حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ حرقہ کی طرف بھیجا۔ ہم نے صبح کے وقت ان پر حملہ کیا اور انہیں شکست دے دی، پھر میں اور ایک اور انصاری صحابی اس قبیلہ کے ایک شخص (مرداس بن عمر نامی) سے بھڑ گئے۔ جب ہم نے اس پر غلبہ پا لیا تو وہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُکہنے لگا۔ انصاری تو فوراً ہی رک گیا لیکن میں نے اسے اپنے برچھے سے قتل کر دیا۔ جب ہم لوٹے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اسامہ کیا اس کے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے کے باوجود تم نے اسے قتل کر دیا؟ میں نے عرض کیا کہ وہ قتل سے بچنا چاہتا تھا (اس نے یہ کلمہ دل سے نہیں پڑھا تھا)۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باربار یہی فرماتے رہے (کیا تم نے اس کے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُکہنے پر بھی اسے قتل کر دیا) کہ میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش میں آج سے پہلے اسلام نہ لاتا۔ (صحيح البخاري، كتاب المغازي، حدیث: ۴۲۶۹) مزید پڑھیں: حصولِ علم کی اہمیت