اللہ تعالیٰ کی ایک صفت رزّاق ہے۔ مختلف اہل لغت نے اس صفت کے جو معنی کئے ہیں، وہ مَیں بیان کرتا ہوں۔ علامہ جمال الدین محمد کی لغت لسان العرب ہے، وہ اَلرَّازِق وَالرَّزَّاق کے تحت لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کیونکہ وہی تمام مخلوق کو رزق دیتا ہے اور وہی ہے جو مخلوقات کو ظاہری اور باطنی رزق عطا کرتا ہے۔ اَقْرَبُ الْمَوَارِد ایک لغت کی کتاب ہے، اس میں بھی اَلرَّزَّاق کے تحت لکھا ہے کہ لفظ رَزَّاق صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے، غیراللہ کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ اسی طرح مفردات امام راغب میں یہ لکھا ہے کہ رزّاق صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہی بولا جاتا ہے۔ امام راغب عموماً قرآنی آیات کی روشنی میں اپنی لغت کی بنیاد رکھتے ہیں، اسی بنیاد پر معنی بیان کرتے ہیں۔ بہرحال بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ رزّاق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کے معنی کیا ہیں؟ مختلف اہل لغت نے کیا معنی کئے ہیں۔ عموماً ہم یہ لفظ استعمال کرتے ہیں، ہماری زبان میں استعمال ہوتا ہے، اُردو میں بھی، پنجابی میں بھی، لیکن بڑے محدود معنوں کے لحاظ سے جبکہ اس کے معنوں میں بڑی وسعت ہے۔ لفظ رزق کے تحت امام راغب نے اس کے تین معنی بیان کئے ہیں، ایک یہ کہ رزق مسلسل ملنے والی عطا کو کہتے ہیں خواہ وہ دنیا کی عطا ہو یا آخرت کی عطا ہو۔ دوسرے یہ کہ کبھی ’’حصّہ‘‘ کے لئے ’’رزق‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ حصّہ میں اچھائی بھی ہوسکتی ہے اور برائی بھی ہو سکتی ہے۔ تیسرے یہ کہ کبھی خوراک کو بھی رزق کہتے ہیں جو پیٹ میں جاتی ہے اور غذا کا کام دیتی ہے۔ پھرلسان العرب کے مطابق ہر اس چیز کو رزق کہتے ہیں جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہو۔ اس کا مطلب عطا کرنا بھی ہے۔ بارش کو بھی رزق کہتے ہیں۔ اَقْرَبُ الْمَوَارِد کے مطابق ہر وہ چیز جس سے فائدہ اٹھایا جائے وہ رزق ہے، تنخواہیں وغیرہ یہ سب رزق میں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی مختلف آیات میں رزق کا جو لفظ استعمال کیا ہے، وہ چند آیات پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ ھود میں فرماتا ہے کہ وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَ مُسْتَوْدَعَھَا۔ کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ (سورۃ ھود:7) کہ زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ پر ہے اور وہ اس کا عارضی ٹھکانہ بھی جانتا ہے اور مستقل ٹھہرنے کی جگہ بھی۔ ہر چیز ایک کھلی کھلی کتاب میں ہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍جون ۲۰۰۸ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍جون۲۰۰۸ء) مزید پڑھیں: صفت مُہَیْمِن کا بیان