علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے اور خشیت الٰہی پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا(فاطر:۲۹)۔ اگر علم سے اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوتی تو یاد رکھو کہ وہ علم ترقی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے۔ (ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۱۱۰-۱۱۱، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی انسان کامل دنیا میں نہیں گزرالیکن آپ کو بھی رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (طٰہٰ:۱۱۵) کی دعا کی تعلیم ہوئی تھی پھر اور کون ہے جو اپنی معرفت اور علم پر کامل بھروسہ کرکے ٹھہر جاوے اور آئندہ ترقی کی ضرورت نہ سمجھے۔ جوں جوں انسان اپنے علم اور معرفت میں ترقی کرے گا اسے معلوم ہوتا جاوے گا کہ ابھی بہت سی باتیں حل طلب باقی ہیں بعض امو رکو ابتدائی نگاہ میں … بالکل بیہودہ سمجھتے تھے لیکن آخر وہی امور صداقت کی صورت میں ان کو نظر آئے اس لیے کس قدر ضروری ہے کہ اپنی حیثیت کو بدلنے کے ساتھ ہی علم کو بڑھانے کے لیے ہربات کی تکمیل کی جاوے، تم نے بہت ہی بیہودہ باتوں کو چھوڑ کر اس سلسلہ کو قبول کیا ہے۔ اگر تم اس کی بابت پورا علم اور بصیرت حاصل نہیں کرو گے تو اس سے تمہیں کیا فائدہ ہوا۔ تمہارے یقین اور معرفت میں قوت کیونکر پیدا ہو گی۔ ذرا ذرا سی بات پر شکوک اور شبہات پیدا ہوں گے اور آخر قدم کو ڈگمگا جانے کا خطرہ ہے۔ دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تووہ جو اسلام قبول کرکے دنیا کے کاروبار اور تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ شیطان ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے۔ نہیں صحابہ ؓ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے، انہوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے اُن کے دلوں کو لبریز کر دے انہوں نے حاصل کیا یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے۔ کوئی امر ان کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا۔ (ملفوظات جلد ۲صفحہ ۵۲۷-۵۲۸، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: تمام محفلیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوان کو ترک کرو