https://youtu.be/VXxVaNMZv38 (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۴؍ستمبر ۱۹۱۵ء) ۱۹۱۵ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے جمعہ کے اجتماع کی اہمیت اور برکات کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) مسلمانوں پر خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے کہ ہر ہفتہ میں ایک ایسی نماز رکھ دی ہے جس میں شہر اور اس کے ارد گرد کے لوگوں کا شامل ہونا فرض ہے حضورؓ نے تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: خطبہ جمعہ بہت سی قومی ضروریات کی طرف جماعت کو متوجہ کرنے کے لیے ایک مفید اور بابرکت موقع پر ہوتا ہے۔ لوگوں کو جمع کر کے کچھ سنانے میں بڑی بڑی دقتیں پیش آتی ہیں۔ کہیں سیکرٹری درخواست کرتے ہیں کہ ہم کو ایک ضروری بات پیش کرنی ہے، سب لوگ اکٹھے ہو جائیں۔ کہیں سیکرٹری لوگوں کے گھروں پر بلانے کے لیےجاتے ہیں کہ پچھلے اجلاس میں بہت سے ممبر نہیں آئے تھے اس لیےکورم پورا نہ ہو سکا تھا چونکہ ایک بہت ضروری بات ہے اس لیے اب کے آپ ضرور آئیں۔ اس طرح کرنے سے بھی کوئی آتا ہے اور کوئی نہیں آتا۔ لہٰذا ممبروں کو اکٹھا کرنے کی پھر کوشش کی جاتی ہے اور اس طرح مہینوں کے انتظار اور بہت سی لجاجتوں اور منتوں سے کہیں جا کر لوگ جمع ہوتے ہیں اور بات سنائی جاتی ہے لیکن پھر مجلس میں وہ شور مچتا ہے کہ الامان! ایک اِدھر سے بولتا ہے ایک اُدھر سے پوچھتا ہے چاروں طرف سے آوازیں آنی شروع ہو جاتی ہیں اور ہر ایک یہی سمجھتا ہے کہ اگر میری بات نہ سنی گئی تو اندھیر ہی آجائے گا۔ سب کا یہی خیال ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایسی بات ہے جو لوگوں کے لیے مفید اور نفع رساں ہو سکتی ہے تو وہ میری ہی بات ہے۔ چونکہ ہر شخص اپنی رائے کی بڑی عزت اور قدر کرتا ہے اس لیے اس کا دل اسے ملامت کرتاہے کہ مجلس میں چپ نہ بیٹھنا۔ اگر چپ رہا تو لوگ اس بات سے فائدہ نہیں اٹھاسکیں گے جو تمہارے دل میں ہے اس لیے تم خدا کے حضور گنہگار ٹھہرو گے اور اخلاقی رنگ میں بھی مجرم ہو گے۔ تو چونکہ ہر ایک کا یہی خیال ہوتا ہے اس لیے سارے کے سارے شور مچاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی کی بھی نہیں سنی جاتی اور یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ اگلی میٹنگ میں یہی بات پھر پیش ہو۔ تمام انجمنوں اور کمیٹیوں میں اسی طرح ہوتا ہےحتّٰی کہ تمام حکومتوں کی پارلیمنٹوں کا بھی عموماً یہی حال ہے کہ لوگ چیختے چلاتے اور شور مچاتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ وزراء کو تنگ آ کر بحث کا وقت مقرر کرنا پڑتا ہے۔ اور ایک مقررہ وقت کے بعد لوگوں کے شور کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ووٹ لے لیےجاتے ہیں۔ لیکن باوجود اس کے جب وزراء اٹھ کر کوئی بات سناتے ہیں تو شور پڑ جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے تم جھوٹ کہہ رہے ہو، کوئی کہتا ہے کہ چپ ہو جاؤ، کوئی کہتا ہے بیٹھ جاؤ۔ غرض دنیا کی انجمنوں اور کمیٹیوں کا برا حال ہوتا ہے۔ اول تو ان میں کوئی بات سنانے کا موقع ہی کم ملتا ہے اور اگر ملے تو اتنے سنانے والے ہوتے ہیں کہ سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور اگر کوئی سنانے والا کھڑا ہو جائے تو اس پر راؤں اور اعتراضوں کی وہ بوچھاڑ ہوتی ہے کہ بیچارہ آدھی تقریر بھی نہیں کر سکتا۔ مسلمانوں پر خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے کہ ہر ہفتہ میں ایک ایسی نماز رکھ دی ہے جس میں شہر اور اس کے ارد گرد کے لوگوں کا شامل ہونا فرض ہے۔ اس کے لیے کوئی ضرورت نہیں کہ سیکرٹری لوگوں کے آگے لجاجت اور منت سماجت کریں۔ ایجنڈے نکلیں اور کلرک قلمیں گھسائیں اور پھر بھی مجلس ملتوی ہو جایا کرے۔ بس ایک آدمی خواہ مسافر ہی ہو جب پکار کر کہتا ہے حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃتو چاروں طرف سے جن لوگوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی ہے بھاگتے چلے آتے ہیں اور ایک جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ پھر سب اکٹھے ہو کر اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کچھ سنیں اور ایک آدمی آتا ہے اور سنانا شروع کر دیتا ہے۔ اب یہ کمیٹی شروع ہوئی۔ دوسری کمیٹیوں میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ایک آدمی سنانا شروع کر دیتا ہے اور دوسرے شور مچاتے رہتے ہیں۔ لیکن اس کمیٹی میں وہی لوگ جو دوسری کمیٹیوں میں شور مچاتے تھے، ان میں سے کوئی بھی نہیں بول سکتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ شریعت کا حکم ہے کہ خطبہ میں بولنا نہیں چاہیے۔ دنیا میں سلطنتوں کے وزیر جو لاکھوں کروڑوں انسانوں کی ہمدردی اپنے ساتھ رکھتے ہیں جب تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو ایسی آوازیں آنی شروع ہو جاتی ہیں کہ ٹھہرو ٹھہرو! سنو سنو! تم غلطی کرتے ہو وغیرہ وغیرہ۔لیکن اگر ایک بے علم اور بےکس خطیب بھی ہو تو اس کے سامنے ایک عالم فاضل چپ سنتا ر ہے گا کیوں؟ اس لیے کہ آنحضرت ﷺنے منع فرمایا ہے اور خطبہ میں کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ (بخاری کتاب الجمعة باب الانصات يوم الجمعة والامام يخطب) اور چونکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے لیے فرمایا ہے کہ جو کچھ یہ کہیں ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرو۔(الحشر :۸) اس لیے یہ خدا ہی کا حکم ہے۔ غرض یہ ایک بڑی لطیف مجلس ہے اس سے بہتر اور عمدہ اور کون سی مجلس ہو سکتی ہے۔ تمام وہ ضروریات قومی جن کا لوگوں کے کانوں تک پہنچانا اور جن میں جماعت کی مدد اور مشورہ کی ضرورت ہوتی ہے اس میں بتائی جاسکتی ہیں۔ اس کے لیے نہ ایجنڈا تیار کرنا پڑتا ہے نہ ٹکٹ لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔نہ کلرک ملازم رکھنے پڑتے ہیں۔ ایک مقررہ وقت پر سب لوگ خود بخود ا کٹھے ہو جاتے ہیں اور انہیں وہ بات پہنچا دی جاتی ہے اور پھر اس مجلس میں جو بات شروع ہوتی ہے کسی کی مجال نہیں کہ ایک لفظ بھی زبان سے نکال سکے۔ دوسری مجلسوں میں ایک اور بات بھی ہوا کرتی ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی ایک کھڑا ہو جائے تو پندرہ بیس بولنے لگ جاتے ہیں کہ بیٹھ جاؤ! بیٹھ جاؤ! پھر جب ان کی آوازیں نکلتی ہیں تو پچاس ساٹھ انہیں چپ کرانے کے لیے بول پڑتے ہیں۔ اس طرح سارے ہی بولنے لگ جاتے ہیں اور ایک شور قیامت برپا ہوجاتا ہے۔لیکن اس مجلس کے لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی بولے بھی تو اسے چپ کرانے کے لیے بولو نہیں بلکہ اشارہ سے منع کر دو۔ (بخاری کتاب الجمعة باب الانصات يوم الجمعة والامام يخطب) یعنی اگر کوئی غلطی کرتا ہے تو بھی کوئی اس بات کا مجاز نہیں کہ اپنی زبان سے لفظ نکالے تا کہ اس طرح شور پیدا نہ ہو۔ تو یہ کیسی با امن مجلس ہے اور پھر اس مجلس کی یہ خوبی ہے کہ ناغوں کے ساتھ نہیں ہوتی بلکہ بلا ناغہ ہوتی ہے اور ہر جمعہ کو ہوتی ہے اور سب مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس میں شامل ہوں۔ غرض جمعہ کا خطبہ ایک بہترین موقع ہے۔ جماعت کو اس کی ضروریات سے مطلع کرنے اور اہم اور قابل مشورہ امور سے آگاہ کرنے کا۔ مسلمانوں پر یہ اسلام کا بہت بڑا احسان ہے اور کون سے احسان کم ہیں۔ مگر جماعت بندی اور جماعت کے کاموں کو احسن طور پر چلانے کے لیے یہ بہت بڑا احسان ہے۔ دنیا کے اور کسی مذہب نے جماعت کو جماعت بنانے کے لیے اور قومی کاموں کو اس خوش اسلوبی سے انجام دینے کے لیے ایسی کوئی تجویز نہیں کی۔ صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے یہ ایک ایسا طریق بتایا ہے کہ اگر مسلمان اس پر چلیں تو ان کی تمام ضروریات حل ہو سکتی ہیں۔ غرض جمعہ کا خطبہ بہت سی ضروریات کو حل کرنے کے لیے مفید اور بابرکت اجتماع ہے جس میں بغیر کسی قسم کے جھگڑے اور فساد کے قوم کے سامنے ضروریات پیش کر دی جاتی ہیں۔ (جاری ہے) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: برکات و فضائل درود شریف