(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۴؍ستمبر ۱۹۱۵ء) دنیا میں صرف عمدہ تحریر کوئی شے نہیں بلکہ اس قابل التفات تحریر کا اثر ہوتا ہے جو صدق و اخلاص سے لکھی جائے۔ اس وقت دنیا میں ایسے لوگ ہیں جن کی تحریریں علم ادب کا اعلیٰ نمونہ سمجھی گئی ہیں لیکن انہیں وہ کمال کہاں حاصل ہوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا چونکہ آج ایک ضروری سوال درپیش ہے جس کے متعلق جماعت کی رائے دریافت کرنا ضروری ہے اس لیے میں اس اجتماع سے فائدہ اٹھاتا ہوں۔ گو پہلے بھی ایک دفعہ یہ سوال پیش ہو چکا ہے مگر چونکہ اس وقت اس کا موقع نہیں تھا اس لیے فیصلہ نہ کیا گیا۔ اب میں دوبارہ اس کو یہاں لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اخباروں والے اخباروں کے ذریعہ باہر کے لوگوں تک پہنچادیں تا کہ سب لوگ اس پر غور کر کے مجھے جواب دیں۔ امید ہے کہ اس بات سے سب واقف ہوں گے کہ ایک بڑی رقم پر مولوی محمد علی صاحب نے صدر انجمن احمد یہ کا ملازم رہ کر ترجمۃ القرآن کا کام کیا ہے اور ان کی وہ چٹھیاں اور کا غذات جن میں وہ لکھتے رہے ہیں کہ ترجمۃ القرآن کے لیے مجھے فراغت چاہیے، الگ مکان چاہیے، پہاڑ پر جانے کی ضرورت ہے، ٹائپ رائٹر درکار ہے، مددگار مولوی کی ضرورت ہے، ٹائپسٹ چاہیے و غیرہ اس وقت تک موجود ہیں۔ پھر مولوی محمد علی صاحب کی یہ تحریر بھی موجود ہے کہ مولوی شیر علی صاحب کو ایڈیٹر بنا دیا جائے اور مجھے ترجمۃالقرآن کے لیے خاص طور پر فارغ کر دیا جائے۔ پانچ چھ سال میں قریباً اڑھائی تین ہزار سالانہ خرچ کے حساب سے پندرہ ہزار روپیہ اس کام پر خرچ ہوا ہے۔ اور اس کے علاوہ اس کے متعلق دیگر اشیاء پر جو روپیہ خرچ ہوا ہے وہ بھی دو تین ہزار کے قریب ہے۔ یعنی مددگار مولویوں اور کلرکوں اور کتابوں وغیرہ کا خرچ مل ملا کر کوئی پانچ ہزار کے قریب بنتا ہے۔ کُل بیس ہزار اندازاً سمجھ لو۔ یہ روپیہ جو ایک خاص کام کے لیے مولوی محمد علی صاحب پر خرچ ہوا ہے انہوں نے جو کام کیا تھا وہ تمام کا تمام ساتھ لے گئے ہیں۔ یہ بات آپ سب لوگ جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کو وہ اپنی ملکیت قرار دے رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کا دماغ خرچ ہوا ہے پھر اور کیوں؟ اس لیے کہ انہیں ایک ایسا قانون مل گیا ہے کہ وہ اس کی رُو سے اس پر قبضہ کر سکتے ہیں جس طرح آج تک بہت سے مسلمان کہلانے والوں کو یہ قانون ملا ہوا ہے کہ بیٹیوں اور بہنوں کو وراثت سے حصہ نہیں مل سکتا اس لیے وہ نہیں دیتے۔ بے شک قرآن شریف میں آیا ہے کہ ان کو حصہ دو اور ضرور دو۔ بے شک آنحضرتﷺنے تاکید کی ہے کہ ان کو حصہ دو اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی عقل اور اخلاق ِسنہ مجبور کرتے ہیں کہ بیٹیوں اور بہنوں کو حصہ دیا جائے مگر باوجود اس کے مسلمانوں کو قانون جومل گیا ہے اگر نہ دیا جائے تو حرج نہیں اس لیے یہ کیا کریں۔ اسی طرح مولوی محمد علی صاحب کو کسی وکیل نے قانون بتا دیا ہے کہ باوجود اس کے کہ تم نے بیس ہزار رو پیہ انجمن کا کھایا ہے لیکن پھر بھی تم انجمن کا ترجمہ ہضم کر سکتے ہو اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہم ترجمہ نہیں دیتے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کو تو قانون ملا ہے اور ہمارے بھی خدا کے فضل سے قانون دان ہیں وہ کہتے ہیں کہ مولوی صاحب بڑی آسانی سے پکڑے جا سکتے ہیں۔ یہ تو قانون دیکھیں گے یا گورنمنٹ فیصلہ کرے گی کہ ان کا چودھری زیادہ قانون دان ہے یا ہمارا۔لیکن پہلا سوال یہ ہے کہ ہمیں کوئی قانونی کارروائی کرنی بھی چاہیے یا نہیں۔ پیچھے تو یہ معاملہ اس لیے رہ گیا تھا کہ کسی اور طریق سے فیصلہ کر لیا جائے پھر یہ بھی خیال تھا کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ابھی ترجمہ کا کام کر رہا ہوں شاید کچھ عرصہ کے بعد مان جائیں۔ لیکن اب مسلم انڈیا میں اشتہار چھپا ہے کہ جلدی قرآن کا ترجمہ شائع کیا جائے گا۔اس لیے اب اس بات کا جلدی فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا وہ بیس ہزار روپیہ جو اس کام پر خرچ ہوا ہے اور مولوی صاحب اسی کے لیے ملازم رکھے گئے تھے اس کا کیا کیا جائے؟ یہ تو ہے نہیں کہ انہوں نے ٹھیکہ پر کام کیا ہے اس لیے اب کہہ دیں کہ اپنا روپیہ لے لو ہم کام نہیں دیتے۔ انہیں تو ملازم رکھا گیا تھا اور ملازم کی اور حیثیت ہوتی ہے، ٹھیکہ دار کی اور۔ مثلاً ایک آدمی کو روپیہ دیا جائے کہ فلاں چیز بناؤ۔ گو اس کی ایمانداری اسی میں ہے کہ بنادے لیکن وہ ایسا بھی کرسکتا ہے کہ چیز بنا کر کسی اور کو دے دے اور روپیہ واپس کر دے۔ شریعت کے تو یہ خلاف ہے۔ لیکن وہ بہانہ وغیرہ کر سکتا ہے۔ لیکن ایک ملازم جو ہر صبح و شام اسی روپیہ سے کھانا حلق سے اُتارتا ہے جو اسے تنخواہ میں دیا جاتا ہے۔وہی کپڑا پہنتا ہے جو تنخواہ کے ذریعہ حاصل کرتا ہے وہ کوئی بہانہ نہیں بنا سکتا کہ جو کام میں کر رہا ہوں وہ میرا اپنا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان سے یہ ترجمہ لیں یا نہ لیں ؟ لینے کے لیے تو ہم بظاہر اس لیے مجبور ہیں کہ اس پر سلسلہ کا روپیہ خرچ ہوا ہے اگر ترک کیا جائے تو یہ سلسلہ کی خیانت نہ ہو۔ لیکن اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ اسلام کی تاریخ سے بہت سے ایسے واقعات معلوم ہوتے ہیں کہ بعض لوگوں نے خیانتیں کیں، فساد اور شرارت پھیلائی، عداوت اور بغض میں بڑھ گئے۔مگر انبیاء کے سلسلہ نے یہی طریق اختیار کیا ہے کہ چشم پوشی کی ہے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھا ہے۔ ان سے جہاں تک ہوسکا خیانت کو وصول کرنے اور شر و فساد کے دور کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سزا دہی کے لیے خدا تعالیٰ پر ہی نظر رکھی ہے۔ پس ہمیں بھی چاہیے کہ اس عمل کی اتباع کریں۔ پس اس سوال کا جواب کہ مولوی صاحب کی اس کارروائی کے متعلق کیا کیا جائے؟ ایک تو یہ ہے کہ عدالت تک معاملہ پہنچایا جائے۔ دوسرا یہ کہ خدا کے سپر د کیا جائے۔ ان دونوں پہلوؤں کے متعلق جماعت کو چاہیے کہ غور کرے اور مجھے مشورہ دے کہ آیا خاموشی اختیار کی جائے یا عدالت میں یہ معاملہ لے جایا جائے۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ حرام چیز کسی کو ہضم نہیں ہوا کرتی اور کسی نہ کسی رستہ ضرور باہر آ جاتی ہے چونکہ انہوں نے خیانت سے کام لیا ہے اس لیے وہ فائدہ تو کبھی نہیں اٹھا سکتے۔ ہم نے کوشش کر دی ہے۔ بار بار کہلا بھیجا ہے حتّٰی کہ ایک وفد خاص بھیجا لیکن انہوں نے ترجمہ نہیں دیا بلکہ اشارۃً یہ بھی کہا ہے کہ ترجمہ ہمارا ہی ہے۔ اس معاملہ کے متعلق جو میری رائے ہے وہ بھی میں بتا دیتا ہوں۔ میری اپنی رائے میں زیادہ مفید اور مناسب یہ بات ہے کہ ان کو چھوڑ ہی دیا جائے اور اللہ کے حوالہ کر دیا جائے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فیصلہ ہو گا وہ انسانوں کے فیصلہ سے زیادہ صاف ہوگا۔ کیونکہ وہ خالق و مالک ہے اور انسانوں سے زیادہ زبردست اور طاقتور ہے۔ میرے خیال میں ان کا ترجمہ لے جانا ہمارے لیے بڑی بھاری فتح ہے۔ انسان جوش اور عداوت میں جرم کر تو لیتا ہے لیکن بعد میں خود ہی شرمندہ ہوتا ہے یہ ہمیشہ ان کے گلے میں پھانسی کی طرح لٹکتا رہے گا۔ ہماری اور ان کی بحثیں تو ہوتی ہی رہیں گی۔ پس ہمیشہ ان کو اس سوال کے آگے نادم ہونا پڑے گا کہ ان کے فرقہ کا بانی، سلسلہ احمدیہ کے روپیہ کو کس طرح قانون کا عذر کر کے خرد برد کر گیا۔ یہ چونکہ قومی اور جماعت کی خیانت ہے شخصی نہیں اس لیے جماعت کے اختلاف میں اسے ہم پیش کر سکتے ہیں۔ کیونکہ قومی جرائم کا پیش کرنا بر خلاف ذاتی جرائم اچھا اور چھپانا جرم ہے اس لیے یہ ان کے نام پر ہمیشہ کے لیے دھبہ رہے گا اور اگر ہم لے لیں گے تو اور ہمیں مل بھی جائے گا۔ تو اس خوبی سے ہم انہیں ملزم قرار نہیں دے سکیں گے۔ پھر یہ کہ جس ترجمہ نے ترجمہ کرنے والے کو کچھ فائدہ نہیں دیا وہ ہمیں کیا دے سکتا ہے۔ وہ شخص جو چھ سال قرآن پر غور کر کے یہ معنی کرتا ہے کہ قُلِ اللّٰهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ۔اللہ منوا کر چھوڑ دو۔ اس کا کیا ہوا ترجمہ ہمارے لیے کیا مفید ہو سکتا ہے؟ اگر ہم مقدمہ کر کے اس ترجمہ کو لے لیں گے تو ہزار دو ہزار روپیہ جو خرچ ہوگا وہ بھی ضائع ہی جائے گا کیونکہ ایسا ترجمہ جس کے کرنے والا کہتا ہے قُلِ اللّٰهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ۔الله منوا کر چھوڑ دو۔ ہم چھاپ نہیں سکتے۔ اور اگر اس کی اصلاح کر کے چھپوائیں تو جو محنت اس پر کریں گے اس سے کم میں نیا کیوں نہ تیار کر لیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل ؓ ایک مثال بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک عورت کے زیورات ایک چور لے گیا۔ اس نے چور کی شکل رات دیکھ لی تھی۔ ایک دن جو وہ گلی میں بیٹھی چرخہ کات رہی تھی تو وہی چورگزرا۔ عورت نے اس کو کہا کہ ذرا میری بات تو سن جاؤ۔ وہ ڈر کے مارے بھاگا تو اس نے کہا میں تمہیں پکڑ واتی نہیں صرف بات سن جاؤ۔ جب وہ ٹھہرا تو اس نے کہا کہ دیکھو تم سب زیورات لوٹ کر لے گئے تھے لیکن میرے ہاتھ میں پہلے سے بھی زیادہ موٹے کڑے ہیں اور تمہاری ٹانگوں میں وہی پہلی لنگوٹی ہے۔ تو بیشک وہ اپنی طرف سے صفایا کر گئے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ان کی لنگوٹی ہی رہے گی اور ہمیں خدا تعالیٰ اور کڑے دے دے گا۔ پس چاہیے کہ ہم بھی اسی طرح کریں اور کہیں کہ اگر ترجمہ لے گئے ہیں تو لے جائیں انہیں کے لیے وبال جان ہوگا۔ ہمیں خدا تعالیٰ اس سے بہتر اور بہت بہتر دے گا اور انشاء اللہ مبارک دے گا۔ مفید تو وہی شے ہوتی ہے جو مبارک ہو۔ بہت لیکچرار ایسے ہوتے ہیں جو بڑی لمبی لمبی اور فصیح تقریر یں کرتے ہیں لیکن ان کا اثر نہیں ہوتا اور کسی اور کے دو کلمے اثر کرجاتے ہیں اور اصل کلام بھی اسی کا ہے جسے خدا تعالیٰ سے اثر ملا ہو۔ پس جبکہ ہمیں یقین ہے کہ خدا تعالیٰ ہم کو اس ترجمہ سے بہتر ترجمہ ہی نہ دے گا بلکہ با برکت بھی دے گا تو پھر اس کے لینے کے لیے کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ دنیا میں صرف عمدہ تحریر کوئی شے نہیں بلکہ اس قابل التفات تحریر کا اثر ہوتا ہے جو صدق و اخلاص سے لکھی جائے۔ اس وقت دنیا میں ایسے لوگ ہیں جن کی تحریریں علم ادب کا اعلیٰ نمونہ سمجھی گئی ہیں لیکن انہیں وہ کمال کہاں حاصل ہوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا۔ حالانکہ آپ اردو کے اشعار میں ‘‘جندا ’’ بھی استعمال کر گئے ہیں۔ لیکن ان اشعار کو پڑھ کر مخالف بھی ایسا متاثر ہوتا ہے کہ کھنچا چلا آتا ہے اور وہ شعر جو گھوٹ گھوٹ کر لکھے جاتے ہیں کچھ اثر نہیں کرتے۔ پس ہمیں کسی کی لفاظی پر لٹو نہیں ہونا چاہیے اور مفید اور بابرکت کی تلاش کرنی چاہیے جو خدا تعالیٰ ہمیں انشاء اللہ ضرور دے گا۔ ہمارے کڑے پھر بھی بن جائیں گے۔ مگر ان کا یہ فعل ان کے لیے ہمیشہ ذلّت کا موجب رہے گا۔ پس میری اپنی رائے یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم دو ہزار روپیہ خرچ کر کے ردّی کا غذ جلانے کے لیے لاڈالیں انہیں کہیں کہ یہ ترجمہ آپ ہی رکھیں۔ اس طرح جو روپیہ بچ جائے گا وہ کسی اور مفید کام میں کام آجائے گا لیکن چونکہ یہ جماعت کا معاملہ ہے اور غرباء اور امراء سب کا پیسہ پیسہ جمع کر کے اس پر خرچ کیا گیا ہے اس لیےضروری ہے کہ ہم بغیر تمام جماعت کی رائے کے معلوم کرنے کے کچھ نہ کریں اسی لیے میں نے خطبہ میں اس بات کو بیان کر دیا ہے۔ یہاں کی انجمن اس پر غور کرے اور مجھے اطلاع دے اور باہر کی انجمنیں بھی غور کر کے اطلاع دیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ جماعت کے مال کی خیانت ہے اس لیے ان کے وہ تمام کاغذات اور درخواستیں جو ترجمۃ القرآن کے متعلق ہیں سب تفصیل وار ایک ٹریکٹ میں چھاپ دی جائیں اور نہایت کثرت سے یورپ و امریکہ اور ہندوستان میں شائع کی جائیں اور تمام اخباروں میں بھی شائع کرادی جائیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ان کی طرف سے جو ترجمہ شائع ہونے لگا ہے اس کی حقیقت کیا ہے۔ اور بجائے اس کے کہ عدالت میں روپیہ خرچ کیا جائے اس طرح خرچ ہو جس سے ان کی نیت اور ایمانداری کا لوگوں کو پتہ لگ جائے۔ تو یہ بہتر ہو گا تمام انجمنیں غور کر کے مجھے اطلاع دیں اور فیصلہ کرنے سے پہلے دعا بھی کر لیں تا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء معلوم ہو۔ اگر خدا تعالیٰ کے منشاء میں یہی ہے کہ مقدمہ کیا جائے تو پھر ہمیں کیا عذر ہے۔ پس بہت دعائیں کرو اور پھر جو فیصلہ ہو اس سے مجھے اطلاع دو۔ یہ ایک بڑا کام ہے سب کو جمع کر کے آرام، سہولت اور اطمینان سے واقعات پر فیصلہ کرو اور استخارہ کرو گو اس میں یہ بھی ضروری نہیں کہ بذریعہ رؤیا یا الہام پتہ بھی لگے لیکن اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کسی کو بتا دے تو اس سے بھی مجھے اطلاع دی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو سیدھے رستہ پر چلنے اور اپنی رضاء حاصل کرنے کی توفیق دے۔ (الفضل ۳۰؍ستمبر ۱۹۱۵ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: بڑے کام بڑے ارادوں، بڑے عزماور بڑی قربانیوں سے ہوا کرتے ہیں(قسط دوم۔آخری)