https://youtu.be/pmUbtBbioAk خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کامقصد ہے جس کے لیے میں دنیا میں بھیجاگیامسیح موعودؑ اور قیامِ توحید اللہ تعالیٰ نے انسان کی سرشت میں ایک اعلیٰ اور برتر ہستی کی تلاش کا مادہ رکھ دیا۔ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی(الاعراف:۱۷۳) نیکی اور بدی کا شعور اس کی فطرت میں ودیعت کردیا فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَتَقۡوٰٮہَا۔ (الشمس: ۹)اور پھر انبیاء کے ذریعہ وحی اور الہام سے انسان کو اپنے ہونے اور واحد ہونے کی خبر دی۔ یُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوۡحِ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرُوۡۤا اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا۔ (النحل:۳)لیکن اس کے باوجود انسانوں کی اکثریت آغاز سے ہی اللہ تعالیٰ کی ہستی کا انکار کرتی چلی جا رہی ہے اور جو لوگ نبیوں کی تعلیم سے خدا اور اس کی توحید کو مانتے ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ شرک کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور توحید کا دعویٰ کرنے کے باوجود قسما قسم کے شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کا ذکر اس آیت میں ہے وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ (یوسف :۱۰۷)یعنی اکثر لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے مگر اس حالت میں کہ وہ ساتھ ساتھ شرک بھی کرتے جاتے ہیں۔ اسی خفی اور جلی شرک کا رد کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کا ایک طویل سلسلہ عالمی سطح پر جاری فرمایا جس کی انتہا حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کی گئی اور خدا اور اس کی توحید کے متعلق تمام انفسی اور آفاقی دلائل خدا نےقرآ ن کریم میں جمع کر دیے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳؍ سال کے قلیل عرصہ میں لاکھوں دلوں پر توحید کا سکّہ جما دیا لیکن مقدر تھا کہ شرک پھر غلبہ کرے گا اور مسلمان بھی مؤحد کہلاتے ہوئے شرک کی راہوں پر قدم ماریں گے اور دوسری طرف دجال اور یاجوج ماجوج اپنی مذہبی اور سائنسی طاقت سے دنیا بھر میں مسیح کی خدائی اور تثلیث کا اعلان کریں گے اس کے استیصال کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کا زمانہ مقدر کر رکھا تھا۔ خدا کی نفی کا اعلان دنیا کے تمام مذاہب اور تمام مکاتب فکر تو پہلے ہی خدا سے دُور تھے۔ مسلمان بھی قران کریم جیسی کتاب کے باوجود فی الحقیقت دہریہ اور مشرک بن چکے تھےاور آخروہ وقت آپہنچا جب مذہب کو ایک بے معنی چیز بلکہ ایک مضر شے قرار دے دیا گیا۔ ۱۸۴۳ء میں کارل مارکس (۱۸۱۸ء تا ۱۸۸۳ء) نے مذہب کو عوام کے لیے افیون قرار دیا۔ یعنی ایک حربہ جس کے ذریعے ان کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کو سرد کرنے کا کام لیا جاتا ہے ۔ مذہب سے بیزاری اور کراہت کی یہ لہر اس قدر زور سے پھیلی کہ ۱۸۸۲ء تک پہنچتے پہنچتے جرمن فلاسفر نطشے (۱۸۴۴ء تا ۱۹۰۰ء) نے یہ نعرہ لگا دیا کہ خدا مر چکا ہے۔ (Die Fröhliche Wissenschaft by Friedrich Nietzsche, published: 1882) جرمن الفاظ: “Gott ist tot. Gott bleibt tot. Und wir Haben ihn getötet” انگریزی ترجمہ: “God is dead, God will remain dead, and we have killed him.” ۱۸۸۲ء میں جرمن فلاسفر نطشے نے ایک تمثیل لکھی جس کا نا م The Parable Of The Madman تھا۔ تمثیل میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے دن کے وقت لالٹین ہاتھ میں لی اور باہر نکل کر آوازیں لگانی شروع کیں کہ خدا کہاں ہے؟ اور پھر اس نے اعلان کیا کہ ہم نے نعوذ باللہ خدا کو قتل کر دیا ہے۔ میں اور تم اس کے قاتل ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب ہم نے خدا اور وحی کا تصور ہی ختم کر دیا ہے۔ اس تمثیل کے تین سال بعد نطشے نے ایک اور کتاب لکھی جس کا نام Thus Spoke Zarathustra تھا۔اس میں لکھا کہ دنیا بھر کے انسانوں کا یہی مقصد ہے کہ وہ غلاموں کی طرح ایک برتر قسم کا انسان Superman بنانے کی کوشش کریں۔ اس برتر انسان کی راہ میں خدا کا تصور حائل تھا۔ اب یہ تصور ختم ہو گیا ہےتو یہ فرضی انسان ظہور کرے گا اور پھر اس برتر انسان کا دور شروع ہو گا۔ (بحوالہ الفضل انٹر نیشنل لندن ۲۳؍مارچ ۲۰۲۳ء صفحہ۲۳) خدا کا نمائندہ ۱۸۸۲ء ہی وہ سال ہے جب حضرت مسیح موعودؑکو خدا نے اِس زمانہ کا مامور الہاماً مقرر فرمایا۔ پس واضح ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ ایک ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے جب پیشگو ئیوں کے مطابق دہریت اپنے عروج پر ان معنوں میں تھی کہ کوئی اس کا راستہ روکنے والا نہیں تھا اور دوسری قوموں سے تو ایمان پہلے ہی پرواز کر چکا تھا مسلمانوں کا ایمان بھی ثریا پر جا پہنچا تھا اخبار اہل حدیث لکھتا ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے قرآن مجید بالکل اٹھ چکا ہے فرضی طور پر ہم قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں مگر واللہ دل سے معمولی اور بہت معمولی اور بیکار کتاب جانتے ہیں (اہل حدیث ۱۴؍جون ۱۹۱۲ء) محبتِ توحید ان حالات میں مسیح موعودؑ آیا ۔جو خدا اور اس کی توحید کی محبت میں مخمور تھا اور اس کے خلاف کسی چیز کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھا ۔آپؑ نے فرمایا: خدا تعالیٰ اِس بات کو جانتا ہے اور وہ ہر ایک امرپر بہتر گواہ ہے کہ وہ چیز جو اُس کی راہ میں مجھے سب سے پہلے دی گئی وہ قلبِ سلیم تھایعنی ایسا دل کہ حقیقی تعلق اُس کا بجُز خدائے عزّوجلّ کے کسی چیز کے ساتھ نہ تھا۔مَیں کسی زمانہ میں جوان تھا اور اب بوڑھا ہوا مگر مَیں نے کسی حصہ عمر میں بجز خدائے عزّوجلّ کسی کے ساتھ اپنا حقیقی تعلق نہ پایا۔ … اسی تپشِ محبت کی وجہ سے مَیں ہرگز کسی ایسے مذہب پر راضی نہیں ہوا۔جس کےعقائد خدا تعالیٰ کی عظمت اور وحدانیت کے برخلاف تھے یا کسی قسم کی توہین کو مستلزم تھے۔یہی وجہ ہے کہ عیسائی مذہب مجھے پسند نہ آیا کیونکہ اس کے ہر ایک قدم میں خدائے عزّوجلّ کی توہین ہے۔ایک عاجز انسان جو اپنے نفس کی بھی مدد نہ کر سکا اُس کو خدا ٹھیرایا گیا۔ (حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۵۹۔۶۰) مقصد بعثت آپؑ نے فرمایا کہ میں اس لیے آیا ہوں کہ میں توحید کو قائم کروں اور انسان اور خدا کے درمیان جو تعلق ٹوٹ چکا ہے اس کو دوبارہ قائم کروں۔ فرماتے ہیں:‘‘خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کامقصد ہے جس کے لیے میں دنیا میں بھیجاگیا۔’’(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۶۔