https://youtu.be/PvbSq-wEZSk نماز بذاتِ خود آپ میں نظم و ضبط قائم کرنے کا ایک ذریعہ ہے اگر آپ اپنی پنج وقتہ نماز ادا کر رہے ہیں اور اس میں باقاعدہ ہوں گے تو آپ خود تجربہ کریں گے کہ اب آپ کی زندگی منظم ہو گئی ہےدن کا آغاز فجر کی نماز سے کریں، اس سے آپ میں باقاعدگی پیدا ہوگی، اور اسی طرح آپ جماعت کی خدمت کر سکیں گے اور اپنی زندگی میں بھی نظم و ضبط قائم کر سکیں گے مورخہ٢٠؍ستمبر ۲۰۲۵ء ، بروز ہفتہ، امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ایسٹ ریجن کے ایک بائیس (٢٢)رکنی وفد کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر نہایت اخلاص کے ساتھ محض حضورِانور کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے اور آپ کی بابرکت صحبت سے روحانی فیض حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِانور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ پھر حضورِانور نے امیرِ قافلہ سے وفد کے قیام و طعام کے انتظامات کے بارے میں دریافت فرمایا۔ بعد ازاں ہر خادم کو فرداً فرداً اپنا تعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ، جس میں اپنے نام، خاندانی پسِ منظر، تعلیمی مصروفیات اور جماعتی خدمات کا ذکر کیا گیا۔ دورانِ تعارف ایک خادم نے عرض کیا کہ وہ وقفِ نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہے اور حافظِ قرآن بھی ہے۔ حضورانور نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ نے پورا قرآنِ کریم حفظ کیا ہے؟ اثبات میں جواب سماعت فرمانے کے بعد حضورِانور نے اس حوالے سے مزید دریافت فرمایا کہ کیاوہ اب بھی اس کا دَور کرتا ہے یا پھر بھولنا شروع ہو گیا ہے؟ اس پر خادم نے عرض کیا کہ وہ دَور کرتا ہے۔ جس پر حضورِانور نے فرمایا کہ اسے رمضان المبارک میں تراویح پڑھانا چاہیے کیونکہ یہ حفظ کو تازہ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ پھر ایک خادم نے حضورِانور کی خدمت اقدس میں اپنا تعارف کراتےہوئے عرض کیا کہ وہ پچھلے سال کینیڈا سے امریکہ آیا ہے اور اس وقت سول انجنیئرنگ کے پہلے سال میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اس نےمزید عرض کیا کہ ایک سال کینیڈا میں بھی پڑھائی کی تھی لیکن فیملی کے امریکہ میں ہونے کی وجہ سے اِدھر آ گیا۔ اس پر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ مَیں نے تو سمجھا تھا کہ شاید ٹرمپ کی محبّت آپ کو یہاں کھینچ لائی ہے۔جس پر تمام شاملینِ مجلس بھی مسکرا دیے۔ اسی طرح حضورِانور سے شرفِ گفتگو کے دوران ایک خادم نے عرض کیا کہ وہ کالج میں بزنس کا طالب علم ہے اور ایسوسی ایٹس ڈگری حاصل کر رہا ہے، ساتھ ہی ایک کیمیکل پلانٹ میں بھی کام کرتا ہے۔ حضورِانور کے استفسار پر خادم نے عرض کیا کہ وہ اپنے والدین کے امریکہ آنے کے دس دن بعد پیدا ہوا تھا، اور والدہ کو پاکستان سے کینیڈا کے سفر کی خاص اجازت ملی تھی۔اس پر حضورانور نے مسکراتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ تم خوش قسمت ہو کہ ہوائی جہاز میں پیدا نہیں ہوئے، کیونکہ بعض اوقات بچے ہوائی سفر کے دوران ہی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کو حضورانور سے مختلف نوعیت کے متفرق سوالات پیش کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ایک خادم نے حضورِانور سے ذہنی صحت(mental health) کے مسائل سے نمٹنے کے حوالے سےجماعت کے کردار کی بابت راہنمائی طلب کی۔ اس پر حضورِانور نے راہنمائی فرمائی کہ Psychiatrist (ماہرِ نفسیات)کو دکھائیں، ٹریٹمنٹ کروائیں، والدین اس کی وجہ پتا کریں کہ کیا ہے؟ بعض دفعہ سکول میں bullying ہوتی ہے، اس کی وجہ سے بعض ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں، پھر وہflare up ہو جاتا ہے، تو مینٹل ہیلتھ ایشو بن جاتا ہے۔ حضورِانور نے آخر میں اِس بات پر زور دیا کہ اُن کی ٹریٹمنٹ ہونی چاہیے، جس طرح باقی معاملات دیکھتے ہیں، parentsکو چاہیے کہ ان کو دیکھیں کہ جڑھ یا اصل وجہ کیا ہے؟ یہ تو آپ کو خود معلوم کرنی ہو گی۔ [قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہbullying (تضحیک یا بدسلوکی) ایک انگریزی اصطلاح ہے اوراس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کو جان بوجھ کر تنگ کرنا، اذیت دینا، تمسخر اُڑانا، ہنسی اور ٹھٹھے کا نشانہ بنانا یا تکلیف پہنچانا۔ یہ عمل جسمانی، ذہنی یا جذباتی طور پر اثر اندازہو سکتا ہے، جیسے مار پیٹ، گالیاں دینا ، کسی کو گروپ سے الگ کرنا، اس کے بارے میں افواہ پھیلانا یا جھوٹ کی تشہیر کرنایا اسے سماجی سطح پر بدنام کرنا ، سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ پرتذلیل یا ہراساں کرناوغیرہ وغیرہ۔ اس کا بنیادی مقصد کسی کی عزتِ نفس کو مجروح کرنا، اس کی تذلیل کرنا یا اسے کمزور بنانا ہوتا ہے۔ یہ عموماً طاقت کے فرق کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس تحقیرکے نتیجے میں متاثرہ شخص سماجی تنہائی کا شکار ہو سکتا ہےاور ساتھ ہی اسے خود اعتمادی کی کمی، ڈپریشن یا ذہنی پریشانی جیسے مسائل کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے عصرِ حاضر کے نام نہاد آزادی پسند معاشروں میں یہ رجحان تکلیف دہ حد تک رواج پا چکا ہے۔] ایک خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ امسال مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کا نیشنل اجتماع پہلی بار ’باغِ احمد‘ میں منعقد ہونے جا رہا ہے ۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے؟ اس پر حضورِانور نے زمین کے رقبے کے بارے میں دریافت فرمایا کہ کتنا حصّہ اجتماع کے لیے مختص ہے اور کتنا حصہ زرعی اراضی پر مشتمل ہے۔ حضورِانور نے توجہ دلائی کہ ایسے بڑے پیمانے کے اجتماعات کے سلسلے میں جماعت کے دیگر عملی تجربات سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ نیز ہدایت فرمائی کہ وہ دیکھیں کہ مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کس طرح زرعی زمین پر اجتماع کا انتظام کرتی ہے اور نیز حدیقۃ المہدی میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ برطانیہ میں بھی شامل ہوں۔ ان اجتماعات کو دیکھنے سے انہیں عملی فہم حاصل ہوگا کہ باغِ احمد کو بہترین طور پر کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ [قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ محض خدا تعالیٰ کے خاص فضل و کرم اور حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت راہنمائی میں، مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کو ’باغِ احمد‘ کے نام سے موسوم اسّی ایکڑ پر مشتمل ایک وسیع و عریض قطعۂ زمین خریدنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ یہ عظیم الشان کامیابی اس لحاظ سے بھی تاریخی اور منفرد ہے کہ دنیا بھر میں کسی بھی مجلس کی جانب سے خریدی جانے والی یہ اپنی نوعیت کی پہلی زمین ہے۔