https://youtu.be/yU-Gn-ZOSnw ہر کام کےلیے جرأت پیدا ہونی چاہیے۔ اِن لوگوں کو پتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں، جب لوگوں کو پتا ہے کہ مسلمان ہیں تو پھر شرم کیا؟… بتاؤ کہ ہم مسلمان ہیں، اگر ہم یہ اچھی بات کر رہے ہیںتو اس لیے کر رہے ہیں کہ ہماری تعلیم یہ ہے اور اگر کوئی بُری یا غلط بات کرتا ہے تو وہ اسلام کی تعلیم سے ہٹ کے کرتا ہے مورخہ ۲۹؍ستمبر ۲۰۲۵ء، بروز پیر، امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ایسٹ ریجن کے دوسرے وفد کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ اکیس (٢١)رکنی وفد کی یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر محض حضورِانور کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے اور آپ کی بابرکت صحبت سے روحانی فیض حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ مورخہ٢٠؍ستمبر ۲۰۲۵ء، بروز ہفتہ، مذکورہ ریجن کا پہلا بائیس (٢٢)رکنی وفد حضورِانور سے بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل کر چکا ہے، جس کی مفصّل رپورٹ مورخہ۲؍ اکتوبر ۲۰۲۵ء کےروزنامہ الفضل انٹرنیشنل کے شمارہ کی زینت بن چکی ہے۔ جب حضورِانور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ سب سے پہلے امیرِقافلہ نے وفد کا تعارف کراتے ہوئے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ ریجن ایسٹ کی وسعت کے باعث یہ دوسرا گروپ ہے جو شرفِ ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہے۔ بعد ازاں ہر خادم کو انفرادی طور پر اپنا تعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، جس میں اپنا نام، خاندانی پسِ منظر، تعلیمی مصروفیات اور جماعتی خدمات کا ذکر کیا گیا۔ دورانِ تعارف نارتھ جرسی سے تعلق رکھنے والے ایک نو مبائع نے حضورِانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اس نے تین سال قبل احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی تھی۔ اسی طرح بتایا کہ اسلام سے متعارف ہونے کے بعد جس مسجد میں مجھے پہلی مرتبہ داخل ہونے کا موقع ملا، وہ ایک احمدیہ مسجد تھی، اور شروع ہی سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے یہ میرا اپنا گھر ہے۔ حضورِانور کے جماعتی یا اسلامی لٹریچر پڑھنے کی بابت دریافت فرمانے پر خادم نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے عرض کیا کہ میری سب سے پسندیدہ کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی ہے۔ حضورِانور کے قرآنِ کریم سیکھنے کے حوالے سے دریافت فرمانے پر خادم نے عرض کیا کہ عربی متن کے ساتھ (ناظرہ)ابھی تک شروع نہیں کیا اور ان شاءاللہ جلد ہی شروع کرنا ہے۔جس پر حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ آپ مربی صاحب سے درخواست کریں کہ وہ آپ کے لیے اِس حوالے سے کوئی انتظام کریں۔ نیز دریافت فرمایا کہ کیا آپ کو سورۂ فاتحہ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ آتی ہے؟ آپ یہ اپنی پنجوقتہ نمازوں میں پڑھتے ہیں اور آپ کو اس کے معنی آتے ہیں؟ خادم کے اس حوالے سے اثبات میں جواب عرض کرنے پر حضورِانور نے ماشاءاللہ کے دعائیہ کلمات سے اظہارِ خوشنودی فرمایا۔ ایک خادم نے حضورِانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ امسال جولائی میں آپ سے ملاقات ہوئی تھی، جب مَیں جلسہ پر آیا تھا، تو مَیں نے آپ سے اپنے بزنس سے متعلقہ ایک مالی مسئلے کے لیے دعا کی درخواست کی تھی اور آپ کی دعا سے وہ مسئلہ حل ہو گیا جوکہ کئی سال سے اُلجھا ہوا تھا اور مجھے بہت پریشان کر رہا تھا۔ اس پر حضورِانور نے الحمد للہ کے دعائیہ کلمات ادا فرمائے۔ اسی خادم نے مزید بیان کیا کہ مَیں نے پاکستان میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تھا اور فارم پر مسلم لکھنے کی وجہ سے انہوں نے میرا candidature مسترد کر دیا تھا۔ اس وقت میری ملاقات مرزا غلام احمد صاحب سے ہوئی تھی، وہ ناظر دیوان تھے، انہوں نے ایف پی ایس سی کے چیئرمین غالب الدین صاحب، جو احمدی تھے، ان کے پاس مجھے بھیجا تھا۔ مگر شنوائی کے دوران انہوں نے مجھے کہا کہ تم نے ملک کا قانون توڑا ہے تو ہم تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ اس پر حضورِانور نے تبصرہ فرمایا کہ تم نے احمدی مسلم لکھ دینا تھا، پھر وہ جو مرضی کر لیتے۔ جس پر خادم نے عرض کیا کہ اس کی آپشن نہیں تھی، صرف دو آپشن مسلم اور غیر مسلم تھے، تو مَیں نے مسلم پر ٹِک کر دیا تھا۔ یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ بڑا اچھا کیا، چلو اب مسلمان تو ہو۔باقی پیسے تو آ ہی گئے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ آگئے ہیں۔ [قارئین کی معلومات کے لیے عرض کیا جاتا ہے کہ سی ایس ایس (Central Superior Services)، جسے عرفِ عام میں مقابلے کا امتحان بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کا سب سے اعلیٰ سطح کا مسابقتی امتحان ہے، جو وفاقی محکموں اور مختلف سرکاری اداروں میں افسران کی بھرتی کے لیے منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ امتحان ملک بھر سے ذہین اور قابل امیدواروں کو منتخب کر کے انہیں وفاقی حکومت کے انتظامی ڈھانچے میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جبکہ ایف پی ایس سی (Federal Public Service Commission) وہ وفاقی ادارہ ہے جو سی ایس ایس سمیت دیگر سرکاری امتحانات اور تقرریوں کی نگرانی کرتا ہے۔ یہ ادارہ آئین پاکستان کے تحت خودمختار حیثیت رکھتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد میرٹ، شفافیت اور اہلیت کی بنیاد پر امیدواروں کا انتخاب یقینی بنانا ہوتا ہے۔] ایک خادم نے دورانِ تعارف عرض کیا کہ جب مَیں کالج میں زیرِ تعلیم تھا، تو مَیں نے خط لکھا تھا کہ مَیں جامعہ جانا چاہتا ہوں، آپ نے مجھے گائیڈ کیا تھا کہ مَیں میڈیکل ڈاکٹر بنوں تو الحمد للہ! اب مَیں میڈیکل ڈاکٹر بن گیا ہوں اور اللہ کا شکر ہے کہ ابھی مَیں اپنی مقامی جماعت میں سیکرٹری تبلیغ اور مجلس خدام الاحمدیہ میں ناظم تبلیغ کے طور پر خدمت کی توفیق پا رہا ہوں۔ اس پر حضورِانور نے توجہ دلائی کہ ٹھیک ہے جامعہ میں جو تم نے قرآنِ شریف، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنی تھیں، اِس کے لیے اب روزانہ ایک گھنٹہ وقت نکالو اور گھر میں پڑھ لیا کرو۔ religiousتعلیم بھی آ جائے گی، قرآن بھی آ جائے گا، حدیث بھی آ جائے گی اور میڈیسن تو تم نے پڑھ ہی لی ہے۔ دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کو حضورِ انور کی خدمت میں مختلف سوالات پیش کرنے نیز ان کے جوابات کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ایک خادم نے راہنمائی کی درخواست کی کہ ہمیں کوئی بھی بڑا فیصلہ لینے سے پہلے کس طرح دعا کرنی چاہیے اور کیا ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نشان کے ملنے کا انتظار کرنا چاہیے؟ اس پر حضورِانور نے اصولی راہنمائی فرمائی کہ سب سے پہلے تو آپ دعا کریں۔ اگر اللہ نے کوئی نشان دکھانا ہو گا تو اس سے پہلے اس سے مدد طلب کی جائے۔ اپنے کسی بھی اہم کام کے لیے ہر روز کم از کم دو رکعت نفل نماز ادا کریں۔ حضورِانور نے مزید وضاحت فرمائی کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ کو اللہ کی طرف سے ہمیشہ کوئی نشان یا کوئی جواب ملے، لیکن اگر دعا کرنے کے بعد آپ کو دل میں اطمینان محسوس ہو رہا ہو تو یہ کافی ہے۔ حضورِانور نے حقیقی اسلوبِ دعا کی جانب توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کریں کہ اگر وہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کے لیے بہتر ہے تو پھر اللہ تعالیٰ آپ کو اس مقصد کو پانے کے لیے یا اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے آسانی پیدا فرما دے اور اگر وہ بہتر نہیں ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس چیز کی خواہش کو آپ کے دل سے نکال دے۔ اگر آپ کو دل میں اطمینان حاصل ہو جائے تو یہ ٹھیک ہے۔ آخر میں حضورِانور نے تاکید فرمائی کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کو ہمیشہ کوئی نشان ہی ملے۔ بعض دفعہ تو انبیاء اور بڑے نیک و پارسا لوگ بھی کوئی نشان نہیں دیکھ پاتے۔ اگر انسان کو دل میں اطمینان نصیب ہو جائے کہ مَیں جو کام کرنے جا رہا ہوں وہ میرے لیے بہتر ہے تو وہ یہ کام سرانجام دے دے اور یہی اللہ کی طرف سے نشان ہو تاہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ وہ کام ہو جائے۔ ایک خادم نے عرض کیا کہ میری والدہ چند سال قبل وفات پا گئی تھیں، نیز اس حوالے سے دریافت کیا کہ مجھے ایسی آزمائش اور اپنی زندگی میں دوسرے مصائب کے دوران کس طرح ثابت قدم رہنا چاہیے؟ حضور انورنے اس پراطمینانِ قلب اور ثباتِ قدم کا واحد ذریعہ دعا اور اللہ کی مدد کو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تسلّی دے اور آپ کے دل کو اطمینان بخشے، پھر اپنی والدہ کے لیے جنّت میں درجات کی بلندی کے لیےدعا کریں۔ اس طرح سے آپ انہیں یاد بھی کر رہے ہوں گے اور آپ کو اِن سے اب بھی ایک قریبی تعلق محسوس ہو گا، جبکہ آپ اُن کے لیے دعا کر رہے ہوں گے۔ پھر آپ استغفار بھی پڑھیں اور اللہ کی مدد طلب کریں، دعا کریں کہ وہ آپ کی مدد فرمائے۔ صرف اللہ کی ذات ہی ہے جو آپ کے دل کو اطمینان عطا فرما سکتی ہے، اس لیے آپ ہمیشہ اپنی دعاؤں میں اللہ سے مدد طلب کرتے رہیں۔ حضورِانور نے اس فطری امر کو بھی اُجاگر کرتے ہوئے تلقین فرمائی کہ چونکہ وہ آپ کی والدہ تھیں، آپ ان کا پیار اور شفقت تو نہیں بھلا سکتے، لیکن اسی بات سے آپ میں مزید یہ احساس پیدا ہونا چاہیے کہ آپ وہ تمام مقاصد حاصل کریں، جو آپ کی والدہ آپ کےلیے چاہتی تھیں۔ ایک خادم نے دریافت کیا کہ کیا ہم احمدیت کا پیغام پھیلانے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی زندگی پر مبنی فلم، ایکٹرز کے ساتھ بنا سکتے ہیں؟ حضورِانور نے اس پر مسکراتے ہوئے استفسار فرمایا کہ پیسے ضرور خرچ کرنے ہیں، بہت پیسے آ گئے ہیں؟ بعد ازاں حضورِانور نے فرمایا کہ اپنے طور پرexplore کرو اور بہت سارے احمدی میڈیا بھی پڑھتے ہیں، انہوں نے ماسٹرز کیا ہوا ہے، بیچلر کیا ہوا ہے اور فلم میکنگ میں ڈگری لی ہوئی ہے۔وہ نئے طریقے evolve کریں کہ کس طرح ہم اس کام کو بہتر کر سکتے ہیں کہ message بھی پہنچ جائے اور موجودہ لوگوں کا جو attitude ہے یا ان کی جو habit بن چکے ہوئے ہیں، اس requirementکو بھی پورا کرتے رہیں۔ ایک شریکِ مجلس نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ امریکہ میں رائٹ اور لیفٹ ونگ کے درمیان فاصلہ اور تناؤ بڑھتا جا رہا ہے،اور اس حوالے سے راہنمائی کی درخواست کی کہ ہم بطورِ احمدی ان مشکل حالات کا سامنا کس طرح کر سکتے ہیں اور اس فاصلے کو کس طرح کم کر سکتے ہیں؟ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ صرف امریکہ ہی کی بات نہیں ہے، دنیا بھر میں فاصلہ اور تناؤ بڑھ رہا ہے۔ یہاں یوکے میں Farage ایک پولیٹیشن ہے اور predictکر رہے ہیں کہ اگلے الیکشن میں وہ شاید majority لے جائے گا۔ اسی طرح جرمنی میں، یورپ کے ملکوں میں،ویسٹ میں، ہر جگہ ہی ایسا ہے۔ اور اصل میں تو اس کے پیچھے immigrantsکے خلاف باتیں ہیں، ان میں بھی زیادہ تر مسلمانوں کے خلاف ہیں، اس لیے ہمارا یہ کام ہے کہ جس طرح وہ لوگ campaignکرتے ہیں، چلا رہے ہیں، ہم بھی کوئی ایسی moveچلائیں کہ لوگوں کو awareness دیں کہ اسلامی تعلیم کیا ہے اور یہ کہ immigrant کے طور پر یا مسلمان کے طور پر ہم کیاrole ادا کرتے ہیں اور ہمیں کیا تعلیم دی جاتی ہے۔ [قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ یو کے میں Nigel Farage ایک معروف سیاستدان ہے، وہ زیادہ تر بریکزٹ (Brexit) اور یو کے کے یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے سے جانا جاتا ہے، وہ پہلے UK Independence Party کا راہنما تھااور بعد میں Brexit Party کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا۔ نیزاپنی جارحانہ تقاریر، میڈیا پر سرگرمی اور یورپی یونین کے خلاف موقف کے لیے مشہور ہے۔] حضورِانور نے یاد دلایا کہ تبھی تو سترہ اٹھارہ سال پہلے مَیں نے کہا تھا کہ اپنے ملکوں میں ہر سال پانچ پرسنٹ، جو ملک کی پاپولیشن ہے، اس کو awareness دو کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے اور کس طرح وہ امن اور سلامتی کا مذہب ہے، لیکن ابھی تک تم لوگ پانچ پرسنٹ تک بھی بیس سال میں نہیں پہنچے، تو ایک سال میں کیا پہنچنا تھا؟ اب تک معاملہ کہیں کا کہیں ہوتا، اگر اس ٹارگٹ کو seriously حاصل کرنے کی کوشش کرتے! حضورِانور نے اس حوالے سے عملی راہنمائی فرماتے ہوئے تاکید کی کہ نئے طریقے دیکھو اور اس کے لیے یہی ہے کہ سیمینار بھی کرو۔ خدام الاحمدیہ یوتھ سیمینار کرے، یونیورسٹیوں میں ہوں، پڑھے لکھے academics میں ہو، تا کہ ان کو awareness ہو کہ اسلامی تعلیم کیا ہے اور ہم کیا چاہتے ہیں اور ہم ملک کی activitiesمیں اور ملک کی بہتری کے لیے integrateہوتے ہیں۔ تو یہ ساری چیزیں بتانی پڑیں گی۔ مزید برآں حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ یہ ایک بڑا comprehensive plan بنانا پڑے گا، وہ بناؤ تو پھر ہی ہو گا۔گھر بیٹھے تو کچھ نہیں ملے گا۔ ہر چیز کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح آخر میں حضورِانور نے توجہ دلائی کہ ہم تو ملک کی بہتری کےلیے کام کر رہے ہیں اور جو کچھ بھی ہماری قابلیت ہے، capabilities ہیں، ان کے مطابق ہم ملک کو serveکر رہے ہیں، تو یہ awareness بہت ضروری ہے اور اس کو بڑے وسیع پیمانے پرکرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نیز ہدایت فرمائی کہ اس لیے خدام الاحمدیہ کو بھی اور جماعت کو بھی اور لجنہ کو بھی اور انصار کو بھی planکرنا چاہیے۔ یہ کرو گے تو پھر کچھ نہ کچھ حاصل کر لو گے، ایک سال میں تو کچھ نہیں ملتا، کئی سال لگیں گے۔ ایک خادم نے حضورِانور سے اُن لوگوں کی بابت دریافت کیا کہ جو نوجوانوں کو انٹرنیٹ کے ذریعہ خدا سے دُور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور راہنمائی کی درخواست کی کہ کیا یہ طاقتیں دجّال کے پیدا کردہ فتنہ کا حصّہ متصوّر کی جائیں گی؟ حضورِانور نے اس پر فرمایا کہ دجّال کیا ہے؟ یہ دجّال ہی تو ہے جو یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ دجّال کا مطلب دجل، دھوکا ہے اور یہ دھوکے سے نوجوانوں اور لوگوں کے برین واش کر رہے ہیں۔ ایک تو atheists اورسارے لوگ اکٹھے مل کے یہ ایک بڑی consolidated کوشش کررہے ہیں کہ وہ indirectly ایسی باتیں کرتے ہیں کہ جو اسلام کے پہلے خلاف ہوں، پھر اصل میں ان کا goal یہ ہے کہ ہم نے مذہب سے لوگوں کو دُورلے کے جانا ہے، اس میں atheistsکازیادہ سوال ہے۔ اور یہ ساری دجّالی طاقتیں ہیںجو اسلام کے خلاف بھی ہو رہی ہیں اور بدقسمتی سے مسلمانوں کے اپنے عمل بھی ایسے ہیں کہ اُن کو اور موقع دے رہے ہیں کہ یہ ایسی باتیں کریں۔ دجّالی کوششوں کے بالمقابل مؤثر ردّ عمل اور فعّال حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے حضورِانور نے توجہ مبذول کروائی کہ پہلے تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے، اس لیے مَیں نے جو کہا ہے کہ ہم کوشش کریں کہ اسلام کی تعلیم بتائیں، دنیا کو دکھائیں تو یہ ہو گا۔ باقی دجّالی کوششیں تو ہونی ہیں۔ دجّال نے تو اس زمانے میں جب مسیح موعودؑ کا زمانہ آنا تھا کام کرنا ہی تھا، اور وہ کر رہا ہے۔ تو جس طرح دجّال تیز ہوا ہوا ہے اس سے کئی گنا زیادہ تیز ہمیں ہونا چاہیے۔ انٹرنیٹ پر جس طرح وہ دیتے ہیں، ہمارے پاس بھی تو انٹرنیٹ facility ہے۔آپ بھی دے سکتے ہیں۔ اگر وہ کوئی اعتراض اُٹھاتے ہیں توانہی کی سائٹ پر جا کےجواب دے سکتے ہیں۔ایک اپنی سائٹ پر جواب ہو، ایک اُن کی سائٹ پر جواب ہو۔ صرف یہ نہیں کہ اپنی سائٹ پر جواب دے دیا، آپ کو تو کوئی پڑھتا نہیں، followers آپ کے اتنے زیادہ نہیں ہوتے،ان کے کئی followers ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ strategy ہونی چاہیے کہ ان کی سائٹ پر بھی جواب جائے، ان کی سائٹ سے بھی تو commentsآتے ہیں، ان پر اپنا جواب دے دو، پھر اپنی سائٹ پر اس کا detailed جواب دے دو تو وہ دونوں parallelچلنے چاہئیں۔ ایک خادم نے عرض کیا کہ آجکل مغربی دنیا میں مہنگائی اور مالی دباؤ کی وجہ سے خدام اور نئے شادی شدہ جوڑوں پر اخراجات اور ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیںجس کا بعض اوقات اثر ان کی دینی اور جماعتی خدمت پر بھی ہوتا ہے۔حضورِانور اس حوالے سے ہمیں کیا راہنمائی فرماتے ہیں؟ حضورِانور نے اس پر واضح فرمایا کہ مغربی دنیا میں کیا، ساری دنیا میں ہی مہنگائی ہے! آپ لوگ تو پھر ایک مہینہ، جو اَلاؤنس ملتا ہے، اس میں کھا لیتے ہو۔ بھوکے تو نہیں رہتے۔ ناشتہ بھی کر لیتے ہو، لنچ بھی کھا لیتے ہو، بازار میں ہو تو snack کھا لیا، شام کو آ کے mealکھا لیا۔ پاکستان میں تو دس دن کے بعد بعضوں کی تنخواہیں ختم ہو جاتی ہیں اور کھاتے نہیں۔ حضورِانور نے بڑھتی ہوئی مادی خواہشات کی نشاندہی کرتے ہوئےقناعت اور شکرگزاری کی اہمیت کو اُجاگر فرمایا کہ مہنگائی تو دنیا میں ہر جگہ بڑھ رہی ہے، جو preferencesہیں وہ اَور ہو گئی ہیں، اپنی جسے ترجیح کہتے ہیں وہ اَور ہو گئی ہے۔ پہلے یہ تھا کہ اگر کسی ایک گھر میں دو وقت کھانا مل رہا ہے، تو کہتا تھا کہ بس! I am ok،کوئی مسئلہ نہیں۔اور اب خواہشات اتنی زیادہ ہو گئی ہیں کہ میرے پاس کار بھی اچھی ماڈل کی ہو، thin screen والا ٹی وی ہو، جس میں سارے gadgets پورے اندر ہوں، میرا گھر بھی ایسا ہو جہاں ہر facilityہو، کھانے میں مجھے یہ بھی ملے، ناشتے میں مجھے یہ ملے۔ تو جو خواہشات ہیں وہ بڑھ گئی ہیں۔اگر انسان میںcontentmentپیدا ہو جائے، تو پھر سب کچھ ٹھیک ہوتا ہے۔ اگر یہ سوچو کہ جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہےوہ کافی ہے۔ مَیں بہتر حالت میں ہوں۔ دنیا میں کتنے ملک ایسے ہیں، کتنے لوگ ایسے ہیں، جن کو کھانا بھی نہیں مل رہا، بھوکے مر رہے ہیں، کہیں قحط ہے، کہیں droughtہے، کہیں famineہے، توکہیں کچھ حکومتیں کسی کو مار رہی ہیں، کہیں اسرائیل کی طرح لوگوں کومحروم کر رہے ہیں، فلسطینیوں کو کھانا نہیں ملتا اور ہم گھر بیٹھ کے آرام سے کھانا کھا لیتے ہیں، اسی پر اللہ کا شکر کرو تو اس سے اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ شریف میں کہتا ہے کہ تم میرا شکر ادا کرو، جتنی بھی مَیں نے نعمتیں تمہیں دی ہیں، تو ان نعمتوں کو مَیں اَور بھی زیادہ بڑھاؤں گا۔ بنیادی بات وہی ہے کہ اگر قناعت ہو، contentmentہو،تو پھر خواہشات اتنی نہیں رہتیں، اور جب وہ نہیں ہوں گی، تو پھر سب کچھ خود ہی balancedہو جائے گا۔ آخر میں حضورِانور نے اس امر کی بھی تلقین فرمائی کہ ہمیشہ یاد رکھو کہ ان سب کے باوجود مَیں نے اللہ کے رستے میں بھی کچھ دینا ہے۔ ایک تو وہ ہے کہ جو کسی نے وصیّت کی ہے، اس کا obligatoryچندہ ہو گیا، اس کے علاوہ غریبوں کا خیال رکھنے کے لیے چیریٹی میں دینا چاہیے، اور اس میں دو گے، تو پھر اللہ تعالیٰ پیسے میں برکت بھی ڈالتا ہے۔ تو اصل چیز برکت ہے جورقم میں پڑ جائے۔ اگر قناعت ہو، تو تھوڑے اَلاؤنس میں بھی برکت پڑ جاتی ہے، تھوڑی تنخواہ میں بھی برکت پڑ جاتی ہے اور تھوڑی آمد میں بھی برکت پڑ جاتی ہے۔ اس مجلس میں حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جانے والا آخری سوال یہ تھا کہ ہم اپنے سکول اور اپنے معاشرے میں اسلام احمدیت کی نمائندگی بغیر کسی شرم یا خوف کے کس طرح کر سکتے ہیں؟ اس پر حضورِانور نے راہنمائی عطا فرمائی کہ ہر کام کےلیے جرأت پیدا ہونی چاہیے۔ اِن لوگوں کو پتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں، جب لوگوں کو پتا ہے کہ مسلمان ہیں تو پھر شرم کیا؟ ایک شرم تو ہٹ گئی اورختم ہو گئی۔ اب مسلمان کا کیا کیریکٹر ہونا چاہیے اور سوسائٹی میں کیا رول ہونا چاہیے؟ اس کے بارے میں آپ کا اپنا نمونہ ہے، بتاؤ کہ ہم مسلمان ہیں، اگر ہم یہ اچھی بات کر رہے ہیںتو اس لیے کر رہے ہیں کہ ہماری تعلیم یہ ہے اور اگر کوئی بُری یا غلط بات کرتا ہے تو وہ اسلام کی تعلیم سے ہٹ کے کرتا ہے۔ مسلمانوں کی جو کمزوریاں لوگوں پر ظاہر ہو رہی ہیںان کو کھل کے ظاہر کر دو۔ حضورِانور نے اس تناظر میں اپنے عملی نمونہ پر روشنی ڈالی کہ مَیں اپنے مختلف جو پبلک میں ایڈریس کرتا ہوں، ان میں مَیں بتا دیتا ہوں کہ یہ یہ کمزوریاں ہیں، مسلمان یہ غلط کررہے ہیں، یہ یہ اسلام کی تعلیم ہے اور یہ ہمیں کرنا چاہیے۔ تو اس سے لوگوں کو پتا لگ جاتا ہے کہ ہاں! خود مان رہے ہیں اور admitکر رہے ہیں کہ ہمارے میں یہ کمزوریاں ہیں، توپھر وہ سمجھ جاتے ہیں کہ کیا بات ہے۔ حضورِانور نے جواب کے آخر میں جرأت کے ساتھ اسلام کی حقیقی تعلیم پیش کرنے کے حوالے سےاس بات پر زور دیا کہ اصل چیز تو یہی ہے کہ خوف اور شرم نہیں ہونی چاہیے، جرأت سے بات کرو، ہمیں کس بات کا ڈرنا ہے ؟ ہمیں ڈرنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں۔ یہاں میرے پاس بھی کئی لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے ہم سمجھے تھے کہ پتا نہیں اسلام کیا چیز ہے، لیکن تمہاری باتیں سننے کے بعد یہ خوف دُور ہو گیا ہے، تم نے بڑی اچھی طرح بتا دیا۔ تو جب ان کو بتاؤ کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے اور اگر کوئی مسلمان غلط بات کر رہا ہے، تو وہ اس تعلیم کے خلاف کر رہا ہے اور مجرم تو تمہارے اندر بھی ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ atheist میں کوئی crimeنہیں ہے یاjewsمیں crime نہیں ہے یا عیسائیوں میں crimeنہیں ہے یا ہندوؤں میں نہیں ہے، ہر ایک میں ہے۔ اس کی وجہ یہ مذہب تو نہیں ہے، وہ تو لوگوں کا اپنا ایک کیریکٹر ہے، تو اس لیے جرأت سے بغیر ڈرے کھل کے بات بتانی چاہیے۔ ملاقات کے اختتام پر تمام شاملینِ مجلس کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ وہ اپنے محبوب امام کے ساتھ گروپ تصویر بنوا سکیں اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ ایسٹ ریجن کے ایک وفد کی ملاقات