https://youtu.be/GEbT1CNKH5Q باؤباب جس کا سائنسی نام Adansonia ہے، نباتات کی دنیا کا ایک غیر معمولی درخت ہے۔ جسے براعظم افریقہ میں اس کی افادیت اور طویل عمر کے باعث عموماً ’’زندگی کا درخت‘‘ کہا جاتا ہے۔ مقامی روایات اور ثقافت میں یہ درخت نہایت مقدس تصور کیا جاتا ہے۔ باؤباب اپنی انوکھی ساخت اور غیر معمولی ہیئت کے سبب ماہرینِ نباتات اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس کا تنا غیرمعمولی طور پر موٹا اور وسیع ہوتا ہے جس کا قطر بعض اوقات ۱۰سے ۱۵؍میٹر تک پہنچ جاتا ہے، جب کہ اس کی اونچائی تقریباً ۲۵ سے ۳۰؍میٹر تک ہو سکتی ہے۔ اس کی شاخیں اوپر کی طرف پھیلی ہوتی ہیں جو جڑوں کی طرح دکھائی دیتی ہیں اور بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے درخت الٹا کھڑا ہو۔یہی وجہ ہے کہ اسے ’’الٹا درخت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بارش کے موسم میں یہ ہرے بھرے پتوں سے ڈھک جاتا ہے اور خشک موسم میں پتے جھڑ کر صرف پتلی شاخین اور موٹا تنا باقی رہ جاتا ہے۔ دنیا میں باؤباب کی آٹھ اقسام دریافت ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک قسم براعظم افریقہ کے کئی ممالک جیسے سینیگال، مالی، برکینا فاسو، چاڈ، نمیبیا، زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں عام ہے جسے Adansonia digitata کہتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ مشہور اور عام ہے۔باؤباب کی سب سے زیادہ اقسام مڈغاسکر میں پائی جاتی ہیں جہاں اس کی چھ الگ الگ قسمیں موجود ہیں۔ ان میں سب سے اونچا درخت Adansonia grandidieri ہے جو اکثر تصویروں میں دکھائی دیتا ہے۔ مڈغاسکر کے باقی درختوں میں Adansonia madagascariensis، Adansonia perrieri، Adansonia rubrostipa (فونی باؤباب)، Adansonia suarezensis اور Adansonia za شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ اقسام معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ باؤباب کی ایک خاص قسم آسٹریلیا میں پائی جاتی ہےجسے Adansonia gregorii کہا جاتا ہے۔ باؤباب کا پھل: باؤباب کا پھل لمبا، بیضوی یا گول نما ہوتا ہے اور اس کی بیرونی جلد سخت اور کُھردری ہوتی ہے۔ اندرونی حصہ خشک اور سفید یا کریمی رنگ کا ہوتا ہے، جس کا ذائقہ تھوڑا کھٹا ہوتا ہے اور اسے اکثر پاؤڈر کی شکل دے کر استعمال کیا جاتا ہے۔ غذائیت سے بھرپور اس پھل میں وٹامن سی، وٹامن بی کمپلیکس، وٹامن اے اور ای کے علاوہ کیلشیم، پوٹاشیم، میگنیشیم، آئرن اور زِنک شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فائبر بھی پایا جاتا ہے جو ہاضمہ بہتر بنانے میں مددگار ہے۔ باؤباب کے پھل سے جوس اور دیگر مشروبات تیار کیے جاتے ہیں۔ سینیگال میں اِس کے جوس کو وولوف زبان میں “Bouye” کہا جاتا ہے، جبکہ دیگر افریقی علاقوں میں بھی اِس کے مختلف مقامی نام استعمال ہوتے ہیں۔ زندگی کا درخت: باؤباب کو ’’زندگی کا درخت‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ صحرائی اور خشک علاقوں میں انسانوں، جانوروں اور ماحول کے لیے زندگی کا سہارا بنتا ہے۔ اس کے موٹے تنے میں ہزاروں لیٹر پانی ذخیرہ ہو سکتا ہے جو قحط اور خشک سالی کے دنوں میں ضرورت مندوں کے کام آتا ہے۔ اس کا پھل غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے، اسی طرح اس کے بیجوں سے تیل نکالا جاتا ہے جبکہ پتے اور چھال دواؤں میں استعمال ہوتی ہیں۔ باؤباب کا تنا اتنا وسیع ہوتا ہے کہ بعض مقامات پر لوگ اس کے اندر کمرہ یا پانی کا ذخیرہ بھی بنا لیتے ہیں اور اس کے گھنے سائے میں آرام حاصل کرتے ہیں۔ اپنی ان خصوصیات کے ساتھ ساتھ یہ درخت صدیوں سے مقامی ثقافت اور عقائد کا حصہ ہے اور طاقت، لمبی عمر اور بقا کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مقامی روایات: افریقہ میں باؤباب تہذیبوں اور قوموں کی ثقافت و عقائد میں گہری جڑیں رکھتا ہے۔ افریقہ کی کچھ روایات میں اسے ’’الٹا درخت‘‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ پہلے سیدھا اُگا تھا مگر خداؤں نے اس کے غرور کو دیکھ کر اسے جڑوں کے بل آسمان کی طرف الٹا دیا، اسی لیے اس کی شاخیں جڑوں کی مانند دکھائی دیتی ہیں۔ کئی قبائل اسے مقدس مانتے ہیں اور اس کے سائے تلے دعائیں کرتے ہیں، اُن کا عقیدہ ہے کہ یہاں مانگی گئی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ گاؤں کے بیچ کھڑا باؤباب خوشحالی اور اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے، جبکہ بعض روایات میں یہ آباء و اجداد کی روحوں کا مسکن مانا جاتا ہے، اسی لیے لوگ اسے کاٹنے یا نقصان پہنچانے سے کتراتے ہیں۔ قدیم زمانے میں لوگ اس کے نیچے جمع ہو کر فیصلے کرتےتھے، کہانیاں سنتے اور رسومات ادا کرتے تھے اور آج بھی یہ کئی بستیوں میں میل جول اور اجتماع کی جگہ ہے۔ سینیگال میں باؤباب کو ثقافت اور فطرت کی علامت مانا جاتا ہے۔ یہ درخت ملک کے قومی نشان (coat of arms) پر بھی نمایاں طور پر موجود ہے۔ اور مقامی لوگ اسے زندگی، طاقت اور برکت کی علامت سمجھتے ہیں۔ صوفی بزرگ اور علماء صدیوں سے اس کے سائے تلے تعلیم، ذکر اور روحانی محافل کرتے آئے ہیں، اسی لیے یہاں اسے مقدس درخت مانا جاتا ہے۔ سینیگال کے ساحلی علاقوں اور دیہات میں یہ درخت سیاحوں کی توجہ کا مرکز بھی ہے۔باؤباب کے مرنے پر کئی افریقی قبائل اس کے مرنے کی رسومات بھی ادا کرتے ہیں اور اس کے اردگرد کھڑے ہو کے مخصوص انداز میں غم کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض افریقی اور مڈغاسکری روایات کے مطابق، اس کے کھوکھلے یا بڑے تنوں میں بزرگ اور روحانی راہنماؤں کو دفنایا جاتا تھا، اس عقیدے کے ساتھ کہ وہ بزرگان درخت کے ساتھ ہزاروں سال زندہ رہیں گے اور علاقے کی حفاظت کرتے رہیں گے۔ (حافظ ذیشان لاشاری، مربی سلسلہ سینیگال) ٭…٭…٭