۳۰۷) قیام توحید کے ذرائع یہ قیام توحید محض عقلی دلائل اور فلسفیانہ دلائل سے نہیں ہونا تھا بلکہ خدا کی تجلی سے ہونا تھا اس کی بنا الہام اور وحی پر تھی۔ چنانچہ حضورؑ فرماتے ہیں: ‘‘وہ خدا جو تمام نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور حضرت موسیٰ ؑ کلیم اللہ پر بمقام طور ظاہر ہوا اورحضرت مسیحؑ پر شعیر کے پہاڑ پر طلوع فرمایا اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر فاران کے پہاڑ پر چمکا وہی قادر قدوس خدا میرے پر تجلی فرما ہوا ہے اُس نے مجھ سے باتیں کیں اور مجھے فرمایا کہ وہ اعلی وجود جس کی پرستش کے لیے تمام نبی بھیجے گئے میں ہوں۔ میں اکیلا خالق اور مالک ہوں اور کوئی میرا شریک نہیں اور میں پیدا ہونے اور مرنے سے پاک ہوں۔’’(ضمیمہ رسالہ جہاد روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۹) ملحدانہ تصورات یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا کے متعلق مختلف خیالات اور تصورات کا جائزہ لیا جائے اور پھر مسیح موعود ؑکی سچی قرآنی تعلیم کا ذکر کیا جائے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی تقریر مسیح موعود کے کارنامے (۱۹۲۷ء) میں اس مضمون کو بڑی عمدگی سے بیان فرمایا اس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے ۔ مسیح موعودؑ سے پہلے خدا تعالیٰ کے متعلق یہ غلط خیالات پھیلے ہوئے تھے ۔ ۱۔ لوگ شرک جلی اور خفی میں مبتلا تھے۔ہندوؤں نے ہزاروں معبود بنا رکھے ہیں آریہ خیال کرتے ہیں کہ خدا روح و اجسام کا خالق نہیں ۔زرتشتی نیکی اور بدی کا جدا جدا خدا سمجھتے ہیں ۔سب سے بڑا فتنہ دجال کا ہے جو مسیح کو ۳ خداؤں میں سے ایک سمجھتے ہیں اور دولت اور طاقت کے بل بوتے پر ساری دنیا میں اس عقیدہ کی تشہیر کر رہے ہیں۔ ۲۔ بعض لوگ اللہ تعالیٰ کی نسبت یہ یقین رکھتے تھے کہ اگر خدا ہے تو وہ عِلتُ العِلل ہے۔ وہ اس کی قوت ارادی کے منکر تھے اور سمجھتے تھے کہ جس طرح مشین چلتی ہے اسی طرح خداتعالیٰ سے دنیا کے کام ظاہر ہو رہے ہیں۔ ہزاروں علتوں میں سے وہ ایک علت ہے گو آخری اور سب سے بڑی۔ مگر بہر حال ایک اضطرار کے رنگ میں اس کے سب افعال صادر ہوتے ہیں۔ مسلمان کہلانے والوں میں سے بھی فلسفہ کے دلدادہ اس خیال سے متاثر ہو چکے تھے۔ ۳۔بعض لوگ خیال کر رہے تھے کہ دنیا آپ ہی آپ بنی ہے اور قدیم ہے۔ خدا تعالیٰ کا جوڑنے جاڑنے سے زیادہ دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ آریوں کا عقیدہ ہے ۔بعض مسلمان بھی اس غلطی میں مبتلا تھے۔ ۴۔بعض لوگ خدا تعالیٰ کے رحم کا انکار کرنے لگ گئے تھے اور یہ کہتے تھے کہ خدا میں رحم کی صفت نہیں پائی جاتی ۔ کیونکہ وہ عدل کے خلاف ہے یہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔ ۵۔ بعض لوگ خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایسا ناقص اندازہ کرنے لگ گئے تھے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کو چند ہزار سال میں محدود کر دیا تھا اور خیال کرتے تھے کہ بس خدا تعالیٰ کی صفات انہی چند ہزار سال میں ظاہر ہوئی ہیں اور اگر اس دور کو لمبا بھی کرتے تھے تو اتنا کہ گو اس دنیا کی عمر لاکھوں سال کی مانتے تھے مگر خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کو اسی دور کے ساتھ محدود کرتے تھے۔ ۶۔بعض لوگ خدا کی قدرت کو غلط طریق سے ثابت کرتے ہوئے یہ کہتے کہ خدا جھوٹ بھی بول سکتا ہے، چوری بھی کر سکتا ہے۔ اگر نہیں کر سکتا تو معلوم ہوا کہ اس میں قدرت نہیں ہے۔ ۷۔ بعض لوگ خدا تعالیٰ کو قانون قضاء وقدر جاری کرنے کے بعد بالکل بیکار سمجھتے اور اس وجہ سے کہتے تھے کہ دعا کرنا فضول ہے۔ جب خدا کا قانون جاری ہو گیا تو دعا کرنا بےفائدہ ہے۔ دعا سے اس قانون میں رکاوٹ نہیں پیدا ہوسکتی۔ سر سید احمد خان وغیرہ اس کے قائل ہیں۔ ۸۔ خدا تعالیٰ کی صفات کے اجراء کا مسئلہ بالکل لايَنْحَل سمجھا جانے لگا تھا۔ لوگ خدا تعالیٰ کی سب صفات کے ایک ہی وقت میں جاری ہونے کا علم نہ رکھتے تھے اور سمجھ ہی نہ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ جو شَدِيدُ الْعِقَابِ ہے وہ اس صفت کو رکھتے ہوئے ایک ہی وقت میں وھاب کس طرح ہو سکتا ہے وہ حیران تھے کہ کیا ایک انسان کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ وہ بڑا سخی ہے اور بڑا بخیل بھی ہے۔ اگر نہیں تو خدا کے لیے کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں قہار بھی ہے اور رحیم بھی چونکہ قرآن کریم میں ایسی صفات آئی ہیں جو بظاہر آپس میں مخالفت رکھتی ہیں اس لیے وہ لوگ حیران تھے۔ ۹۔ بعض لوگ اس خیال میں پڑے ہوئے تھے کہ ہر چیز خداہی خدا ہے اور بعض اس وہم میں پڑے ہوئے تھے کہ ایک تخت ہے خدا تعالیٰ اس پر بیٹھا ہوا حکم کرتا ہے۔ ۱۰۔ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ہی نہیں رہی تھی ۔ حتّٰی کہ جب کوئی مکان یا گھر ویران ہو جاتا تو کہتے کہ اب تو اس میں اللہ ہی اللہ ہے ۔ یا کسی کے پاس کچھ نہ رہتا تو کہا جاتا کہ اب تو اس کے پاس اللہ ہی اللہ ہے جس کا یہ مطلب تھا کہ خدا تعالٰی بھی ایک خلاہی کا نام ہے۔ خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے ملنے کی تڑپ بالکل مٹ گئی تھی۔ جنوں اور بھوتوں کی ملاقات ، جادو ٹونے کی خواہش تو لوگوں میں تھی۔ لیکن اگر نہ تھی تو خدا تعالیٰ کی ملاقات کی خواہش نہ تھی۔ شرک کی تعریف اور اِس کی اقسام مذکورہ بالا دس اقسام میں سے پہلی قسم میں شرک جلی اور خفی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ شرک کا لفظ بظاہر معمولی ہے مگر بہت پیچیدہ ہے اس پر مزید لکھنے کی ضرورت ہے۔سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ایک لمبی تحقیق کے بعد اپنی تقریر ہستی باری تعالیٰ (برموقع جلسہ سالانہ ۱۹۲۱ء)میں اس کی تفصیل بیان کی ہے فرمایا: مجھے ساری عمر اس بات کی جستجو اور تلاش رہی ہے کہ شرک کیا ہے ؟ لوگ کہتے ہیں۔ یہ موٹی بات ہے۔ میں طالب علمی کے زمانہ سے اسے سمجھنا چاہتا تھا لیکن ایسی تعریف نہیں ملتی تھی کہ جس کے اندر شرک کی سب اقسام آجائیں اور ایسی بات داخل نہ ہو جو شرک نہ ہو ۔ آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ شرک کی ایک تعریف کرنا ہی غلطی ہے جس طرح خدا تعالیٰ کے وجود کا تصور کبھی ذات کے لحاظ سے ہوتا ہے کبھی ان صفات کے لحاظ سے جن میں مخلوق کوکس قسم کی بھی قدرت نہیں دی گئی کبھی ان صفات کے لحاظ سے جن میں بظاہر بندے بھی شریک ہوتے ہیں اس لیے سب امور کو مد نظر رکھ کر شرک کی مختلف اقسام کی تعریف الگ الگ ہی کرنی چاہئے۔ اس کے بعد حضورؓ نے شرک کی ۱۰ اقسام بیان فرمائی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔ ۱۔ یہ خیال کرنا کہ ایک سے زیادہ ہستیاں ہیں جو یکساں طاقتیں رکھتی ہیں اور سب کی سب دنیا کی حاکم اور سردار ہیں یہ شرک فی الذات ہے ۔ ۲۔ یہ خیال کرنا کہ دنیا کی مدبّر ہستیاں ایک سے زیادہ ہیں جن میں کمالات تقسیم ہیں۔ کسی میں کوئی کمال ہے اور کسی میں کوئی اور یہ بھی در حقیقت شرک فی الذات ہی ہے۔ ۳۔ وہ اعمال جو مختلف قوموں میں عاجزی اور انکساری کے لیے اختیار کیے گئے ہیں ان میں سے جو حد درجہ کے انتہائی عاجزی کے اعمال ہیں ان کو خدا کے سوا کسی اور کے لیے کرنا شرک ہے۔ مثلاً سجدہ کرنا ۴۔انسان اسباب ظاہری کے متعلق یہ سمجھے کہ ان سےمیری سب ضروریات پوری ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ کے تصرف کا خیال دل سے مٹادے اور یہ خیال کرے کہ صرف مادی اسباب ہی ضرورت کو پورا کرنے والے ہیں۔ ۵۔ خدا کی وہ مخصوص صفات جو اس نے بندوں کو نہیں دیں جیسے مردہ کو زندہ کرنا ۔ یا کوئی چیز پیدا کرنا ایسے سب امور میں خدا تعالیٰ کی صفات میں کسی اور کو شریک کر دینا۔ ۶۔ انسان خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے اسباب کو بالکل نظر انداز کر دے اور یہ سمجھے کہ کسی شخص یا کسی چیز نے بلا ان اسباب کے استعمال کرنے کے جو خدا تعالیٰ نے کسی خاص کام کے لیے مقرر کیے ہیں اپنی ذاتی اور خاص طاقت کے ذریعہ سے اس کام کو کر دیا ہے۔ ۷۔یہ سمجھنا کہ خدا کو کسی بندہ سے ایسی محبت ہے کہ اس کی ہر بات مان لیتا ہے۔ ۸۔کسی ایسی چیز کے متعلق جسے خداکے قانون قدرت نے کسی کام کے کرنے کے لیے کوئی طاقت نہیں دی اس کے متعلق خیال کر لیا جائے کہ وہ فلاں کام کرے گی ۔ جیسے مثلاً خدا نے مردہ کو طاقت نہیں دی کہ اس دنیا میں کوئی تصرف کر سکے اس طرح بتوں ، دریاؤں ، سمندروں ، سورج ، چاند وغیرہ چیزوں سے دُعائیں کرنا اور کرانا بھی شرک ہے۔ ۹۔ایسے اعمال جو مشرکانہ رسوم کانشان ہیں گو اب شرک کی مشابہت نہیں رکھتے ان کا بلا ضرورت طبعی ارتکاب کرے۔ مثلاً ایک شخص کسی قبر پر جا کر نہ دعا کرے نہ کرائے نہ صاحب قبر کو خدا سمجھے لیکن وہاں دیا جلا کر رکھ آئے۔ ۱۰۔ خواہ عمل نہ ہو مگر دل میں محبت ،ادب ،خوف اور اُمید کے جذبات خدا کی نسبت اوروں سے زیادہ رکھتاہو یا خدا کے برابر رکھتا ہو (ہستی باری تعالیٰ۔انوار العلوم جلد ۶ صفحہ۳۵۷ تا ۳۶۰ ) توحید کے دلائل حضرت مسیح موعودؑ نے توحید کی سچی تعلیم اور اس کا فلسفہ اور اس کے دلائل پورے زور کے ساتھ بیان کیے جو قرآن شریف میں درج ہیں اور پھر ان کو پورے زور کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا۔معبود حقیقی کا اسم ذات اللہ ہے جو قرآن میں ۲۶۹۷ مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔حضرت مسیح موعود ؑنے بتایا کہ قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق اور مستجمع جمیع صفات کا ملہ اور تمام رذ ائل سے منزّہ اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض ہے ۔کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قرآن شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء و صفات کا موصوف ٹھہرایا ہے اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رتبہ نہیں دیا۔ پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ان تمام صفتوں پر دلالت ہے جن کا وہ موصوف ہے اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لیے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کا ملہ پر مشتمل ہے۔(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۴۳۵۔۴۳۶) سچے واحد خدا کا تعارف آپؑ نے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق قرآن سے بہت کچھ بیان فرمایا جس کا ایک نمونہ حسب ذیل ہے ۔ اللہ تعالیٰ واحد خالق و مالک ہے آپ نے پہلی بار زندہ خدا کی اصطلاح استعمال کی جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی تمام صفات کے ساتھ ہمیشہ جلوہ گر رہتا ہے۔ فرمایا: ‘‘ ہمارا خدا وہ خدا ہے جواب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ وہ پہلے بولتا تھا اور اب بھی وہ سنتا ہے۔جیسا کہ پہلے سنتا تھا’’(الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۹) اللہ تعالیٰ کا کوئی جسمانی وجود نہیں اس کی مانند کوئی چیز نہیں۔اس سلسلہ میں جتنی بھی باتیں الہامی کتب میں کہی گئی ہیں وہ سب تمثیلات پر مشتمل ہیں۔ اس کی لامحدود صفات حق و حکمت کے ساتھ کام کرتی ہیں اور ان میں باہم کوئی تضاد نہیں۔ اور ان میں سےکوئی بھی صفت معطل نہیں۔قرآن کریم میں کم از کم ۱۷۵ صفات کا تذکرہ ہے احادیث رسول ﷺ میں ان کے علاوہ ۱۰۴ صفات کا ذکر ہے حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ نے ان کے علاوہ اپنی جن صفات پر اطلاع دی وہ ۲۷ ہیں۔ (تفصیل دیکھیں الفضل انٹر نیشنل ۱۰؍مئی۲۰۲۲ء)یہی خدا تعالیٰ کا سچا تعارف کراتی ہیں۔ وہ جس سے چاہے بولتا ہے اور جسے چاہے چن لیتا ہے اور اپنا مامور اور پیغمبر مقرر کرتا ہے۔اس نے کل عالم میں اپنے پیغمبر بھیجے ہیں جن میں سب سے اعلیٰ و برتر حضرت محمدﷺ ہیں جن پر تمام برکات نبوت تکمیل کو پہنچ گئیں اور اب آپ کی اتباع کرنے والوں سے اللہ کلام کرتا رہے گا ( ہر قوم میں نبی آنے سے متعلق تفصیل دیکھیں الفضل انٹر نیشنل ۱۷ نومبر ۲۰۲۰ء) اس کی۴ امہات الصفات رب ،رحمان، رحیم اور مالک یوم الدین ہیں ۔ اس کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہےاس لیے جنت تو دائمی ہے مگر جہنم وقتی اور فنا ہونے والی ہے۔ آپؑ نے اعلان فرمایا کہ خدا ہر چیز یعنی تمام روح و مادہ کا خالق ہے۔ اس طرح آپ نے ہندو اور آریہ مذہب کی بنیادوں پر تبررکھ دیا۔آپ کی ۱۱؍کتب کا مرکزی مضمون ہندومت اور سکھ مت ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ خدا دکھ اٹھانے اور صلیب پر چڑھنے اور مرنے سے پاک ہے۔ اس کی صفت عدل اور رحمان میں کوئی تنازعہ نہیں۔ مسیح کی وفات پر زور دلائل سے ثابت کر دی۔ اس طرح آپ نے عیسائیت کے عقیدہ الوہیت مسیح اور کفارہ اور تثلیث کو باطل کر دیا۔ حیات مسیح کے عقیدہ سے بھی شرک کی ترویج ہو رہی تھی آپ نے وفات مسیح ا ور اس سے متعلقہ امور پر ۶ بڑے چیلنج دیے۔ آپؑ نے بتایا کہ زردشتی عقیدہ کے مطابق نیکی اور بدی کا الگ الگ خدا نہیں بلکہ ایک ہی خدا ہے جس کی صفات کی موجودگی کا نام نیکی اور عدم کا نام ظلمت اور گناہ ہے۔ اس طرح آپ نے دو خداؤں کے تصور کا قلع قمع کر دیا۔ سورت اخلاص اور توحید حضرت مسیح موعودؑ نے اس مقصد کے لیے سورت اخلاص کو خاص طور پر بنیاد بنایا اور بتایا کہ اس میں نہ صرف ہر قسم کے شرک کی نفی ہے بلکہ ہر قوم میں شرک کے جتنے بھی مظاہر پائے جاتے ہیں ان سب کی تردید کی گئی ہے۔ آپ نے سورت اخلاص درج کی۔قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَلَمۡ یُوۡلَدۡ۔ وَلَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ۔اور پھرفرمایا کہ اس مختصر عبارت میں جو ایک سطر میں آ جاتی ہے ۔کس لطافت اور عمدگی سے ہر ایک قسم کی شراکت سے اللہ تعالیٰ کا منزّہ ہونا بیان فرمایا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ عقل کے لحاظ سے شراکت زیادہ سے زیادہ چار قسم کی ہے کبھی شرکت عدد میں ہوتی ہے اور کبھی مرتبہ میں اور کبھی نسب میں اور کسی فعل اور تاثیر میں۔ سو اس سورت میں ان چاروں قسموں کی شرکت سے خدا کا پاک ہونا بیان فرمایا اور کھول کر بتلا دیا کہ وہ اپنے عدد میں ایک ہے دو یا تین نہیں۔ وہ صمد ہے یعنی اپنے مرتبہ میں منفرد اور یگانہ ہے اور بجز اس کے تمام چیزیں اُس کی طرف ہر دم محتاج ہیں اورفنا ہونے والی ہیں۔ وہ لَمْ يَلِدْ ہے اُس کا کوئی بیٹا نہیں تا بوجہ بیٹا ہونے کے اُس کا شریک ٹھہر جائے ۔ اور وہ لَمْ يُولَدْ ہے یعنی اس کا کوئی باپ نہیں تا بوجہ باپ ہونے کے اُس کا شریک بن جائے۔ وہ لَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا ہے یعنی اس کے کاموں میں کوئی اُس سے برابری کرنے والا نہیں تا با اعتبار فعل کے اُس کا شریک قرار پاوے ۔ سو اس طور سے ظاہر فرما دیا کہ خدائے تعالیٰ چاروں قسم کی شرکت سے پاک اورمنزّہ ہے اور وحدہ لاشریک ہے۔(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد۱ صفحه ۵۱۸۔ حاشیہ درحاشیہ نمبر۳) صفت احد کے حوالہ سے حضرت مسیح موعودؑ نے یہ عظیم الشان نکتہ بھی بیان فرمایا ہے کہ خدا نے کسی بھی فرد میں کوئی ایسی خصوصیت پیدا نہیں کی جس میں اس کا کوئی شریک نہ ہو تاکہ وہ اس صفت میں احد نہ سمجھا جائے فرمایا ‘‘قرآن کریم کی صاف تعلیم یہ ہے کہ وہ خدا وند وحید و حمید جو بالذات توحید کو چاہتا ہے۔ اُس نے اپنی مخلوق کو متشارك الصفات رکھا ہے اور بعض کو بعض کا مثیل اور شبیہہ قرار دیا ہے تاکسی فرد خاص کی کوئی خصوصیت جو ذات و افعال و اقوال اور صفات کے متعلق ہے اس دھو کہ میں نہ ڈالے کہ وہ فرد خاص اپنے بنی نوع سے بڑھ کر ایک ایسی خاصیت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص نہ اَصْلٓا و نہ ظِلّاً اس کا شریک نہیں اور خدا تعالیٰ کی طرح کسی اپنی صفت میں واحد لا شریک ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں سورۃ اخلاص اسی بھید کو بیان کر رہی ہے کہ احدیت ذات و صفات خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ دیکھو اللہ جلّ شانہ ٗفرماتا ہے قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه۴۴۔۴۵) عیسائیوں کو چیلنج پھر سورہ اخلاص میں بیان کردہ توحید کا موازنہ توریت و انجیل سے کرتے ہوئے اور عیسائیوں کو چیلنج دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ‘‘سچ تو یہ ہے کہ جس قد رسورہ اخلاص کی ایک سطر میں مضمون تو حید بھرا ہوا ہے۔ وہ تمام توریت بلکہ ساری بائیبل میں نہیں پایا جاتا۔ اور اگرہے تو کوئی عیسائی ہمارے سامنے پیش کرے۔ پھر جس حالت میں توریت میں بلکہ تمام بائیبل میں صحت اور صفائی اور کمالیت سے توحید حضرت باری کا ذکر ہی نہیں اور اسی وجہ سے توریت اور انجیل میں ایک گڑبڑ پڑ گیا اور قطعی طور پر کچھ سمجھ نہ آیا ۔’’(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۰۳۔۳۰۴۔ حاشیہ در حاشیہ نمبر۲) اس قسم کی بیسیوں آیات سے حضورؑنے توحید کا مضمون سمجھا اور دنیا کو سمجھایا۔ شاندا ر مضمون حضرت مسیح موعودؑ توحید کا مضمون کس شان کے ساتھ بیان فرماتے ہیں : ‘‘خدا اپنی تمام خوبیوں کے لحاظ سے واحد لاشریک ہے کوئی بھی اس میں نقص نہیں۔ وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہے تمام پاک قدرتوں کا اور مبدأہے تمام مخلوق کا اور سرچشمہ ہے تمام فیضو ں کا اور مالک ہے تمام جزا سزا کا اور مرجع ہے تمام امور کا اور نزدیک ہے باوجود دوری کے اور دور ہے باوجود نزدیکی کے۔ وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے اور وہ سب چیزوں سے زیادہ پوشیدہ ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس سے کوئی زیادہ ظاہر ہے۔ وہ زندہ ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ زندہ ہے وہ قائم ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ قائم ہے۔ اس نے ہر یک چیز کو اٹھا رکھا ہے اور کوئی چیز نہیں جس نے اس کو اٹھا رکھا ہو ۔کوئی چیز نہیں جو اس کے بغیر خود بخود پیدا ہوئی ہے یا اس کے بغیر خود بخود جی سکتی ہے۔ وہ ہر یک چیز پر محیط ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ کیسا احاطہ ہے۔ وہ آسمان اور زمین کی ہریک چیز کا نور ہے اور ہریک نور اسی کے ہاتھ سے چمکا۔ اور اسی کی ذات کا پرتَوہ ہے۔ وہ تمام عالموں کا پروردگار ہے کوئی روح نہیں جو اس سے پرورش نہ پاتی ہو اور خود بخود ہو۔کسی روح کی کوئی قوت نہیں جو اس سے نہ ملی ہو اور خود بخود ہو ۔(لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۵۲ ۔۱۵۳) پھر شرک اور اس کی باریک اقسام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘یہ بھی چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پرہیز ہو۔ نہ سورج نہ چاند نہ آسمان کے ستارے نہ ہوا نہ آگ نہ پانی نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عزت دی جائے اور ایسا اُن پر بھروسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کوکچھ چیز سمجھا جائے کہ یہ بھی شرک کے قسموں میں سے ایک قسم ہے بلکہ سب کچھ کرکے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا اور نہ اپنے علم پرکوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھیں اور کاہل سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت رُوح گری رہے … انسان کا علم کسی معلّم کا محتاج ہے اورپھر محدود ہے مگر اُس کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں اور باایں ہمہ غیر محدود ہے۔ انسان کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے اور محدود ہے مگر خدا کی شنوائی ذاتی طاقت سے ہے اور محدود نہیں۔ اور انسان کی بینائی سورج یا کسی دوسری روشنی کی محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر خدا کی بینائی ذاتی روشنی سے ہے اور غیر محدود ہے۔ ایسا ہی انسان کی پیدا کرنے کی قدرت کسی مادہ کی محتاج ہے اور نیز وقت کی محتاج اور پھر محدود ہے لیکن خدا کی پیدا کرنے کی قدرت نہ کسی مادہ کی محتاج ہے نہ کسی وقت کی محتاج اور غیرمحدود ہے کیونکہ اس کی تمام صفات بے مثل و مانند ہیں اور جیسے کہ اس کی کوئی مثل نہیں اس کی صفات کی بھی کوئی مثل نہیں… اگر ایک صفت میں وہ ناقص ہو تو پھر تمام صفات میں ناقص ہوگا۔ اس لیے اس کی توحید قائم نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اپنی ذات کی طرح اپنے تمام صفات میں بے مثل و مانند نہ ہو … یہ توحید ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی ہے جو مدار ایمان ہے۔’’(لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۵۴۔۱۵۵) عرش کی حقیقت توحید کے ساتھ عرش الٰہی کا بھی تعلق ہے عرش کے متعلق ساری مذہبی قومیں افراط و تفریط کا شکار تھیں عرش کے متعلق مسلمانوں کے خیالات اور تفسیروں نے ایک مضحکہ خیز تصور پیدا کر دیا تھا غیر مسلم دنیا تک یہ پیغام کس طرح پہنچ رہا تھا ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر( ۱۸۱۱۔۱۸۸۲ء)نیویارک یونیورسٹی کے مشہور کیمیادان تھے ان کی بہت سی تصانیف علم البرق اور کیمیا پر ہیں وہ ان فنون میں بہت سی اختراعات کے موجد بھی ہیں انہوں نے اپنی مشہور کتاب معرکہ مذہب و سائنس میں اسلام کے خدا اور عرش کا یہ افسانہ تحریر کیا: خدا کی حکمت و طاقت اس زاویہ سے قابل صد تعریف ہے کہ اس نے زمین کو اپنے مقام پر بغیر کسی نقص کے محفوظ رنگ میں اپنی جگہ پر رکھ دیا ہے آسمان کے اوپر بہشت کی بنیاد ہے جس کی سات منزلیں ہیں سب سے اونچی منزل خدا کا مسکن ہے جہاں وہ دیو پیکر انسان کی شکل میں ایک تخت پر بیٹھا ہے اور اس تخت کے دونوں طرف اس طرح کے ذوالجناح بیل جس طرح قدیم سریانی بادشاہوں کے محل میں ہوتے تھے۔ (History of conflict between religion and science by john William draper M.D LL.D.London 1885) حضرت مسیح موعودؑ نے قرآن شریف سے اس کے متعلق عظیم الشان تعلیم بیان فرمائی۔ ازل سے اور قدیم سے خدا میں دو صفتیں ہیں ایک صفت تشبیہی دوسری صفت تنزیہی۔ اور چونکہ خدا کے کلام میں دونوں صفات کا بیان کرنا ضروری تھا یعنی ایک تشبیہی صفت اور دوسری تنزیہی صفت اس لیے خدا نے تشبیہی صفات کے اظہار کے لیے اپنے ہاتھ آنکھ محبت غضب و غیرہ صفات قرآن شریف میں بیان فرمائے اور پھر جب کہ احتمال تشبیہ کا پیدا ہوا تو بعض جگہ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ ۔(الشوریٰ ۱۲)کہہ دیا اور بعض جگہ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ کہہ دیا جیسا کہ سورہ رعد جز ونمبر ۱۱ میں بھی یہ آیت ہے اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ (الرعد :۳) (ترجمہ) تمہارا خدا وہ خدا ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے بلند کیا جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو اور پھر اُس نے عرش پر قرار پکڑا۔ اس آیت کے ظاہری معنی کے رُو سے اس جگہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پہلے خدا کا عرش پر قرار نہ تھا۔اس کا یہی جواب ہے کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے بلکہ وراء الوراء ہونے کی ایک حالت ہے جو اُس کی صفت ہے پس جبکہ خدا نے زمین و آسمان اور ہرایک چیز کو پیدا کیا اور ظلی طور پر اپنے نور سے سورج چاند اور ستاروں کو نور بخشا اور انسان کو بھی استعارہ کے طور پر اپنی شکل پر پیدا کیا اور اپنے اخلاق کریمہ اس میں پھونک دیئے تو اس طور سے خدا نے اپنے لیے ایک تشبیہ قائم کی مگر چونکہ وہ ہر ایک تشبیہ سے پاک ہے اس لیے عرش پر قرار پکڑنے سے اپنے تنزّہ کا ذکر کردیا۔خلاصہ یہ کہ وہ سب کچھ پیدا کر کے پھر مخلوق کا عین نہیں ہے بلکہ سب سے الگ اور وراء الوراء مقام پر ہے اور پھر سورۃ طہٰ جز ونمبر ۱۶ میں یہ آیت ہے اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی (طٰہٰ : ۶) (ترجمہ) خدا رحمان ہے جس نے عرش پر قرار پکڑا اس قرار پکڑنے سے یہ مطلب ہے کہ اگرچہ اُس نے انسان کو پیدا کر کے بہت سا قرب اپنا اُس کو د یا مگر یہ تمام تجلیات مختص الزمان ہیں یعنی تمام تشبیہی تجلیات اُس کی کسی خاص وقت میں ہیں جو پہلے نہیں تھیں مگر از لی طور پر قرارگاہ خدا تعالیٰ کی عرش ہے جو تنزیہ کا مقام ہے کیونکہ جو فانی چیزوں سے تعلق کر کے تشبیہ کا مقام پیدا ہوتا ہے وہ خدا کی قرارگاہ نہیں کہلا سکتا وجہ یہ کہ وہ معرض زوال میں ہے اور ہر ایک وقت میں زوال اُس کے سر پر ہے بلکہ خدا کی قرار گاہ وہ مقام ہے جو فنا اور زوال سے پاک ہے پس وہ مقام عرش ہے۔(چشمہ معرفت۔روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ۲۷۷۔۲۷۸) پھر فرمایا: دوسری قوموں نے خدا تعالیٰ کی ذات کی نسبت یا تو تنزیھی صفت اختیار کی ہے یعنی نرگن کے نام سے پکارا ہے اور یا اس کو سرگن مان کر ایسی تشبیہ قرار دی ہے کہ گویا وہ عین مخلوقات ہے اور ان دونوں صفات کو جمع نہیں کیا۔مگر خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ان دونوں صفات کے آئینہ میں اپنا چہرہ دکھلایا ہے اور یہی کمال توحید ہے۔ (چشمہ معرفت۔روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۹۹) وحدت الوجود اور وحدت الشہود فلاسفر وں کے اثر کے تابع عالم اسلام میں اللہ تعالیٰ کے حوالے سےدو ایسے فتنے پیدا ہوئے جنہوں نے ایک لمبے عرصے تک عالم اسلام کو خلجان میں مبتلا کیے رکھا ایک فتنہ وحدت الوجود کا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہے وہ خدا ہی خدا ہے خدا کی ذات کا ہی حصہ ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہمہ اوست ۔ ہو سکتا ہے یہ خیا ل خدا کی عظمت کے تحت پیدا ہوا ہو لیکن رفتہ رفتہ یہ تصور اس حد تک پہنچا کہ در حقیقت خدا کے سوا کوئی اور چیز سرے سے موجود ہی نہیں یا یوں کہو کہ جو کچھ موجود ہے سب خدا ہی ہے (شعر العجم از علامہ شبلی نعمانی جلد ۵ صفحہ ۱۳۷ ) دوسرا عقیدہ وحدت الشہود کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض ایسے لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کر کے گویا خدا ہی بن جاتے ہیں انہوں نے بعض اولیاء کے الفاظ سے بھی فائدہ اٹھایا اور حد سے زیادہ تاویلیں کر کے توحید کو الجھا دیا۔ یہ دونوں عقائد قرآن شریف کے بالکل خلاف تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سب عقائد پر کاری ضرب لگاتے ہوئے سچی قرآنی توحید کو بیان کیا اور فرمایا کہ خدا خالق الکل ہے اور باقی سب مخلوق ہے جو اسی کی قدرت اور جلال سے ظاہر ہوئے ہیں اور کوئی چیز بھی خدا کی ذات کا حصہ نہیں اور اس جیسی کوئی چیز نہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ بے شک اپنے نیک اور پاک بندوں کو اپنے جلال کا پرتو عطا کرتا ہے لیکن کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو حقیقت میں خدا ہو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے لوہا آگ میں گرم ہو کر آگ کا کام تو دیتا ہے اور آگ ہی معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں لوہا ہی رہتا ہے اسی طرح انسان اپنے تعلق باللہ کے باوجود بہرحال انسان ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں ان دونوں اصطلاحوں کی حقیقت اور توازن کو بھی بیان کیا کہ اگر درست ہے تو اس کا اتنا ہی مطلب ہے ورنہ یہ سب خلاف قران اور قابل رد ہے۔ فرمایا ‘‘حقیقی توحید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرارسے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بت ہو خواہ انسان ہو خواہ سورج ہو یا چاند ہویا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو منزہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا۔ کوئی رازق نہ ماننا۔ کوئی مُعِزّ اور مُذِلّ خیال نہ کرنا کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اسی سے خاص کرنا ۔ اپنی عبادت اسی سے خاص کرنا ۔اپنا تذلل اُسی سے خاص کرنا ۔ اپنی امیدیں اُسی سے خاص کرنا ۔ اپنا خوف اُسی سے خاص کرنا ۔ پس کوئی توحید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہو سکتی۔ اول ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اس کی وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا اور تمام کو ہالکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت خیال کرنا۔ دوم صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا۔ اور جو بظاہر رب الانواع یا فیض رساں نظر آتے ہیں یہ اُسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا۔ تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گرداننا اور اسی میں کھوئے جانا ۔(سراج الدین عیسائی عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۴۹۔۳۵۰) واحد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے سب موت کاشکار ہیں اس کو فنا نہیں خالق اور مخلوق کا تعلق بہت سی قومیں مخلوق میں خدائی صفات تسلیم کر کے ان کو خدا کا درجہ دیتی ہیں جیسا کہ وید میں سورج، آگ اور ہوا کی تعریف کی گئی ہے ۔اسی طرح یہ سوال بھی اٹھایا جا تا ہے کہ خدا اور اس کی صفات کا کیا تعلق ہے وہ خدا کا حصہ ہیں یا اس کی مخلوق ہیں ۔اور خدا نے کائنات کو کیسے پیدا کیا ۔حضور نے ان سب موضوعات کو نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ایک جامع اقتباس یہ ہے۔ جو کچھ اجرام فلکی اور عناصر میں جسمانی اور فانی طور پر صفات پائی جاتی ہیں وہ روحانی اور ابدی طور پر خدا تعالیٰ میں موجود ہیں اور خدا تعالیٰ نے یہ بھی ہم پر کھول دیا ہے کہ سورج وغیرہ بذات خود کچھ چیز نہیں ہیں یہ اسی کی طاقت زبردست ہے جو پردہ میں ہر ایک کام کر رہی ہے۔ وہی ہے جو چاند کو پردہ پوش اپنی ذات کا بنا کر اندھیری راتوں کو روشنی بخشتا ہے جیسا کہ وہ تاریک دلوں میں خود داخل ہو کر ان کو منور کردیتا ہے اور آپ انسان کے اندر بولتا ہے۔ وہی ہے جو اپنی طاقتوں پر سورج کا پردہ ڈال کر دن کو ایک عظیم الشان روشنی کا مظہر بنادیتا ہے اور مختلف فصلوں میں مختلف اپنے کام ظاہر کرتا ہے۔ اسی کی طاقت آسمان سے برستی ہے جو مینہ کہلاتی ہے اور خشک زمین کو سر سبز کر دیتی ہے اور پیاسوں کو سیراب کر دیتی ہے ۔ اسی کی طاقت آگ میں ہو کر جلاتی ہے اور ہوا میں ہو کر دم کو تازہ کرتی اور پھولوں کو شگفتہ کرتی اور بادلوں کو اُٹھاتی اور آواز کو کانوں تک پہنچاتی ہے۔ یہ اسی کی طاقت ہے کہ زمین کی شکل میں مجسم ہو کر نوع انسان اور حیوانات کو اپنی پشت پر اُٹھا رہی ہے مگر کیا یہ چیزیں خدا ہیں؟ نہیں بلکہ مخلوق مگر ان کے اجرام میں خدا کی طاقت ایسے طور سے پیوست ہو رہی ہے کہ جیسے قلم کے ساتھ ہاتھ ملا ہوا ہے اگر چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قلم لکھتی ہے مگر قلم نہیں لکھتی بلکہ ہاتھ لکھتاہے یا مثلاً ایک لوہے کا ٹکڑا جو آگ میں پڑ کر آگ کی شکل بن گیا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ جلاتا ہے اور روشنی بھی دیتا ہے مگر دراصل وہ صفات اُس کی نہیں بلکہ آگ کی ہیں۔ اسی طرح تحقیق کی نظر سے یہ بھی سچ ہے کہ جس قدر اجرام فلکی و عناصر ارضی بلکہ ذرہ ذرہ عالم سفلی اور علوی کا مشہود اور محسوس ہے، یہ سب باعتباراپنی مختلف خاصیتوں کے جو ان میں پائی جاتی ہیں خدا کے نام ہیں اور خدا کی صفات ہیں اور خدا کی طاقت ہے جو ان کے اندر پوشیدہ طور پر جلوہ گر ہے اور یہ سب ابتدامیں اسی کے کلمے تھے جو اس کی قدرت نے ان کو مختلف رنگوں میں ظاہر کردیا۔ نادان سوال کرے گا کہ خدا کے کلمے کیونکر مجسم ہوئے کیا خدا ان کے علیحدہ ہونے سے کم ہو گیا مگر اس کو سوچنا چاہئے کہ آفتاب سے جو ایک آتشی شیشی آگ حاصل کرتی ہے وہ آگ کچھ آفتاب میں سے کم نہیں کرتی ۔ ایسا ہی جو کچھ چاند کی تاثیر سے پھلوں میں فربہی آتی ہے وہ چاند کو دبلا نہیں کر دیتی ۔ یہی خدا کی معرفت کا ایک بھید اور تمام نظام روحانی کا مرکز ہے کہ خدا کے کلمات سے ہی دنیا کی پیدائش ہے۔ (نسیم دعوت، وحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۴۲۳۔۴۲۴) زندہ خدا کی تجلیات حضرت مسیح موعودؑکی آمد اور بعثت کا پہلا اور آخری مقصد توحید خالص کا قیام ہے ۔ آپ ایسے وقت میں آئے جب خدا کا نام اور زبانوں پر ایمان تو موجود تھا لیکن خدا کی حقیقت اور اس سے زندہ تعلق مفقود ہو چکا تھا۔ اس لیے آپ نے اعلان فرمایا: ‘‘بجز اسلام تمام مذہب مُردے ان کے خدا مُردے اور خود وہ تمام پیرو مردے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہوجانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں ہرگز ممکن نہیں۔ اے نادانو! تمہیں مردہ پرستی میں کیا مزہ ہے؟اورمُردار کھانے میں کیا لذّت آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے۔اور کس قوم کے ساتھ ہے۔وہ اسلام کے ساتھ ہے۔اسلام اِس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہاہے۔وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہوگیا۔آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کررہا ہے۔’’(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ۳۴۶) آپؑ نے خدا کی ہستی کے اور نقلی دلائل دیئے مگر اپنی ذات کو پیش کر کے زندہ خدا آنکھوں والوں کو دکھا دیا۔آپؑ نے ۲۷۰ کے قریب علمی اور روحانی چیلنج دیئے، ۱۵ کے قریب کتب میں نقد انعامی چیلنج بھی شامل ہیں مگر کسی نے قبول نہ کیا۔ آپؑ نے قبولیت دعا کے نشانوں کے ذریعہ خدا کا جلوہ دکھایا۔تمام مذاہب کو عمومًا اور تمام مسلمان علماء کو مل کر اپنے مقابلہ میں دعا کا چیلنج دیا ۔سینکڑوں لوگوں کو آپ کی دعا سے اولاد یا شفا نصیب ہوئی ہزاروں نے دیگر مرادیں پائیں ۔ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام دی اور نشان نمائی کا چیلنج دیا۔ آپؑ نے اپنی فتح اور دشمنوں کی ہلاکت کی پیشگوئیوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی قہری تجلی دکھائی۔