https://youtu.be/XHOodur7vVQ (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲؍ستمبر ۲۰۱۱ء) ہمارے ایک مبلغ ہیں ارشد محمود صاحب قرغزستان سے یہ بیان کرتے ہیں کہ جماعت قرغزستان کے نیشنل صدر سلامت صاحب کے ذریعہ Jildiz Abdullaeva صاحبہ (جو بھی نام ہے اِن کا) نام کی ایک لڑکی نے بیعت کی۔ وہ لڑکی قرغزستان میں موجود امریکن بیس میں کام کرتی ہے۔ وہاں اُس کے ساتھ کام کرنے والے ایک امریکن عیسائی نوجوان نے لڑکی کے نیک چال چلن اور باحیاء ہونے کی وجہ سے اس سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ لڑکی نے کہا کہ مَیں احمدی مسلمان ہوں اور اپنی جماعت سے پوچھ کر آپ کو کوئی جواب دوں گی۔ چنانچہ وہ مشن ہاؤس آئی اُسے بتایا گیا کہ ایک مسلمان لڑکی غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتی۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ اس غیرت مند اور نیک فطرت نومبائع بچی نے غیر مسلم امریکن کی شادی سے انکار کر دیا۔ اُس کی پیشکش ٹھکرا دی۔ اس عیسائی نوجوان نے جو اُس کا بڑا گرویدہ ہوا ہوا تھا، کہا کہ اگر مَیں اسلام قبول کر لوں تو کیا پھر ہم شادی کر سکتے ہیں؟ تو لڑکی نے جواب میں کہا کہ اگر اسلام قبول کرنا ہے تو سچا دین سمجھ کر قبول کرو۔ شادی کی خاطر قبول کرنا جو ہے یہ مجھے منظور نہیں ہے، یعنی اگر تم اس لئے قبول کررہے ہو تو تب مَیں شادی نہیں کروں گی۔ ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے قرغزستان کی لڑکیاں غیر ملکیوں سے شادی کو ترجیح دیتی ہیں۔ لیکن اس بچی نے احمدی ہونے کی وجہ سے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ اس کیتھولک عیسائی نوجوان نے مسلسل چھ ماہ تک تحقیقات کرنے اور جماعتی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد یکم جولائی 2011ء کو اسلام قبول کر کے، بیعت کر کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شمولیت اختیار کی۔ اس تحقیق کے سفر کے دوران (جب تحقیق کر رہا تھا یہ نوجوان) اس نوجوان نے احمدیت مخالف ویب سائٹس کو بھی دیکھا، وہاں جا کر بھی مطالعہ کیا۔ اور آخر کار احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر ہی اس کا دل مطمئن ہوا اور اُس کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت کی توفیق عطا فرمائی۔ پس یہ پاک تبدیلی ہے اور یہی استقامت ہے جس کے لئے دعا کی جاتی ہے، دعا کی جانی چاہئے۔ یہ لڑکی جو ہے نئی احمدی ہوئی، غربت بھی تھی، اچھا رشتہ مل رہا تھا اُس کے لحاظ سے، دنیا داری کے لحاظ سے، لیکن اُس نے دین کی خاطرٹھکرا دیا۔ اس میں اُن لوگوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ جب بعض بچیاں جو ایسے غیروں میں شادی کو پسند کرتی ہیں جو صرف شادی کی خاطر بیعت کر کے سلسلے میں شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ قاعدہ بنا ہوا ہے کہ جب تک بیعت میں ایک سال نہ گزر جائے اور لڑکے کا اخلاص نہ دیکھ لیا جائے ہماری لڑکیوں کو عموماً نئے نومبائعین سے شادی کی اجازت نہیں دی جاتی۔ تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ کہیں شادی کی خاطر تو بیعت نہیں کی؟ …اسی طرح انصر عباس بھٹی صاحب مبلغ بینن لکھتے ہیں کہ آلاڈا (Alada) ریجن کے گاؤں لوکولی (Lokoli) میں جلسہ نومبائعین رکھا اور اس میں دورانِ تقریر لوگوں کو ایک مسلمان کی ذمہ داریاں بتانی شروع کیں۔ جلسے کی اختتامی تقریب کے بعد ایک غیر احمدی مولوی وہاں آیا اور لوگوں کو بہکانے اور پھسلانے کی کوشش کی کہ اگر تم نے ان لوگوں کومان لیا ہے، یہ جولو گ احمدی ہیں تم سب نے آگ میں چلے جانا ہے۔ یہ سب لوگ جہنمی ہو جائیں گے۔ فوراً توبہ کا اعلان کرو اُس نے کہا کہ تمام ائمہ مسلمہ ان کو جہنمی قرار دیتے ہیں (مسلمان علماء جو ہیں، پڑھے لکھے لوگ جو ہیں، امام جو ہیں، اور مسلمانوں کے جولیڈر ہیں، وہ احمدیوں کو جہنمی قرار دیتے ہیں) تو تم کس جہنم میں گرنے لگے ہو؟ یا گر گئے ہو۔ تم لوگ سب ان لوگوں کے ساتھ جہنمی ہو جاؤ گے۔ پھر کہنے لگا کہ پاکستان کے مسلمان ان کو پسندنہیں کرتے، وہاں بھی ان کو غیر مسلم قرار دیا گیاہے۔ اس پر ہمارے معلم صاحب نے سارے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ مولوی صاحب ہمارے مہمان ہیں۔ ہم ان کی عزت کرتے ہوئے ان سے صرف یہ پوچھتے ہیں کہ جو یہ کہہ رہے ہیں کیا خدا کے پاک کلام قرآن کریم سے یہ ثابت کر سکتے ہیں؟ کیا قرآنِ کریم اس کی تصدیق کرتا ہے۔ قرآن کو بنیاد بنا کر ہم بات کرتے ہیں۔ اگر قرآن ان کا ساتھ دیتا ہے تو ہم سب ان کی بات مان لیں گے۔ ہاں اگر قرآن ہمارے ساتھ رہتا ہے تو پھر ہم قرآن کو نہیں چھوڑ سکتے۔ تو یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ مولوی صاحب جھٹ بولے، کہنے لگے کہ قرآن کو کیوں لیں۔ بینن کے تمام ائمہ آپ کو غلط کہتے ہیں تو ہمیں قرآن کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ غلط ہیں بس کافی ہیں غلط ہیں کوئی دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ لوگ جہنمی ہیں (دیکھیں خود ہی فیصلہ کردیا۔ گویاخدا بن بیٹھے ہیں)۔ اس کو دیکھ کر ہمارے نومبائعین جو تھے وہ جوش میں آ گئے۔ وہاں اکثریت نومبائعین کی تھی کہ اگر تمہیں قرآن کی ضرورت نہیں ہے تو ہمیں تمہاری بھی ضرورت نہیں ہے اور یہاں سے نکل جاؤ اور اُسے مسجد سے نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔ ہمارے معلم صاحب نے بڑا اُن کو سمجھایا کہ یہ ہماری جگہ پر آئے ہیں ذرا تحمل سے، ذرا برداشت سے کام لو، اخلاق سے کام لو، یہ طریق اچھا نہیں ہے لیکن لوگوں میں اس بات کو سُن کر اتنا جوش پیدا ہوا کہ اُنہوں نے اُس مولوی کو مسجد سے نکال دیا۔ تو یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے ہی ملاؤں اور نام نہاد علماء کا طریق چلا آرہا ہے۔ پرانے واقعات بھی کئی ایسے ملتے ہیں کہ جب احمدی قرآن کے ذریعہ سے کوئی دلیل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، آیات کے ذریعہ سے، تو ہمیشہ یہ لوگ حدیث اور دوسری باتوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ حدیثیں جن کی اپنی مرضی سے interpretation کرتے ہیں یا دوسرے علماء کی باتیں۔ ایک صحابی کا پرانا واقعہ بھی اس طرح ہی ملتا ہے کہ انہوں نے جب بیعت کی ہے تو ایک بڑے عالم کو انہوں نے کہا کہ میں نے احمدی مولوی صاحب کو اس بات پر منا لیا ہے کہ وہ قرآنِ کریم سے وفاتِ مسیح ثابت کر دیں۔ وہ عالم صاحب کہنے لگے کہ میں ان لوگوں کو کھینچ کھینچ کر قرآن سے باہر لا رہا ہوں، دوسری طرف لے کر جا رہا ہوں، تم اُنہیں پھر اُسی طرف لے آئے ہو، قرآنِ کریم سے تو ہم حیاتِ مسیح ثابت ہی نہیں کرسکتے۔ تو یہ تو ان کے پرانے طریقے کار ہیں۔ (ماخوذ از تذکرۃالمہدی مؤلفہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ 155تا158مطبوعہ قادیان ایڈیشن1915ء) …امیر صاحب جماعت احمدیہ دہلی تحریر کرتے ہیں کہ محمد مرسلین صاحب 2008ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ بیعت کرنے کے تین دن بعد خواب میں دیکھا کہ آپ کسی پروگرام میں گئے ہیں اور وہاں ایک پرانی سی عمارت کے ایک کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ اس کمرے میں دو لوگ اور بھی تھے جو اندھیرا ہونے کی وجہ سے پہچانے نہ جا سکے۔ یہ لکھتے ہیں امیر صاحب، کہ مرسلین صاحب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے ہیں اور جب یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ اور بھی ہیں توآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھُوچھُو کر دیکھتے ہیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی چھت کی طرف اُٹھائی اور یوں لگا کہ پورا آسمان پھٹتا چلا گیا۔ اور یہ لکھتے ہیں کہ مجھے بہت خوبصورت اور دلکش نظارہ جس میں پھولوں کے باغات وغیرہ تھے نظر آنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انگلی گھمائی اور یہ نظارہ بند ہو گیا۔ آپ کہتے ہیں کہ مَیں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں ممبئی جا رہا ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ پنجاب کیوں نہیں جاتے؟ اس کے بعد کہتے ہیں میری آنکھ کھل گئی۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے یہ واقعہ قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کو جو اُن کے واقف تھے سنایا، اُنہوں نے کہا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے اس لئے ہم قادیان چلتے ہیں۔ تو قائد صاحب کے ساتھ یہ پہلی دفعہ قادیان گئے۔ وہاں دارالمسیح کی زیارت کی، لکھتے ہیں کہ جب مَیں بیت الریاضت میں گیا تو مَیں نے اُس کمرے کو ویسا ہی پایا جیسا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا تھا۔ اس سے میرے ایمان کو بہت تقویت ملی اور دل کو بہت سکون ملا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت میں بھی شامل ہوئے اور ایمان میں بھی ترقی کر رہے ہیں۔ ان نئے شامل ہونے والوں کو ایمان میں ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ دعاؤں کی قبولیت کے نشانات بھی دکھاتا ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: قبولِ احمدیت کے بعدپاک روحانی تبدیلی کے چند واقعات