https://youtu.be/_GPBQPVaPOs میرے ابا چند سی تارا سی چوکڑی چوبارہ سی… میری اوّلین یادوں میں سے ایک یہ ہے کہ ابا نے میرے دونوں ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں اور گول گول گھما رہے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ نظم دہرا رہے ہیں۔ ابھی بھی ان الفاظ کے ساتھ ساتھ میرےذہن میں ابا کی انمول یادیں گھوم رہی ہیں۔ جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ایک پُر شفقت لمحہ کسی انسان کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کس گھر میں پیدا ہو یا اس کے ماں باپ کیسے ہوں۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ ہمیں اچھے محبت کرنے والے، اللہ کے پیارے بندوں کے گھر پیدا کیا۔ مجھ سے جو بھی افسوس کرنے آتا رہا ہے اس کو میں الحمدللہ کہہ کر ملتی رہی کہ مجھے اللہ نے ایسا باپ عطا کیا۔ ہر سال ۱۷؍مارچ کو حضور انور کو خط لکھ کر میرے ابا اپنے وقف کے عہد کی تجدید کرتے تھے۔ ابا نے ۱۷؍مارچ ۱۹۴۴ء کو اپنے ابا جان، حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات کے دن اپنی زندگی دین کی خدمت کے لیے پیش کی تھی۔ حضرت میر صاحبؓ کی وفات پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بہت غم کا اظہار کیا اور ایک تقریر کی جس میں حضور رضی اللہ عنہ نے اپنے صدمہ اور فکر کا اظہار کیا کہ میرے بعد جماعت کی تعلیم اور تربیت کی اگر کسی کو فکر تھی تو وہ ان کو یعنی میر محمد اسحاق صاحب کو تھی،دین کی خدمت کرنے والے جارہے ہیں اب دین کی خدمت کے لیے کون آگے آئے گا۔ اس پر میرے ابا نے کھڑے ہو کر چودہ سال کی عمر میں حضور کے سامنے اپنی زندگی وقف کے لیے پیش کردی۔میں ہر سال ۱۷؍مارچ کو ابا کو وقف کی سالگرہ کی مبارک باد دیتی تھی۔ ابا کی خواہش بھی ہمیشہ یہی رہی کہ آخری سانس تک دین کی خدمت کرتے رہیں۔ اللہ کے خاص فضل سے ابا کو لمبی دیر خدمت دین کرنے کی توفیق ملی ہے، ۸۱؍سال سے زیادہ اللہ نے ابا کو خدمت دین کی توفیق دی۔ ابھی چند سال سے صحت کی کمزوری اور کووڈ کی وجہ سے دفتر گھر آرہا تھا۔ اگر میں بھی پاکستان جاتی اور غلطی سے صبح کے وقت ملنے چلی جاتی تو کہہ دیتے تھے کہ اس وقت دفتر کا وقت ہے شام کو ملنے آنا اور کہتے تھے مجھے حضرت صاحب نے منع کیا ہوا ہے کہ دس بجے سے پہلے کام شروع نہیں کرنا ورنہ میں تیار بیٹھا ہوتا ہوں کام کے لیے۔دس بجتے ہی کام شروع کردیتے۔ جب صحت اچھی تھی تو صبح صبح سائیکل پر جامعہ جاتے تھے، گرمی سردی، بیماری کسی صورت میں چھٹی نہیں کرتے تھے، نہ ہی کرنے دیتے تھے۔ مجھے یاد ہے جامعہ کے لڑکے اپنے رشتہ داروں کی شادیوں کے لیے چھٹی مانگنے آتے تھے، ابا بے حد ناراض ہوتے تھے کہ اتنی لمبی چھٹی کیوں چاہیے۔ اس معاملہ میں بعض دفعہ ان لڑکوں کو ڈانٹ بھی پڑتی تھی، میں نے خود دیکھا ہے ڈانٹ ڈپٹ کر تھوڑی دیر بعد پیار سے منا بھی رہے ہوتے تھے۔ میرے خیال میں میری شادی پر بھی شاید ابا نے چھٹی نہیں لی یا شاید ایک دن کی لی ہو۔ خلافت کا ادب اور احترام اور اطاعت ابا کے ہر سانس میں، ہر کام میں نظر آتی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کی اطاعت کی طرف فوراً توجہ دیتے تھے۔ابا کی وفات پر آنے والے ایک بھائی نے میرے میاں کو بتایا کہ جس زمانہ میں ابا پرنسپل تھے، وہ جامعہ میں کام کرتے تھے اور وہاں موجود تھے۔ جب ابا نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خط کھولا جس میں جامعہ کے پرنسپل کی تبدیلی کا ارشاد تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ خط پڑھتے ہی میر صاحب اُسی وقت پرنسپل کی کرسی سے اُٹھے اور اساتذہ کی کرسیوں میں سے ایک پر جا کر بیٹھ گئے۔کہا کرتے تھے کہ میں تو خلیفۂ وقت کی اجازت کے بغیر تنکا بھی اُٹھانے کا نہیں سوچ سکتا۔ ابا اور ابا کے بہن بھائی حضرت اماں جانؓ کے رضاعی پوتے بھی تھے۔ ابا کو یہ سعادت بھی ملی کہ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی بیماری میں آپ قرآن سننے کا کہتی تھیں، ابا حضرت اماں جان کو قرآن سنایا کرتے تھے۔ حضرت اماں جان کی وفات کے وقت بھی ابا ہی قرآن کی تلاوت کررہے تھے۔ جب ابا کی پوسٹنگ امریکہ میں ہوئی تو میں بہت چھوٹی تھی، اتنا یاد نہیں۔ چند سال بعد امی اور میں اور میرے دو بھائی بھی امریکہ چلے گئے۔ مسجد فضل واشنگٹن میں ہر وقت ماشاءاللہ لوگوں کا آنا جانا رہتا۔ ابا بتاتے تھے کہ ایک بار وائٹ ہاؤس بھی صدر کارٹر کی دعوت پر گئے تھے۔صدر نے غالباً مختلف مذہبی گروپس کے راہنماؤں کو وائٹ ہاؤس چائے پر بلایا تھا۔ پہلے ابا کی پوسٹنگ واشنگٹن ڈی سی میں تھی۔ پھر والنٹ کریک ہوگئی جو سان فرانسسکو کے قریب ایک قصبہ تھا۔ وہاں میرا سکول دُور تھا اور ابا پیدل چھوڑنے جایا کرتے تھے اور واپسی پر لینے جاتے تھے۔ اُس وقت چھوٹی عمر میں شوق بھی ہوتا ہے کہ دوسرے بچوں کی دیکھا دیکھی خود اکیلے جانا ہے۔ ایک ساتھ کی بچی بھی اکیلی جاتی تھی۔ ایک دن کہنے لگی کہ you are very lucky that your parents walk to school with you. My mother and father cannot walk with me to school. غالباً اس بچی کے ماں باپ کی علیحدگی ہو گئی تھی اور کام کی وجہ سے اس کو چھوٹی عمر میں بھی اکیلے جانا پڑتا تھا۔ اُس وقت تو خیال نہیں آیا لیکن اب قدر آئی ہے کہ کتنا خاص وقت ہوتا ہے اور کتنی خوش قسمتی کی بات ہے کہ ماں باپ سکول چھوڑنے بچے کے ساتھ جارہے ہوں۔ اسی طرح سپین میں بھی ایک دفعہ میں نے سکول کے رستہ میں ابا سے پوچھا یہ اشرف المخلوقات کیا ہوتا ہے۔ کہیں لفظ پڑھ لیا ہوگا۔ابا نے میری ناقص عقل کے مطابق مجھے سمجھا تو دیا لیکن اگلے جمعہ کا خطبہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسی مضمون پر دیا تھا۔ ۱۹۸۰ء کے اکتوبر میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے مسجد بشارت کی بنیاد رکھی تو ابا کو بھی امریکہ سے وہاں جانے کی توفیق ملی اور بنیاد میں اینٹ رکھنے کی بھی توفیق ملی۔ بلکہ جس اینٹ پر حضور رحمہ اللہ بنیاد میں نصب کرنے سے پہلے دعا کرتے رہے، اس کو دعا کے دوران ابا کو پکڑنے کی سعادت ملی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی بابرکت موجودگی مکرم سید غلام احمد فرخ صاحب (حضورؒ کی دائیں جانب)کی تقریب آمینحضورؒ کی بائیں جانب مکرم میر صاحب کی گود میں آپ کی صاحبزادی محترمہ عائشہ نصرت جہاں صاحبہ ہیں ۱۹۸۲ء میں ابا کی پوسٹنگ مسجد بشارت سپین ہوگئی۔ ہم جولائی کی ۲۱؍تاریخ کو وہاں پہنچے اور ۱۰؍ستمبر کو افتتاح ہونا تھا۔ اس وقت مسجد کی نئی نئی عمارت کھڑی ہوئی تھی لیکن صرف ڈھانچہ ہی تھا اور باقی ہر کام ہونے والا تھا۔ امی، ابا نے بہت محنت سے دن رات محنت کر کے انتظام کیا۔ اس وقت باقاعدہ لنگر کا انتظام نہیں تھا، امی نے ہی سب کھانے خود پکائے اور فریز کیے۔ اس وقت وہاں بالکل کچھ نہیں دستیاب تھا، دالیں تک لندن سے امی منگوایا کرتی تھیں۔ ہمارا اپنا کھانا پینا اور رہن سہن انتہائی سادہ تھا۔ قدرتی بات ہے کہ میں ایک بچی ہی تھی اور اردگرد مزے کے کھانے بن رہے تھے تو دل تو کرتا ہوگا۔ ایک دن ابا نے مجھے بٹھایا اور کہا: عائشہ،یہ کھانے جماعت کے کھانے بن رہے ہیں، تم نے ان کی طرف دیکھنا بھی نہیں۔ یہ بہت ہی سبق آموز بات تھی جو ابا نے مجھے اس دن سکھائی کہ کبھی بھی جماعت کی کسی چیز کے بارے میں اپنے آپ کو entitled نہ سمجھنا۔ میں سپین میں چار سال اپنے امی ابا کے ساتھ رہی ہوں جب کوئی اور بھائی نہیں تھا۔ اس وقت میرے دو بھائی امریکہ اور دو پاکستان میں تھے۔ امی ابا بھائیوں کی یاد کو میرے دل میں زندہ رکھنے کی ہر وقت کوشش کرتے تھے۔ ہر وقت شیبی، بلو(منیب)، احمد اور فرخ کی باتیں ہوتی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ میرے دل میں ان کی یاد اور پیار کو زندہ رکھنے کے لیے ایسا کرتے تھے اور کچھ اپنے دلوں کو بچوں کے ذکر اور اُن کی یاد سے بہلانے کے لیے۔ یہ اُس زمانہ کی بات ہے جب مسجد میں فون بھی نہیں تھا اور جب لگا بھی تو بک کر وا کر کالز کرنی پڑتی تھیں اور اکثر کٹ جاتا تھا۔ کئی بزرگوں کی وفاتوں کا ہمیں دیر بعد پتا چلا۔ ابا کی بڑی بہن، ہماری بڑی پھوپھی کی وفات کی خبر بھی ہمیں کئی دن بعد ملی۔ ایسے حالات میں میری نانی حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ رحمہا اللہ کے خطوط ہمارے لیے ایک بہت بڑا سہارا تھے۔ وہ باقاعدگی سے ہمیں خط لکھا کرتی تھیں۔ اسی دوران جنوری ۸۶ء میں منیب بھائی کی شادی ربوہ میں ہوئی۔ اس وقت ہم شامل نہیں ہو سکتے تھے۔ نانی نے ہی سب انتظامات کیے اور اللہ کے فضل سے خیریت سے شادی ہوئی۔امی ابا کے لیے ظاہری بات ہے جذباتی وقت تھا جو انہوں نے بڑی ہمت سے گزارا۔ انہی دنوں مجھے چکن پاکس ہوگیا اور اس کے ساتھ شدید انفیکشن اور تیز بخار۔ مسجد بشارت ایک گائوں میں واقع ہے، ان دنوں گائوں میں ڈاکٹر نہیں تھا اور ہر دو ہفتے بعد آیا کرتا تھا۔ ہمارے پاس نہ علاج کا کوئی ذریعہ تھا اور نہ ہی گاڑی کہ کسی ڈاکٹر کو ہی دکھادیں۔ امی ابا نے بعد میں بتایا کہ ایک دن بخار ۱۰۷؍تک پہنچ گیا اور بے ہوشی کی حالت ہو گئی۔ دونوں سمجھے کہ میں بچوں گی نہیں۔امی ابا میرے پاس بیٹھ کر پانی پٹی اور دعائیں کرتے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی سردی آئی تو مسجد چونکہ نئی نئی بنی تھی اور ہیٹنگ کا کوئی انتظام نہیں تھا ابا کو ٹھنڈ سے پیروں میں شدید chill blains کی تکلیف ہو گئی۔ پیر سوج کر جامنی رنگ کے ہوگئے۔ مجھے دیکھ کر دہشت ہوتی تھی کہ یہ کیا ہوا ہے لیکن صبر سے برداشت کیا۔ ابا مسجد کے صرف امام ہی نہیں تھے بلکہ اس کی ساری صفائی، برآمدوں میں جھاڑو پھیرنا، جھاڑیاں صاف کرنا، مسجد کا میدان بھی بہت بڑا اور جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ کبھی کبھار سانپ بھی آجایا کرتے تھے۔ ابا نے مجھے سانپ بھی مارنے سکھائے۔ابا نے وہاں کھجور کے درخت بھی لگائے جو آج بھی لگے ہوئے ہیں۔ سپین میں ہم جماعتی لٹریچر لے کر بعض دفعہ بسوں میں اور کبھی کسی کی گاڑی میں دُور دُور کے شہروں یا گائوں میں نکل جایا کرتے تھے۔ اکثر لوگ ہمارے ہاتھوں سے لیف لیٹ لے لیا کرتے تھے۔ ابا کہا کرتے تھے کہ جو میرے ہاتھ سے نہیں لیتا وہ بی بی یعنی امی کے ہاتھ سے لے لیتا ہے اور اگر ان کے ہاتھ سے نہیں لیتا تو عائشہ کے ہاتھ سے ضرور لے لیتا ہے انکار نہیں کرتا۔کبھی ہمیں ہمارے لیف لیٹ زمین پر گرے ہوئے نظر نہیں آئے۔ مکرم میر صاحب کا اکلوتا نواسا مرزا منور اسماعیل احمدنانا کی شفقتوں سے حصہ پاتے ہوئے (ربوہ ۲۰۲۰ء) ابا کی دینی غیرت کے بارے میں ایک بات یاد آگئی: سپین میں ہماری ایک بہت ہی خیال رکھنے والی عورت تھی ماریانا، ایک بار اس نے مجھے porcelain کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سی گڑیا دی جو سو رہی تھی۔ اس نے مجھے کہا کہ دیکھو baby jesus سو رہا ہے۔ میں نے ابا کو بتایا۔ ابا کی غیرت نے برداشت نہ کیا کہ کسی کھلونے کی شکل میں بھی شرک ہو اور مجھے کہا کہ اس کو خود توڑو، اپنے ہاتھ سے توڑو۔ ہمارے گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جس کو لوگ خدا کی جگہ سمجھتے ہیں چاہے وہ کھلوناہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح جب میں نے سکول شروع کیا تو بہت ہی کٹر قسم کا کیتھولک سکول تھا۔ مجھے بیٹھ کر اچھی طرح سمجھایا کہ ہم کسی انسان کو خدا نہیں مان سکتے اور تم نے کبھی کسی قسم کی مذہبی ایکٹیویٹی میں سکول میں حصہ نہیں لینا۔ میرے سکول کو چرچ کی راہبات چلاتی تھیں۔انہوں نے بھی ابا کی ہدایات کا احترام کیا اور مذہبی کلاسز میں شامل ہونے سے مجھے خود روک دیتی تھیں ۔ ایک دفعہ سپین میں جرمنی سے ایک نومبائع بزرگ چند دن ٹھہرنے آئے۔ میں باہر کھیل رہی تھی۔مجھے بچپن میں گھبراہٹ ہوتی تھی کہ کسی کھانے کی چیز پر کسی کا ہاتھ لگا ہو تو مجھ سے کھائی نہیں جاتی تھی۔ مسجد کے احاطہ میں انگوروں کی بیل لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے ایک انگور توڑ کر مجھے پیش کیا۔ اب مجھے سخت گھبراہٹ ہوکہ وہ اصرار سےدے رہے ہیں لیکن مجھ سے کھایا نہیں جائے گا۔ شکر ہے کہ میں نے ان کے ہاتھ سے انگور لے لیا۔ بعد میں ابا کو بتایا تو ابا نے کہا کہ مہمان ہیں اور نو احمدی بھی ہیں۔ ایسے لوگوں کا دل بہت نازک ہوتا ہے، بہت کچھ چھوڑ کے آئے ہوتے ہیں۔ اچھا کیا تم نے لے لیا۔ ہماری مسجد میں بہت سارے مہمان آیا کرتے تھے۔ مسجد ایک مین ہائی وے کے کنارے ایک اونچی جگہ پر واقع ہے۔ کچھ لوگ تو مسجد کو دیکھ کر آجایا کرتے تھے۔ کچھ ایسے مہمان تھے جو مراکش کے ہوتے تھے اور فرانس میں نوکریاں کرتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں مراکش جاتے ہوئے رکتے تھے، نماز پڑھتے تھے۔ بعض دفعہ بسوں کی بسیں گزرتے ہوئے رُک جایا کرتی تھیں۔ ابا مہمانوں کو چائے کافی اور بسکٹ پیش کیا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ تبلیغ کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جو بھی احمدی سپین سیر پر جاتے تھے وہ چاہے دنیا کے کسی بھی کونے سے ہوں، ہماری مسجد ضرور دیکھنے آتے تھے اور ٹھہرتے تھے۔ بعض دفعہ آدھی رات کو دھڑ دھڑ کر کے گیٹ بجنے کی آواز آتی تھی اور ابا پتا کرنے جاتے تھے۔ واپسی پر مہمان ساتھ ہوتے تھے کہ ہم فلاں ملک سے آئے ہیں، دیر ہو گئی ہے لیکن ہم مسجد دیکھے بغیر نہیں جاسکتے۔ ۸۴ء کے اپریل کی بات ہے، غالباً ۳۰؍تاریخ تھی۔ ہم کسی سفر سے واپس مسجد پہنچے تو ہمیں اطلاع ملی کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ لندن پہنچ گئے ہیں۔ غالباً جرمنی سے یورپ کے مشنز کو اطلاع کی گئی تھی۔ مجھے سمجھ تو نہیں آئی لیکن امی ابا کے چہروں پر ایکRelief نظر آرہا تھا کہ اللہ کے خاص فضل سے حضورؒ ایک محفوظ مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ ابا کو اللہ تعالیٰ نے ایک دن کے لیے اسیر راہ مولیٰ بننے کا بھی اعزاز دیا۔ کسی کیس میں ابا کی پیشیاں ہوتی تھیں۔ یہ غالباً ۱۹۹۰ء کےجون کی بات ہے۔ میرے میٹرک کے امتحان ہونے والے تھے، سکول سے گھر آئی تو امی نے کہا کہ تمہارے ابا کو گرفتار کر کے لے گئے ہیں۔ ابا حیا دار بھی تھے اور گند سے گھبرانے والےبھی۔ جہاں رکھا وہاں بھی سارے علاقہ کے چور، قاتل اور نشئی لوگ ایک ہی حوالات میں بند تھے۔ اللہ کا فضل ہوا کے ضمانت ہو گئی۔ ابا کے ایک دوست تھے، جو بہت بزرگ اور صاحب الہام و رؤیا تھے۔ اس واقعہ سے چند دن پہلے انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا: ’ایک رات کی دلہن‘ اس میں اشارہ تھا کہ ابا کو ایک رات اسیری میں گزارنے کی سعادت ملے گی۔ چند دنوں بعد مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی طرف سے بے حد محبت سے بھرا ہواخط ملا کہ مبارک ہو تمہارے ابا کو اللہ نے اسیران راہ مولا میں شامل ہونے کا اعزاز دیا۔ الحمدللہ ابا کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے والہانہ محبت تھی۔ اکثر ذکر کرتے تھے کہ میرے سر کی ٹوپی سے لے کر پاؤں کی جوتی، ہر چیز ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی برکت سے ملی۔ جس گھر میں رہتا ہوں وہ بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بنا کر دیا، بیوی اللہ نے دی تو وہ بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیٹی۔ مجھے بھی بچپن سے کہتے تھے کہ ہر وقت یاد رکھا کرو کہ تم کس کی نواسی ہو۔ کئی لوگ جوافسوس کرنے آئے، انہوں نے بتایا کہ میر صاحب بی بی کا بہت احترام کرتے تھے ہم پوچھتے تھے تو کہتے تھے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی امانت ہیں میرے پاس۔ جوانی میں ابا نے کئی بیماریاں دیکھیں، اس وقت امی نے ابا کی بہت خدمت کی، لیکن امی کی زندگی کے آخری چند سالوں میں ابا نے امی کی حقیقت میں بہت خدمت کی۔ گھر کے کام میں بھی ابا مدد کیا کرتے تھے، میرے پاس بھی جب آتے تھے تو ضد کر کے برتن دھوتے تھے کہ میں اپنے برتن خود دھو کر رکھوں گا۔ ناشتہ کے وقت امی کی چائے اصرار کر کے خود بناتے تھے۔ لندن میں بھی جب جماعت کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرتے تو اپنے اور امی کے برتن دھو کر رکھتے تھے۔ (ایک عزیز کے گھر-ربوہ ۲۰۱۹ء) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے بچپن سے دوستی تھی۔بچپن میں ایک لمبا عرصہ ایک گھر میں رہے، پھر دونوں لندن پڑھنے بھی آئے SOAS میں اور یورپ کا یادگار سفربھی اکٹھا کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے میرے نکاح کے خطبہ میں ابا کا بے حد پیار سے ذکر فرمایا اور فرمایا کہ میرے اور میر محمود احمد کے ہم مزاجی کے گناہ ہیں۔