لیکھرام انڈیا میں قتل ہوا اور ڈوئی نے امریکہ میں عبرتناک وفات پائی ۔طاعون میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ آپؑ نے خدا سے تازہ بتازہ معارف قرآنی حاصل کرکے قرآن کا خدا دکھایا۔معارف قرآنی میں ساری دنیا کو للکارا اور فرمایا ساری تورات و انجیل میں ۷۰ کے قریب کتابوں میں سے الٰہی صداقتیں پیش کریں میں اس سے بڑھ کر صرف سورت فاتحہ سے نکال دوں گا اگر وہ جیت گئے تو انہیں ۵۰۰ روپیہ انعام دوں گا ۔آپ کی کتب میں سے تفسیری نکات پر ۸ جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ آپؑ نے خدا سے علم عربی حاصل کر کے فصیح و بلیغ عربی کتب لکھیں اور پھر نثر اور نظم میں مقابلے کا چیلنج دے کر خدا دکھایا۔اعجاز احمدی پر ۱۰ ہزار،نور الحق پر ۵ ہزار اور کرامات الصاقین پر ایک ہزار کا انعام آ ج بھی راہ دیکھ رہا ہے۔ ان میں سے ہر ایک معاملہ پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ خدا نما مجلس آپؑ کی مجلس خدا نما تھی ۔ آپؑ کا کلام خدا نما تھا۔ آپؑ کی گفتگو خدا تعالیٰ سے تعلق کے گرد ہی گھومتی تھی ۔ آپؑ نے بار بار لوگوں کو دعوت دی کہ قادیان حضرت مسیح موعود کے خرچ پر آئیں۔ آپؑ کے قیام و طعام سے استفادہ کریں۔ آپؑ کی صحبت میں رہیں ۔ اور خدا کے نشان دیکھیں فرمایا اگر میں نشان نہ دکھا سکا تو ۲۰۰ روپیہ ماہوار ہر جانہ بھی ادا کروں گا۔بہت سے خوش نصیبوں نے آپؑ کے ہاتھ پر آسمانی نشان دیکھے، کئی آپؑ سے ملے اور گفتگو سےخدا کی سچائی کا یقین کیا۔ اس ضمن میں صرف دو واقعات بیان کرنے مقصود ہیں۔ حضرت مولوی محمد ابراہیم بقا پوریؓ لکھتے ہیںکہ میں حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات کے لیے قادیان پہنچا اورعرض کیا کہ میں خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل ہوں مگر وہ یقین جس سے قطعی طور پرخدا تعالیٰ پر ایسا ایمان پیدا ہو کہ گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں مجھے حاصل نہیں۔ میرے شک کی ایک وجہ یہ تھی کہ میری پہلی بیوی سے ایک اکلوتا بیٹا تھا۔ جو چار سال کی عمر میں جل کر فوت ہو گیا تھا۔ ایک معصوم بچے کی ایسی غمناک وفات کا صدمہ میرے قلب پر اس قسم کا چھا چکا تھا کہ اس نے خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق شکوک پیدا کر دیئے تھے ان شکوک کی وجہ سے مجھے قلبی اطمینان حاصل نہ تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے سن کر ولنبلونکم بشيء من… (البقرۃ: ۱۵۶) کی تفسیر فرمائی وہ تفسیر ایسی لذیذ اور سرور بخش تھی کہ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ کوئی چیز حضرت اقدسؑ کے قلب سے نکل کر میرے دل پر گر رہی ہے، مجھے ایک چمکتا ہوا نو ر آپ کی پیشانی سے نکلتا ہوا نظر آتا تھا جس کی کرنیں میرے قلب کو منور کر رہی تھیں یہ تقریر۲۰ منٹ تک جاری رہی۔ تقریر کے بعد میری کیفیت ایسی بدل گئی گو یا اللہ تعالیٰ کی ہستی کا مشاہدہ کرلیا۔ (روزنامہ الفضل ۲۴ فروری ۲۰۱۶ء) ایک دفعہ ایک شخص بنام اکبر علی جو وحدت الوجود کا قائل تھا آیا یعنی میں بھی خدا ہوں تم بھی خدا ہو۔ ہر ایک شخص خدا ہے احمدی علماء کرام اور بزرگان نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ مگر اسے کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ آخر ایک جلسہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی تقریر جب اس نے سنی تو اس نے اسی وقت اپنے اس عقیدہ سے تو بہ کر لی دوسرے یا تیسرے روز اس نے بیعت کرلی ۔ (روزنامہ الفضل ۲۴؍فروری ۲۰۱۶ء) ذاتی زندگی میں توحید کے نظارے عام طور پر مذہبی رہنما عوام الناس کے ساتھ امتیازی رویہ رکھتے ہیں اور مجالس ،رہن سہن اور میل ملاقات میں ان کا احساس برتری موجود ہوتا ہے ۔حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ؓ جنہیں حضرت مسیح موعود ؑکو بہت قریب سے دیکھنے کا ایک عرصہ تک موقع ملا اور آپ کی امامت بھی کراتے رہے۔ لکھتے ہیں: مسجد مبارک میں آپ کی نشست کی کوئی خاص وضع نہیں ہوتی ایک اجنبی آدمی آپ کو کسی خاص امتیاز کی معرفت پہچان نہیں سکتا۔ آپ ہمیشہ دائیں صف میں ایک کونے میں مسجد کے اس طرح مجتمع ہو کر بیٹھتے ہیں جیسے کوئی فکر کے دریا میں خوب سمٹ کر تیرتا ہے میں جو اکثر محراب میں بیٹھتا ہوں اور اس لیے داخلی دروازہ کے سامنے ہوتا ہوں بسا اوقات ایک نو وارد اندر داخل ہو تاہے تو سیدھا میری طرف ہی آ جاتا ہے اور پھر خود ہی اپنی غلطی پر متنبہ ہوتا ہے یا حاضرین میں سے کوئی بتا دیتا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص جو دنیا کے فقیروں اور سجادہ نشینوں سے بڑا متاثر تھا۔ہماری مسجد میں آیا۔ لوگوں کو آزادی سے گفتگو کرتے دیکھ کر حیران ہوگیا۔ آپ سے کہا۔ کہ آپ کی مسجد میں ادب نہیں لوگ بے محابا بات چیت آپ سے کرتے ہیں۔’’ آپؑ نے فرمایا۔ ‘‘میرا یہ مسلک نہیں کہ میں ایسا تند خُو اور بھیانک بن کر بیٹھوں کہ لوگ مجھ سے ایسے ڈریں جیسے درندہ سے ڈرتے ہیں اور مَیں بُت بننے سے سخت نفرت رکھتا ہوں۔ مَیں توبُت پرستی کے ردّ کرنے کو آیا ہوں نہ یہ کہ میں خود بُت بنوں اور لوگ میری پوجا کریں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں اپنے نفس کو دوسروں پر ذرا بھی ترجیح نہیں دیتا۔ میرے نزدیک متکبر سے زیادہ کوئی بُت پرست اور خبیث نہیں۔ متکبر کسی خدا کی پرستش نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی پرستش کرتا ہے۔’’ (سیرت حضرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی صفحہ ۴۱، ۴۳) حضرت مسیح موعودؑ کے ایک مخلص دوست تھے۔ ان کا ایک بیٹا فوت ہو گیا جس پر انہوں نے خدا سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ خدا نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے یہ سنتے ہی حضور کو ان سے ایسی نفرت ہوئی کہ ۲۰ سال تک ان سے ناراض رہے۔بعد میں وہ احمدی ہو گئے اور اس قسم کی جہالتوں سے توبہ کر لی۔(تقدیر الٰہی ۔انوار العلوم جلد ۴ صفحہ ۶۰۷) ایک بار آپ کو شدید سردرد کی شکایت ہوئی۔ ہر ممکن علاج کیا گیا لیکن آرام نہ آسکا۔ ایک ماہر حکیم کو دور سے بلایا گیا۔ وہ آیا اور دیکھ کر کہنے لگا کہ کوئی فکر نہ کریں دو دن میں آرام کر دوں گا۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے یہ مشرکانہ بات سنی تو فرمایا کہ میں اس حکیم سے ہر گز کوئی علاج نہیں کروانا چاہتا۔ کیا وہ اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے؟ جس قدر رقم علاج کے لیے اس سے طے کی گئی تھی اس سے زیادہ دے دی اور اسے واپس بھجوا دیا۔ فرمایا: اصل شافیٔ مطلَق ہمارا خدا ہے۔ (الفضل انٹر نیشنل ۲۷؍اگست ۲۰۲۱ء) تصویر کا مقصد حضورؑ توحید کے منافی ہر قدم کے مخالف تھے ۔