https://youtu.be/Sdbdbq6tZPA شکر گزاری کا تقاضا پورا کرتے ہوئے کم از کم زیادہ سے زیادہ وقت دینا چاہیے اور بہتری کے لیے سوچنا چاہیے کہ کس طرح ان طلبہ کا معیار بہتر کر سکتے ہیں، کس طرح ان کی صرف علمی نہیں،بلکہ روحانی اور اخلاقی حالت بہتر کر سکتے ہیں؟ اور وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہماری اپنی حالت بہتر ہو، جو معیار ہونا چاہیے وہ ہے نہیں۔ یہاں والوں کو بھی مَیں یہی کہتا ہوں،آپ لوگوں کو بھی کہتا ہوں ، باقی جامعہ والوں کو بھی ، تو اس معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ، کیونکہ آگے چیلنجز بہت زیادہ آنے ہیں مورخہ۱۴؍ستمبر ۲۰۲۵ء، بروز اتوار، امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جامعہ احمدیہ جرمنی کے اساتذہ کے ایک سولہ(۱۶)رکنی وفد کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے جرمنی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِانور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ ملاقات کا باقاعدہ آغاز دعا سے ہواجس کے بعد پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ جرمنی نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ اس وقت ادارے میں پچاسی۸۵طلبہ زیرِ تعلیم ہیں جبکہ تدریسی عملہ سترہ۱۷ افراد پر مشتمل ہے۔ بعد ازاں ہر استاد کو اپنا تعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، جس میں انہوں نے اپنے مضامین، تدریسی طریقۂ کار، ذاتی مطالعہ و تحقیقی کاوشوں اور تدریسی نتائج کا ذکر کیا۔ دورانِ تعارف حضورِانور نے اساتذہ سے ان کے کام کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بھی استفسار فرمایا۔ درجہ رابعہ، خامسہ اور شاہد کو علم الکلام پڑھانے والے ایک استاد سے حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ کیا وہ باقاعدہ لیکچر تیار کرتے ہیں؟اثبات میں جواب سماعت فرما کر حضورِانور نے مزید دریافت فرمایا کہ اپنے سٹوڈنٹس کے لیے دعائیں بھی کرتے ہیں؟ جس پر انہوں نے عرض کیا کہ جی حضور! کوشش کرتا ہوں۔ حضورِانور نےایک دوسرے استاد کو، جو ساتھ ہی بطورِ مربی میدانِ عمل میں بھی خدمت بجا لا رہے ہیں، توجہ دلائی کہ اُن کی بنیادی تبلیغی ذمہ داریاں جامعہ کی مصروفیات کے باعث متاثر نہ ہوں۔ فارسی کے ایک استاد سے حضورِانور کے دریافت فرمانے پر انہوں نے عرض کیا کہ وہ درجہ خامسہ اور شاہد کو دوسرے سمسٹر میں فارسی پڑھاتے ہیں۔ حضورِانور نے استفسار فرمایا کہ طلبہ کو کتنی فارسی آ جاتی ہے اور سمجھ آ جاتی ہے؟ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ اُن کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار پڑھانے اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس پر حضورِانور نے فارسی کے اساتذہ کو تاکید فرمائی کہ سارا منظوم کلام جو ہے، اس کا مطلب آنا چاہیے، اتنا تو جامعہ کو پڑھانا چاہیے۔ہر فارسی شعر کا مطلب بھی اور تشریح بھی آنی چاہیے، وہی پڑھا ئیں تو کافی ہے، باقی اپنی علمیت کو چھوڑیں صرف وہی کلام پڑھائیں۔ عربی کے استاد کو حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ طلبہ کی روانی بہتر بنانے کے لیے مختلف assignments اور عملی گفتگو کے ذریعے انہیں ہمہ وقت مصروف رکھا جائے۔ حضورِانور نے اس امر پر بھی زور دیا کہ اساتذہ اپنے طلبہ کی انفرادی دلچسپیوں کو پہچانیں اور ان میں مخصوص مضامین کےحوالے سے مزید ذوق و شوق پیدا کریں۔ ایک استاد سے حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ کیا وہ اپنی تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ذاتی مطالعہ کے لیے روزانہ چھ یا اس سے زائد گھنٹے وقف کر پاتے ہیں۔ اس کے بعد حضورِانور نے اساتذہ کرام کو مستقبل کے مربیان کی تربیت کے حوالے سے متفرق موضوعات پر نہایت حکیمانہ اور مفصل نصائح عطا فرمائیں، تاکہ وہ اپنی تدریسی اور تربیتی ذمہ داریوں کو حقیقی معنوں میں سمجھتے ہوئےبخوبی انجام دے سکیں۔ حضورِانور کے دریافت فرمانے پر پرنسپل صاحب نے عرض کیا کہ سٹاف ممبران کی کُل تعداد سترہ ہے، ایک نہیں آئے اور اس وقت سولہ موجود ہیں۔ حضورِانور نے تمام شاملینِ مجلس سے دریافت فرمایا کہ آپ میں سے ہر ایک اپنے سٹوڈنٹس کے لیے روزانہ دو نفل پڑھتا ہے ؟ اثبات میں جواب سماعت فرما کر حضورِانور نے اساتذہ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروائی کہ طلبہ کے لیے دعا کرنا کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔حضورِانور نے حساب لگا کر ارشاد فرمایا کہ اگر آپ سارے لوگ دو نفل پڑھنا شروع کر دیں، تو اس کا مطلب ہے کہ چونسٹھ سجدے ہوگئے اور آپ کے سٹوڈنٹس پچاسی ہیں۔ تو اگر سوا سٹوڈنٹ پر بھی تقریباً ایک سجدہ آ جاتا ہے، تو لڑکوں کی حالت بہت improve ہو سکتی ہے کہ جتنی ہونی چاہیے۔ صرف علمی ہی نہیں روحانی طور پر بھی improve کرنے کے لیے دعا کیا کریں۔ حضورِانور نے جماعت کے ماضی کے ممتاز اساتذہ کا تذکرہ کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ آپ کے پاس جو پرانے استاد تھے، سارے پرنسپل صاحب، ملک سیف الرحمٰن صاحب اور دوسرے لوگ میر صاحب وغیرہ، ان کی باتوں سے یہی پتا لگتا ہے کہ وہ اپنے سٹوڈنٹس کے لیے روزانہ دو نفل ضرور پڑھا کرتے تھے۔ حضورِانور نے اس کی روشنی میں تاکید فرمائی کہ وہی عادت آپ لوگوں کو ڈالنی چاہیے، آپ اُن سے پوچھا کریں، جو سٹاف میٹنگ ہوتی ہے اُس میں بتایا کریں، توجہ دلاتے رہا کریں۔ جواب طلبی کی ضرورت تو نہیں، توجہ دلانے کی ضرورت ہے، دعاؤں پر زیادہ زور ہو۔ حضورِانور نے اساتذہ کو تدریسی طریقِ کار کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ باقی یہاں سٹوڈنٹس کا جو مزاج ہے، یہاں طریقہ جو پڑھانے کا ہے، اس کی ان کو عادت ہے۔ صرف جامعہ کی پڑھائی، جوہمارا پاکستانی طریقہ رٹا مارنے یا سمجھانے کا ہے، وہ نہیں ہونا چاہیے۔نئے نئے طریقے ایجاد کرنے چاہئیں کہ کس طرح ان کو سمجھ آئے۔ حضورِانور نے طلبہ کے حوالے سے اس بات کی بھی نشاندہی فرمائی کہ کیونکہ سارے پاس تو ہو جاتے ہیں، لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ سوال پوچھو تو جواب نہیں آرہا ہوتا۔ حالانکہ گہرائی میں جا کے اُن کو پتا ہونا چاہیے، جتنا پڑھیں گے تو اتنا گہرائی میں علم ہوگا۔ اگر سارے علم کو نہیں بھی comprehendکر سکتے تو کم از کم اس میں اتنا تو ملکہ حاصل ہو جانا چاہیے کہ صحیح طرح جواب دے سکیں۔ حضورِانور نےاس بات کو بھی اُجاگر کیا کہ دو تین مبلغین ہیں جو اچھی بحث بھی کر لیتے ہیں، سوال جواب بھی کر لیتے ہیں، جنرل نالج بھی ہے۔ بعض غیر مذہبی جو سرگرمیاں ہیں، وہاں اسلام کی تعلیم کی، اس کے متعلق بھی باتیں کر لیتے ہیں، اسلام کی تعلیم کے حوالے سے ان لوگوں سےجو مذہبی نہیں ہیں اور سیاسی بھی۔ اس حوالے سےحضورِانور نے پرنسپل صاحب سے دریافت فرمایا کہ کوئی لیکچر اِس طرح ہوتا ہے؟ ان کے اثبات میں جواب عرض کرنے پر حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ مختلف فیلڈز کے لوگوں اور ماہرین کو بلائیں۔ حضورِانور نے مزید دریافت فرمایا کہ صرف احمدیوں کو بلاتے ہیں یا غیر احمدیوں کو بھی بلا لیتے ہیں؟ اس پر پرنسپل صاحب نے عرض کیا کہ ابھی تک تو صرف احمدی ہی آتے ہیں۔ یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے توجہ دلائی کہ آپ غیروں کو بھی بلا سکتے ہیں، experts، سائنٹسٹس، ڈاکٹرز پولیٹیشنز، مختلف لوگوں کو، جن کا مختلف فیلڈز میں علم ہے کہ لیکچر دیں تا کہ ان کا دماغ ذرا کھلے اورروشن ہو۔ اس تناظر میں حضورِانور نے اِس امر کی جانب بھی توجہ دلائی کہ لیکن یہ بھی ساتھ خیال رکھنا ہے کہ اِن کی باتیں سن کر صرف دنیا کی طرف نہ رجحان ہو جائے، جو لیکچر دے رہے ہوتے ہیں، ا ن میں سبق دینے کےلیے یہ بھی بتایا کریں کہ تم لوگ تو یہاں آرام سے رہ رہے ہو، بہت ساری سہولتیں تمہیں میسر ہیں، پاکستان میں تو مربیان کے جن کے زائد ذرائع آمد نہیں ہیں، ان کوپتا ہی نہیں ہوتا کہ کس طرح گزارا کرنا ہے، لیکن کام کر رہے ہیں۔ استاد بھی وہاں کے جو جامعہ کے ہیں، ان میں بھی بعض ایسے ہیں جن کا مشکل سے گزارا ہوتا ہے۔ حضورِانور نے ذاتی مطالعہ کے ذریعے محنت کی عادت ڈالنے اور محض لیکچر کی تیاری پر اکتفا نہ کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگ آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے محنت بھی آپ لوگوں کو اتنی زیادہ کرنی چاہیے۔ یہ کہنا کہ چھ گھنٹے مَیں نے پڑھا لیا اور دو گھنٹے میری بعد میں یا رات کو میری ڈیوٹی ہو گئی، مَیں ٹیوٹر بن گیا، تو اس سے میرا گزارا ہو گیا، یہ نہیں ہو گا۔ کم از کم استادوں کو، اپنے جو پڑھائی کے لیکچر تیار کرنے کے لیے دو چار گھنٹے وقت دیتے ہیں، اس کے علاوہ ذاتی مطالعہ کےلیے بھی تو پانچ سے چھ گھنٹے چاہئیں اور اس کی عادت ڈالیں تا کہ زیادہ محنت کی عادت پڑے۔ چھ گھنٹے کے بعد پھر چھٹی ہو جاتی ہے، پھر اس کے بعد جو جامعہ میں چھٹیاں ہوتی ہیں، ان میں بھی اکثر فارغ ہی ہوتے ہیں۔ کوئی کام نہیں ہے۔ حالانکہ آپ لوگ ربوہ میں بھی رہے ہیں۔ آپ لوگوں کو پتا ہے کہ وہاں بعض دفعہ خدام الاحمدیہ یا دوسرے کاموں میں بعض مصروف ہو جاتے تھے، بعض نہیں ہوتے ہوں گے، لیکن بہت ساروں کو کام بھی مل جاتےتھے، تو شام کے وقت بھی extra کام کر رہے ہوتے تھے اور اگر کام نہیں تھے تو کم از کم اُن کو کہا جاتا تھا کہ کرو۔ حضورِانور نے اساتذہ کو ذاتی، علمی، روحانی اور اخلاقی حالت بہتر بنانے اور آئندہ کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے طلبہ کا معیار بلند کرنے کی جانب توجہ دلائی کہ یہاں اسی بات کو لے کے جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ شکر گزاری کا تقاضا پورا کرتے ہوئے کم از کم زیادہ سے زیادہ وقت دینا چاہیے اور بہتری کے لیے سوچنا چاہیے کہ کس طرح اِن طلبہ کا معیار بہتر کر سکتے ہیں، کس طرح ان کی صرف علمی نہیں، بلکہ روحانی اور اخلاقی حالت بہتر کر سکتے ہیں؟ اور وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہماری اپنی حالت بہتر ہو، جو معیار ہونا چاہیے وہ ہے نہیں۔ یہاں والوں کو بھی مَیں یہی کہتا ہوں، آپ لوگوں کو بھی کہتا ہوں، باقی جامعہ والوں کو بھی، تو اس معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ آگے چیلنجز بہت زیادہ آنے ہیں۔ حضورِانور نے مزید توجہ دلائی کہ روایتی کام کر کے آپ دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ نئے نئے راستے exploreکرنے ہوں گے، وہ نئے راستےتلاش کریں کہ کس طرح آپ خود اپنی حالتوں میں بھی بہتری کر سکتے ہیں اور کس طرح اپنے طلبہ کی حالتوں کو بھی بہتر کر سکتے ہیں۔ اگر دنیا میں انقلاب پیدا کرنا ہے، تو پہلے آپ لوگوں کو خود دیوانہ بننا پڑے گا، پھر اگلے دیوانے پیدا کریں گے۔ اسی طرح ان کو یہ بھی بتائیں کہ ڈریس کوڈ کیا ہوتا ہے، پروٹوکول سارا ہونا چاہیے، اپنے کاموں کی ذمہ داری کا ایک احساس ہونا چاہیے اور پھر اپنی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ ہو۔ ظاہری حالت بھی بہت اچھی ہو۔ حضورِانور نے مؤخر الذکر نصائح کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ بنیادی چیزیں ہیں۔ یہ جامعہ کے اندر پیدا ہونی چاہئیں۔ جب طالب علم نکلے تو ایک ایسا ہیرا بن کے نکلنا چاہیے جو پوری طرح تراشا ہو، تاکہ میدان میں جا کے پھر نہ امیر صاحب کو شکوے ہوں، نہ مشنری انچارج کو شکوے ہوں، نہ لوگوں کو شکوے ہوں۔ جامعہ میں سات سال لگائے ہیں تو اتنی صلاحیتیں ہونی چاہئیں کہ جہاں بھی جائے، جس جگہ بھی لگایا جائے، وہاں وہ پورا کام کرے۔ تو آپ لوگوں پر ساری ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ آپ وہ تراش خراش کرنے والے لوگ ہیں، جو جس طرح ممکن ہو سکے تراش کے جماعت کو ایسے لوگ پیش کریں جو آگے پھر مفید وجود بن سکیں۔ حضورِانور نے اساتذہ کو محنت، ذاتی مطالعہ اور جسمانی و ذہنی تربیت کے توازن کی نصیحت کرتے ہوئے تاکید فرمائی کہ صرف یہ کہنا کہ دو چار پیریڈ لے لیے، مَیں نے خامسہ اور رابعہ کو پڑھا لیا اور میں نے ممہدہ اُولیٰ کو پڑھا دیا اور مَیں نے عربی پڑھا دی، اس کے بعد میں گھر جا کے سو گیا، یہ تو کوئی بات نہیں ہے۔ اپنے خود جائزے لیں، خود دیکھا کریں کہ آپ نے علاوہ لیکچر تیار کرنے کے جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا کہ کتنے گھنٹے مطالعہ کیا ہے؟ آپ لوگ تو علمی لوگ ہیں، آپ لوگوں کو تو ویسے ہی کتابی کیڑا ہونا چاہیے، علاوہ ورزش کے صبح اُٹھیں تہجد کے بعد، نماز فجر کے بعد آدھا پونا گھنٹے کی واک کریں۔ اب تو ویسے ہی سردیاں آ رہی ہیں، ذرا راتیں لمبی ہو گئی ہیں، یہ بھی نہیں بہانہ، رات کو کافی سو لیتے ہیں اور اس کے بعد تازہ ہوا میں سیر کرنے کے بعد گرمیوں میں بھی اگر rest کرنا ہے تو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ rest کیا، اس کے بعد پھر کام شروع کر دیں۔ اس سے آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ذہنوں کو بھی ایک تقویت پہنچے گی، جِلا ملے گی اور آپ جسمانی طور پر بھی بہتر ہوں گے۔ حضورِانور نے اساتذہ کو اُن کے حقیقی ہدف پر توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت فرماتےہوئے یاد دلایا کہ یہ آپ لوگوں کے سامنے چیلنج ہیں۔ صرف جامعہ میں دو کلاسیں لینا چیلنج نہیں ہے۔ جماعت کو ایسے لوگ مہیا کرنا آپ کے لیے چیلنج ہے جو روحانی، علمی اور اخلاقی ہر لحاظ سے بہتر ہوں۔ آپ نے جماعتی اصلاح کے لیے مستقبل کی جوcream پیدا کرنی ہے، اس ٹارگٹ کو سامنے رکھ کے اپنے کام کیا کریں، نہ کہ صرف یہ کہ مَیں نے ایک مضمون پڑھا دیا، مَیں نے عربی پڑھا دی، مَیں نے فقہ پڑھا دیا، مَیں نے علم الکلام پڑھا دیا، قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھا دیا، تفسیر پڑھا دی اور پھر اس کے بعد ان میں یہ عادت ڈالیں کہ بعد میں بھی تم نے پڑھنا ہے۔ حضورِانور نے اساتذہ کو علمی، تبلیغی اور عملی تربیت کے ساتھ ساتھ طلبہ میں اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئےفرمایا کہ چند ایک ہیں جو بہت اچھا کام کر رہے ہیں، جو علمی کام بھی اچھا کر رہے ہیں، جو علمی کام کے ساتھ ساتھ تبلیغی کام کے ساتھ ساتھ بعض public relationsکے کام بھی اچھے کر رہے ہیں، وہ بھی ہونا چاہیے۔ اُن میں اعتماد بھی پیدا ہونا چاہیے کہ ہم ہر ایک سے بات کر سکیں۔ بڑے سے بڑا لیڈر ہو، سیاستدان ہو، کوئی بھی ہو، ہم نے اعتماد سے ان کے ساتھ دین کے حوالے سے بھی بات کرنی ہے اور ان کی اپنی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے بھی ان کو کھل کے بتانا ہے۔یہ چیزیں بھی ساتھ ساتھ ہیں، ٹریننگ بھی ضروری ہے کہ ٹیچروں کے لیے ہر لیکچر میں مختلف وقتوں میں کوئی نہ کوئی موقع ایسا آ ہی جاتا، جہاں سے نصیحت کا کوئی پہلو نکل آتا ہے، کوئی بھی بات پڑھا رہے ہوں، کلام پڑھا رہے ہیں، حدیث پڑھا رہے ہیں، فقہ پڑھا رہے ہیں، کوئی نہ کوئی ایسی بات نکل آتی ہے جس کو آپ فوری طور پر اس کو بتا سکتے ہیں کہ اس کو تم نے اپنی زندگیوں میں کس طرحapply کرنا ہے، تمہیں اس سے کیا فائدہ ہو گا، کس طرح تم فائدہ اُٹھا سکتے ہو اور وہ اسی صورت میں ہوگا جب آپ خود بھی اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ مزید برآں دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کو حضورِانور کی خدمت میں سوالات پیش کرنے نیز ان کے جوابات کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی، جبکہ بعض اساتذہ کو اپنی مساعی کی رپورٹ پیش کرنے کی توفیق بھی ملی۔ ایک شاملِ مجلس نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں اساتذہ کے لیے ایک مددگار قسم کا setupبنا رہا ہوں، جس میں قرآن کریم پڑھانے کے لیے ایک طرف الفاظ لکھے ہوں گے، پھر ترجمہ ہو گا، پھر قرآن کریم کا ایک verb جو چاہے اگر ہزار دفعہ بھی آیا ہے، تو ہر دفعہ اس کے آگے اس کا حلِّ لغات ہو گا اور پھر آگے تفسیری نکات ہوں گے۔ جن میں احادیث سے بھی، کتاب تفاسیر یا دوسری احادیث، صحاح ستّہ سے بھی جو مددگار احادیث ہیں، وہ بھی رکھ رہا ہوں اور تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام، تفسیرِ کبیر اور غیراز جماعت جو تفاسیر ہیں، ان کے بھی نوٹس اس میں شامل کر رہا ہوں اور اگر بائبل میں یا انجیل میں اس بارے میں کچھ ملتا جلتا آتا ہے تو وہ بھی ساتھ شامل کر رہا ہوں۔ اس پر حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ یہ کام کب مکمل ہو جائے گا؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ الحمدلله! پانچ پارے مکمل ہو گئے ہیں۔ مشنری انچارج صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے حضورانور نے اسی تناظر میں توجہ دلائی کہ اسی نہج پراپنے مبلغین سے کام لیں، کوئی ایسا لٹریچر بنائیں، جو غیر احمدیوں کے بھی اعتراضات ہوتے ہیں۔ دوسرا مذہب تو کوئی رہا نہیں، عیسائیت تھوڑا بہت جو رہ گیا ہےاس سے تو کسی کوکوئی دلچسپی نہیں۔لیکن غیر احمدی مسلمانوں کے خاص طور پر زیادہ جو اعتراضات ہوتے ہیں، ختم ِنبوت پر یا حیاتِ مسیح پریا دوسرے تیسرے جہاں جہاں بھی ہیں، ان کے مختلف حوالے تلاش کرکے تو وہ ایک پاکٹ بُک کی صورت میں آپ کے ہر مشنری کے پاس ہونی چاہیے۔ یہ بھی مواد دیں۔ آپ کو اشاعت میں رہ کے تجربہ ہو چکا ہے۔ اس پر مشنری انچارج صاحب نے ایسی پاکٹ بُک کے حوالے سے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ یہ جرمن زبان میں تیار کی ہوئی ہے، جس میں آٹھ مختلف ٹاپک اس طرح کےہیں، جن میں اعتراضات اور ان کے جواب ہیں۔ حضورِانور نے اس ضمن میں مزید ہدایت فرمائی کہ اور پھر دیکھا کریں کہ آپ کے مشنری ان کو پڑھ بھی رہے ہیں کہ نہیں، یا جا کے اپنے شیلف میں رکھ دی ہے، ان کا جائزہ لیتے رہا کریں۔ اور جو نئے اعتراض پیدا ہوتے رہتے ہیں، بنیادی اعتراض تو وہی ہوتا ہے، لیکن کوئی نہ کوئی نیا اعتراض اس میں جدّت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ہوتی کوئی نہیں، لیکن اس کا بھی جواب ساتھ آ جانا چاہیے۔تو اس طرح اپنے مشنریز کی ٹریننگ کریں۔ دورانِ ملاقات ایک استاد کو، جو کہ مربی سلسلہ ہیں اور قضا بورڈ جرمنی میں بھی بطور قاضی خدمات سرانجام دینے کی توفیق پا رہے ہیں، حضورِانور نے توجہ دلائی کہ بہت سے آپ کے جو نوجوان لوگ ہیں، ان کے بھی عائلی مسائل زیادہ ہوتے ہیں، ان کو بھی تسلی نہیں ہوتی کہ کسی کو آپ حق مہر دلواتے ہیں اور کسی کو نہیں دلواتے، کسی کو زیور دلوا دیا، کسی کو تحفہ کہہ دیا یا کسی کو نہیں۔وہ سارے ارشادات جو خلفاء کے ہیں، حضرت خلیفةالمسیح الثانی رضی الله عنہ کے ارشادات اور بعض کے فیصلے بھی ہیں، نیز ان کی بابت دریافت فرمایا کہ وہ سارے خود پڑھے ہیں ؟ جس پر انہوں نے عرض کیا کہ کچھ نہ کچھ چنیدہ پڑھے ہیں، لیکن سارے نہیں پڑھے۔ یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے موصوف کو تمام ارشادات اور فیصلہ جات پڑھنے کی تاکید فرماتے ہوئے توجہ دلائی کہ اس طرح کی کون سی مصروفیت ہے کہ پڑھ نہیں سکتے، اپنا سارا دن کا جائزہ لو تو کوئی بھی نہیں جو چودہ گھنٹے کام کرتا ہو، چھ گھنٹے سونے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ تین گھنٹے کھانے پینے، لوگوں سے گپیں مارنے اور فیملی کے لیےکافی ہیں، دو گھنٹے اور دے دو تو گیارہ گھنٹے کُل بنتے ہیں۔ تو تیرہ گھنٹے آپ کے پاس ہیں، ان کا صحیح استعمال ہونا چاہیے، یہ اپنے سٹوڈنٹس کو بھی عادت ڈالیں۔ جوspecialiseکرنے والے سٹوڈنٹ ہوتے ہیں، بڑی ریسرچ والے یا دوسرے رشین سٹوڈنٹس یا امریکن سٹوڈنٹس جو بعض ہیں، ان کی پڑھائی کا ایوریج وقت، رشین کا بلکہ زیادہ ہے وہ تیرہ سے چودہ گھنٹے پڑھتے ہیں، جبکہ امریکن گیارہ سےبارہ گھنٹے پڑھتا ہے۔ تو یہ عادت آپ کو اپنے سٹوڈنٹس میں بھی ڈالنی چاہیے۔ اور وہ اسی صورت میں ہو گا، جب آپ خود بھی اس پر عمل کر رہے ہوں گے۔ اس پر انہوں نے دعا کی درخواست کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان شاء اللہ کوشش کریں گے۔ اس پر حضورِانور نے توجہ دلائی کہ دعا کے ساتھ عمل بھی کرنا پڑتاہے۔ نیز مثال کے ذریعے سمجھایا کہ بعض لوگ آ کر کہتے ہیں کہ دعا کریں کہ یہ ہو جائے۔ مَیں کہتا ہوں کہ پہلے یہ بتاؤ کہ تم نمازیں کتنی پڑھتے ہو، پتا لگا کہ تین،مَیں کہتا ہوں کہ تمہاری دعائیں ہیں ہی نہیں تو میری دعائیں تمہیں کہاں سے لگنی ہیں؟ تو پہلے خود کوشش کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تھا کہ تم اپنی دعاؤں سے میری دعاؤں کی مدد کرو۔اس سے بڑا آدمی کون ہے؟ دورانِ ملاقات آخری پیش کیا جانے والا سوال یہ تھا کہ پاکستان کے جو موجودہ حالات ہیں، ان کے بارے میں حضورانور کا کیا خیال ہے کہ جماعت ِاحمدیہ کے ساتھ اور ویسے بھی عمومی طور پر بہتر ہوں گے ؟ اس پر حضورِانور نے راہنمائی فرمائی کہ ہر چیز کا ایک climaxہوتا ہے، اس کے بعد پھر زوال شروع ہو جاتا ہے، تو یہاں بھیclimax ہونا ہے، کب ہونا ہے، اللہ بہتر جانتا ہے۔کوئی فلسطینیوں والا حال تو پاکستان میں نہیں نہ ہو رہا۔ ابھی بلکہ اللہ کا فضل ہے، پچھلے کچھ عرصہ سے کچھ بہتری کی طرف حالات مائل ہیں۔ افسروں میں سے بھی کچھ لوگ ایسے ہیں، جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کچھ نرمی پیدا کر رہا ہے، اس لیے کچھ بہتر بھی بعض دفعہ نتائج سامنے آ جاتے ہیں۔لیکن ٹھیک ہے کہ وہ لبیک کی تحریک جو ہے، وہ چل رہی ہے، ان کا بھی ایک climax ہونا ہے، پھر زوال آ جانا ہے۔ا ن شاء اللہ! امید رکھو۔ دعائیں کریں۔ دعاؤں کا معیار بھی تو پاکستانی اپنا بڑھائیں تو پھر ہی کچھ ہو گا۔ اس سلسلے میں حضورِانور نے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی الله عنہا کا ایک شعر بھی پیش فرمایا، جو دعا اور نماز کے ہتھیار سے مضبوطی سے چمٹنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے مایوس و غم زدہ کوئی اس کے سوا نہیں قبضے میں جس کے قبضۂ سیفِ خدا نہیں یعنی کوئی شخص اس سے زیادہ مایوس اور غمزدہ نہیں ہے جو اپنے ہاتھ میں خدا کی تلوار کے قبضہ کو مضبوطی سے نہ تھامے۔ آخر پر پرنسپل صاحب نے تمام جامعہ کے عملے کی جانب سے حضورِانور کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا اور دعا کی درخواست کی کہ وہ عطا فرمودہ قیمتی راہنمائی پر کما حقہ عمل کر سکیں۔ ملاقات کے اختتام پر حضورِانور نے تمام شاملینِ مجلس کو از راہِ شفقت قلم کا تحفہ بطورِ تبرک عطا فرمایا، نیز انہیں یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ وہ اپنے محبوب امام کے ساتھ گروپ تصویر بنوا سکیں۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ممبران نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ برطانیہ کی ملاقات