ہر بات حسیں اس کی، ہر کام پسندیدہ ۱۹۹۷ء کے جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر میر محمود احمد ناصر صاحب نماز کے انتظار میں اگلی صف میں بیٹھے تھے۔ مکرم ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب مرحوم نے مجھے ایک لفافہ دیا کہ یہ لفافہ مکرم میر صاحب کو پکڑا دواور یہ نہ بتانا کہ کس نے دیا ہے۔ مَیں وہ لفافہ پکڑا کر ابھی پچھلی صف میں پہنچا ہی تھا کہ میرصاحب نے مجھے آ لیا اور غصہ کے عالم میں پوچھا کہ کس نے دیا ہے یہ؟ اس کو واپس کر دو۔ مَیں نے جلال شمس صاحب کو لفافہ واپس پکڑاتے ہوئے پوچھا کہ اس میں کچھ رقم تھی کیا؟ کہنے لگے ہاں۔ لیکن تمہیں کیسے پتا چلا؟ مَیں نے کہا کہ میر صاحب کے انداز سے۔ آپ کو تو علم ہے کہ وہ کبھی رقم نہیں پکڑتے۔ جلال شمس صاحب کہنے لگے کہ میر صاحب ہمارے استاد ہی نہیں ہمارے محسن بھی ہیں۔ ہماری مالی مدد بھی کرتے رہے۔ میری شادی پربھی دونوں بھائی آئے تھے۔ محترم میر داؤد صاحب اور محترم میر محمود صاحب۔ دونوں نے اچھی خاصی رقم بھی تحفہ میں دی تھی۔ مگر عجیب غنی لوگ ہیں، خود کسی سے کچھ نہیں لیتے۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے خطبہ جمعہ میں خاص طور پر اس عادت استغناء اور توکل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت خلیفہ ثالثؒ فرماتے ہیں کہ جہاں تک میں نے غور کیا تینوں میں (تین بھائی مراد ہیں) ایک ہی چیز پائی جاتی تھی یعنی جو کچھ خدا نے دیا جتنا دے دیا اس پر انسان کو راضی رہنا ہی نہیں بلکہ خوش رہنا چاہئے۔ صرف راضی نہیں رہنا بلکہ خوشی سے راضی رہنا ہے۔(الفضل انٹرنیشنل ۷؍جون ۲۰۲۵ء) اور اس بات کی ایک دنیا گواہ ہے کہ وہ خدا سے راضی تھےاور خدا اُن سے راضی تھا اور خود اپنے ہاتھ سے اُن کو رزق دیتا تھا جسے دوسرے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان سے خدا کے کام سبھی معجزانہ ہیں یہ اس لئے کہ عاشقِ یار یگانہ ہیں میرے ایک عزیزجوجامعہ احمدیہ میں استاد ہیں انہوں نے بتایا کہ ان کی شادی پر بھی اچھی خاصی رقم دی اور بعد میں حضرت مصلح موعودؓ کا ایک ٹی سیٹ جو آپؓ نے اٹلی سے خریدا تھا وہ اُن کو تحفہ میں بطور تبرک دیا۔ خود کسی سے نہیں لیتے تھے مگر ہاتھ اس قدر کھلا تھا کہ کھل کر لوگوں کی مالی مدد کیا کرتے تھے اور شاگردوں کی خاص کر۔ اُن کو چائے یا دودھ پینے کی دعوت دیتے۔ بسا اوقات شاگرد خود ہی مہمان بن جاتے تو آپ اُن کی دعوت کرکے خوش ہوتے۔ متعدد بار ایسا ہوا کہ کسی کو رقم کی ضرورت پڑی تو خاموشی سے لفافہ اُس کی جیب میں ڈال دیا جو اُس کی ضرورت سے زیادہ ہی ہوتا۔ ایک بار شاگردوں کو کہا کہ جناح کیپ پہنا کرو اور اگر دیکھتے کہ کسی نے دوسری ٹوپی پہنی ہے تو اُس کو جناح کیپ خریدنے کی نصیحت کرتے اورساتھ رقم بھی پکڑا دیتے۔ ایک بار ایک شاگرد کی کسی حرکت پر اُسے ہوسٹل سے فوراً نکل جانے کا حکم دیا۔