یہ مقام نہ صرف آئندہ جماعتی اور ذیلی تنظیموں کی تقریبات و اجتماعات کے حوالے سے ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوگا بلکہ ترقی اور وسعت کے نئے امکانات کا بھی پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ مزید برآں یہ جگہ فلاڈیلفیا انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے محض تیس میل کے فاصلے پر واقع ہے اور انٹر سٹیٹ ۲۹۵ سمیت اہم شاہراہوں کے قریب ہونے کے باعث آمدورفت کے اعتبار سے نہایت موزوں اور سہل اور آسان رسائی رکھتی ہے۔] ایک خادم نے حضورِانور سے دریافت کیا کہ وہ اپنی تعلیم اور جماعتی ذمہ داریوں کو کیسے balanceکر سکتا ہے؟ اس پر حضورِانور نے اظہارِ تبسم کرتے ہوئے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ کون سی جماعتی ذمہ داریاں اتنی آپ پر پڑ گئی ہیں ، اس وقت آپ کیا کام کر رہے ہیں، کیا آپ کا کوئی عہدہ ہے؟ خادم کے نفی میں جواب عرض کرنے پر حضورِانور نے فرمایا کہ تو جب کوئی تمہیں عہدیداربنائے گا تو پھر کام بھی آجائے گا۔حضورِ انورنےتلقین فرمائی کہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ جب کام دے تو مجھے اس کو کرنے کی بھی توفیق دے، اس کے لیے دعا کیا کرو۔ پھرحضورِ انورنے اس بات پر زور دیا کہ آپ کا بنیادی مقصد ایجوکیشن ہے، پہلے اپنی ڈگری مکمل کرو اور اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔ حضورِ انور نےاس خادم سےدریافت فرمایا کہ مستقبل میں تم کیا بننا چاہتے ہو؟اس پر خادم نے عرض کیا کہ مَیں ان شاء اللہ Cardiac Surgeon بننا چاہتا ہوں اور مَیں واقفِ نَو بھی ہوں۔ یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے فرمایا کہ بڑی اچھی بات ہے۔میڈیسن کےلیے تو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ پڑھائی کرواور اس میں جو ویک اینڈ پر یاduring holidaysاضافی ٹائم ہوتا ہے وہ تم جماعت کےلیے دیتے رہو۔ اگر تمہارے سپرد کوئی سائق وغیرہ کا کام کرتے ہیں،تو پھر اس میں دیکھ لو کہ کس طرح تم نے اپنے وقت کو صحیح طرحdistributeکرنا ہے۔ ویک اینڈز پر تھوڑا سا وقت دینا ہے اور اتنے زیادہ لوگ تو ہوتے ہی نہیں، تمہارے تھوڑے سے تو خدام ہیں ، ان کو اطلاع دے دو۔ حضورِانور نے آخر میں اس تلقین کا اعادہ فرمایا کہ تمہارا اصل مقصد اپنی تعلیم مکمل کرنا ہونا چاہیے۔اور اس کے ساتھ ساتھ نمازیں بھی پڑھتے رہواور دینی علم بھی حاصل کرتے رہو۔ایک واقفِ نَو ہونے کے ناطے تم پر پانچ وقت کی نمازیں ادا کرنا فرض اور ذمہ داری ہے۔ ایک خادم نے حضورِانور سے راہنمائی کی درخواست کی کہ وہ مضبوط قوّتِ ارادی کیسے پیدا کر سکتا ہے؟ اس پر حضورِانور نے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اندر قوّتِ ارادی نہیں ہے؟خادم نے اثبات میں عرض کیا کہ جی تھوڑی سی ہے۔ جس پر حضورِانور نے فرمایا کہ میرے خیال میں تمہارے اندر قوّتِ ارادی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں وہ طاقت عطا فرمائے ، جس سے تم زندگی کے دوران پیش آنے والے چھوٹے موٹے اور معمولی مسائل پر قابو پا سکو، ایک بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ دوسری بات یہ ہے کہ تم یہ سوچو کہ تمہارے اعصاب مضبوط ہیں اور تم ہر مشکل پر بغیر کسی پریشانی کے قابو پا سکتے ہو، اس کے لیےstrong nervesہونے چاہئیں، پھر تم ہر مسئلے پر قابو پا سکتے ہو اور یہی تمہاری قوّتِ ارادی کو بڑھانے میں مدد دے گا۔ آخر پر حضورِانور نے تاکید فرمائی کہ اس لیے ہمیشہ یہ سوچا کرو کہ جب بھی کسی کام کا آغاز کرو تو جب تک وہ مکمل نہ ہو جائےہرگز ہمت نہ ہارو۔ مطلب یہ ہے کہdetermination ہونی چاہیے۔ ایک خادم نے دریافت کیا کہ بعض لوگ اتنی بڑی مونچھیں رکھ لیتے ہیں کہ وہ ہونٹوں سے بھی نیچے آ رہی ہوتی ہیں، یا پھر وہ داڑھی کے بغیر مونچھیں رکھتے ہیں، تو اسلام کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟ اس پر حضورِانور نے استفہامیہ انداز میں تبصرہ فرمایا کہ مَیں کیا کہہ سکتا ہوں، جو اللہ اور رسول ؐکی بات نہیں مانتے ، تووہ میری کیا مانیں گے؟ حضورِانور نے وضاحت فرمائی کہ سوال یہ ہے کہ حدیث میں توآیا ہےکہ داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کترواؤ، ان کوtrimکرو۔ داڑھی کو بڑا کرو، لیکنreasonablyبڑا کرو۔ حضورِ انورنے اپنے دستِ مبارک سے نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ نہیں کہ پھر ایسے لوگوں کی طرح اتنی بڑی کر لو کہ جن کی داڑھیاں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں اور پتا ہی نہیں لگتا۔ حضورِانور نے عملی مثال کے ذریعے واضح فرمایا کہ اصل چیز تو یہی ہے کہ تم جو پانی پیو، تو گلاس میں تمہاری مونچھیں نہیں ڈوبنی چاہئیں، کھانا کھاتے ہوئے گندی نہ ہوں۔ حضورِانور نے دستِ مبارک سے نشاندہی فرمائی کہ یوں یوں پہلے مونچھوں کو اوپر کرو، پھر لقمہ ڈالو، مصیبت ہی ہے ۔ پھر اگر نہیں ہٹاتے، تو جب کھانا کھا لو ، تو مونچھوں پر کہیں سالن لگا ہو گا اور اسے پہلے صابن سے جا کے دھونا پڑے گا۔ حضورِانور نے آخر پر اس امر کی جانب ایک مرتبہ پھر توجہ مبذول کروائی کہ بہتر یہی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس پر عمل کرو، اسلام تو یہی کہتا ہے کہ مونچھوں کو trimکرو اور داڑھیوں کوreasonablyبڑھاؤ۔ اس پر خادم نے مزید دریافت کیا کہ زیادہ بڑی بھی داڑھی پھر نہیں رکھ سکتے؟ اس پر حضورِانور نے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ کتنی رکھنی ہے؟ نیز اپنے دستِ مبارک سے پیٹ تک نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں تک لوگ رکھ لیتے ہیں، اس کا فائدہ کیا ہے؟ جو سنّت ہے، اس کے مطابق رکھو۔بعضوں نے تو معیار مقررکیے ہوئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہاتھ میں یوں کر کے [حضورِانور نے مٹھی بنائی]داڑھی پکڑ لو اور نیچے سے کاٹ دو۔ خادم نے اس بات کی تائید میں عرض کیا کہ سوال پوچھنے کا بھی یہی اصل مقصد تھا۔ اس پرحضورِانور نے مسکراتے ہوئے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ تمہاری تو داڑھی ہو ہی نہیں رہی، تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ جن لوگوں کی داڑھیاں ہیں، ان کو فکر ہونی چاہیے، تم جتنی مرضی بڑھا لو، کوئی نہیں بڑھنی۔ حضورِانور کے اس برجستہ تبصرے پر بشمول سائل تمام شاملینِ مجلس بھی کھل کرمسکرا دیے اور اس سے خوب حظّ اُٹھایا۔ ایک خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ ان کی والدہ نے کچھ سال پہلے وصیّت کے لیےapply کیا تھا، وہheart patientہیں اور دو تین دفعہ انہوں نے وصیّت کے لیے اَپلائی کیا، لیکن وصیّتapproveنہیں ہوئی۔ کیونکہ ایک تو ان کی عمر زیادہ ہے، دوسرا بیماری ہے اور مستقل آمدنی بھی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اُن کے نام کوئی بڑی جائیداد بھی نہیں ہے۔ خادم نےاس حوالے سے راہنمائی طلب کی کہ جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے کہ سو فیصد جماعتی افراد کو وصیّت کی تحریک میں شامل ہونا چاہیے، تو ایسی صورتحال میں کیا کرنا چاہیے؟ اس پر حضورِانور نے تصحیح فرمائی کہ مَیں نے تو یہ نہیں کہا! مَیں نے تو یہ کہا تھا کہ جو چندہ دینے والے ہیں، جو کمانے والے لوگ ہیں، ان کیreasonableانکم ہے اور کوئی ان پر زیادہliabilitiesنہیں ہیں، ان کےfifty percent جو ہیں، اور جوoffice holdersہیں، office bearersہیں، وہ کوشش کریں کہ وہ وصیّت کرنے والے ہوں، کیونکہ وصیّت بھی measureکرنے کے لیے ایکyardstickہے کہ آپ لوگ مالی قربانی بھی کر رہے ہیں۔ حضورِانور نے اس بات کی اہمیت کو بھی اُجاگر فرمایا کہ ضروری تو نہیں ہے کہ جو وصیّت کرنے والے ہیں صرف وہی جنّت میں جانے والے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کی نیکیاں اور قربانیاں کرنے کی خواہشات ہوتی ہیں۔ حضورِانور نے اس تناظر میں جذبۂ اخلاص کی فلاسفی پر روشنی ڈالتے ہوئے سمجھایا کہ مثلاً قرآنِ شریف میں جس طرح آیا ہے کہ جنگ میں جانے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کہا کہ آؤ، تو بعض لوگ آئے کہ ہمارے پاس تو سواری ہی نہیں ہے، ہمیں سواری مہیا کر دیں تو چلے جائیں گے۔ بلکہ حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ نے لکھا ہے کہ ان کی سواری سے مراد یہ نہیں تھی کہ ان کو گھوڑا یا اونٹ کوئی ملے، جس پر بیٹھ کے جائیں، انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے پاؤں ننگے ہیں، ہمیں کم از کم ایک جوتی ہی مل جائے، تو جوتی پہن کے ہم پیدل ہی چلے جائیں گے، نہیں تو ہمارے پاؤں زخمی ہو گئے ہیں، ہم چل نہیں سکتے۔ اس پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھاکہ نہیں، میرے پاس تو اس وقت یہ بھی توفیق نہیں ہے۔ اسلام کے شروع کے ابتدا کی یہ حالت تھی۔ تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ الله تعالیٰ نےان کا یہ جو جذبہ ہےوہ قبول کیا اور ان کو بھی ثواب مل گیا۔ حضورِانور نے مزید فرمایا کہ تو تمہاری اگر والدہ یا کوئی بھی ایسا شخص جو وصیّت کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کی نہ آمدہے اور ایسیold ageہے کہ جس پر وہ سمجھتے ہیں ، کارپرداز کے جو قواعد ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اب نہیں، تو ٹھیک ہے، اللہ تعالیٰ ان کی نیّت کا ثواب ان کودے دے گا ، اجر دے دے گا۔ وہ اور دوسری مالی قربانیوں میں جتنا قربانی کر سکتی ہیں، اس میں حصّہ لیں، وہ وصیّت کے برابر ہی ہے۔ نیز ارشاد فرمایا کہ جوان آدمی جو ہیں، وہ وصیّت کریں۔ اس پر خادم نے عرض کیا کہ میری وصیّت ہے۔ جس پر حضورِانور نے اس نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ بس تو یہی ہے کہ جوانی میں وصیّت کرو تا کہ جو زندگی کا اچھا حصّہ ہے اس میں آپ قربانی کرنے والے ہوں۔ ایک خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ آج کی دنیا میں بہت سے خدام اپنے وقت سے فائدہ نہیں اُٹھاتے، نیز راہنمائی کی درخواست کی کہ انفرادی طور پر اپنی کمزوریوں کو کیسے دُور کیا جا سکتا ہے تاکہ ہم ترقی کریں، اپنے اندر نظم و ضبط قائم کریں، اخلاص میں بڑھیں، قربانی کے معیار کو بلند کریں اور دنیا میں اسلام کا نام روشن کریں؟ اس پر حضورِانور نے توجہ دلائی کہ دیکھیں! سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کریں۔ اس کے لیے آپ کو اپنی پنج وقتہ نمازوں میں باقاعدہ ہونا ہو گا۔ اپنی نمازیں خشوع و خضوع سے پڑھیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کے علم میں اضافہ کرے اور اپنے دین کے کام کے لیے طاقت بخشے۔ اگر آپ اپنی پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی میں باقاعدہ ہوں گے تو یہ آپ کی دوسری سرگرمیوں میں نظم و ضبط قائم کرنے کا ایک ذریعہ بنے گا۔ حضورِانور نے تجویز فرمایا کہ آپ ایک چارٹ بنائیں، نیز دریافت فرمایا کہ کیا آپ زیر تعلیم ہیں؟ اس پرخادم نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے عرض کیا کہ وہ آخری سمسٹر میں ہے۔ حضورِانور نے اپنی نصیحت کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ تو آپ ایک چارٹ بنائیں، جس میں نوٹ کریں کہ آپ صبح اُٹھیں گے، فجر کی نماز پڑھیں گے۔ اگر تہجد نہیں، تو کم از کم فجر کی نماز بروقت ادا کریں، پھر کوئی ورزش کریں، پھر قرآنِ کریم کی تلاوت کریں اور اس کے ساتھ اس کی تفسیر اور ترجمہ بھی پڑھیں۔ اسے سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے معنی جانیں۔ اس طرح آپ کو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم میں کیا احکامات اور ارشادات درج ہیں، وہ کون سی باتیں ہیں جن پر آپ کو عمل کرنا چاہیے اور وہ کون سی باتیں ہیں جن سے آپ کو اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کے بعد اپنی study کریں۔ پورے دن کے لیے ایک چارٹ بنائیں کہ یہ یہ کام آپ نے کرنے ہیں، اس میں نمازیں، نیند، کالج کی پڑھائی، ذاتی مطالعہ اور باقی تمام امور درج ہوں۔ حضورِانور نے آخرمیں اس بات پر زور دیا کہ اس طرح آپ اپنی زندگی میں نظم و ضبط قائم کر سکتے ہیں۔ نماز بذاتِ خود آپ میں نظم و ضبط قائم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر آپ اپنی پنج وقتہ نماز ادا کر رہے ہیں اور اس میں باقاعدہ ہوں گے تو آپ خود تجربہ کریں گے کہ اب آپ کی زندگی منظم ہو گئی ہے۔ دن کا آغاز فجر کی نماز سے کریں، اس سے آپ میں باقاعدگی پیدا ہوگی، اور اسی طرح آپ جماعت کی خدمت کر سکیں گے اور اپنی زندگی میں بھی نظم و ضبط قائم کر سکیں گے۔ نیز آپ اپنی دنیاوی سرگرمیوں میں بھی بہتر کارکردگی دکھا سکیں گے۔ ملاقات کے اختتام پر حضورِانور نے تمام شاملینِ مجلس کو از راہِ شفقت قلم کا تحفہ بطورِ تبرک عطا فرمایا، نیز انہیں یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ وہ اپنے محبوب امام کے ساتھ گروپ تصویر بنوا سکیں اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کےمڈ ویسٹ ریجن کے ایک وفد کی ملاقات