ابا اپنے بچپن میں کچھ عرصہ حضرت اُم طاہر رضی اللہ عنہا کے مکان میں رہے تھے۔ ابا کی امی حضرت صالحہ بیگم صاحبہ بیمار تھیں اور ان کے لیے ایک صحت والی چیز خاص طور پر منگوائی جاتی تھی جس کا نام اوولٹین ہے۔ ابا اپنی امی کے ڈبے میں سے کچھ نکال کر ’’میاں طاری‘‘ کے ساتھ کھانے کے لیے لے جایا کرتے تھے۔ اوولٹین کہا نہیں جاتا تھا اس کو ’ول ولٹین‘ کہتے تھے۔ جب ۹۱ء میں قادیان کا تاریخی جلسہ ہوا اور حضورؒ تشریف لائے تو ابا نے حضورؒ کے لیے اوولٹین کا ڈبا بطور تحفہ پیش کیا لیکن اس کے اوپر خاص لیبل بنوایا جس پر ’ول ولٹین‘ لکھا ہوا تھا۔ حضور کی بھی بے حد پُر مزاح طبیعت تھی۔ میرے نکاح کے خطبہ میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کے میں نے وہ ول ولٹین کا ڈبا کھولا تو کیا دیکھتا ہوں اس کے اندر میر محمود بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضور کی خلافت کے بعد ابا کی طرف سے بس اطاعت اور احترام ہی دیکھا۔ ابا ہر وقت زیرِ لب ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم ایک لمبے سفر پر نکل رہے تھے۔ میں اس وقت تیرہ چودہ سال کی تھی۔ ابا نے مجھے کہا کہ ہم سفر پر نکل رہے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ ایک لاکھ دفعہ سبحان اللہ، اللہ اکبر اور الحمدللہ کی تسبیح اس سفر میں کریں۔ ابا اللہ تعالیٰ کے فضل سے تہجد میں باقاعدہ اور اللہ کے آگے گڑگڑانے والے اورنماز اپنے صحیح وقت پر پڑھنے کا خیال رکھنے والے تھے۔ جب ہم سپین میں تھے تو بہت تھوڑے احمدی تھے۔ نمازوں پر کبھی ایک آدھ آدمی آجاتا تھا، اگر اکیلے ہوتے تو مجھے بلالیتے اور با جماعت نماز میں ساتھ کھڑا کر لیتے تھے۔اگر میں تھکی ہوئی ہوتی تو ابا کہتے تھے کہ کوئی بات نہیں ہلکی نماز پڑھ لو لیکن چھوڑنے کا سوال نہیں۔ ایک دفعہ رمضان میں آخری راتوں میں مجھے سحری کے وقت ابا نے آہستہ سے کہا کہ یہ دعا پڑھ لو اور مجھ سے دہروائی۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ وہ لیلۃ القدر والی دعا تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو ابّا کو عشق تھا۔ ابا نے پیار کیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں کیا، ناراض ہوئے تو ان باتوں کے بارے میں جن سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہو۔ ابا کو بیٹی کا شروع سے شوق تھا، اور خواہش بھی یہی تھی کہ بیٹی ہو تو عائشہ نصرت جہاں نام رکھنا ہے۔ اور یہ بھی ابا کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی کہ بیٹی کا نام عائشہ ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت تھی کہ ساتھ نصرت جہاں رکھا، بلکہ بتاتے تھے کہ حضرت اماں جانؓ کا نام بچپن میں عائشہ نصرت جہاں ہی تھا، پھر نصرت جہاں عائشہ ہوگیا پھر نصرت جہاں رہ گیا۔ابا مجھے عائش پکارتے تھے اس محبت میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کو پیار سے عائش کہہ کر پکارتے تھے۔ اللہ نے میرے امی ابا کو چار بیٹوں سے نوازا اور آخر میں میں آئی۔ مجھے چھیڑتے تھے کہ چوہتر میں دو فتنے ہوئے تھے، ایک فتنہ تھا، اور ایک فتنی۔لیکن اس فتنی کے لیے میرے ابا نے پیدائش کے دن سے نیک نصیب ہونے کی دعا کی۔ میں تنگ کرتی تھی تو مذاق سے ہاتھ اُٹھا کر کہتے تھے کہ یا اللہ میرے داماد پر رحم کرنا۔ جن دنوں میرے اور فخر کے رشتہ کی بات ہورہی تھی، رمضان کا مہینہ تھا اور فروری تھا۔ امی ابا بات کررہے تھے کہ کس دن جواب لے جانا ہے۔ ابا نے کہا کہ رمضان کی ۲۴؍تاریخ بھی ہے اور روایت کے مطابق قرآن مجید پہلی بار رمضان کی ۲۴؍تاریخ کو نازل ہونا شروع ہوا تھا اور ۱۳؍فروری بھی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یوم پیدائش ہے۔ اس لیے اس دن جواب لے کر جانے کا فیصلہ کیا۔ میں بچوں کے لیے دعا کے لیے کہتی تھی تو کہتے تھے کہ باپ کو کہو ان کے لیے دعا کیا کرے، اللہ باپوں کی دعائیں ضرور سنتا ہے۔ مجھے بھی کہتے تھے کہ اللہ کی توحید کے دنیا میں پھیلنے کی دعا کیا کرو۔ ہر تکلیف میں کہتے تھے کہ حضرت صاحب کو دعا کے لیے لکھو۔