دادی جان (گڑیا کے والد سے):کاشف بیٹا! ذرا میرا فون چیک کرنا میری فیکس والی ایپ کام نہیں کررہی صبح سے حضور انور کو فیکس کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔ ابو جان : جی امی جان! میں دیکھتا ہوں کیا مسئلہ ہے اس میں ۔چند ہی لمحوں میں ابو جان نے ایپ کو اپ ڈیٹ کیا تو وہ کام کرنے لگ گئی ۔ یہ لیں امی جان یہ ٹھیک ہوگئی ہے ۔ دادی جان : جزاکم اللہ احسن الجزاء بیٹا آپ نے تو میری مشکل آسان کردی، کتنی دیر سے پریشان تھی آج حضور انور کی خدمتِ اقدس میں دعائیہ خط فیکس کرنا تھا اور یہ چل ہی نہیں رہی تھی ۔ گڑیا : دادی جان آپ ہر جمعے کو خط لکھتی ہیں ؟ دادی جان : جی بیٹا اپنے پیارے آقا سے ذاتی رابطہ بڑھانے کے لیے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ ہفتہ وار خط لکھوں تاکہ وہ مجھے یاد رکھیں ۔ گڑیا : تبھی جب ملاقات ہوتی ہے توپیارے آقا آپ کو فوراً پہچان جاتے ہیں ۔ دادی جان: تو اور کیا !یہی تو اُن کی محبت اور شفقت ہے آپ سب کو بھی تو پیار کرتے ہیں ۔ گڑیا : جی بالکل دادی جان میرا دل چاہتا ہے کہ آپ مجھے پیارے حضور کی بچپن کی کچھ باتیں بھی بتائیں کہ وہ بچپن میں کیسے تھے ؟ دادی جان : ضرور بیٹا کیوں نہیں آپ ایسا کریں کہ احمد اور محمود کو بھی لے آئیں اور میری سائیڈ ٹیبل سے عینک اور تشحیذ الاذہان کا سیدنا مسرور نمبر 2008ء بھی اٹھا لائیں ۔آج میں آپ کو اُن کے پاکیزہ بچپن کے بارے میں کچھ بتاؤں گی ۔ چند لمحوں کے بعد تینوں بچے دادی جان کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھے تھے ، اچھا جی اب پوچھیں کیا پوچھنا ہے ان کے بچپن کے بارے میں ؟ احمد : دادی جان آپ بتائیں کہ کیا ہمارے حضور اپنے والدین کے لاڈلے بچے تھے ؟ دادی جان : نہیں، بلکہ ان کے والدین نے شروع ہی سے اپنے بچوں کو سخت جان اور محنتی بنایا تھا۔حضور نے خود بیان کیا ہے کہ ایک بار سکول آنے جانے کے لیے میری سائیکل چوری ہو گئی تو ابا جان نے مجھے نئی سائیکل نہیں لے کر دی بلکہ فرمایا پیدل سکول آیا جایا کرو ۔اسی طرح باقی معاملات میں بھی بڑی کڑی نگرانی کرتے تھے ،کسی قسم کی چُھوٹ اور نرمی سے کام نہیں لیتے تھے خاص طور پر باجماعت نماز اور دینی معاملات میں ۔ گڑیا: دادی جان! کیا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو سکول میں پڑھائی آسان لگتی تھی یا مشکل؟ دادی جان: بیٹی، حضور خود فرماتے ہیں کہ ساری پڑھائی مشکل لگتی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور آپ نے آخرکار MSc تک تعلیم حاصل کی۔ احمد: واہ! پھر دادی جان، حضور بچپن میں اپنی امی کے زیادہ قریب تھے یا ابو کے؟ دادی جان: حضور انور نے بتایا کہ دونوں کے ہی قریب تھے۔ اُس زمانے میں پرانے بزرگوں کے ساتھ ایک پردہ سا ہوتا تھا لیکن کھانے پینے کا خیال دونوں ہی رکھتے تھے۔ جب بیمار ہوتے تو ابا کہتے، ’’چھٹی کرلو، سکول مت جاؤ‘‘۔ اس وقت ابا اچھے لگتے تھے۔ محمود: اچھا! تو کیا حضور کو کسی سے ڈر لگتا تھا؟ دادی جان: نہیں بیٹا، ڈر تو کسی سے بھی نہیں لگتا تھا۔ بس یہ خیال رہتا کہ اگر کوئی غلط بات کریں گے تو ڈانٹ پڑ سکتی ہے، اور وہ دونوں طرف سے پڑسکتی تھی۔ گڑیا: دادی جان! کیا حضور بچپن میں کھیل بھی کھیلا کرتے تھے؟ دادی جان: جی ہاں، حضور کرکٹ بھی کھیلتے تھے اور بیڈمنٹن بھی۔ محمود: اور اب حضور شکار بھی کرتے ہیں اور سائیکلنگ کی تصویر بھی دیکھی ہے۔ احمد: کیا حضور کو شکار کا بھی شوق تھا؟ دادی جان: شاباش محمود! آپ نے اچھا مشاہدہ کیا!جی ہاں، حضور کے والد صاحب کو شکار کا بڑا شوق تھا اور حضور بھی ان کے ساتھ جایا کرتے۔ خرگوش، تیتر اورفاختہ کا شکار کرتے اور پھر اُن کے کباب وغیرہ بھی بنایا کرتے۔ احمد: دادی جان، کیا حضور کو اپنے دادا یا کسی بزرگ کے ساتھ کوئی خاص واقعہ یاد ہے؟ دادی جان: ہاں بیٹا! ایک بار حضور اپنے دادا حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ملنے گئے۔ دادا جان نے خود اندر جانے کی بجائے حضور کو بھیجا کہ اطلاع دے دو۔ جب ملاقات ہوئی تو دادا جان فرش پر بڑی عاجزی سے بیٹھ گئے، حالانکہ وہ حضرت مصلح موعودؓ کے بھائی تھے۔ اس واقعہ سے بچپن میں ہی حضور کے دل میں یہ سبق بیٹھ گیا کہ خلافت کا احترام سب پر مقدّم ہے۔ محمود: واہ! کتنا پیارا سبق ہے۔ گڑیا: دادی جان! حضور بہن بھائیوں کے ساتھ کیسے رہتے تھے؟ دادی جان: چونکہ حضور سب سے چھوٹے تھے، اس لیے سب ان سے چھوٹے موٹے کام کروا لیتے۔ مگر محبت اور احترام بھی بہت تھا۔ کبھی تُو تکار نہیں کی، نہ ہی اونچی آواز میں بات کی۔ محمود: دادی جان! کیا خلافت کے بعد حضور کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی ؟ دادی جان: خلافت سے پہلے حضور زیادہ وقت فارم پر یا دفاتر میں چکر لگا کر گزارتے۔ لیکن خلافت ملنے کے بعد ان کی زندگی بالکل بدل گئی۔ صبح سے رات گئے تک دفتر میں کام کرتے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا فضل تھا کہ حضور ہر کام میں کامیاب رہے۔ گڑیا: دادی جان! حضور کے بچپن کی عبادت کا بھی کوئی واقعہ ہے؟ دادی جان: ہاں بیٹی۔ ایک احمدی خاتون بیان کرتی ہیں کہ وہ حضور کے گھر خادمہ تھیں۔ اُن کو روزانہ یہ کہا گیا تھا کہ رات دو بجے جگا دیا کریں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب بھی وہ جگاتیں تو دیکھتیں کہ یا تو حضور تہجد پڑھ رہے ہوتے یا مطالعہ کر رہے ہوتے۔ گڑیا: سبحان اللہ! بچپن سے ہی کتنی پاکیزہ عادات تھیں۔ احمد: واقعی دادی جان، یہ سب سُن کر تو دل چاہتا ہے کہ ہم بھی خلافت سے محبت کریں اور اپنے معمولات بہتر بنائیں۔ دادی جان: بالکل بیٹا! یہی اصل سبق ہے۔ حضور انور کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے۔ گڑیا :شکریہ دادی جان آپ نے ہمیں بہت عمدہ باتیں بتائی ہیں ۔ مجھے یاد آیا میرا تو ابھی ہوم ورک باقی ہے میں نے وہ بھی مکمل کرنا ہے ۔ دادی جان : چلیں اب آپ اپنا ہوم ورک مکمل کریں میں حضور انور کی خدمت میں خط ارسال کر لوں ۔ بچے ٹھیک ہے دادی جان کہتے ہوئے کمرے سے باہر چلے گئے ۔(درثمین احمد۔ جرمنی)