ہوسٹل کے انچارج نے اُس کو ہوسٹل چھوڑنے کو کہا اور پھر میر صاحب کو رپورٹ دی کہ وہ ہوسٹل سے چلا گیا ہے۔ فرمانے لگے کہ اُس کے پاس گھر جانے کے پیسے بھی تھے؟ جاؤ بھاگ کر پتاکرو اور اُس کو رقم دو۔ ایسے استاد سے کوئی محبت کیسے نہ کرے۔ میر انجم پرویز صاحب نےاپنے بزرگ استاد کو کیا خوب خراج تحسین پیش کیا ہے کہ؎ تجھ بن وجود گلستاں کامل نہیں رہا یا یوں کہیں کہ آدمی میں دل نہیں رہا روشن یہاں چراغ بھی اور روشنی بھی ہے لیکن وہ ایک رونق محفل نہیں رہا دوڑا رہا ہوں رخشِ نظر ہر طرف مگر جس شخص کی تلاش ہے وہ مل نہیں رہا خوشبو سے جس کی سارا زمانہ مہک اٹھے گلشن میں ایسا پھول کہیں کھل نہیں رہا آپ کے ایک شاگرد نے بتایا کہ جامعہ کے پہلے روز ہمیں نصیحت کی کہ اب تو تمہارا ایمان ہے کہ ‘‘ایک خدا ہے’’ مگر جب جامعہ سے فارغ ہونا ہے تو تمہاری یہ حالت ہونی چاہیے کہ تم حق الیقین کے ساتھ یہ کہہ سکو کہ ‘‘میرا ایک خدا ہے۔’’ پھر کہا کہ تم جامعہ آگئے ہو تو گھروں کو طلاق دے دو۔ وہ شاگرد لکھتے ہیں کہ میری ہمشیرہ کی شادی تھی۔ رخصتانہ کے وقت جامعہ میں ایک پروگرام تھا لہٰذا میں اپنی ہمشیرہ کے رخصتانہ میں شامل نہ ہوا۔ حضرت میر صاحب نے میرے والد صاحب سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ والد صاحب نے جواب دیا کہ جامعہ میں ہے۔ اگلے روز میر صاحب نے مجھے پکڑ لیا اور کہا کہ ‘‘تم نے طلاق کا مطلب غلط سمجھا ہے۔ تمہیں مربی بننا ہے، مولوی نہیں۔’’ بارش والے دن برساتی پہن کر سب سے پہلے جامعہ آجاتے تاکہ اساتذہ اور شاگردوں کے لیے عملی نمونہ بنیں۔ خلیفۂ وقت سے محبت، اخلاص بلکہ ایک غلامانہ عشق کا تعلق تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے دوست تھے۔ اکٹھے School of Oriental and African Studies میں پڑھتے بھی رہے۔ آپس میں مذاق کابھی تعلق تھا جس کے بہت سے لوگ گواہ ہیں مگر جب وہی میاں طاری خلیفہ بنتا ہے تو میر صاحب ایسے ہاتھ باندھ کر پیچھے چلتے ہیں جیسے کوئی غلام ہو۔حضور رحمہ اللہ مزاح کرتےبھی تو آپ عموماً خاموشی اور سنجیدگی سے کام لیتے اور اگر کوئی جواب دینا ہوتا تو ہاتھ باندھ کر سر جھکا کر آنکھیں بندکر کے۔ ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا خطاب براہِ راست آنا تھا۔ سارے لوگ جامعہ کے ہال میں موجود تھے۔ براہ راست پروگرام شروع ہونے سے قبل حضور رحمہ اللہ کی ایک ویڈیو چل رہی تھی۔ کچھ لوگ بول رہے تھے۔ حضرت میر صاحب نے سب کو سختی سے ڈانٹا اور کہاتمہیں شرم نہیں آتی خلیفہ وقت کچھ فرما رہے ہیں اور تم بول رہے ہو۔ کسی نے کہا کہ ابھی حضوررحمہ اللہ براہِ راست مخاطب نہیں۔ فرمایا خلیفۂ وقت کی آواز کے سامنے تمہاری آواز نکلی کیوں؟ پروگرام ختم ہونے کے بعد سب کو ایک ہزار بار استغفار کرنے کو کہا۔ میر صاحب کا وہ واقعہ بھی کتنا حسین اور دلکش ہے جو ان کے صاحبزادے محمد احمد صاحب نے بیان کیا ہےکہ ایک بار میر صاحب پاکستان سے لندن پہنچے اور مسجد فضل کے صحن میں حضورِانور کے دیدار کو کھڑے ہو گئے۔ کسی دوست نے مکرم میر محمود صاحب سے پوچھا کہ میر صاحب آپ کب تشریف لائے؟میر صاحب نے حضورِانور کی رہائش گاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہاں کوئی تشریف نہیں لاتا یہاں سب حاضر ہوتے ہیں۔سبحان اللہ۔ گو میں اس موقع پر موجود نہ تھا مگر چشم تصور میں میر صاحب کے اس پیارے اور والہانہ انداز کو دیکھ رہا ہوں اور وہ اٹھی ہوئی انگلی بھی دیکھ رہا ہوں جوخلافت کی بارگاہ کی عظمت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ دل میں میر صاحب کی یاد کے میٹھے میٹھے دردکے پھول کھل رہے ہیں۔ لکھنے والا کیا لکھے اور کیا چھوڑے۔ جب بھی ملتے تو دعا کے لیے عرض کرتا تو فوراً یہی جواب ہوتا کہ حضور کو لکھیں۔ ان کے بار بار کے اس جواب سے تنگ آ کر خاکسار نے مکرم الیاس منیر صاحب سے کہا کہ دل کرتا ہے کہ حضورِانور سے میر صاحب کی شکایت کروں کہ وہ ہمارے لیے دعا نہیں کرتے۔مکرم الیاس منیر صاحب نے جلسہ یو کےپر بات کرتے ہوئے میر صاحب سے کہا کہ آپ کی ایک شکایت حضورِانور کی خدمت میں جانے والی ہے۔الیاس منیر صاحب کا کہنا ہے کہ میر صاحب سخت گھبرا گئے بلکہ Panic میں آگئے۔ جب بات بتائی تو مسکرا کر فرمایا کہ اس سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے کہ خلیفہ وقت کو لکھنے کے لیے کہتا ہوں۔اس سے مَیں سمجھ گیا کہ دعا تو کرتے ہوں گے مگر یہ بھی جانتے تھے کہ اس دعا میں اگر خلیفہ وقت کی دعا شامل نہ ہوئی تو پھر میری دعا کچھ کام کی نہیں۔ لہٰذا حضور کی خدمت میں لکھنے کی تحریک فرماتے تھے۔ ۱۹۹۷ء ہی کا ایک واقعہ ہے۔ آپ جرمنی تشریف لائے ہوئے تھے۔ خاکسار مسجد بیت القیوم میں گیا تو بے خیالی میں سیدھا اس کمرے میں داخل ہوگیا جہاں میرصاحب اپنے شاگرد مربیان کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ مَیں باہر نکلنے لگا تو بلالیا۔ مکرم زکریا خان صاحب نے کہا کہ یہ چودھری حمیداللہ صاحب کا بھانجا ہے۔ فرمایا یہ کیوں نہیں کہتے کہ مولوی دیالگڑھی صاحب کا بیٹا ہے۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ تمہیں اپنے والد صاحب کا واقعہ یاد ہے۔ مجھے علم نہیں تھا کہ اُن کے ذہن میں کون سا واقعہ ہے لہٰذا خاموش رہا۔ پھر آپ نے دوسروں کو مخاطب کرتے ہوئے وہ واقعہ سنایا جو ہمارے خاندان میں بہت معروف ہے۔ وہ واقعہ یوں ہے کہ جب ہماری چھٹی ہمشیرہ کی پیدائش ہوئی تو حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ جو ہمارے والد صاحب کے افسر تھے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دفتری ملاقات کے لیے حاضر ہوئے اور باتوں باتوں میں کہا کہ ‘‘مولوی دیال گڑھی دے گھر چھیویں کُڑی ہوئی اے۔’’ حضرت مصلح موعودؓ ڈاک دیکھ رہے تھے۔ آپؓ نے سر اُوپر اٹھایا مسکرائے اور پھر فرمایا ‘‘اچھا۔ اب نہیں ہوگی۔’’ یہ واقعہ سنا کر میرصاحب نے مجھ سے پوچھا کہ اُس چھٹی لڑکی کے بعد کوئی لڑکی پیدا ہوئی؟ مَیں نے عرض کیا کہ نہیں۔ بلکہ اس کے بعد چھ لڑکے پیدا ہوئے۔ خاکسار انیس، عزیزم ادریس، عزیزم رئیس طاہر، عزیزم جلیس اوّل مرحوم، عزیزم جلیس اور عزیزم صبغۃ اللہ مرحوم۔یہی نہیں بلکہ چھٹی لڑکی یعنی ہماری ہمشیرہ انیسہ ثروت کے ہاں بھی چھ لڑکے تولد ہوئے۔ سبحان اللہ۔ ایک عارف باللہ، ایک خدانما وجود کے لبِ مبارک سے نکلا ہوا ایک فقرہ اُس کے زندہ خدا نے کیسے پورا فرما دیا۔ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ ہے دیں وہی کہ صرف وہ اک قصہ گو نہیں زندہ نشانوں سے ہے دکھاتا رہِ یقیں ہے دیں وہی کہ جس کا خدا آپ ہو عیاں خود اپنی قدرتوں سے دکھا وے کہ ہے کہاں ہر دم نشانِ تازہ کا محتاج ہے بشر قصوں کے معجزات کا ہوتا ہے کب اثر خدانمائی کی یہ صفت میر محمود صاحب کے وجود میں بھی پنہاں تھی لیکن آپ اُس کا اظہار نہیں کرتے تھے بلکہ چھپاتے تھے۔ ایک واقعہ جو بےاختیاری میں اُن سے سرزد ہوگیا وہ ان کے اس شاگرد خاص نے بتایا جومیرے قریبی عزیز ہیں اور جامعہ میں استادہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک بار ایک سیاستدان جو ریلوے کا وفاقی وزیر بھی تھا جامعہ میں آیا۔ جامعہ کے کچھ اساتذہ بھی میر محمود صاحب کے ساتھ اس مجلس میں شامل تھے۔ باتوں باتوں میں اُس نے یہ سوال کر دیا کہ حضرت مرزا صاحبؑ کو ماننے کا فائدہ کیا ہے؟ تو میر صاحب نے فوراً فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو ماننے سے خدا مل جاتا ہے اور وہ زندہ خدا سے ملاقات کرتا ہے۔ اُس نے کہا کہ کیا کوئی ایسا ہے بھی جس سے خدا کی ملاقات ہوئی ہو؟ تو میر صاحب نے بھرپور یقین، جلالی اور جذباتی انداز میں فرمایا کہ ہاں اس مجلس میں بھی ایک ایسا شخص موجود ہے جس سے خدا ہمکلام ہوتا ہے۔ میر صاحب پر اُس وقت بےخودی اور جلال کی ایسی کیفیت طاری تھی کہ وہ شخص خاموش ہوگیا۔ مہمان کے جانے کے بعد اُس شاگرد نے میر صاحب سے پوچھا کہ میر صاحب اس مجلس میں وہ شخص کون تھا جس کا آپ نے ذکر کیا کہ اس سے خدا ہمکلام ہوتا ہے تو آپ نے اُس کو کندھے سے پکڑ کر کمرے سے دھکیلنے کے انداز میں کہا کہ ‘‘چلو چلو تمہاری کلاس کا وقت ہوگیا ہے۔’’ یہ شاید میر صاحب کی زندگی کا واحد واقعہ ہو جو میر صاحب کی زبان سے بےاختیاری میں ایسے الفاظ نکل گئے بلکہ خدا نے کہلوا دیے تا لوگوں کو پتا چلےکہ یہ بھی میرا بندہ ہے اور یہ ہی مجھ سے پیار نہیں کرتا بلکہ مجھے بھی اس سے پیا رہے۔ ورنہ میر صاحب نے اپنی عاجزانہ اور منکسرانہ طبیعت کی وجہ سے کبھی نہیں بتانا تھا۔ وہ خدا اَب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: دل کی گہرائیوں سے لکھا ہوا ایک خط