ابا کی لمبی سالہا سال کی دعاؤں کا معجزانہ طور پر پورا ہونا ہم ان کی بالکل آخری عمر تک دیکھتے آئے ہیں۔ ابا نے مجھے کئی بار کہا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی اولاد اور سب خلفاء کا نام لے کر ان کی اولاد کےلیے دعا کرتا ہوں۔مجھے اکثر کہتے تھے کہ دعا کرو میرا انجام بخیر ہو۔ ایک دفعہ، غالباً ۹۱ءکے اپریل کی بات ہے۔ میرا بھائی امریکہ سے بہت عرصہ بعد پاکستان گیا ہوا تھا۔ ان کی واپسی تھی اور امی اور میں ان کو ایئر پورٹ چھوڑنے لاہور گئے ہوئے تھے۔ ابا ہمارے ساتھ نہیں گئے، حسبِ عادت کام پر گئے۔ یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ابا کے دل میں کیسے خیال آیا یا کیا حالات ہوئے کہ ابا ٹرین پر سوار ہو کر لاہور کی طرف نکل گئے۔ اُس وقت صبح صبح ربوہ سے لاہور ڈبا چلتا تھا۔ لاہور سٹیشن پہنچے تو بتاتے تھے کہ مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ اب کیا کرنا ہے، کس طرح آگے جانا ہے۔ ابا کے پاس تو کبھی بٹوہ بھی نہیں ہوتا تھا، کبھی جیب میں پیسے ہی نہیں رکھے کہ کوئی ٹیکسی یا رکشہ لے لیتے۔ان چیزوں سے گھبراتے بھی بہت تھے۔ بعد میں بتایا کہ اس دن ۲۱؍اپریل تھا اور عام کیلنڈر کے مطابق یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن کہا جاتا ہے۔ بتایا کہ میں مسلسل دل میں درود شریف پڑھتا جارہا تھا۔ کہتے کہ اسی سوچ میں تھا کہ آگے کیسے جانا ہے کہ ایک آدمی اپنی کار میں آ کر رکا اور پوچھنے لگا کہ آپ نے کہاں جانا ہے میں چھوڑ دیتا ہوں۔ وہ شکل اور حلیہ سے شریف آدمی لگتا تھا۔ باتوں میں پتا چلا کہ آرمی میں افسر تھا۔ اس نے ابا کو دیکھا تو اس کے دل میں خیال آیا کہ ان کو لفٹ دینی چاہیے۔ ابا کو ٹھیک طرح ایڈریس بھی نہیں پتا تھا بس گلیوں کی پہچان تھی۔ ابا نے اس کو بتایا کہ میں اس طرح اپنے بیٹے کو ایئرپورٹ چھوڑنے کے لیے آیا ہوں اور مسلسل درود شریف پڑھتا آیا ہوں۔ دیکھو درود شریف کی برکت سے اللہ نے میرا کس طرح کام بنا دیا۔ ابا میں ایک خوبی تھی کہ بہت approachable تھے۔ جو مرضی پوچھ لو ابا سے، آرام سے جواب دے دیتے تھے۔ اس وجہ سے جو دل میں آتا تھا میں بغیر کسی جھجک کے پوچھ لیا کرتی تھی۔ بلکہ گھر کے اور بچے بچیاں بھی بغیر تکلف کے ابا سے مختلف sensitive امور کے بارے میں بغیر گھبرائے بات کر لیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ لندن میں مَیں امی کو لے کر بازار پھر رہی تھی۔ ابا بھی ہاتھ میں کتاب تھامے پیچھے پیچھے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ وہاں ایک Jehova’s Witness کاٹولہ بھی پھر رہا تھا۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک دفعہ بات شروع کردیں تو پیچھا نہیں چھوڑتے لیکن کسی اَور کی سنتے نہیں۔ میرا اپنا بھی ان کے ساتھ یہی تجربہ ہے۔ انہوں نے ہمارے سے بات شروع کردی۔ مَیں اور امی تو اگلی دکان کی طرف چلے گئے۔ ابا وہیں کھڑے ہو کر ان سے باتیں کرتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ وہ ابا سے بات ختم کرنا چاہ رہے ہیں اور ابا ان کی باتوں کا جواب دیے چلے جارہے ہیں۔ وہ شکلوں سے بے چین لگ رہے تھے کہ کس طرح اس صورتحال سے جلدی سے نکلیں۔ گذشتہ نومبر میں جب حضور نے تحریکِ جدید کے نئے سال کا اعلان فرمایا،میں اس وقت ابا کے ساتھ بیٹھ کر خطبہ سن رہی تھی، ابھی خطبہ ختم بھی نہیں ہوا تھا، کہ ابا نے اپنے خدمتگار ابرار صاحب کو بلا کر کہا کہ بھاگو اور تحریک کے دفتر جاؤ اور ان کو کہو کو پچھلے سال سے کچھ بڑھا کر میرا وعدہ لکھ لیں، میرا وعدہ سب سے پہلے جانا چاہیے۔ ایک بار مَیں اور فخر کسی مربی صاحب کے بارے میں ابا سے بات کررہے تھے کہ وہ بہت اچھے ہیں بہت پیار سے ملتے ہیں۔ تو ابا نے مُڑ کر ہمیں دیکھا اور کہنے لگے: صرف تمہارے سے پیار سے ملتے ہیں یا سب سے پیار سے ملتے ہیں؟ ابا کا حضرت چھوٹی آپا، سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ سے بھی بہت محبت کا تعلق تھا۔ ان کے داماد بھی تھے، چچا زاد بھائی کا بھی رشتہ تھا۔ان کی بیماری میں ابا کو خدمت کا بھی موقع ملا۔ ہماری کھانے کی میز پر حضرت چھوٹی آپا، ابا اور امی کی گفتگو ہوتی ہی حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت اماں جانؓ کے بارے میں تھی، کھانے سادہ تھے لیکن باتیں باکمال۔ یہ باتیں سن سن کرہمارے دلوں میں بھی ان بزرگ ہستیوں کی محبت بھرگئی۔ ابا کی زندگی بہت سادہ تھی لیکن وہ سادگی زندگی سے بھرپور تھی۔ (ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب کے مکان پر۔ربوہ ۲۰۱۶ء) میرے ابا بہت ہی مزے کے ابا تھے، خوش مزاج، خوش دل، محبت کرنے والے۔میرے ساتھ وقت نکال کر کھیلنے والے۔ سپین میں مَیں چونکہ بالکل اکیلی تھی، ہم نے ایک دن مقرر کیا تھا، پیر کی شام کو۔ امی ابا اور میں مل کر board gamesکھیلا کرتے تھے۔ ربوہ میں بھی کبھی کبھار شاموں کو نانی، ابا، امی اور میں بیڈمنٹن یا ٹیبل ٹینس کھیلا کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں ملنے گئی تو ابا نے اپنے کمرہ میں ایک انگریز آدمی کی تصویر فریم میں لگائی ہوئی تھی۔میں نے پوچھا یہ کون ہے تو کہنے لگے کہ یہ Edmond Hillary کی تصویر ہے جس نے Mount Everest کی چوٹی پہلی بار سر کی تھی۔میں نے اس لیے لگائی ہوئی ہے کہ مجھے بھی پہاڑوں پر چڑھنے اور ہائیکنگ کا بہت شوق ہے۔ میری بیٹی کی پیدائش کے دو مہینے بعد امی ابا لندن آئے تو جاتے ہوئے ابا نے کہا کہ دیکھو بچے کے بعد عورت کی ذمہ داری کی نوعیت بڑھ جاتی ہے۔ اس کو بہت سارے کام ایک وقت میں کرنے ہوتے ہیں اس لیے اپنی صحت اور بچے کی طرف خاص توجہ دینا۔ میرے بچوں کو خاص طور پر بچیوں کو ابا سے بہت پیار ملا۔ ان کے ساتھ چھیڑ خانی کیا کرتے تھے اور بےتکلفی سے باتیں۔ ان کے ہاتھ پکڑ کر گول گول گھماتے تھے جس طرح مجھے بچپن میں گول گول گھمایا کرتےتھے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے: چند سی، تارا سی، چوکڑی چوبارہ سی، غالبا ًکوئی بچپن کی لوری یا نظم ہے جو ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے۔مجھے اور بچوں کو پاکستان سے رخصت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ سارا رستہ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنَیْ اور یَا حَفِیْظُ یَاعَزِیْزُ یَا رَفِیْقُ یہ دونوں دعائیں پڑھتے جانا۔ پھر زندگی کا ایک دَور امی کی وفات کے بعد شروع ہوا۔ امی کی وفات سے پہلے میں فون کرتی تھی تو ابا اگر فون اٹھاتے بھی تو بس سلام کہہ کر حال پوچھ کر امی کو پکڑا دیتے تھے لیکن امی کی وفات کے بعد ابا نے اپنی ذمہ داری سمجھ کر خود ہر روز اپنے بچوں کو وڈیو کال کرنے کا معمول بنالیا۔ کرتے ایک منٹ کی کال تھے لیکن ہر روز ہمارا حال پوچھتے، بچوں کا حال پوچھتے۔ ان سالوں میں اگر ہمارے پر کوئی تکلیف کا وقت آیا یا کسی بیماری یا کسی آزمائش سے گزرے تو ہمارا ہمیشہ دعاؤں سے ساتھ دیا۔ ایک دن مجھے فون کیا، میں نے اُٹھایا تو میں زار و قطار رو رہی تھی۔ ابا نے میرا حال دیکھا تو کہنے لگے اگر کسی غم یا افسوس کے آنسو ہیں تو نہ رو۔ اگر دعا میں آنسو نکل رہے ہیں تو ٹھیک ہے۔ میں نے کہا ابا میں لجنہ کے رسالے کا کام کر رہی ہوں، میرا کمپیوٹر بار بار کریش ہو جاتا ہے اور کام ضائع ہو جاتا ہے۔ ابا سے بات کرنے کے بعد دوبارہ کمپیوٹر چلایا تو اللہ کے فضل سے کام ہوتا چلا گیا۔ ابا کا اپنی بہوؤں اور داماد کے ساتھ بے تکلفی اور پیار کا تعلق تھا۔ خاص طور پر امی کی وفات کے بعد ابا ہر روز میرے ساتھ ساتھ اپنی بہوؤں کو بھی فون کرتے تھے اور ان کا حال پوچھتے تھے۔ بلکہ بیٹوں سے زیادہ بہوؤں کی فکر اور خیال رکھتے تھے۔ کبھی کبھی باتوں میں کہہ دیتے تھے، ماں نہیں یاد آتی تمہیں؟ ضرور یاد آتی ہوگی۔ پھر بڑی محبت سے کہتے تھے، بی بی کے لیے عائشہ کے آگے بیٹوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ابا نے اپنے کمرہ کی دیوار پر بڑے بڑے پوسٹر لگائے ہوئے تھے۔ ان میں کچھ میں دعائیں بھی لکھی ہوئی تھیں۔ ایک پر لکھا تھا: اے میرے اللہ، تی آمو جس کا مطلب اٹالین زبان میں ہے : اے میرے اللہ، مجھے تم سے محبت ہے۔ اس دیوار پر دوسری طرف اپنی اور امی کی تصویر لگائی ہوئی تھی جس کے ساتھ ایک پوسٹر پر اپنی نظم جو چند سال پہلے امی کے لیے لکھی تھی، وہ تھی۔ اٹالین کی کتاب تو ابا کے ساتھ ہر وقت رہتی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓنے سیکھنے کا ارشاد فرمایا تھا، اس حکم پر آخری دم تک عمل کیا۔ یوں بھی سفر میں یا بازار میں بھی ابا کے ساتھ ہر وقت ایک کتاب ضرور موجود رہتی تھی۔ ابا کے کمرہ کے دروازے کے باہر ایک بڑا سا کاغذ لگا ہوا تھا جس پر لکھا تھا:مسجد نبویؐ اور مسجد مبارک جیسی نمازوں کی توفیق عطا فرما۔ آمین غار حرا اور بیت الدعا جیسی دعاؤں کی توفیق عطا فرما۔ آمین بچپن میں نماز کے لیے جگاتے تھے تو بے حد پیاری آواز میں صبح جاگنے کی دعا پڑھتے جاتے تھے، ابھی بھی میرے کانوں میں ابا کی آواز آرہی ہے۔ اتنے دلکش انداز میں پڑھتےتھے کہ مجھے اور میٹھی نیند آجاتی تھی۔میرا نیند سے اُٹھنے کو دل نہیں کرتا تھا تو ابا کہتے تھے: سوتے ہوئے لوگوں کے کان ہلتے ہیں، تم جاگ رہی ہو۔ میں لاکھ کوشش کرتی لیکن میرے کان نہیں ہلتے تھے۔ مجھے جگا کر ابا نماز کے لیے مسجد چلے جاتے تھے، اس دوران میں نماز پڑھ کر سکول کے لیے کپڑے بدل کر تیار ہو کر ابا سے مذاق کرنے کے لیے واپس بستر میں گُھس جاتی اور سوتی بن جاتی۔ ابا واپس آکر مجھے ایک دفعہ پھر جگانے آتے تو مَیں چھلانگیں مارتی ہوئی ہنستے ہوئے اُٹھ جاتی۔یہ قصہ ہر روز دہرایا جاتا، میں بھی ہنستی، ابا بھی میرا دل لگانے کو ہنستے۔ ہمارا تعلق چونکہ دوستوں والا تھا، اس لیے میں ابا سے دوستوں کی طرح روٹھ بھی جاتی تھی، لڑائیاں بھی کرتی تھی، نافرمانیاں بھی کرتی تھی،ڈانٹ ڈپٹ بھی سنتی تھی۔اسی طرح ہنستے بولتے ہم دونوں ہی بڑے ہو تےگئے اور ماہ وسال گزرتے گئے۔میری شادی ہوئی،اللہ نے اپنے فضل سےاولاد دی۔انہی ماہ و سال میں ہم نے نانی کی وفات اورپھر امی کی وفات کے صدمے دیکھےاور آخر وہ دن بھی آگیا جب اللہ نے میرے پیارے ابا کو اپنی طرف بلالیا۔ ابا تو میرے بچپن سے کہہ رہے تھے کہ میں تو چند دن کا مہمان ہوں۔ اس پر بھی میں ابا کو چھیڑتی تھی کہ ابا آپ ہمیشہ فالس الارم دیتے ہیں، آپ کہیں نہیں جارہے۔ انسان کسی بھی عمر کاہو جائے، ماں باپ کے جانے کاصدمہ ہر عمر میں بہت ہی گہرا ہوتا ہے۔ وفات کے وقت ابا کے پاس نہ ہونے کا غم ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔ ابا کو تو میں اپنا دوست ہی سمجھتی رہی، حقیقت یہ ہے کہ ابا کے مقام اور ان کی دینی خدمات کا علم تو مجھے حضور انور ایدہ اللہ کے خطبہ سے ہوا۔ حضورِانور ایدہ اللہ نے بے حد پیار اور شفقت سے ابا کا ذکر خیر کیاکہ اللہ تعالیٰ نے ابا کو اپنے خاص فضل سے احسن رنگ میں دین کی خدمت اور اپنا وقف نبھانے کی توفیق دی۔اور جو وعدہ میرے ابا نے چودہ سال کی نازک سی عمر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے کیا تھا وہ اپنی زندگی کے آخری سانس تک نبھایا۔ الحمدللہ۔ ابا کی خدمات میں امی کا بھی حصہ ہے۔ انہوں نے ابا کے ساتھ اخلاص اور وفا کے ساتھ وقف نبھایا۔ابا کہا کرتے تھے کہ واقفِ زندگی کی بیوی ہی تو اصل میں وقف ہوتی ہے۔ امی کی وفات کے بعد سے میرے بھائی سید غلام احمد فرخ اور ان کی بیگم فرحانہ اور ان کے بچے ابا کا خیال رکھتے رہے ہیں۔ میرے اس بھائی کو میری امی نے ڈھائی مہینے کی عمر میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ کی تربیت میں دے دیا تھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ، ہماری نانی بے انتہا اداس رہتی تھیں۔ میری امی نے بچہ ان کو دینے کا فیصلہ کیا۔ ابا نے اس میں امی کا ساتھ دیا۔ یہ امی ابا کے لیے آسان تو نہیں ہوگا اور بہت بڑی جذباتی قربانی ہوگی۔ لیکن آخری عمر میں اسی بھائی اور اس کی بیگم فرحانہ اور ان کے بچوں نے ابا کا بے انتہا محبت اور بے نفسی سے خیال رکھا۔ اللہ تعالیٰ ان کو بے انتہا جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین اللہ میرے ابا اور امی دونوں کی مغفرت فرمائے اور ان سے انتہائی پیار اور رحم کا سلوک کرے اور ان کو اپنے پیاروں کا قرب عطا فرمائے۔ اور ہماری اولاد در اولاد کو تاقیامت سلسلہ احمدیہ اور خلافت کے ساتھ وفا کے ساتھ جوڑے رکھے۔ اور ابا اور امی کی دعائیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں۔ آمین