لغت کی ایک کتاب اَقْرَبُ الْمَوَارِد ہے اس میں لکھا ہے کہ مُہَیْمِن، یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے، اس کا مطلب ہے کہ اَلْاَمِیْن۔ امن دینے والا یا نگران۔ اَلْمُؤتَمَن وہ ذات جس کے پاس امانت رکھی جائے اور جس کو امین سمجھا جائے۔ اَلشَّاہِدگواہ۔ اَلْقَائِمُ عَلٰی خَلْقِہٖ بِاَعْمَالِھِمْ واَرْزَاقِھِمْ وَاٰجَالِھِمْ۔ مُہَیْمِن وہ ذات جو اپنی مخلوقات کے اعمال اور ان کے رزق اور ان کی عمروں کی حدوں پر نگران اور محافظ ہو۔ قرآن کریم میں اس صفت کا استعمال دو جگہ آتا ہے۔ ایک سورۃ المائدۃ کی آیت 49اور سورۃ الحشر کی آیت 24میں۔ پرانے مفسرین نے بھی ان آیات کے حوالے سے اس کے بعض معنی بیان کئے ہیں۔ پہلے مَیں مفسرین نے جو لکھاہے وہ بیان کردیتاہوں۔ شیخ اسماعیل حقی تفسیر روح البیان میں لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کو جو مُہَیْمِنًاعَلَیْہِ کہا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام محافظ کتابوں کے تغیر و تبدل ہونے پر نگران ہے اور اب یہ قرآن اُن کی سچائی اور صحت اور پختگی اور شریعت کے بنیادی اور فروعی اصول کی گواہی دے گا اور پرانی شریعتوں کے جو احکام منسوخ ہو گئے اور جو باقی رہ گئے ان سب کی تعیین اب یہ کرے گا۔ پس اب یہ قرآن کریم ہے جو آخری شرعی کتاب ہے اور آنحضرتﷺ پر اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے۔ جس کا ہر ہر لفظ سچ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور پرانی کتب کی تصدیق کرنے والا ہے۔ اب اگر سچائی ہے تو قرآن کریم میں ہے اور پرانی کتب اور صحیفوں کی بھی وہی باتیں صحیح ہیں جن کی قرآن کریم تصدیق کرتا ہے۔ کیونکہ جیساکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ مُہَیْمِنًا عَلَیْہِ اسے تمام کتب پر نگران بنایا گیا ہے جیسا کہ مفسرین نے بھی لکھا ہے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍اگست۲۰۰۸ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۹؍اگست۲۰۰۸ء) مزید پڑھیں: قرآنی دعاؤں کا سجدے کی حالت میں مانگنا ناجائز ہے