حضرت مسیح موعودؑنے اشاعت حق کی غرض سے تصویر کھنچوائی تھی اس بارے میں حضورؑ کے پاک خیالات ملاحظہ کریں ۔ایک شخص نے حضور کی تصویر ڈاک کے کارڈ پر چھوائی تا کہ لوگ ان کارڈوں کو خرید کر خطوط میں استعمال کریں ۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:میرے نزدیک یہ درست نہیں ۔ بدعت پھیلانے کا یہ پہلا قدم ہے۔ ہم نے جو تصویر فوٹولینے کی اجازت دی تھی وہ اس واسطے تھی کہ یورپ امریکہ کے لوگ جو ہم سے بہت دور ہیں اور فوٹو سے قیافہ شناسی کا علم رکھتے ہیں اور اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اُن کے لیے ایک روحانی فائدہ کا موجب ہو۔ کیونکہ جیسا تصویر کی حرمت ہے۔ اس قسم کی حرمت عموم نہیں رکھتی بلکہ بعض اوقات مجتہد اگر دیکھے کہ کوئی فائدہ ہے اور نقصان نہیں تو وہ حسب ضرورت اس کو استعمال کر سکتا ہے۔ خاص اس یورپ کی ضرورت کے واسطے اجازت دی گئی ۔ چنانچہ بعض خطوط یورپ امریکہ سے آئے جن میں لکھا تھا کہ تصویر کے دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل وہی مسیح ہے۔ ایسا ہی امراض کی تشخیص کے واسطے بعض وقت تصویر سے بہت مدد مل سکتی ہے۔ شریعت میں ہر ایک امر جو مَا يَنْفَعُ النَّاسَ (الرعد:۱۸) کے نیچے آئے اس کو دیر پا رکھا جاتا ہے۔ لیکن یہ جو کارڈوں پر تصویریں بنتی ہیں ان کو خرید نا نہیں چاہیے۔ بت پرستی کی جڑ تصویر ہے۔ جب انسان کسی کا معتقد ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ تعظیم تصویر کی بھی کرتا ہے… جو لوگ جماعت کے اندر ایسا کام کرتے ہیں ان پر ہم سخت ناراض ہیں ۔ ان پر خدا ناراض ہے۔ ایک شخص نے اس قسم کے کارڈوں کا ایک بنڈل لا کر دکھایا کہ میں نے یہ تاجرانہ طور پر فروخت کے واسطے خرید کئے تھے۔ اب کیا کروں؟ فرمایا:ان کو جلا دو اور تلف کر دو۔ اس میں اہانت دین اور اہانت شرع ہے ۔ نہ ان کو گھر میں رکھو۔اس سے کچھ فائدہ نہیں۔ بلکہ اس سے آخیر میں بت پرستی پیدا ہوتی ہے۔ اس تصویر کی جگہ پر اگرتبلیغ کا کوئی فقرہ ہوتا تو خوب ہوتا ۔( الحکم ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۵ صفحہ۳) خدا نما کتب مولانا عبدالماجد دریابادی ہندوستان میں مسلمانوں کے بہت بڑے عالم اور ادیب اور مفکر تھے۔ ایک زمانہ میں وہ الحاد کا شکار ہو گئے تھے مگر پھر واپس آ کر عالم دین اور مفسر بنے۔ ان کو دہریت سے واپس لا نے میں جن کتابوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ان میں حضرت مسیح موعودؑ کی کتب سرمہ چشم آریہ اور حضرت خلیفہ اول کی کتاب نور الدین شامل تھیں۔ (مضامین عبد الماجد ۔ مرتبہ غلام دستگیر رشید ایم اے ۔ناشر۔ادارہ اشاعت اردو۔حیدر آباد دکن ) براہین احمدیہ توحید کا مضمون خاص طور پر بیان کرتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت میاں محمد دین صاحبؓ جن کا نام ۳۱۳ صحابہ میں تیسرے نمبر پر ہے ان کی ہدایت کا موجب بھی براہین احمدیہ بنی ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ ۱۸۹۳ء میں حضرت منشی جلال الدین صاحب صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام (۳۱۳ صحابہ میں نمبر اول پر )نے سیالکوٹ سے اپنے بیٹوں کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب اپنے گھر گجرات بھجوائیں حضرت منشی صاحب کے بڑے بیٹے مرزا محمد قیم صاحب نے ان کتب کا ذکر حضرت میاں محمد دین صاحب سے کیا اور کہا کہ تم دوسری کتابیں پڑھتے رہتے ہو یہ بھی پڑھ کر دیکھ لو ۔حضرت منشی صاحب نے فتح اسلام اور توضیح مرام کے بعدبراہین احمدیہ پڑھنی شروع کی تو ساری دہریت اترنی شروع ہوگی خود فرماتے ہیں ۔ براہین کیا تھی آب حیات کا بحر ذخار تھا ۔براہین احمدیہ کیا تھی ایک تریاق ۔ ایک عین روح القدس یا روح مکرم یا روح اعظم تھا ۔براہین احمدیہ کیا تھی یسبح الرعد بحمدہ والملائکۃ من خیفتہ تھی ایک نورخدا تھا جس کے ظہور سے ظلمت کافور ہوگئی۔ آریہ برہمو ودہریہ لیکچراروں کے بد اثر نے مجھ جیسے اکثروں کو ہلاک کر دیا تھا اور ان کے اثرات کے ماتحت لایعنی زندگی بسر کر رہا تھا کہ براہین احمدیہ پڑھتے پڑھتے جب میں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتا ہوا صفحہ ۹۰ کے حاشیہ نمبر۱ پر اور صفحہ ۱۴۹ کے حاشیہ نمبر ۱۱پر پہنچا تو معاً میری دہریت کافور ہوگئی اور میری آنکھ کھل گئی جس طرح کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا جاگ کر زندہ ہو جاتا ہے ۔ سردی کا موسم جنوری ۱۸۹۳ء کی ۱۹تاریخ تھی ۔آدھی رات کا وقت تھا کہ جب میں ‘ہونا چاہیے’ اور ‘ہے ’ کے مقام پر پہنچا پڑھتے ہی معاً توبہ کی ۔کورا گھڑا پانی کا بھرا ہوا باہر صحن میں پڑا تھا ۔سرد پانی سے تہ بند پاک کیا ۔میرا ملازم مسمی منگتو سو رہا تھا وہ جاگ پڑا ۔وہ مجھ سے پوچھتا تھا کیا ہوا کیا ہوا ۔لاچا تہ بند مجھ کو دومیں دھو دیتا ہوں مگر میں اس وقت ایسی شراب پی چکا تھا کہ جس کا نشہ مجھے کسی سے کلام کرنے کی اجازت نہ دیتا تھا آخر منگتو اپنا سارا زور لگا کر خاموش ہو گیا ۔اور میں نے گیلا لاچا پہن کر نماز پڑھنی شروع کی ۔اور منگتو دیکھتا گیا۔محویت کے عالم میں نماز اس قدر لمبی ہوئی کہ منگتوتھک کر سو گیا اور میں نماز میں مشغول رہا ۔پس یہ نماز اسی نماز براہین احمدیہ نے پڑھائی کہ بعدازاں آج تک میں نے نماز نہیں چھوڑی۔صبح ہوئی تو میں وہ محمد دین نہ تھا جو کل شام تک تھا ۔حضرت قبلہ منشی مرزا جلال الدین صاحب بلانی تشریف لائے تو ان سے پتہ پوچھ کر بیعت کا خط لکھ دیا ۱۸۹۵ء میں حضرت مسیح موعودؑ سے دستی بیعت کی۔ (رجسٹر روایات صحابہ حضرت اقدسؑ جلد ۷صفحہ ۴۶، ۴۷) یہی کتب مشرق ومغرب میں سعید دلوں کو فتح کر رہی ہیں اور ہر سال لاکھوں لوگ توحید کو قبول کر رہے ہیں۔ ( مزید تفصیل الفضل انٹر نیشنل ۲۳؍مارچ ۲۰۲۳ء) فتح کی الہامی بشارات حضرت مسیح موعود ؑکو یہ بھی خبر دی گئی کہ آپ کی محنت اور دعائیں رنگ لائیں گی اور بالآ خر دنیا میں سچی توحید غالب آئے گی، فرمایا ۔میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتااگر میرا مولیٰ اور میرا قادر توانا مجھے تسلّی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے۔غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے۔ (مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ۱۸۲۔ایڈیشن۲۰۱۸ء) یہی توحید ہے جس کے لیے جماعت احمدیہ سرگرم عمل ہے۔ سنو اب وقتِ توحیدِ اتم ہے ستم اب مائلِ ملکِ عدم ہے خدا نے روک ظلمت کی اٹھا دی فَسُبْحَانَ الَّذِيْ أَخْزَى الْأَعَادِيْ (مجموعہ آمین ۔روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۵۰۴) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: برکات و فضائل درود شریف