارک میں خاص طور پر اور بعض دیگر تقریبات کے لیے آپ بزرگان سلسلہ کو درس و تقریر کے لیے ان کے گھر لینے جاتے اور پھر واپس چھوڑ کر آتے۔ یہ آپ کا دستور سالہاسال تک چلتا رہا۔ بیت الناصر کی تعمیرِ نو: بیت الناصر دارالرحمت غربی ربوہ کی قدیم اور بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔ یہاں بہت سے بزرگان سلسلہ پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی اور درس دیتے رہے۔ یہ اپنی قدامت کی وجہ سے خستہ حال ہو رہی تھی اور تعمیر نو کی متقاضی تھی۔ چنانچہ اُس کی تعمیر نو کا مرحلہ آپ کے دورِصدارت میں سرانجام پایا۔ بیت الناصر کی کشادہ اور خوبصورت تعمیر نو سیفی صاحب کا عظیم کارنامہ ہے۔ اس کی تعمیر نو کا آغاز ۲۰۰۶ء میں ہوا اور تکمیل کے بعد ۲۳؍مارچ ۲۰۰۹ء کو اس کا افتتاح ہوا۔اس کی شاندار تعمیر نواللہ تعالیٰ کے فضل کے بعد محترم سیفی صاحب کی ذاتی توجہ، لگن اور محنت کا نتیجہ تھی۔ اس کار خیر میں احباب جماعت سے عطیات اکٹھے کرنے میں بھی سیفی صاحب نے خوب محنت کی۔ قادیان سے محبت: آپ کو قادیان سے بہت محبت تھی۔ آپ کی خواہش ہوتی کہ ہر سال جماعتی قافلہ کے ساتھ جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کریں۔ شعبہ حاضری و نگرانی کارکنان جلسہ سالانہ سے بھی وابستہ رہے۔ اس لحاظ سے ہمارے گروپ کے ساتھ کئی سال ڈیوٹیوں میں بھی شامل ہوئے۔ قادیان میں آپ کے کئی گھرانوں سے ذاتی مراسم تھے۔ جب بھی جاتے ان کے لیے تحائف لے کر جاتے۔ گذشتہ سال(۲۰۲۴ء) جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر آپ بیمار تھے اور سفر کے قابل نہیں تھے اور جلسہ گروپ میں شامل بھی نہ تھے۔ جب میں نے ملاقات میں بتایا کہ میں قادیان جا رہا ہوں تو آپ نے کہا کہ میرا ایک تحفہ میرے دوست کے لیے لے جائیں۔ چنانچہ میں نے آپ کا تحفہ آپ کے دوست کو قادیان میں دیا۔ آپ کے دوست بھی بہت خوش ہوئے کہ مجھے سیفی صاحب نے یاد رکھا ہے۔ جلسے کی بات شروع ہوئی ہے تو سیفی صاحب کئی سال تک جلسہ سالانہ برطانیہ میں بھی باقاعدہ شرکت کے لیے جایا کرتے تھے اور آپ کا مقصد خالصتاً جلسہ سالانہ میں شمولیت اور حضرت خلیفة المسیح سے ملاقات ہوتا تھا۔ چنانچہ آپ عموماً جلسہ سے ایک دو روز قبل جاتے اور جلسہ کے ایک دو روز بعد جلسہ سالانہ کی برکات کو سمیٹتے ہوئے واپس آجایا کرتے تھے۔ شادی و اولاد:۱۹۷۰ء میں محترم سیفی صاحب کی شادی مکرمہ بشریٰ مسرت صاحبہ بنت حکیم نیاز محمد صاحب سے ربوہ میں ہوئی۔ حکیم نیاز محمد صاحب قادیان سے ہجرت کے بعد پہلے دنیا پور میں آئے اور پھر ربوہ منتقل ہو گئے۔ وہ اللہ کے فضل سے موصی تھے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں۔آپ کی اہلیہ بشریٰ مسرت صاحبہ گورنمنٹ سکول ٹیچر تھیں۔ لالیاں اور احمدنگر میں ہیڈ مسٹریس بھی رہیں۔ ۱۹۹۸ء میں ریٹائرڈ ہوئیں۔ انہوں نے ۱۹؍جولائی ۲۰۲۴ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ دارالفضل میں مدفون ہیں۔ سیفی صاحب کو اپنی اہلیہ کی بیماری میں ان کی خوب خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ سیفی صاحب کی اولاد میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ سبھی شادی شدہ اور جرمنی میں ہیں۔ آپ کا ایک پوتا جامعہ احمدیہ جرمنی سے فارغ التحصیل اور میدانِ عمل میں ہے۔ بیماری اور وفات: سیفی صاحب عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔ اس کے علاوہ پھیپھڑوں کے بھی مسائل پیدا ہوگئے۔ اہلیہ کی وفات کے بعد کمزوری اور بیماری نے ترقی کی۔ متعدد بار ہسپتال میں داخل ہوئے لیکن ان حالات میں بھی دل نہیں چھوڑا اور جماعتی کام بھی کرتے رہے۔ گذشتہ سال اہلیہ کی وفات کے بعد مَیں ان کے ہاں گیا تو اس وقت بھی آپ فون پر ایک دوست سے چندہ تحریک جدید کے لیے کوشاں تھے۔ چنانچہ بیرون ملک سے محلے کے اس پرانے دوست نے ایک خطیر رقم چندہ تحریک جدید کے لیے بھجوائی۔ تو یہ سیفی صاحب کی جماعتی خدمت کی لگن تھی جو آخری بیماری میں بھی جاری رہی۔ آپ کی بیماری کے دوران جہاں آپ کے بچوں نے آپ کی خدمت کی وہاں آپ کے دوست انجینئر سیف اللہ باجوہ صاحب نے آپ کی بے لوث خدمت کی۔ نہ دن دیکھا نہ رات سیفی صاحب کے ہمراہ ہوتے اور ہسپتال میں کئی کئی روز خدمت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔ محترم سیفی صاحب اپنے طبی معائنہ کے لیے لاہور گئے ہوئے تھے کہ رات سوتے ہوئے ہی انتہائی پر سکون طریق پر حرکت قلب بند ہو جانے کے نتیجہ میں ۱۲؍فروری ۲۰۲۵ء کو ۷۹؍سال کی عمر میں راہیٔ ملکِ عدم ہو گئے۔ وفات کے وقت آپ کے بیٹے آپ کے پاس ہی موجود تھے۔ میت ربوہ لائی گئی۔ بچیوں کی آمد پر ۱۴؍فروری بروز جمعة المبارک آپ کا جنازہ ادا کیا گیا اور بہشتی مقبرہ دارالفضل کے قطعہ نمبر ۲ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ آپ کی اہلیہ کی قبر بھی آپ کے قرب و جوار میں ہی ہے۔ میرے ساتھ بشیر احمد سیفی صاحب نے ہمیشہ حسن سلوک کیا،میرا بہت احترام کرتے اور عزت سے پیش آتے تھے۔ میرے بیٹے کی شادی کے وقت بھی آپ بیمار تھے لیکن آپ تھوڑی دیر کے لیے تشریف لے آئے اور تحفہ دے کر رخصت ہوئے۔ آپ بہت حسین یادیں چھوڑ کر گئے ہیں۔ ان خوبصورت یادوں نے آپ کا ذکر خیر تحریر کرنے کی تحریک کی۔ اللہ تعالیٰ اس خادم سلسلہ اور نافع الناس وجود کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے اور آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی اولاد کو آپ کی نیک یادوں اور روایات کو زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین مزید پڑھیں: مکرم میر محمود احمد صاحب ناصر کا ذکر خیر