٭…آنحضورﷺ کے بےمثل جودوسخا کی وجہ سے بنو ھوازن کے تمام قیدی خوش اسلوبی سے آزاد ہوگئے ٭… اسی قیام کے دوران آپؐ ایک رات عمرے کی نیّت سے مکہ تشریف لے گئے اور رات میں ہی واپس آگئے، لوگوں نے یہی سمجھا کہ جیسے آپؐ کہیں گئے ہی نہیں ٭…مکرم ڈاکٹرلئیق احمد فرّخ صاحب آف کینیڈ ا اور مکرم حمید احمد غوری صاحب آف حیدرآباد بھارت کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍اکتوبر۲۰۲۵ء بمطابق ۳؍اخاء۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۳؍اکتوبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمدصاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: حنین کی جنگ کے بعد اُس میں حاصل ہونے والےمالِ غنیمت اور اُس کی تقسیم کا ذکر ہو رہا تھا، اس بارے میں مزید واقعات یوں بیان ہوئے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے تمام اموال جعرانہ مقام پر جمع کرنے کا حکم دیا اور یہ حکم دے کر آپؐ نے طائف کا رُخ فرمایا اور کم و بیش ایک ماہ بعد طائف سے جعرانہ تشریف لائے اور یہاں پہنچ کر بھی آپؐ نے مالِ غنیمت تقسیم نہیں فرمایا بلکہ کچھ دن مزید انتظار فرمایا کہ شاید بنو ھوازن تائب ہوکر واپس آئیں۔ اِدھر نبی کریمﷺ ان کا انتظار کرتے رہے اور اُدھر بنو ھوازن اس کشمکش میں رہے کہ اُن کا رسول اللہﷺ کے پاس جانا فائدہ مند بھی ہوگا یا نہیں۔ جب آپؐ نے تقریباً ۱۴،۱۳؍دن انتظار فرماکر مالِ غنیمت تقسیم فرمادیا تو بنو ھوازن کے چودہ معزز ین جو اسلام قبول کرچکے تھے، آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہمارے سارے قبیلے نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ ان لوگوں نے آپؐ سے رحم کی اپیل کی تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مَیں نے تو بہت دنوں تک تمہارا انتظار کیا مگر پھر مالِ غنیمت تقسیم کردیا۔اب تم دیکھ رہے ہو کہ قیدیوں میں سے بہت کم موجود رہ گئے ہیں اورباقی سب تقسیم کیے جاچکے ہیں لہٰذا اب تم مال و اسباب یا قیدی مرد و عورتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرسکتے ہو۔ بنوھوازن نے قیدی مردوں اور عورتوں کو واپس لینے کا فیصلہ کیا جس پر آنحضرتﷺ نے بنو عبدالمطلب کے پاس موجودقیدی تو فوراً واپس کردیے ۔جبکہ باقی قیدیوں کے متعلق اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ مسلمانوں کے سامنے اپنے اسلام کا اظہار کرکے رسول اللہﷺ کو اپنے لیے سفارش کرنے والا مقرر کردیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور یوں آنحضورﷺ کے بےمثل جودوسخا کی وجہ سے بنو ھوازن کے تمام قیدی خوش اسلوبی سے آزاد ہوگئے۔ آنحضورﷺ نے بنو ھوازن سے اُن کے سردار مالک بن عوف کے متعلق پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ طائف میں بنو ثقیف کے پاس ہے، آنحضورﷺنے اُسے پیغام بھجوایا کہ اگر وہ آپؐ کی اطاعت قبول کرکے آجائے تو اس کےاہل و عیال اسے واپس کردیےجائیں گے۔ مالک بن عوف جب آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے اسے اس کے اہل و عیال بھی لوٹا دیے اور ایک سَو اونٹ بھی بطور تحفہ دیے۔ مالک آپؐ کی اس عنایت کو دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔ بنو ھوازن کے قیدیوں میں ایک خاتون شیماء بھی تھیں جن کا اصل نام حذافہ تھا۔ جب وہ گرفتار ہوئیں تو انہوں نے کہا کہ مَیں تمہارے نبی کی رضاعی بہن ہوں جس پر انہیں آنحضورﷺکی خدمت میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے آنحضورﷺ کو اپنے رضاعی رشتے کی نشانی کے طور پر دانتوں کا نشان دکھایا اور بتایا کہ یہ آپؐ نے مجھے اُس وقت کاٹ لیا تھا جب آپؐ میری گود میں تھے۔ پھر بتایا کہ ہم اس وقت بکریاں چَراتے تھے اور یہ کہ آپؐ کے رضاعی ماں باپ میرے حقیقی ماں باپ ہیں۔ آنحضورﷺ یہ سُن کر اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے اور اُن کے لیے اپنی چادر بچھا دی اور فرمایا: اس پر بیٹھو۔ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ،آپؐ نے اُن سے اپنے رضاعی ماں باپ کے متعلق دریافت فرمایا انہوں نے بتایا کہ اُن کا انتقال ہوچکا ہے۔ آپؐ نے ٹھہرنے یا واپس جانے کا اختیار اُن پرچھوڑ دیا، انہوں نےاسلام قبول کرتے ہوئے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ آپؐ نے انہیں تین غلام اور ایک لونڈی عطا فرمائی ، اسی طرح اونٹ بھی عطا فرمائے ۔ ابو داؤد کی ایک کمزور روایت کے مطابق جعرانہ کے مقام پر آنحضورﷺ کی رضاعی والدہ بھی آپؐ سے ملنے آئی تھیں مگر اس کی سند کمزور ہے۔ حضورِانور نےفرمایا کہ ممکن ہے کہ رضاعی والدہ کی ملاقات کا واقعہ کسی اور موقع کا ہو یا راوی کو غلطی لگی ہو کیونکہ روایات کے مطابق آنحضورﷺ کی رضاعی والدہ کی وفات جنگِ حنین سے پیشتر ہوچکی تھی۔ آنحضورﷺ نے جب مکے سے مدینے ہجرت کی تھی تو سَو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں سراقہ بن مالک نے آپؐ کا تعاقب کیا تھا اور آپؐ نے اُسے ایک امان کی تحریر لکھ کر دی تھی، یہی سراقہ جعرانہ مقام پر اپنی اس تحریر کے ساتھ حاضر ہوا اور اسلام قبول کرلیا۔ اسی قیام کے دوران آپؐ ایک رات عمرے کی نیّت سے مکہ تشریف لے گئے اور رات میں ہی واپس آگئے، لوگوں نے یہی سمجھا کہ جیسے آپؐ کہیں گئے ہی نہیں۔ ذوالقعدہ کے بارہ دن ابھی باقی تھے کہ آنحضورﷺ نے مدینہ واپسی کا سفر شروع فرمایا اور نَو دن کے سفر کے بعد مدینہ واپس پہنچ گئے۔ حضورِانور نے مستشرقین کے بعض بودے اعتراضات اور اُن کےمختصر جوابات پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سب کچھ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے۔ خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دو مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا: مکرم ڈاکٹرلئیق احمد فرّخ صاحب آف کینیڈا جو گذشتہ دنوں ۸۳؍برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نےکافی سال واقفِ زندگی ڈاکٹر کے طور پر افریقہ میں خدمات سرانجام دیں۔مرحوم موصی تھے۔ان کے پسماندگان میں اہلیہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ مرحوم ۱۹۷۴ء میں مجلس نصرت جہاں کے تحت گھانا بھجوائے گئے۔ بڑے بڑے پیچیدہ اور مشکل آپریشن آپ نے کیے اور اللہ تعالیٰ نے مریضوں کو شفا عطا فرمائی۔ ۱۹۸۴ءمیں مرحوم کو گیمبیا بھجوایا گیا جہاں ۱۹۹۳ء تک انہوں نے وقف کیا ۔ حضورِانور نے فرمایا کہ بڑی وقف کی روح کے ساتھ انہوں نے خدمت کی۔ مرحوم خاموش طبع، دعاگو،عاجزی و انکسار والے، صبرو استقامت کی مثال تھے۔ پوری زندگی خدمتِ انسانیت میں گزاری۔ نامساعد حالات میں بڑی استقامت سے کام کرتے رہے۔ ۱۹۸۸ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے گیمبیا کا دورہ فرمایا تو بالخصوص ان کے گھر تشریف لے گئے۔ مرحوم کے بیٹے نے لکھا کہ اُس وقت اُن کے گھر میں بیٹھنے کے لیے کُرسیاں بھی نہیں تھیں۔ مگر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ مَیں آپ کے ساتھ کھانا بھی کھاؤں گا اور باقی سب سٹاف کو باہر بھجوادیا۔ عبدالوہاب آدم صاحب مرحوم نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب جب بھی کسی مریض کی نازک حالت دیکھتے تو فوراً نفل پڑھنے لگ جاتے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ مَیں بھی گھانا میں رہا ہوں، مَیں نے بھی ان کے ساتھ وقت گزارا ہے، انتہائی شریف النفس، عاجز اور خدمت کرنے والے انسان تھے۔ واقفین کا بہت احترام کرنے والے تھے۔ مہمان نوازی ان میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ دونوں میاں بیوی مہمان نواز ہیں۔ بہت سی ایسی خصوصیات تھیں جو کم ہی لوگوں میں ہوتی ہیں۔ دوسرا ذکر خیر مکرم حمید احمد غوری صاحب آف حیدرآباد بھارت کا تھا۔ حضور انور نے فرمایا کہ یہ بھی گذشتہ دنوں ۷۴؍برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ ایک بیٹی اور چار بیٹے ،پوتے پوتیاں شامل ہیں۔ سب بچے کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کی خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔ مرحوم، محمد انعام غوری صاحب ناظرِ اعلیٰ قادیان کے چھوٹے بھائی تھے۔ صمدغوری صاحب مبلغ سلسلہ اور صدر جماعت البانیا کے والد تھے۔ صوم و صلوٰة کے پابند، تہجد گزار، قرآن مجید سے محبت کرنے والے تھے۔ مرحوم کو حج و عمرے کی سعادت بھی عطا ہوئی۔ خلافت کی اطاعت کرنے والے، نیک صالح بزرگ تھے۔ مالی قربانی میں پیش پیش رہتے، ہومیو پیتھی کی ادویہ بھی ضرورت مندوں میں مفت تقسیم کرتے۔ مرکزی نمائندوں اور مربیان کی بہت عزت کرنے والے تھے۔ حضورانور نے مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: غزوۂ حنین کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز بعض مرحومین کا ذکر خیر۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۶؍ستمبر ۲۰۲۵ء