https://youtu.be/7iqZmXs_DmI خدا تعالیٰ نے مسیح محمدی کے لئے یہ امتیاز مقرر کیا ہے کہ جہاں مسیح ناصری کے معاملہ میں انصار اللہ بننے کی تحریک مسیح کی زبان سے پیش کی گئی ہے۔ وہاں مسیح محمدی کے معاملہ میں یہ تحریک خود ذات باری تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ جس میں یہ اشارہ مقصود ہے کہ یہ تحریک خدا کی خاص نصرت اور برکت سے حصہ پائے گی مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ ۲۵؍دسمبر ۱۹۴۵ء کے موقع پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کا رقم فرمودہ مضمون آپ کی علالت طبع کے باعث پڑھ کر سنایا گیا۔روزنامہ الفضل قادیان دارالامان میں شائع ہونے والا آپ کا وہ مضمون افادہ عام کی غرض سے پیش خدمت ہے۔ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی( ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز )نے تنظیم کی غرض سے جماعتِ احمدیہ کو تین قسم کے نظاموںمیں منقسم فرمایا ہے۔یعنی اوّل اطفال احمدیت کا نظام جو پندرہ سال سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے۔ دوسرے خدام الاحمدیہ کا نظام جو پندرہ سال سے لے کر چالیس سال تک کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اور تیسرے انصار اللہ کا نظام جو چالیس سال اور اس سے اوپر کے اصحاب پر مشتمل ہے۔ یہ تقسیم نہایت حکیمانہ رنگ میں فطری اصولوں کے مطابق کی گئی ہے۔ کیونکہ اگر ایک طرف ہمیں حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عموماً پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں پر قومی جہاد کی شرکت کی ذمہ داری نہیں ڈالتے تھے تو دوسری طرف قرآن شریف ہمیں یہ بتاتا ہے کہ چالیس سال کی عمر انسانی قویٰ کے کامل نشوونما کی عمر ہے جبکہ انسان اپنی بعض مخصوص ذمہ واریوں کے ادا کرنے کی بہترین قابلیت پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۙ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ (الاحقاف:۱۶)یعنی جب ایک نیک انسان اپنے نشوونما کی کامل پختگی کو پہنچ جاتا ہے اور چالیس سال کا ہوجاتا ہے تو پھر اس کے اندر سے ایک فطری آواز بلند ہوتی ہے کہ خدایا! تو نے مجھ پر کتنی نعمتیں فرمائی ہیں کہ پہلے مجھے بہترین طاقتوں کے ساتھ پیدا کیا۔ اور پھر ابتدائی عمر کے خطرات سے گذارکر پختگی کی عمر تک پہنچایا۔ سو اب مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری ان نعمتوں کا بہترین حق ادا کرسکوں۔ جو تونے مجھ پریا میرے والدین پر کی ہیںاور مجھے توفیق عطا کر کہ میں ایسے اعمال بجالائوں جو تیری رضا کا موجب ہوں۔ گویا چالیس سال کی عمر انسانی قویٰ کے کامل نشوونما کی عمر قراردی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء جن کے سپرد لوگوں کی اصلاح کا کام ہوتا ہے۔ عموماً اسی عمر میں مبعوث کئے جاتے ہیں۔ پس جماعت کی یہ تین حصوں والی تقسیم عین فطری اصولوں کے مطابق ہے۔ کیونکہ اطفال کی عمر تو وہ ہے کہ جب ان کی ذمہ داریوں کا بیشتر حصہ خود ان کی اپنی تربیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اور باقی چیزیں صرف زائد اور ضمنی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور انصار کی عمر وہ ہے کہ جب انسان کی ذمہ واریوں کا غالب حصہ دوسروں کی اصلاح اور تربیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اور خدام کی عمر وہ ہے جو ان دوحدوں کے درمیان وسطی حصہ ہے۔ جہاں دونوں قسم کی ذمہ واریاں گویا ہم وزن طور پر ملی جلی رہتی ہیں یعنی ایک طرف تو اپنی تربیت کا پروگرام ہوتا ہے اور دوسری طرف دوسروں کی اصلاح کا۔ اور یہ دونوں پروگرام قریباً ایک جیسے ہی ضروری اوراہم ہوتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ انصار اور خدام کا لائحہ عمل ایک دوسرے سے جدا ہے۔ اور گو کئی باتوں میں اشتراک بھی ہے۔ مگر دونوں کے کام کو ایک دوسرے پر کلی صورت میں قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اور ہمارا فرض ہے کہ ہم انصار اللہ کا پروگرام اس داغ بیل پر قائم کریں جو ان کے دائرہ عمل کے مطابق ہو۔ دوسری بات جو انصار اللہ کے مقامِ ذمہ واری کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جہاں کہیں بھی ’’انصاراللہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے وہاں اسے صرف جمالی نبیوں کے اصحاب کے تعلق میں استعمال کیا ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ قرآن شریف نے اس اصطلاح کو یا تو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے صحابہ کے متعلق استعمال کیا ہے اور یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے متعلق۔اور ان دونبیوں کے سوا کسی اور نبی کے صحابہ کے لئے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی گئی۔ چنانچہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے: فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیۡسٰی مِنۡہُمُ الۡکُفۡرَ قَالَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ۚ وَاشۡہَدۡ بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ۔(آل عمران: ۵۳)یعنی جب حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنی مخاطب قوم بنی اسرائیل کی طرف سے کفر پر اصرار دیکھا۔تو ایک علیحدہ تنظیم کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے یہ اعلان فرمایا کہ اب میرے خدائی مشن میں کون میرا انصار بنتا ہے۔ جس پر حواریوں نے لبیک کہتے ہوئے کہا کہ ہم انصار اللہ بنتے ہیں۔ اور خدا کی آواز پر ایمان لاتے ہوئے آگے آتے ہیں۔اورآپ گواہ رہیں کہ ہم آپ کے ہاتھ پر فرمانبرداری کا عہد باندھتے ہیں۔ دوسری جگہ قرآن شریف میں انصاراللہ کے الفاظ سورہ صف میں آتے ہیں۔ جہاں حضرت عیسیٰ کی زبان سے ان کے مثیل احمدؐ نامی رسول کی پیشگوئی کروائی گئی ہے۔اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس مثیل مسیح کے ذریعہ اللہ تعالیٰ آخری زمانہ میں اسلام کو تمام ادیانِ عالم پر غالب کرکے دکھائے گا۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ فَاٰمَنَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَکَفَرَتۡ طَّآئِفَۃٌ ۚ فَاَیَّدۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلٰی عَدُوِّہِمۡ فَاَصۡبَحُوۡا ظٰہِرِیۡنَ۔ (الصف:۱۵)یعنی اے وہ مسلمانو جو محمدی مسیح کا زمانہ پانے والے ہو۔ تم دین حق کی خدمت میں انصاراللہ بن جائو۔ جس طرح کہ موسوی مسیح نے اپنے حواریوں سے کہا تھا کہ میرے خدائی مشن میں کون میرا انصار بنتا ہے۔ اور اس پر حواریوں نے جواب دیا تھا کہ ہم انصار اللہ بنتے ہیں۔ اور مسیح ناصری کی اس ندا کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کا ایک فرقہ ایمان لے آیا اورایک فرقہ کافرہوگیا۔ جس پر ہم نے کافروں کے خلاف مومنوں کی مدد فرمائی۔اور وہ اس مقابلہ میں کھلے طور پر غالب آگئے۔ ان دو حوالوں میں دونوں مسیحوں کے حواریوں کو انصاراللہ کہا گیا ہے۔ اور ان دوموقعوں کے سوا قرآن شریف نے ’’انصاراللہ‘‘ کی اصطلاح اس مرکب صورت میں کسی اور جگہ استعمال نہیں کی جس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس اصطلاح کو اپنے دو عظیم الشان جمالی نبیوں یعنی مسیح موسوی اور مسیح محمدی ؐکے صحابہ کے لئے مخصوص فرمادیا ہے۔ مگر جیسا کہ آیات کے الفاظ سے ظاہر ہے۔خدا تعالیٰ نے مسیح محمدی کے لئے یہ امتیاز مقرر کیا ہے کہ جہاں مسیح ناصری کے معاملہ میں انصار اللہ بننے کی تحریک مسیح کی زبان سے پیش کی گئی ہے۔ وہاں مسیح محمدی کے معاملہ میں یہ تحریک خود ذات باری تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ جس میں یہ اشارہ مقصود ہے کہ یہ تحریک خدا کی خاص نصرت اور برکت سے حصہ پائے گی۔ بہرحال قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ انصار اللہ کی اصطلاح خدا تعالیٰ کی نظر میں انبیاء کے جمالی ظہور کے ساتھ مخصوص تعلق رکھتی ہے۔ اور چونکہ جمال کے ساتھ دین حق کی ایسی تشریح وتبلیغ وابستہ ہے۔ جو ایک پیہم اور مسلسل کوشش کی صورت میں دلائل وبراہین کے ذریعہ کی جائے۔ اس لئے انصار اللہ کا اصل کام جمالی رنگ میں ’’تبلیغ‘‘ اور ’’تربیت‘‘ کے دو لفظوں میں محصور ہوجاتا ہے۔ اور چونکہ تبلیغ وتربیت کا کام ایک طرف تنظیم کو چاہتا ہے۔ اور دوسری طرف مالی قربانی کو۔ اس لئے ہمارے کام کے یہ چار ستون قرار پاتے ہیں: اوّل:تبلیغ، دوم: تعلیم وتربیت، سوم : تنظیم اور چہارم:کام کے واسطے روپے کی فراہمی۔ اور ظاہر ہے کہ جہاں یہ چار چیزیں بصورت احسن میسر آجائیں۔ وہاں کوئی دنیوی طاقت کسی جماعت کی ترقی کے رستہ میں روک نہیں بن سکتی۔ اور فاصبحوا ظاھرین کا وعدہ پورا ہوکر رہتا ہے۔ مسیح محمدی کے کام کی یہی صورت اللہ تعالیٰ نے ایک خوبصورت تمثیل کے ذریعہ سورہ کہف میں بھی بیان فرمائی ہے۔ جہاں ذوالقرنین کا ذکر کرکے اور اس کے حالات کو روحانی رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر چسپاں کرکے فرماتا ہے:اٰتُوۡنِیۡ زُبَرَ الۡحَدِیۡدِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا سَاوٰی بَیۡنَ الصَّدَفَیۡنِ قَالَ انۡفُخُوۡا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَعَلَہٗ نَارًا ۙ قَالَ اٰتُوۡنِیۡۤ اُفۡرِغۡ عَلَیۡہِ قِطۡرًا(الکہف:۹۷)یعنی مسیح موعود اپنے صحابہ سے کہے گا کہ میرے پاس تبلیغ کے ذریعہ لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لائو۔ کیونکہ میری طرف آنے سے وہ گویا آہنی اینٹیں بن جائیں گے۔جن کے ذریعہ میں کفر وایمان کے درمیان ایک بلند دیوار چُن دوںگا۔ اور پھر جب وہ مسیح محمدی کے انفاس قدسیہ کی گرمی سے مناسب درجۂ حرارت کو پہونچ جائیں گے تو مسیح ان سے فرمائے گا کہ اب اس آہنی دیوار کو مضبوط کرنے کے لئے پگھلے ہوئے تانبے (یعنی روپے پیسے) کی بھی ضرورت ہے۔ وہ لائو تا میں ا س کے ذریعہ اس دیوار کے رخنوں کو بند کرکے اسے ایک غالب رہنے والی چیز بنادوں۔‘‘ اس لطیف تمثیل میں اللہ تعالیٰ نے وہ تمام چیزیں یکجا بیان فرمادی ہیں جو دوسری آیات سے استدلال کرکے اوپر درج کی گئی ہیں۔ یعنی اٰتُوۡنِیۡ زُبَرَالۡحَدِیۡدِ میں تبلیغ کی طرف ارشاد ہے اور سَاوٰی بَیۡنَ الصَّدَ فَیۡنِ اور جَعَلَہُ نَارًا میں تعلیم وتربیت کی طرف اشارہ ہے۔ اور اُفۡرِغۡ عَلَیۡہِ قِطۡرًامیں مالی قربانیوں کی طرف اشارہ ہے اور یہ سارے کام مسیح موعودؑ اور آپ کی جماعت کے ذریعہ انجام پانے مقدر ہیں۔ اب دوست خود غور فرمائیں کہ انصار اللہ کے سر پر کتنی بھاری ذمہ واری کا بوجھ ہے۔ اور جب تک وہ اس ذمہ واری کو ادا کرنے میں دن رات مستغرق نہ رہیں۔ اور اسے اپنی زندگیوں کا مقصد نہ قراردے لیں۔ اس وقت تک وہ اس خدائی وعدہ کا مُنہ نہیں دیکھ سکتے۔ جو لِیُظۡھِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ کے شاندار الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اور جو بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ پورا ہوکر رہے گا۔ گویہ علم صرف خدا کو حاصل ہے کہ ہم میں سے کون زُبَرَالۡحَدِیۡدِکا رنگ اختیار کرچکا ہے۔ اور کون نہیں اور کس پر خدائی دیوار میں چنے جانے کے لئے فرشتوں کا ہاتھ پڑچکا ہے۔ اور کس پر نہیں۔اور کس کے رخنے پگھلے ہوئے تانبے کے ذریعہ بھرے جاچکے ہیں اور کس کے نہیں۔ کام خدا کا ہے۔ اورہم نے صرف اپنے آپ کو خدا کے سانچے میں ڈھال کر اس کے سپرد کردینا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ؎ بمفت اِین اجرِ نصرت را دہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمان ست اِین بہر حالت شود پیدا پس میں دوستوں سے اپیل کروں گا کہ انصار اللہ کے مقدس کام کو ان چار ستونوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔جو میں نے قرآن شریف سے استدلال کرکے اوپر بیان کئے ہیں۔ یعنی (۱) تبلیغ (۲)تعلیم وتربیت (۳) تنظیم اور (۴) مالی قربانی۔ اگر وہ ان چار پہلوئوں سے اپنے نظام کو پختہ کرلیںتو ان کے قلعہ کی چاردیواری مکمل ہوجائے گی۔اورپھر انہیں خدا کے فضل سے کسی مخالف طاقت کا خطرہ نہیں رہے گا۔ بلکہ ہر مخالف طاقت ان کے سامنے مغلوب ہوکر ان کی غلامی کو اپنے لئے باعث فخر خیال کرے گی۔ اے خدا! تو اپنی ذرّہ نوازی سے ایسا فضل فرما کہ قبل اس کے کہ ہم اس دنیا کی زندگی کو پورا کرکے تیرے دربار میں حاضر ہوں۔ ہمیں تیرے حضور میں وہ مقام حاصل ہوچکا ہو جو تونے صحابہ کرامؓ کی مقدس جماعت کے متعلق ان پیارے الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ :رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡھُمۡ وَرَضُوۡ عَنۡہُ اے خدا! تو ایسا ہی کر۔آمین وَاٰخِرُ دَعۡوَانَا اَنِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ خاکسار مرزا بشیر احمد۔قادیان۔۲۵ فتح ۱۳۲۴ہش مطابق ۲۵؍دسمبر ۱۹۴۵ء (روزنامہ الفضل قادیان دارالامان ۱۳؍اپریل۱۹۴۶ء صفحہ ۶-۷) (مرسلہ: ظہیر احمد طاہر ۔ ایڈیشنل قائد تربیت مجلس انصاراللہ جرمنی) مزید پڑھیں: محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب کے ساتھ وابستہ چند یادیں