الدلائل القطعیہ فی السیرۃ النبویہ مومنین کی نسلوں کو انبیاء سے محبت کی وجہ سے طبعاً ان کے حالات معلوم کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ اس وقت حقیقی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ہر قسم کی رطب و یابس باتیں قابل قبول ٹھہرتی ہیں اور حقیقی علم کے فقدان کو ذوقی نکات سے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے ڈیڑھ، دو سو سال بعد جمع کردہ روایات میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ و اللّٰہ اعلم اسلام کا آغاز جبل النور میں واقع غار حرا میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی سے ہوا۔ اور صرف یہی ایک بات کم و بیش متفقہ ہے۔ چنانچہ حرا پر قیام کی وجہ، قیام کی مدت، حرا پر آپؐ کے ساتھ کون تھا، اوّلین وحی کا نزول کس ماہ میں ہوا، وہ کون سی تاریخ تھی، ہفتہ کا کون سا دن تھا، غار میں آپؐ کی مصروفیت کیا تھی وغیرہ سب امور کے متعلق مختلف روایات پائی جاتی ہیں مثلاً پہلی وحی کے نزول کی بارہ مختلف تاریخیں بتائی گئی ہیں! اس مضمون میں ان روایات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ حرا پر قیام کی وجہ: آنحضورﷺ کے حرا پر تشریف لے جانے کی دو مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ آپؐ نے نذر مانی تھی کہ ایک ماہ حرا پر گزاریں گے۔ (ابو نعیم، دلائل النبوۃ، صفحہ ۲۱۵) دوسری یہ کہ آپؐ ہر سال ایک ماہ حرا پر گزارا کرتے تھے اور جو مساکین وہاں آپؐ کے پاس آتے،ان کو کھانا کھلاتے تھے۔(ابن اسحاق، سیرت، صفحہ ۱۲۱، ابن ہشام، سیرۃ رسول اللہ، جلد ۱، صفحہ ۲۳۶، البلاذوری، انساب الاشراف، جلد ۱، صفحہ ۱۰۵)یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف آپؐ ہی نہیں بلکہ دیگر قریش بھی ہر سال رمضان میں ایسا کیا کرتے تھے۔(ابن ہشام، جلد ۱ صفحہ ۲۳۵۔ نیز بلاذوری كَانَتْ قُرَيْشٌ إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ، خَرَجَ مَنْ يُرِيْدُ التَّحَنُّثَ مِنْهَا إِلَى حِرَاءَ، انساب الاشراف، جلد ۱، صفحہ ۱۰۵، المقدسی، البدء و التاریخ،جلد ۴، صفحہ ۱۴۱)Sprenger کے نزدیک قریش کے حرا پر جانے کی کوئی مذہبی وجہ نہیں تھی بلکہ قریش کے امراء شدید گرمیوں میں طائف میں واقع اپنے باغوں کو چلے جاتے تھے اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتے، وہ حرا چلے جاتے تھے۔ (Das Leben und die Lehre des Mohammadجلد ۱، صفحہ ۲۹۶) جبکہ Sell ابن ہشام کی روایت سے متفق ہے۔ (The Life of Muhammad، صفحہ ۲۵) یہ دعویٰ کہ اہل مکہ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے گویا چھٹیاں منانے حرا جاتے تھے بلا ثبوت ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو بہت سی روایات موجود ہونی چاہیے تھیں کہ فلاں شخص فلاں وقت وہاں گیا تھا۔ نیز یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے بعد یہ سلسلہ بند کیوں ہو گیا؟ جب تک پنکھے اور ایئر کنڈیشنر نہیں آئے، ۱۳۰۰ سال تک پھر کیوں اہلِ مکہ حرا نہیں گئے۔ روایات میں جن دو تین لوگوں کا قبل از اسلام حرا کے ارد گرد جانے کا ذکر ملتا ہے ان میں ایک زید بن عمرو بن نفیل ہے۔ اسے مذہبی اختلاف کی بنا پر مکہ سے نکال دیا گیا تھا اور وہ اس علاقہ میں رہتا تھا۔(الجزری، اسد الغابہ، جلد ۲، صفحہ ۳۵۴۔۳۵۵، الفکھی، اخبار مکہ، جلد ۴، صفحہ ۸۶)اسی طرح ایک روایت شیبہ بن ربیعہ بن عبد الشمس کے متعلق ہے۔ (ابن حبیب، المنمق فی اخبار قریش، صفحہ ۴۲۲)یا پھر ابرہہ کے حملہ کے وقت جب اہل مکہ پہاڑوں پر چلے گئے تھے، اس وقت حضرت عبد المطلب کے تین دوستوں کے ساتھ حرا پر چلے جانے کا ذکر آتا ہے۔ (ابن سعد، طبقات الکبریٰ، جلد ۱، صفحہ ۷۲)ورنہ عمومی طور پر اہل مکہ کے وہاں جانے کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ بات بھی غلط ہے کہ اہلِ مکہ ہر سال رمضان میں عبادت کرنے حرا جاتے تھے۔ اوّل تو یہ بات خلاف عقل ہے کہ اہل مکہ (یا ان کا معقول حصہ) ہر سال بیک وقت حرا پر جاتے ہوں، اتنی تو وہاں رہنے کی جگہ ہی نہیں اور اس بارے میں روایات بھی مفقود ہیں۔ پھر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اہل مکہ کیوں اور کس کے کہنے پر ایسا کرتے تھے؟ باقی کام جو اہل مکہ کرتے تھے مثلاً طواف، وقوف عرفات اور رمی جمرات، یا ان کے ہاں جو کام منقسم تھے جیسے سقایا، رفادہ اور حجابہ وغیرہ ان سب کے متعلق تفصیلی روایات موجود ہیں۔ باقاعدہ نظام موجود تھا اور کام مختلف لوگوں میں تقسیم شدہ تھے۔ لیکن حرا پر عبادت کے متعلق کوئی مربوط سلسلہ واقعات و روایات کا نہیں ملتا۔ نہ تو حضرت ابراہیمؑ کا کوئی حکم تھا نہ حضرت اسماعیلؑ کی کوئی ایسی سنت تھی، نہ ہی کسی اور بزرگ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اس کے کہنے پر ایسا کیا گیا۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو علماء کہتے ہیں کہ اہل مکہ ہر سال حرا پر جاتے تھے اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ سب سے پہلے عبد المطلب نے ہر سال رمضان میں حرا پر عبادت کرنی شروع کی تھی۔(ابن الاثیر، الکامل فی التاریخ، جلد ۱، صفحہ ۶۱۸، الدیار بکری، تاریخ خمیس، جلد ۱، صفحہ ۱۵۹)یعنی خود ہی مانتے ہیں کہ کم ازکم عبد المطلب سے پہلے تو ایسی کوئی روایت نہیں تھی۔ لیکن اس سوال کا پھر بھی کوئی جواب پیش نہیں کرتے کہ عبد المطلب ایسا کیوں کرتے تھے، اور رمضان ہی میں کیوں کرتے تھے ؟ اس سے ظاہر ہے کہ یہ سب خیالات درحقیقت بہت بعد کے زمانے میں وضع کر کے زمانہ قبل از اسلام کی طرف منسوب کر دیے گئے ہیں۔ ورنہ کبھی کوئی حرا پر گیا ہو تو الگ بات ہے اہل مکہ کا عام طریق یا روایت بہرحال نہیں تھی۔ خود آنحضورؐ کے ہر سال حرا جانے کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔ نہ رمضان میں نہ کسی اَور ماہ میں۔ علماء کی یہ عادت ہے کہ وہ یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپؐ نبوت سے پہلے ہی تمام اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا تھے۔ جبکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ (الشوریٰ :۵۳) یعنی تجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ قرآن کریم میں درج شرعی احکامات اور ایمانی تفاصیل کیا ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ کوئی معین روایت اس بارے میں موجود نہیں کہ بعثت سے پہلے آپؐ حرا تشریف لے گئے تو پیچھے مکہ میں فلاں واقعہ پیش آیا۔ چونکہ اسلام میں رمضان اور اس میں اعتکاف کی خاص اہمیت ہے اور آنحضورؐ کو رمضان میں قرآن کریم عطا ہوا تھا، اس لیے آپؐ کے رمضان میں حرا پر جانے کا جواز پیش کرنے کے لیے یہ قصے بنائے گئے اور یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ آپؐ ہر سال رمضان میں ایسا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے حالات اور قرآن کریم میں بیان فرمودہ تاریخ انبیاء کی روشنی میں قرین قیاس بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی نبوت سے پہلے بعض امور کی جانب راہنمائی فرمائی ہو گی، جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی راہنمائی فرمائی اور آپؑ نے چھ ماہ روزے رکھے۔ (ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۴۲۵، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)اس دوران حضورؑ گھر سے آنے والا کھانا کسی کو دے دیا کرتے اور خود بہت معمولی غذا پر گزارہ فرماتے۔ بالکل اسی طرح آنحضورؐ کے متعلق بھی بیان ہوا ہے کہ آپؐ حرا پر تھے تو غربا کو کھانا کھلاتے تھے۔ یہ غالباً وہی کھانا ہو گا جو آپؐ گھر سے ساتھ لاتے تھے۔ اس پر مزید ایک قرینہ حضرت عائشہؓ کی وہ مشہور روایت ہے جس کے مطابق بعثت سے قبل چھ ماہ آپؐ کو سچے خواب آتے تھے جو ‘‘فلق الصبح’’ کی طرح پورے ہو جاتے تھے ۔(عبد الرزاق، مصنف، جلد ۶ صفحہ ۱۰) چھ ماہ تک کثرت سے رویاء و کشوف سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ نے اس دوران روزے رکھے ہوں گے کیونکہ کشوف کا روزہ سے گہرا تعلق ہے اور حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:‘‘انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔’’ (ملفوظات جلد۹، صفحہ ۳۰، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) اس دوران کثرت کشوف کا یہ عالم بتایا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی پتھر یا درخت ایسا ہو گا جس نے آپؐ کو سلام عرض کر کے آپؐ کی نبوت کا اقرار نہ کیا ہو۔ (ابن سعد، طبقات، جلد ۱، صفحہ ۱۳۲: فلا يمرُ بحجرٍ ولا شَجرة إلّا قالت السلام عليك يا رسول اللّٰه، ابن سید الناس، عیون الاثار، جلد ۱، صفحہ ۱۰۱) قرآن کریم میں متعدد انبیاء کو الہام سے پہلے رؤیا و کشوف ہونے کا ذکر ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی بعثت کا جو واقعہ قرآن کریم میں تفصیل سے درج ہے اس میں بھی پہلے آگ کا کشف ہونے اور پھر الہام کا ذکر ہے۔(مثلاً طٰہٰ: ۱۱۔۱۲)اسی طرح حضرت یوسفؑ کے قصہ میں بھی پہلے آپؑ کے رویاء دیکھنے اور پھر نبوت کے مقام پر فائز ہونے کا ذکر ہے۔ غار میں کون تھا؟: اکثر روایات کے مطابق آپؐ اکیلے ہی حرا تشریف لے جاتے تھے۔(عبد الرزاق، مصنف، جلد ۶، صفحہ ۱۰، بخاری، صحیح، کیف بداء الوحی)تاہم دیگر روایات کے مطابق آپؐ کے ہمراہ حضرت خدیجہؓ بھی تھیں۔ (نَذَرَ أَنْ يَعْتَكِفَ شَهْرًا هُوَ وَخَدِيجَةُ بِحِرَاءٍ، ابو نعیم، دلائل النبوۃ، صفحہ ۲۱۵)بلکہ بعض نے ‘‘اہل’’ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔(وَمَعَهُ أهلُه، ابن ہشام، جلد ۱، صفحہ ۲۲۰) جس سے بیوی بھی مراد ہو سکتی ہے مگر یہ بھی خیال کیا جاسکتا ہے کہ گویا بچے بھی ساتھ تھے۔ اسی قسم کی روایات کی بنا پر Margoliouth نے لکھا ہے کہ آپؐ اہل و عیال کو بھی حرا پر ساتھ لے جاتے تھے۔(Mohammed، صفحہ ۹۰) Sell بھی اس سے متفق ہے(Life of Muhammad، صفحہ ۲۵) اور Andrae بھی (Mohammedصفحہ ۵۷) ایک روایت یہ ہے کہ آپؐ دن کو حرا پر رہتے لیکن رات کو نیچے آ جاتے۔ جبکہ حضرت خدیجہؓ بھی رات کو پہاڑ کے دامن میں تشریف لے جاتیں۔ رات آپؐ حضرت خدیجہؓ کے ساتھ ابو عبیدہ کے گھر کے عقب میں واقع مسجد میں رہتے اور صبح کو واپس غار میں چلے جاتے۔(الفکھی، اخبار مکہ، جلد ۴، صفحہ ۱۸۱)مبارکپوری صاحب کے نزدیک حضرت خدیجہؓ آپؐ کے ہمراہ حرا تشریف لے جاتی تھیں لیکن غار کی بجائے پاس ہی کسی جگہ پر رہتی تھیں۔(مبارکپوری، الرحیق المختوم، صفحہ ۹۶) اس بات کی حکمت بیان نہیں کی گئی کہ جب آپؓ ساتھ جاتی تھیں تو غار کی بجائے کسی اَور جگہ کیوں رہتی تھیں، نہ ہی اس جگہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ دیگر بہت سی روایات کی طرح یہ خیال بھی بلا ثبوت ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ حضرت خدیجہؓ کبھی آپؐ سے کوئی بات کرنے یا حال پوچھنے پہاڑ تک تشریف لے گئی ہوں، لیکن وہاں قیام کی بات بے بنیاد ہے۔ روحانی ترقی کے لیے کی جانے والی خصوصی عبادت و اعتکاف تنہائی اور خاموشی چاہتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰؑ کو اکیلے ہی طور پر بلانے کا ذکر ہے۔ (الاعراف: ۱۴۳)حضرت ہارونؑ بھی اس میں شامل نہ تھے۔ حضرت مریمؓ کے قصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ اور خاموشی کا بھی آپس میں ایک تعلق ہے۔ (مریم :۲۷) ایسی حالت انقطاع و خاموشی کے حصول کے لیے ہی آپؐ شہر سے دُور غار حرا تشریف لے گئے تھے ورنہ عبادت تو گھر پر بھی ممکن تھی۔ پس حضرت خدیجہؓ کے حرا پر یا اس کے دامن میں رہنے کی روایات یقیناً غلط ہیں۔ اسی لیے دیگر روایات میں وضاحت سے ذکر ہے کہ آپؐ کو تنہائی پسند ہو گئی تھی۔ (عبدالرزاق، مصنف، جلد ۶، صفحہ ۱۰ حُبِّبَ إِلَيهِ الْخَلَاءُ)اسی طرح یہ بھی ذکر ہے کہ آپؐ کچھ زاد راہ لیتے اور حرا پر چلے جاتے، جب وہ ختم ہو جاتا تو واپس گھر آتے اور حضرت خدیجہؓ آپؐ کو مزید زاد راہ باندھ دیتیں۔ یعنی خود گھر پر ہی رہتیں۔ غار میں مصروفیت: غار حرا میں قیام کے دوران کیا ہوتا تھا؟ اس بارے میں اکثر روایات میں بتایا گیا ہے کہ آپؐ ‘‘تَحَنُّث’’ فرماتے تھے۔ ‘‘تحنث’’ سے مراد ‘‘تبرر’’ لی گئی ہے یعنی نیک کام کرنا۔ (سیرت ابن ہشام، جلد ۱،صفحہ ۲۱۸)یا ایسے کام، جن سے گناہ و کمزوریاں دور ہوں۔(ابن حجر العسقلانی،فتح الباری بشرح البخاری، جلد ۱، صفحہ ۱۰۸)یا اس سے مراد ‘‘تَعَبُّد’’ یعنی عبادت کرنا ہے۔ (ابن رزاق، مصنف، جلد ۶ صفحہ ۱۰، بخاری، صحیح، کیف کان بداء الوحی)یا یہ کہ لفظ ‘‘تحنث’’ اصل میں ‘‘تَحَنُّف’’ تھا جس میں عربی کے کئی دیگر الفاظ کی طرح ‘‘ف’’ بدل کر ‘‘ث’’ ہو گیا ہے۔ (ابن ہشام، سیرۃ رسول اللہ، جلد ۱، صفحہ) تحنف سے مراد دین حنیف پر عمل ہے۔ ابن اعرابی کا کہنا ہے کہ وہ لفظ ‘‘تَحَنُّث’’کو نہیں جانتے۔ (العینی، عمدۃ القاری، جلد ۱، صفحہ ۴۹)یعنی یہ ایک غیر معروف یا کسی دوسری زبان سے عربی میں مستعار لیا گیا لفظ ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپؐ غار میں ‘‘تَنَسُّک’’ فرماتے، یعنی عبادت کرتے تھے۔ (يَتَنَسَّكُ فِيهِ، ابن اسحاق، سیرت، صفحہ ۱۲۱، ابن کثیر، البدایۃ و النھایۃ، جلد ۱، صفحہ ۳۸۵)یا آپؐ وہاں اعتکاف کرتے تھے۔ (ابو نعیم، دلائل النبوۃ، صفحہ ۲۱۵)اور ہر سال ایک ماہ مستقل وہیں رہتے تھے۔(كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي حِراء مِنْ كُلِّ سَنَةٍ شَهْرًا، ابن ہشام، سیرت، جلد ۱، صفحہ ۲۱۸)مارگولیوتھ نے اس بحث کی بنیاد پر کہا ہے کہ لفظ ‘‘تحنث’’ کا معین مطلب معلوم نہیں البتہ اس سے کسی قسم کا راہبانہ عمل مراد ہے۔(Mohammed، صفحہ ۹۰)مشہور مستشرق Davenportکے نزدیک آپؐ حرا پر عبادت کے علاوہ بائیبل اور اناجیل کا مطالعہ فرماتے تھے۔ (Apology، صفحہ ۱۳)ایک جدید مستشرق Park کے نزدیک یہ لفظ نہ تو قرآن کریم میں موجود ہے نہ ہی قرآن کریم سے آپؐ کی قبل از بعثت عبادات کے متعلق کچھ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ (Muhammad’s call revisited،صفحہ ۶۶) لفظ ‘‘تحنث’’ کا مادہ مگر قرآن کریم میں موجود ہے: وَكَانُوا يُصِرُّوْنَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيْمِ۔(الواقعہ:۴۷)اور وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَلَا تَحْنَثْ(ص: ۴۵)پس تحنث سے مراد وہ تمام امور ہیں جن سے انسان گناہوں سے دُور ہوتا اور پاکیزگی میں بڑھتا ہے۔ اس میں عبادت، اعتکاف، صدقہ، نیکی سب کچھ شامل ہے۔ شاید اسی لیے کسی نے عبادت، کسی نے اعتکاف،کسی نے غرباء کو کھانا کھلانے اور کسی نے عمومی طور پر نیکی کا ذکر کیا ہے۔ حرا پر قیام کی مدت: کچھ روایات کے مطابق حرا پر قیام کی مدت ایک ماہ تھی۔(ابن ہشام، سیرت، جلد ۱، صفحہ ۲۳۶)اس پر القسطلانی نے یہ دلیل دی ہے کہ موسیٰ ؑکو بھی تیس راتوں کے لیے ہی بلایا گیا تھا۔ (القسطلانی، ارشاد الساری، جلد ۱، صفحہ ۶۲) یعنی یہ سنت اللہ ہے۔ تاہم دیگر روایات میں تین یا سات راتوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔(الحلبی، سیرۃ، جلد ۱، صفحہ ۳۳۸)ایک چینی سیرت النبیؐ کے مطابق آپؐ روزانہ حرا تشریف لے جاتے تھے۔ (Mason, The Arabian Prophet From Chinese Sources, P79 )جس سے غالباً یہ مراد ہے کہ آپؐ اکثر حرا تشریف لے جاتے تھے مگر تھوڑے عرصہ کے لیے۔ درحقیقت اعتکاف و روزے رکھنے کا یہ دَور چند دن یا ایک ماہ نہیں بلکہ ان چھ ماہ تک ممتد معلوم ہوتا ہے جو بعثت سے پہلے تھا اور جس کے دوران آپؐ کو کثرت سے رؤیا و کشوف ہوتے تھے۔ آپؐ کے متعدد بار گھر سے کھانا لانے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک طویل عرصہ تھا اس لیے بار بار گھر آکر مزید سامان لے جانے کی ضرورت پیش آتی تھی۔ اگر صرف ایک ماہ ہوتا تو دو، تین مرتبہ ہی ایسا ہوتا۔ یہ خیال کہ گویا یہ اعتکاف ہر سال ہوتا تھا، قرین قیاس نہیں نہ ہی ایسی کوئی روایت قبل از اسلام اہل مکہ میں ثابت ہے۔ حسبِ معمول اسلام کی جاری کردہ رمضان میں اعتکاف کی سنت کو آپؐ کی قبل از بعثت زندگی میں منعکس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اوّلین وحی کے نزول کی تاریخ: پہلی وحی کے نزول کی گیارہ مختلف تاریخیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں ۷؍رمضان، ۲۴؍رمضان، ۲۸؍رمضان، ۲۷؍رجب، ۲؍ربیع الاوّل شامل ہیں۔(طبری، تاریخ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۴، الدیار بکری، تاریخ خمیس، جلد ۱ صفحہ ۲۸۱، الجوزی، المنتظم، جلد ۲ صفحہ ۳۵۰، ابن سید الناس، عیون الاثر، جلد ۱، صفحہ ۱۰۶)اسی طرح ۱۷؍رمضان، ۱۸؍رمضان اور ۱۹؍رمضان بھی۔(البلاذوری، انساب الاشراف، جلد ۱، صفحہ ۱۰۵، الجوزی، المنتظم، جلد ۲، صفحہ ۳۴۷۔۳۴۹، ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، جلد ۱، صفحہ ۶۴۸)علاوہ ازیں ربیع الاوّل کی ۱۲ یا ۱۸؍اور ۸؍ربیع الاوّل بھی بیان ہوئی ہیں۔(سبط ابن جوزی، مرآۃ الزمان، جلد ۳، صفحہ ۹۳،الصفدی، الوافی بالوفیات، جلد ۱، صفحہ ۶۴)مشہور مستشرق Margoliouthنے عمومی طور پر رمضان کا مہینہ بیان کیا ہے۔ (Mohammed، صفحہ ۹۰)Davenport کے نزدیک پہلی وحی ۲۴؍رمضان کو ہوئی تھی۔(Apology، صفحہ ۱۶) اسی کی تائید Bush نے کی ہے۔ (Life of Mohammed،صفحہ ۵۲)جبکہ Rodinson کے نزدیک پہلی وحی ۲۷؍رمضان کو ہوئی تھی۔ (Muhammad، صفحہ۷۳)۔ رمضان کی بجائے Wagtendonk کے نزدیک پہلی وحی ۲۷؍رجب کو نازل ہوئی تھی ۔ (Fasting in the Koran، صفحہ ۸۲ تا ۱۲۲)اس کی تائید ان روایات سے ہوتی ہے جن میں رجب میں بالعموم اور ۲۷؍رجب کو بالخصوص اہمیت دی گئی ہے۔ چنانچہ Kistersنے ان روایات کا حوالہ دیا ہے جن کے مطابق آنحضورؐ کی پیدائش، پہلی وحی اور معراج تینوں رجب میں ہوئے اور ۲۷؍رجب کو روزہ رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ (‘‘Rajab is the Month of God…’’، صفحہ ۱۹۷۔۲۰۱) ربیع الاول:۲، ۸، ۱۲، ۱۸ رجب:۲۷ رمضان:۷، ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۴، ۲۸ پہلی وحی کے متعلق قدیم اسلامی روایات میں مذکور گیارہ مختلف تاریخیں: حقیقت یہ ہے کہ خود قرآن کریم وضاحت سے فرماتا ہے: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ (البقرۃ: ۱۸۶)اس آیت کا ایک مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کا نزول رمضان کے مہینہ میں ہوا۔ گو یہ مطلب بھی ہے کہ قرآن کریم میں رمضان کے متعلق تعلیم نازل ہوئی، تاہم یہ بات پہلی تشریح کے خلاف نہیں۔ چونکہ دیگر آیات بھی ماہِ رمضان کی تصدیق کرتی ہیں، اس لیے رجب اور ربیع الاوّل والی تاریخوں کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔ فرمایا: إِنَّآ أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ۔…تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِّنْ كُلِّ أَمْرٍ (القدر: ۴تا۶)۔إِنَّآ أَنْزَلْنَاهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ …فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيْمٍ (الدخان ۴۔۵)یعنی قرآن کریم کا نزول ایک خاص برکت والی رات میں ہوا تھا جسے لیلۃ القدر کا نام دیا گیا ہے۔ اس رات میں تمام امور کے متعلق فرشتے نازل ہوئے اور ان کا فیصلہ کر دیا گیا۔ لیلۃ القدر کے متعلق آنحضورؐ نے فرمایا ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک ہے۔ (مالک، موطاء، ما جاء فی لیلۃ القدر، بخاری، صحیح، باب تحری لیلۃ القدر فی الوتر میں العشر الاواخر)پس پہلی وحی کا رمضان میں ہونا یقینی ہے۔ اوپر رمضان کے آخری عشرے کی جو تاریخیں بیان ہوئی ہیں ان سے کوئی بھی طاق رات نہیں! حالانکہ پہلی لیلۃ القدر، جو کہ اصل لیلۃ القدر تھی، کا طاق رات ہونا قرین قیاس ہے۔ اگر پہلی لیلۃ القدر ہی طاق رات کو نہ ہوتی، تو آئندہ ہر سال آنے والی لیلۃ القدر کو بھی طاق راتوں میں محصور نہ کیا جاتا۔ اسی لیے متعدد نئے علماء نے نزول قرآن کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق رات کو ہی قرار دیا ہے۔ (مثلاً مبارکپوری، الرحیق المختوم، صفحہ۹۷) نزول الیٰ سماء الدنیا کا غلط عقیدہ: چونکہ قرآن کریم کی واضح آیات کے برخلاف روایات کی کثرت ربیع الاوّل کے متعلق ہے، اس لیے اس مسئلہ کے دو حل نکالے گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہا گیا کہ خوابوں کی صورت میں آپ ﷺ کی نبوت کا آغاز ربیع الاوّل میں ہوا اور چھ ماہ بعد رمضان میں وحی شروع ہوئی۔ (الحلبی، سیرۃ، جلد ۱، صفحہ ۳۳۵) یہ حل قابل قبول نہیں کیونکہ روایات میں صاف ربیع الاوّل اور رجب میں بعثت اور پہلی وحی کا ذکر ہے نہ کہ رؤیا و کشوف کے شروع ہونے کا۔ (سبط ابن جوزی، مرآۃ الزمان، جلد ۳، صفحہ ۹۳، القسطلانی، مواھب اللدنیہ، جلد ۱، صفحہ ۱۱۸، ابن جوزیہ، زاد المعاد، جلد ۱، صفحہ ۶۳، الجوزی، المنتظم، جلد ۲، صفحہ ۳۴۹) دوسرا حل یہ نکالا گیا کہ قرآن کریم متعدد مراحل میں نازل ہوا ہے۔ آگے اس کے بھی تین حصے ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ قرآن کریم پہلے مرحلے میں لوحِ محفوظ سے رمضان میں ہماری دنیا کے آسمان تک نازل ہوا، پھر دوسرے مرحلہ میں اس ‘‘سماء الدنیا’’ سے آنحضورؐ پر! اس کی تفصیل بھی بتائی گئی ہے کہ بیس ماہ میں لوح محفوظ سے نازل ہوا اور پھر آنحضورؐ پر بیس سال تک نازل ہوتا رہا ۔ (مقاتل، تفسیر، جلد ۱، صفحہ ۱۶۱) دوسرے خیال کے مطابق قرآن کریم تین مراحل میں نازل ہوا۔ پہلے لوح محفوظ سے ایک کتاب میں ایک ہی رات میں نازل ہوا جو کہ لیلۃ القدر تھی۔ اس کے بعد بیس ماہ میں جبرائیلؑ نے اس کتاب سے حاصل کیا اور پھر بیس سال میں آنحضورؐ پر نازل ہوا ۔ (مقاتل بن سلیمان، تفسیر، جلد ۳، صفحہ ۸۱۷) یہ روایات دیگر تفاسیر میں بھی موجود ہیں۔( مثلاً طبری، تفسیر، جلد ۳، صفحہ ۴۴۵)اس پر یہ سوال اٹھتاتھا کہ سماء الدنیا میں قرآن کس پر نازل ہوا؟ اس کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ وہاں قرآن ‘‘بیت المعمور’’ پر نازل ہوا جسے ‘‘مواقع النجوم’’ بھی کہا جاتا ہے۔ (طبری، تفسیر، جلد ۳،صفحہ ۴۴۶) کوئی ان مفسرین سے پوچھے کہ ایک بےجان چیز پر کلام الٰہی کیسے نازل ہوا اور کیوں؟ اور کلام الٰہی بھی وہ جو انسانوں کے لیے تھا۔ تیسرا خیال یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ پورا قرآن کریم لیلۃالقدر میں ایک ہی بار جبرائیلؑ پر نازل ہوا۔ آگے جبرائیلؑ اللہ کے امر سے ٹکڑوں میں آپؐ پر نازل کرتے رہے۔ (طبری تفسیر، جلد ۳، صفحہ ۴۴۷)اسی خیال کی دوسری شکل یہ ہے کہ ہر سال لیلۃ القدر کو اس سال نازل ہونے والا قرآن ساتویں آسمان سے ایک بار ہی جبرائیلؑ پر نازل ہو جاتا تھا اور پھر سارا سال وہ اللہ کے حکم سے آپؐ پر نازل کرتے رہتے تھے۔ (طبری، تفسیر، جلد ۳، صفحہ ۴۴۷) حق یہ ہے کہ قرآن کریم کے مختلف مراحل میں نزول کی کوئی بنیاد نہیں۔ اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے: نَزَّلَهٗ رُوحُ الۡقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ (النحل: ۱۰۳)یعنی قرآنی آیات کی وحی لانے والی روح القدس اللہ تعالیٰ کے حضور سے آپؐ پر نازل ہوئی۔ اس جگہ کسی درمیانی منزل کا ذکر نہیں، نہ ہی اس کی ضرورت تھی۔ یہ سب مشکلات علماء کو اس لیے پیش آئیں کہ روایات کی کثرت ربیع الاوّل کے متعلق تھی جبکہ قرآن کریم رمضان کی تائید کر رہا تھا۔ اس لیے انہوں نے ان دونوں امور میں ‘‘تطبیق’’ کرتے ہوئے یہ خلاف عقل عقائد گھڑے۔ رہی سہی کسر ان بحثوں نے نکال دی کہ قرآن مخلوق ہے یا نہیں اور کلام الٰہی وجود الٰہی سے الگ چیز ہے یا اس کا حصہ وغیرہ۔ پہلی وحی کس دن ہوئی: اکثر روایات کے مطابق یہ سوموار کا دن تھا۔ (ابن سعد، طبقات، جلد ۱، صفحہ ۱۶۴، البلاذوری، انساب الاشراف، جلد ۱، صفحہ ۱۰۵)بلکہ بیان کیا گیا ہے کہ آنجنابؐ نے فرمایا کہ میں سوموار کو پیدا ہوا اور سوموار کو ہی مبعوث ہوا۔ (طبری، تاریخ، جلد ۲، صفحہ۲۹۳، الجوزی، المنتظم، جلد ۲، صفحہ ۳۴۸) ایک روایت کے مطابق آپؐ نے فرمایا کہ میری پیدائش، بعثت اور ہجرت تینوں سوموار کو ہیں۔ (ابن اثیر، اسد الغابہ، جلد ۱ صفحہ ۲۵)بعض لوگوں کے نزدیک تو آپؐ نے اپنی وفات کا دن بھی سوموار ہی بتا دیا تھا۔ (السھیلی، روض الانف، جلد ۲، صفحہ ۲۵۰)یہ روایات اتنی کثرت سے بیان ہوئی ہیں کہ بعض علماء نے پہلی وحی کے سوموار کے دن نازل ہونے پر اتفاق رائے کا دعویٰ کیا ہے۔(طبری، تاریخ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۲، ابن کثیر، البدایۃ و النھایۃ، جلد ۴، صفحہ ۵، المقدسی، تاریخ، جلد ۱، صفحہ ۸۰، ابن جوزیہ، زاد المعاد، جلد ۱، صفحہ ۶۱، ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، جلد ۱،صفحہ ۶۴۶)تاہم یہ بات درست نہیں کیونکہ دیگر روایات کے مطابق یہ جمعہ کا دن تھا۔ (ابن اثیر، اسد الغابہ، جلد ۱ صفحہ ۲۵) مستشرقین میں سے خصوصاً Sellheim نے سیرت النبیؐ کی ایسی تاریخوں کو جمع کیا ہے جن میں متعدد مختلف واقعات کا ایک ہی تاریخ میں ہونا بیان کیا گیا ہے۔ (Prophet, Chalif und Geschichte، صفحہ ۷۱ تا ۷۱ اور ۷۸ تا ۷۹) آگے Rubin نے ان روایات کا ذکر کیا ہے جن میں آپؐ کی پیدائش، پہلی وحی، معراج، ہجرت اور وفات سب سوموار ۱۲؍ربیع الاوّل کو بتائے گئے ہیں۔ اس کے نزدیک ربیع الاوّل منتخب کرنے کی وجہ یہود کی نقل ہے جو اسی طرح حضرت موسیٰؑ کی پیدائش اور وفات ایک ہی ماہ میں بتاتے ہیں اور سوموار کا انتخاب بھی یہودی روایات کے مطابق کیا گیا ہے کیونکہ سوموار اور جمعرات کو یہود کے ہاں روزہ رکھا جاتا تھا ۔ (Eye of the Beholder, page 190,191) جس طرح سیرت میں ایک ہی تاریخ کو مختلف واقعات سے جوڑنے کا رجحان پایا جاتا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تکلف سے ایسا کیا گیا ہے۔ اسی کی ایک مثال سوموار، ۱۲؍ربیع الاوّل کا مذکورہ بالا تکرار بھی ہے۔ روبن وغیرہ مستشرقین کا یہ دعویٰ درست معلوم نہیں ہوتا کہ مسلمان مورخین نے یہود کے زیر اثر یہ تاریخیں منتخب کی ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے مورخین کو ‘‘معجزانہ توارد’’ دکھانے کا بے جا شوق ہے۔ اس کے نتیجے میں پھر مستشرقین کو اسلامی روایات پر حملہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ روایات میں اختلاف کی وجہ: قرآن کریم کے رمضان میں نزول کے متعلق اتنی واضح آیات کی موجودگی کے باوجود علماء کی اکثریت نے ۸؍ربیع الاوّل کی تائید کی ہے۔(ابی زھرۃ، خاتم النبیین، جلد ۱، صفحہ ۲۷۸)اس کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ اکثر علماء نے حقائق کی بجائے عقائد پر تاریخ کی بنیاد رکھی ہے۔ مثلاً ربیع الاوّل کی تاریخیں اس لیے بیان کی گئی ہیں کہ قرآن کریم نے سورۃ الاحقاف آیت ۱۶ میں بیان فرمایا ہے کہ انسان چالیس سال کا ہوتا ہے تو اس پر اتمام نعمت ہوتا ہے۔ چونکہ ان علماء کے نزدیک آنحضورؐ کی پیدائش ۱۲؍ربیع الاوّل کو ہوئی تھی اس لیے کہا گیا کہ عین چالیس سال کی عمر میں آپؐ پر پہلی وحی ہوئی یعنی ۱۲؍ربیع الاوّل کو یا بعض کے نزدیک چالیس سال اور ایک دن کی عمر میں۔(الجوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، جلد ۲، صفحہ ۳۴۷)اسی طرح قرآن کریم کی ایک اَور آیت ہے: وَمَآ أَنْزَلْنا عَلٰى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ (الانفال: ۴۲)اور جو ہم نے اپنے بندے پر فرقان والے دن نازل کیا، جس دن کہ دو گروہوں کی مڈبھیڑ ہوئی۔ اس آیت سے یہ استنباط کیا گیا ہے کہ یوم فرقان سے مراد نزول قرآن کا دن ہے (قرآن کریم کا ایک نام فرقان بھی ہے) اور یہ وہی دن ہے جس دن جنگ بدر ہوئی تھی یعنی ۱۷؍رمضان۔ اس لیے ان کا کہنا ہے کہ قرآن کریم کا نزول بھی ۱۷؍رمضان کو ہوا ۔(طبری، تاریخ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۴)اسی سے ایک اَور خیال یہ لیا گیا ہے کہ چونکہ جنگ بدر جمعہ کے دن ہوئی تھی، اس لیے پہلی وحی بھی جمعہ کے دن نازل ہوئی تھی۔ گویا ہر جگہ پہلے آیات کی ایک تشریح کی گئی اور اس ذوقی نکتہ کے زیر اثر تاریخ تبدیل کر دی گئی۔ اسی کا ایک حیرت انگیز نمونہ اس کے الٹ حساب بھی ہے۔ چنانچہ بعض کے نزدیک قرآن کریم رمضان میں نازل شدہ ہے، تو اس کے موافق یہ روایت بھی ہے کہ آپؐ کی پیدائش بھی رمضان میں ہوئی تھی۔(القسطلانی، فتح الباری، باب صفۃ النبیؐ، جلد ۶، صفحہ ۵۷۰) اور تاکہ یہ چالیس سال والا حساب پورا ہو سکے۔ اسی طرح رجب میں پیدائش کی روایات بھی ہیں۔ (العسقلانی، فتح الباری، جلد ۶، صفحہ ۵۷۰) روایات میں اختلاف کی دوسری بڑی اور حقیقی وجہ یہ ہے کہ انبیاء کی بعثت اور ان کے سلسلہ کا آغاز نہایت معمولی اور غربت و تنہائی کی حالت میں ہوتا ہے۔ جو چند لوگ آغاز میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں ان کو بھی وہ امن و چین نصیب نہیں ہوتا کہ تاریخ کو محفوظ کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔ چنانچہ انبیاء کی وفات کے ایک عرصہ بعد ان کے حالات زندگی جمع کیے جاتے ہیں اور اس وقت تک بہت سے امور یاداشت میں گڈمڈ ہو چکے اور اکثر ابتدائی ساتھی وفات پا چکے ہوتے ہیں۔ مومنین کی نسلوں کو انبیاء سے محبت کی وجہ سے طبعاً ان کے حالات معلوم کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ اس وقت حقیقی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ہر قسم کی رطب و یابس باتیں قابل قبول ٹھہرتی ہیں اور حقیقی علم کے فقدان کو ذوقی نکات سے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے ڈیڑھ، دو سو سال بعد جمع کردہ روایات میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ و اللّٰہ اعلم مزید پڑھیں: اسلام کی پیش کردہ سچی توحید جس کو مسیح موعودؑ نے دوبارہ قائم فرمایا- مسیح موعودؑ اور قیامِ توحید