اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط۱۲۔گذشتہ سے پیوستہ) الفضل کے درویش کراچی میں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل اخبار کے متبادل کے طور پر کراچی سے المصلح کی اشاعت کے زمانے میں الفضل کے کارکنان کے بارے میں مکرم بشیرالدین سامی صاحب کے مشاہدات پر مبنی ایک مضمون ’’الفضل کے درویش‘‘ شامل ہے جس میں الفضل کے عملے کی اَن تھک کاوشوں کی مختصر تصویرکشی کی گئی ہے۔ مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ کراچی سے ان دنوں خدام الاحمدیہ کا ترجمان پندرہ روزہ المصلح نکلا کرتا تھا جس کی ادارت میں فیض عالم چنگوی اور تاثیر احمدی شامل تھے۔ یہ حضرات بخوشی ایک طرف ہٹ گئے اور ان کی جگہ الفضل کے سٹاف نے لے لی ۔ یوں الفضل نے المصلح کا پیرہن اختیار کیا۔ مکر م روشن دین صاحب تنویر، مسعود احمد خان دہلوی، شیخ خورشید احمد اور محمد احمد پانی پتی جیسے صاحب طرز ادیب اور اخبار نویس آ موجود ہوئے۔ اسی دَور میں ہمیں بھی روشن دین تنویر سے ملنے کی سعادت ملی۔ مگر حسرت ہی رہی کہ ہم کبھی کسی مجلس میں بھی اُن کو دیکھ پاتے۔ انہوں نے احمدیہ ہال کے پچھواڑے ایک کمرہ کو اپنا مسکن اور دفتر بنائے رکھا۔ وہ تو تھے بھی اپنی جگہ خاموش طبع اور تنہائی پسند انسان ، ان کے خرام میں بھی تو کوئی آواز نہ تھی۔ اسی ماحول میں ایک مسعود احمد خان دہلوی بھی تھے بولتے کم تھے۔ آس پاس کو پڑھتے زیادہ تھے۔ کہیں کہیں ایک آدھ فقرہ چست کر دیا۔ ان کے ساتھیوں میں ایک شخصیت اللہ بخشے محمد احمد پانی پتی کی بھی تھی۔ جنہوں نے احمدیہ ہال کے بازو میں سٹور نما کمرہ میں ایک چٹائی کو دفتر بنا رکھا تھا۔ ایک ہاتھ میں عربی کی کوئی پرانی کتاب تھامے رکھتے دوسرے ہاتھ میں قلم ہوتا جو رہٹ کی طرح علوم و فنون کے خزانے قرطاس پر انڈیلتا چلا جاتا۔ ترجمہ کرنے میں ایسی مہارت اور روانی تھی کہ دیکھنے والا محسوس کر سکتا تھا کہ محمد احمد پانی پتی کو ایک دوڑ سی لگی ہے۔ وقت نے بھی یہی بتایا۔ واقعی وہ دوڑ تھی۔ زندگی نے وفا نہ کی۔ نوجوانی میں ہی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے اور اپنے کام سے اردو بازار لاہور کے کتب فروشوں کی الماریاں بھر گئے۔ باوجود تنگی داماں، انتظامی لحاظ سے ایک مولوی عبداللہ اعجازتھے جنہوں نے دفتری آن بان کو بنا رکھا تھا۔ اسی طرح عملہ میں ایک نہایت ہر دلعزیز، سادہ اور منکسر المزاج ہستی منشی سبحان علی صاحب کی تھی۔ جتنے خوش طبع تھے۔ اتنے ہی خوش نویس تھے۔ کراچی کی ہر ادا انہیں بھلی لگتی تھی۔ خاص طور پر موسم سے بہت خوش تھے۔ ایک روز وہ کسی مارکیٹ سے کالے رنگ کا سیکنڈ ہینڈ مخملی کوٹ خرید کر پہن آئے۔ ان کا گزر تنویر صاحب کے سامنے سے ہوا تو فقرہ چست ہوا:کیا خوب! منشی صاحب! آپ تو بالکل بیگم لیاقت علی خان لگ رہے ہیں۔ دراصل منشی صاحب نے جو کوٹ پہن رکھا تھا وہ لیڈیز کوٹ تھا۔ بہت دیر تک عملے میں ان کے ساتھ یہ چھیڑ رہی۔ لیکن ان کی ہمت کی بھی داد دینا پڑے گی۔ انہوں نے وہ کوٹ اتارا نہیں۔ انہوں نے تو آخر اسے خرید کر ہی پہنا تھا۔ الفضل کا سٹاف ایک سال تک کراچی میں رہا۔ ان کی مستقل مزاجی، لگن، اَن تھک محنت اور ذمہ داری کے احساس نے ایک لمحہ بھی انہیں اجنبی مہمان ہونے کا کوئی تصور پاس نہیں پھٹکنے دیا۔ المصلح کے نام کے سوا انہوں نے کراچی کی جماعت سے اپنے لیے کسی سہولت کی خواہش نہ کی۔ کس حال میں وہ کراچی آئے۔ کس حال میں وہ واپس گئے۔ یہ سب اثاثے وہ اپنے ساتھ ہی لے گئے اور ہمیں خواب دیکھنے کے لیے چھوڑ گئے۔ اللہ اللہ، کتنے خوددار، کتنے حوصلہ مند، کتنے درویش صفت تھے وہ لوگ! جن سے مل کر زندگی سے پیار ہو جائے وہ لوگ آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں ………٭………٭………٭……… الفضل اخبار کی خوبصورت یادیں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم عاصم جمالی صاحب اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں کہ یہ نا چیز اب زندگی کے تریسٹھویں سال میں ہے۔ سن ساٹھ کے دہاکے میں مجھے اپنے والد محترم چودھری محمد عبدالغنی صاحب کے ساتھ جھنگ کے چھوٹے سے شہر سے جا کر سرگودھا اور لاہور کے بڑے شہروں میں رہنے کا موقعہ میسر آیا۔ یہ میری تعلیم کے پرائمری درجے سے نکل کر ہائی سکول اور کالج کی تعلیم کے سال تھے۔ الفضل اگرچہ جھنگ میں بھی والد صاحب منگواتے تھے اور میں اس میں سے کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا تھا لیکن اس کی قدر وقیمت سے آگاہ نہ تھا۔جب والد صاحب مرحوم کا تبادلہ ڈی سی آفس جھنگ سے کمشنر آفس سرگودھا ہوا تو ہم سرگودھا میں نیو سول لائنز کے علاقہ میں رہتے تھے۔ ان دنوں سائیکل سے گر کر میرا بایاں بازو ٹوٹ گیا تھا۔نیو سول لائنز میں ہی احمدیہ مسجد کے بنائے جانے کے وہ ابتدائی ایام تھے جس میں مٹی وغیرہ ڈھونے میں، مَیں بھی اپنے والد صاحب اور بھائیوں کے ہمراہ حصہ لیتا تھا۔ پکی اینٹوں کا ایک تھڑا اور محراب بن گئے تو ہم وہاں نمازیں بھی ادا کرنے لگے۔ بازو ٹوٹنے کے باعث کافی دنوں تک جب مسجد میں نہ جاسکا تو ایک روز شام کو مشفقی مرزا نثار احمد صاحب ابن حضرت مرزا عبدالحق صاحب میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور جاتے ہوئے مجھے حضرت مسیح موعود کی تصنیف ’’کشتی نوح‘‘ سے ماخوذ ’’ہماری تعلیم‘‘ اور ٹالسٹائے کا ناول ’’وار اینڈ پیس‘‘ دے گئے کہ لیٹا لیٹا میں ان کا مطالعہ کیاکروں۔ ان ہی ایام میں مجھے الفضل کی اہمیت کا بھی احساس ہوا۔ بعد میں حضرت مرزا عبدالحق صاحب کی ذاتی لائبریری میں اس کے فائل سال بہ سال جلدیں بندھوا کر رکھے ہوئے دیکھے تو الفضل کے مقام و مرتبے کا احساس پیدا ہوگیا۔ چنانچہ تب سے میں نے بھی الفضل کے پرچوں کو سنبھال کر رکھنا شروع کردیا۔ پھر ہم والد صاحب کے تبادلہ کے باعث لاہور میں چوبرجی گارڈنز اسٹیٹ کے کوارٹرز میں فروکش ہوگئے تو اسلامیہ پارک کی احمدیہ مسجد میں مکرم شیخ عبدالقادر صاحب محقق کی گفتگو اور گاہے بگاہے تقاریر سنتا تھا۔شیخ صاحب مرحوم سے تبادلہ خیال کے دوران ہی یہ خیال آیا کہ الفضل کا ایک انڈکس بنایا جائے۔اس امر کو شیخ صاحب موصوف نے بہت سراہا۔ پھر میں بینک کی ملازمت کے جھمیلوں میںپڑگیامگر الفضل کے تمام شماروںکو محفوظ کرتا رہا۔ اسی دوران مارچ۲۰۰۰ء میں دل کے بائی پاس آپریشن کے عمل سے گزرنا پڑا تو شفایاب ہونے پر شکرانے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کے۳۱۳؍اصحاب کے احوال کو باقاعدہ طور پر لکھنا شروع کیا اور پھر نومبر۲۰۰۲ء میں مکرم نصر اللہ خان ناصر کے ساتھ مل کر ان اصحاب کے کام کو الفضل اور دیگر رسائل و کتب کو کھنگال کر ترتیب دے دیا گیا۔ ’’جواہر الاسرار‘‘ کے بارے میں مضامین کا سلسلہ شائع ہوتا رہا جو بعد ازاں اضافے کے ساتھ کتابی شکل میں شائع کردیا گیا۔ بحمداللہ یہ ہے ایک مختصر روئیداد میری زندگی میں الفضل کے کردار کی۔ وگرنہ من آنم کہ من دانم ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم بشارت احمد باجوہ صاحب رقمطراز ہیںکہ ۱۹۹۲ء میں خاکسار نے لوکل انجمن احمدیہ میں ملازمت شروع کی تو پہلے چھ سال کے عرصے میں رات دن کی ڈیوٹی کے نتیجے میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوگیا اور حالت اتنی بگڑ گئی کہ اپنے پرائے کی پہچان نہ رہتی۔ تقریباً تین سال کا یہ عرصہ بہت کٹھن تھا جو میرے بچوں اور بیوی نے نہایت صبر کے ساتھ گزارا۔ میری بیوی نے اس عرصے کو خدا کے حضور التجاؤں میں گزارا۔ ایک روز تہجّد کے بعد انہوں نے ایک بزرگ کو خواب میں دیکھا جو اُن کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں کہ بیٹا! اپنے گھر الفضل لگواؤ اور اپنے میاں کو پڑھنے کے لیے دو۔ اپنی بیوی کے یہ خواب سنانے پر ہم نے الفضل لگوالیا اور پھر جب مَیں ناشتہ کرنے آتا تو میری بیوی کہتیں کہ مَیں ناشتہ بناتی ہوں، آپ مجھے الفضل پڑھ کر سنائیں۔ چنانچہ مَیں بآواز بلند الفضل سے ارشادات عالیہ اور حدیث پڑھ کر سناتا۔ یوں دن گزرتے گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری ذہنی حالت آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتی گئی۔ الحمدللہ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۸؍جون۲۰۱۴ء میں مکرم بشارت احمد چیمہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ پہلی یا دوسری کلاس میں تھا جب گھر میں الفضل آنے کا شعور ملا جس پر چسپاں ایک چِٹ پر نام ’’احمد حسین چیمہ‘‘ لکھا ہوتا تھا۔ سارے الفضل میں مَیں صرف یہی ایک چِٹ پڑھ سکتا تھا۔ تاہم نام پڑھ کر احساس ہوتا کہ اس نام کا تو کوئی فرد ہمارے گھر میں ہے ہی نہیں۔ پوچھنے پر والدین نے بتایا کہ جب مَیں پیدا ہوا تو اپنے دادا چودھری محمد حسین چیمہ صاحب کا سب سے بڑا پوتا تھا، انہوں نے اپنے نام کی مناسبت سے میرا نام رکھا اور شکرانے کے طور پر الفضل بھی جاری کروا دیا۔ بعد میں والد محترم چودھری غلام احمد چیمہ صاحب نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں خط لکھا تو حضورؓ نے میرا نام بشارت احمد چیمہ رکھا۔ بہرحال میری پیدائش پر بطور شکرانہ جاری کروایا گیا الفضل اخبار آج ۶۵سال بعد بھی جاری ہے۔ ڈاک ہمارے سکول کے استاد کے پاس آیا کرتی تھی۔ وہی گاؤں کے پوسٹ ماسٹر تھے۔ صبح سویرے پہلا کام اُن سے ڈاک کا لانا ہوتا تھا۔ مطالعہ کرنے کے بعد الفضل کسی دوسرے مستحق احمدی کے گھر دے دیا جاتا۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۸؍جون۲۰۱۴ء میں مکرم کیپٹن (ر) شمیم احمد خالد صاحب (ستارۂ امتیاز) رقمطراز ہیں کہ خاکسار کے دادا حضرت چودھری میاں خان صاحبؓ محکمہ تعلیم سے تعلق رکھتے تھے اور گھر میں سلسلہ کا لٹریچر اور اخبارات باقاعدہ منگواتے رہے۔ یہ سلسلہ میرے والد محترم چودھری غلام رسول صاحب (ہیڈماسٹر) کی زندگی میں بھی جاری رہا جو بڑی محبت سے الفضل پڑھتے اور پھر جلدبندی کرکے ذاتی لائبریری میں مہیا رکھتے۔ ہمارا گاؤں موضع کالس ضلع گجرات، ریاست جموں کشمیر کی سرحد کے قریب ایک دُورافتادہ بستی تھی لیکن الفضل کے ذریعے مرکز سے ہمارا قریبی تعلق تھا۔ ریل گاڑی گاؤں سے بارہ میل کے فاصلے پر گزرتی تھی جسے گاؤں کے کئی لوگوں نے دیکھا بھی نہ تھا۔ اخبار پڑھنے والے صرف ایک فیصد تھے۔ ہماری زندگیوں میں الفضل نے وہ کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں مَیں وہاں سے نکل کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے پاک بحریہ میں ملازم ہوا اور انگلستان میں ٹریننگ بھی کی۔ پھر ریٹائرمنٹ کے بعد وقف کردیا اور چھ سال بیلجیم میں بطور مبلغ بھی خدمت کی توفیق پائی۔ آج بھی اگر مجھے چوائس دیا جائے کہ تحفۃً ’’الفضل‘‘ لگوایا جائے یا ’’نیویارک ٹائمز‘‘ تو خاکسار بلاتردّد الفضل کی خواہش کرے گا۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم ڈاکٹر عبدالرشید تبسم صاحب کی ایک غزل شامل اشاعت ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب پیش ہے: کارواں چل دے گا ، گردِ کارواں رہ جائے گیہم نہیں ہوں گے ہماری داستاں رہ جائے گیبجلیوں سے ہے بنایا ہم نے اپنا آشیاںبرق اگر اس پر گری بن کر دھواں رہ جائے گیزلزلے صدہا لیے پھرتے ہیں یہ کشکول میںگر بِگڑ بیٹھے گدا ، دنیا کہاں رہ جائے گیآدمی چہرے بدل کر گر یونہی بکتے رہےعظمتِ انسانیت باقی کہاں رہ جائے گیاپنی کشتی کا ہے کیا! اُبھری پھر آگے بڑھ گئیبگڑے طوفانوں کی لیکن داستاں رہ جائے گییار نے جب اِک نگاہِ خشم ڈالی بزم پرکون منہ کھولے گا؟ کس منہ میں زباں رہ جائے گی؟ مزید پڑھیں: الفضل ڈائجسٹ