https://youtu.be/mFm47cr9Dek دماغ کو ایک ایسے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے واحد سمت فراہم کرے، تاکہ عقل اپنی توانائی ‘‘ کیوں؟’’ کی بجائے ‘‘ کیسے؟’’ پر صَرف کر سکے اور زندگی کے ہر معاملے میں راہنمائی کے لیے وحی ہی ایک یک رخا جذبہ فراہم کرسکتی ہے۔ پس جب اللہ کے احکام کو دل عقیدے کے طور پر قبول کر لے تو عقل کے لیے خیر و شر کا اصل پیمانہ طے ہو جاتا ہے اور دماغ پھر اس پیمانے کو بنانے کی بجائے عملی تدبیر میں صَرف ہوتا ہے۔ مقدّمہ اللہ نے یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی ہے۔ اس کا ہر پہلو، خواہ وہ عمل ہو یا فکر، اسی امتحان کا حصہ ہے۔ لوگ عموماً دین پر عمل کو ہی امتحان سمجھتے ہیں، مگر دراصل اس سے بھی اوّل امتحان عقیدے کو دل سے تسلیم کرنا اور عقل کے معیار پر پرَکھتے ہوئے برحق ماننا ہے۔ اگر عقیدے کو عقل کے تابع کر دیا جائے تو ہر انسان کے لیے خیر و شر کا پیمانہ الگ الگ ہوگا، اور یہی فکری انارکی دنیا میں فساد کو جنم دیتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عقل کو وحی کے تابع رکھا جائے، تاکہ عقل اپنی حدود پہچان کر اپنا کمال و عروج وحی کی پیروی کرتے ہوئے حاصل کر سکے۔ ‘‘عقلیدہ ’’ اسی حکمت کو سادگی سے واضح کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ۱۔ وحی دل میں کیوں، دماغ میں کیوں نہیں؟ عقل شک، تحقیق اور مشاہدے کا میدان ہے جبکہ دل جذبات کا۔ انسان کی داخلی ساخت ایسی ہے کہ دل کی جو کیفیت ہو، عقل اسی کے زیرِ اثر فیصلے کرنے لگتی ہے؛ چاہے وہ محبت ہو، نفرت ہو یا حسد۔ یہی وجہ ہے کہ وحی دل پر نازل ہوتی ہے، تاکہ عقل: جذبات یا ناقص تجربات کے باعث اسے ردّ کرنے کی بجائے دل کے یقین کی روشنی میں وحی کی راہنمائی قبول کرے۔ اگر عقل، وحی اترتے ہی اسے تسلیم کرنے کی حامل ہوتی تو وحی کی ضرورت ہی کیونکر ہوتی؟ خواب (وحی) میں جب عمرہ کی بشارت کی گئی تو نبی کریمﷺ اسی سال یعنی ۶؍ ہجری میں عمرے کے لیے روانہ ہوئے مگر عمرہ کیے بغیر لوٹنا پڑا۔ اگر اس وقت یہ امر دیکھ کر کوئی بھی انسان عقل سے فیصلہ کرتا تو ۷؍ہجری کے انتظار کی گنجائش ہی نہ مانتا، اور اس وحی کو نعوذباللہ جھوٹی قرار دے دیتا۔ لیکن جب ایمان نے دل کو تھامے رکھا تو عمرے کا وہ وعدہ اگلے سال میں پورا کرکے دکھا دیا گیا۔ ۲۔ عقل اور عقیدہ : دو راستے یا ایک؟ عقل، مشاہدے اور تجربے سے نتیجہ نکالنے کا ذریعہ فراہم کرتی ہے، جبکہ عقیدہ بغیر مشاہدہ کیے یقین کر لینے کا نام ہے۔ بظاہر یہ دونوں راستے مختلف لگتے ہیں، مگر درحقیقت عقل جب اپنی حدود پہچان لیتی ہے تو وہ عقیدے کی مددگار بن جاتی ہے۔ وحی انسان کی اُن معاملات میں راہنمائی کے لیے آئی جن میں انسانی عقل کوئی حتمی فیصلہ کرنے کے لائق نہ تھی بلکہ ٹھوکر کھا سکتی تھی۔ کسی کے نزدیک ایک بات اخلاقی ہوتی تو وہی دوسرے کے نزدیک بالکل غیر اخلاقی چونکہ عقل خود نفسانی خواہش اور مفاد سے بھی متاثر ہو سکتی ہے اور معاشرتی لحاظ سے تہذیب بھی غلط رُخ اختیار کر سکتی ہے۔ زمین پہ کھڑا انسان اپنی محدود آنکھ سے دیکھے گئے منظر کی بنیاد پہ یہی مانتا آیا کہ سورج نکلتا اور غروب ہوتا ہے مگر حقیقت میں زمین سورج کے گرد گردش کرتے ہوئے اپنا رُخ بدلتی ہے۔ اسی طور پہ زندگی کے امور میں پاکیزگی اور اخلاقی حدود کا تعین ہر انسان اپنی عقل اور معاشرے کے رہن سہن کی بنیاد پہ کرتا آیا اور اس میں اختلاف بھی رہا۔ سو ایک صحیح اور اٹل ضابطہ کے لیے اسے وحی کی ضرورت تھی کہ جس سے اس پہ یہ واضح کیا جائے کہ زندگی جس نے دی ہے اس نے انسان کو کن اصولوں پر جینے کے لیے بنایا ہے۔ اگر اخلاق کا ماخذ انسان کے اپنے تجربے، عقل اور اس کے معاشرے میں ہونے والی تہذیبی ترقی کو مان لیا جائے تو اس بنیاد پر ایک قوم جس میں ایک برائی عام ہو چکی ہو، وہ اس برائی کو برا نہیں جان پاتی۔ یعنی اگر معاشرہ ہی اخلاق کا پیمانہ ہو، تو پھر جو معاشرہ فحاشی یا ظلم کو عام کرلے، اس کے لیے یہ سب اخلاقی قرار پا جاتا ہے۔ ایسے میں بھلائی اور برائی کا تعین کون کرے گا؟ یہی وہ جگہ ہے جدھر وحی کی ضرورت ہے۔ پس وہ خالق ہی بتا سکتا ہے کہ اس کی مخلوق کے لیے کیا بھلائی اور کیا شر ہے۔ جیسے آنکھ دیکھنے کے لیے روشنی کی محتاج ہے، ویسے ہی عقل زندگی کا حقیقی ضابطہ پانے کے لیے وحی کی محتاج ہے۔ عقل جب عقیدہ کی اطاعت کرتی ہے، تب وہ وحی کے ٹھیک مفہوم کو سمجھنے لگتی ہے اور اس کی تصدیق کرنے لگتی ہے۔ ۳۔ ایمان بالغیب: عقل کی نفی؟ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ یہ کتاب ان کے لیے ہے جو غیب پر ایمان لائیں۔ غیب پر ایمان وہی لا سکتا ہے جو اپنے شعور کی حد کو پہچان چکا ہو۔ عقل ہمیشہ جاننے اور ثابت کرنے پر اصرار کرتی ہے، جبکہ ایمان تسلیم کرنے پر مگر اس سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ ایمان بالغیب عقل کی نفی کرتا ہے بلکہ درحقیقت یہ عقل کی حدود کو تسلیم کرنے کا نام ہے۔ خدا کو ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے، اس بنیاد پر عقل خدا کے وجود پہ سوال اٹھاتی ہے مگر یہی عقل خود بھی نظر نہیں آتی۔ لاتعداد اشیاء ایسی ہیں جو انسان کے پانچوں حواس سے معلوم نہیں کی جا سکتیں اور وہ صرف اپنے اثر کی بنیاد پر تسلیم شدہ ہیں، مثلاً عقل و شعور، طاقت و ہمّت، اور تو اور کششِ ثقل وغیرہ ایسی اشیاء ہیں کہ جن کا کوئی بھی شخص انکار نہیں کرتا اور ان تمام چیزوں کا وجود ان کے اثر ہی کی وجہ سے مانتا ہے۔ تو پھر کیونکر اور کس طرح اور کس اصول کے تحت خدا کے وجود پر ایمان یعنی ایمان بالغیب عقل کی نفی قرار پا سکتا ہے؟ مخلوق خالق کا اثر ہے۔ پس اس خالق کے وجود کو نہ دیکھ پانا اس کے وجود کی نفی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ ہماری عقل نے اس دنیا میں آنکھ ایک امتحان کے لیے کھولی ہے، اور اسی امتحان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم خالق کو صرف آثار سے پہچانیں، براہِ راست دیکھے بغیر۔ یہی ایمان بالغیب کی اصل روح ہے کہ عقل اپنی حد پر ٹھہر کر دل کو یقین کے دروازے تک لے جائے۔ ۴۔ ‘‘سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا’’ اور ‘‘ اَفَلَا تَعْقِلُوْن’’: تضاد یا گہری ہم آہنگی؟ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ایک جانب تو فرماتا ہے کہ ‘‘(ایمان لانے والے کہتے ہیں) ہم نے سنا اور مانا’’ جبکہ دوسری طرف یہ فرماتا ہے کہ‘‘ کیا تم عقل نہیں رکھتے؟’’ بظاہر ان دونوں باتوں میں تضاد لگتا ہے مگر یہ ایک ترتیب سے سمجھنے پر گہری ہم آہنگ معلوم ہوتی ہیں۔ یعنی پہلے ایمان، پھر فہم۔ پہلے تسلیم، پھر تعقل۔ جیسا کہ دوسرے باب میں ثابت کیا گیا ہے کہ عقل کو وحی کی ضرورت ہے، سو ایمان کو بنیادی زمین مانا جائے اور عقل کو اس پر اگنے والا پودا، تو پھل کی صورت کامیابی ضرور ملتی ہے۔ اگر عقل کو بنیاد بنایا جائے تو وہ ایک سمت کا تعین کرنے کو ہی بھٹکتی رہتی ہے، لیکن اگر ایمان بنیاد ہو تو عقل اس کے مطابق راستے کھولنے لگتی ہے۔ ۵۔ متشابہات: ضرورت و مفہوم ؟ قرآن مجید میں بعض آیات کو ‘‘محکم’’ کہا گیا ہے یعنی وہ جن کا مفہوم واضح، دو ٹوک اور بنیادی ہدایت پر مبنی ہے۔ جبکہ کچھ آیات کو ‘‘متشابہات’’ کہا گیا، یعنی وہ آیات جن کی گہرائی کو وقت، شعور، اور تدبر کے ساتھ مزید سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ امر ایسا ہرگز نہیں کہ متشابہات کا مفہوم زمانے کے اعتبار سے تبدیل ہوا یا ہو سکتا ہو بلکہ یوں ہے کہ زمانے کی ترقی کے نتیجہ میں عقل میں سمجھنے کی وسعت پیدا ہونے سے ان آیات کے معنی انسان کو مزید گہرائی سے سمجھ آ نے لگتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مکڑی کے گھر کو دنیا کے سب سے کمزور گھروں میں شمار کیا ہے۔ ابتدائی ادوار میں اس آیت کا مفہوم صرف مکڑی کے جالے کی جسمانی کمزوری تک محدود سمجھا جاتا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سائنس نے اس گھر کی ایک اور پہلو سے کمزوری کو بھی بے نقاب کیا اور بتایا کہ مکڑی کا گھر نہ صرف ساخت میں ناپائیدار ہوتا ہے بلکہ اس میں باہمی تعلقات بھی شدید بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں؛ مادہ مکڑی نر کو مار دیتی ہے، اور بچے بھی ایک دوسرے کو کھا جاتے ہیں۔ یوں وہ گھر جہاں محبت، حفاظت اور تعلق کا ہونا ضروری تھا، وہاں نفرت، خطرہ اور ٹوٹ پھوٹ پائی جاتی ہے۔ اس مثال سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وحی کی باتیں بظاہر سادہ نظر آتی ہیں مگر ان میں ایسی گہرائیاں پوشیدہ ہوتی ہیں جو عقل وقت اور مشاہدے کے ساتھ دریافت کرتی ہے۔ پس عقل کو وحی کے تابع رکھنا ہی حکمت کا تقاضا ہے۔ اگر سب کچھ ایک ہی وقت میں واضح کر دیا جاتا تو عقل رک جاتی، سوال نہ کرتی اور سیکھنے کا سفر ختم ہو جاتا۔ متشابہ آیات عقل کو یہ تحریک دینے کے لیے ہیں کہ وہ ایمان کی بنیاد پر سفر کرے اور اس لیے بھی کہ یوں انسان کا اس کی سمجھ کے معاملے میں امتحان لیا جا سکے۔ ۶۔ دل و دماغ، عقل و عقیدہ : ‘‘عقلیدہ’’ نفسیات پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا دماغ چاہے جتنا بھی تجزیاتی ہو، جب تک اسے کوئی قطعی اقدار نہ ملیں، وہ فیصلوں کی بھول بھلیّوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ اخلاقی فلسفے کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ محض عقل کی بنیاد پر ایسا عالمگیر ضابطہ کبھی مرتب نہیں ہوا جو ہر تہذیب اور ہر زمانے میں یکساں طور پر قابلِ عمل ہو۔ دماغ کی ساخت ہی ایسی ہے کہ وہ مشاہدات سے اصول گھڑتا ہے، پھر اگلے ہی تجربے پر ان اصولوں کو بدلنے پر مجبور ہو جاتا ہے؛ نتیجہ یہ کہ ‘‘ کیا درست ہے؟’’ کا سوال ہمیشہ معلق رہتا ہے۔ انسانی نفسیات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کسی بھی فیصلہ سازی میں صرف عقلی منطق نہیں، بلکہ دلی جذبہ بھی ایک بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر دل کو دماغ کا پیرو کر دیا جائے تو جذبہ متعدد سمتوں میں کھِنچتا چلا جائے گا اور ذہن فیصلہ لیتے وقت تعطل کا شکار ہو جائے گا۔ دماغ کو ایک ایسے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے واحد سمت فراہم کرے، تاکہ عقل اپنی توانائی ‘‘ کیوں؟’’ کی بجائے ‘‘کیسے؟’’ پر صَرف کر سکے اور زندگی کے ہر معاملے میں راہنمائی کے لیے وحی ہی ایک یک رخا جذبہ فراہم کرسکتی ہے۔ پس جب اللہ کے احکام کو دل عقیدے کے طور پر قبول کر لے تو عقل کے لیے خیر و شر کا اصل پیمانہ طے ہو جاتا ہے اور دماغ پھر اس پیمانے کو بنانے کی بجائے عملی تدبیر میں صَرف ہوتا ہے۔انسان کے باطنی نظامِ اقدار میں جب وحی کی قدرِ اعلیٰ نصب ہو جاتی ہے تو ذہن فیصلوں کی بےسمت بھیڑ سے آزاد ہوکر سیدھی راہ پر چل پڑتا ہے۔ یہی توازن ‘‘عقلیدہ’’ کا حسنِ ختم بھی ہے: ‘‘دل صحیح منزل دکھانے کے لیے ہے اور عقل اس منزل تک کا سفر طے کروانے کے لیے۔’’ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: چندانمول لمحے(قسط اول)